من كتاب الصوم روزے کے مسائل 15. باب الصَّوْمِ في السَّفَرِ: سفر میں روزہ رکھنے کا بیان
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ سیدنا حمزہ بن عمرو اسلمی رضی اللہ عنہ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اے اللہ کے رسول! میرا سفر کا ارادہ ہے، آپ مجھے کیا حکم دیتے ہیں؟ فرمایا: ”اگر چاہو تو روزہ رکھنا اور چاہو تو نہ رکھنا۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1748]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1942]، [مسلم 1121]، [أبوداؤد 2402]، [ترمذي 1121]، [نسائي 2383]، [ابن ماجه 1662]، [أبويعلی 4502]، [ابن حبان 3560]، [الحميدي 201] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جس سال مکہ فتح ہوا (مدینہ سے) نکلے تو (سفر میں) روزہ رکھا اور سب لوگوں نے بھی روزہ رکھا، اور جب آپ کدید مقام پر پہنچے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑ دیا اور سب لوگوں نے بھی روزہ توڑ دیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم اجمعین آپ کے نئے عمل کو فوراً اپنا لیتے تھے۔
تخریج الحدیث: «إسناده قوي، [مكتبه الشامله نمبر: 1749]»
اس روایت کی سند قوی اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1944]، [مسلم 1113]، [أبوداؤد 2404]، [نسائي 2312]، [ابن حبان 3555]، [الحميدي 524] وضاحت:
(تشریح احادیث 1744 سے 1746) یعنی صحابہ کرام رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اتباع میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جیسا کرتے دیکھتے فوراً اس پر عمل کرتے تھے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سفر میں روزہ رکھ کر نکلے تو صحابہ کرام نے بھی روزہ رکھا، حبیبِ کائنات صلی اللہ علیہ وسلم نے روزہ توڑا تو انہوں نے بھی روزہ توڑ دیا، اور یہی حقیقی اطاعت و اتباع ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده قوي
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے ذکر کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک سفر (غزوہ فتح) میں تھے کہ آپ نے بھیڑ دیکھی اور دیکھا کہ لوگوں نے ایک شخص پر سایہ کر رکھا ہے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دریافت کیا: ”کیا بات ہے؟“ عرض کیا: ایک روزے دار ہے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی (اچھا کام) نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1750]»
اس روایت کی سند صحیح اور حدیث متفق علیہ ہے۔ دیکھئے: [بخاري 1946]، [مسلم 1115]، [أبوداؤد 2407]، [نسائي 2261]، [ابن ماجه 1665]، [أبويعلی 1883]، [ابن حبان 3552] وضاحت:
(تشریح حدیث 1746) اس حدیث سے ان لوگوں نے دلیل لی جو سفر میں افطار ضروری سمجھتے ہیں، اور ان کے مقابل علماء نے کہا کہ اس حدیث سے مراد یہ ہے کہ جس کو سفر میں روزہ رکھنے کی طاقت نہ ہو اس کو سفر میں روزہ رکھنا اچھی بات نہیں ہے۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا کعب بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سفر میں روزہ رکھنا نیکی نہیں ہے۔“
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1751]»
اس سند سے بھی یہ روایت صحیح ہے۔ دیکھئے: [نسائي 2254]، [ابن ماجه 1664]، [الحميدي 887] قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
سیدنا کعب بن عاصم اشعری رضی اللہ عنہ نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کیا کہ سفر میں روزہ رکھنا اچھا نہیں ہے۔
تخریج الحدیث: «إسناده صحيح، [مكتبه الشامله نمبر: 1752]»
اس روایت کی تخریج اوپر گذر چکی ہے۔ وضاحت:
(تشریح احادیث 1747 سے 1749) ان تمام احادیث کا خلاصہ یہ ہے کہ سفر میں روزہ رکھنا بھی جائز ہے اور نہ رکھے تو بھی درست ہے، البتہ فضیلت میں اختلاف ہے، کچھ لوگوں نے کہا روزہ رکھنا افضل ہے اور کچھ علماء نے ترکِ روزہ کو افضل کہا ہے، کچھ علماء نے کہا طاقت ہے تو سفر میں روزہ افضل ہے اور طاقت نہیں تو افطار افضل ہے، واضح رہے کہ یہ صومِ رمضان کے متعلق ہے یعنی فرض روزے، نفلی روزے کی سفر میں ضرورت ہی نہیں ہے۔ (والله اعلم)۔ قال الشيخ حسين سليم أسد الداراني: إسناده صحيح
|