سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ پر سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا رونے لگیں (یہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی تھیں) تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے میری بیٹی! چپ رہو۔ کیا تم نہیں جانتی ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”مردہ پر اس کے گھر والوں کے اس پر رونے سے عذاب ہوتا ہے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے بے ہوش ہو گئے اور لوگ ان پر چیخ کر رونے لگے۔ پھر جب ان کو ہوش ہوا تو انہوں نے فرمایا کہ تم کو معلوم نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”زندہ کے رونے سے میت پر عذاب ہوتا ہے۔“
ابوبردہ نے اپنے باپ سے روایت کی کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ رو کر کہنے لگے کہ ہائے میرے بھائی! تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے صہیب! تو نہیں جانتا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: ”زندہ کے رونے سے میت پر عذاب ہوتا ہے۔“
وحدثني علي بن حجر ، اخبرنا شعيب بن صفوان ابو يحيى ، عن عبد الملك بن عمير ، عن ابي بردة بن ابي موسى عن ابي موسى ، قال: لما اصيب عمر اقبل صهيب من منزله حتى دخل على عمر، فقام بحياله يبكي، فقال عمر : علام تبكي اعلي تبكي؟ قال: إي والله لعليك ابكي يا امير المؤمنين، قال: والله لقد علمت ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " من يبكى عليه يعذب ". قال: فذكرت ذلك لموسى بن طلحة، فقال: كانت عائشة، تقول: إنما كان اولئك اليهود.وحَدَّثَنِي عَلِيُّ بْنُ حُجْرٍ ، أَخْبَرَنَا شُعَيْبُ بْنُ صَفْوَانَ أَبُو يَحْيَى ، عَنْ عَبْدِ الْمَلِكِ بْنِ عُمَيْرٍ ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى عَنْ أَبِي مُوسَى ، قَالَ: لَمَّا أُصِيبَ عُمَرُ أَقْبَلَ صُهَيْبٌ مِنْ مَنْزِلِهِ حَتَّى دَخَلَ عَلَى عُمَرَ، فَقَامَ بِحِيَالِهِ يَبْكِي، فَقَالَ عُمَرُ : عَلَامَ تَبْكِي أَعَلَيَّ تَبْكِي؟ قَالَ: إِي وَاللَّهِ لَعَلَيْكَ أَبْكِي يَا أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ، قَالَ: وَاللَّهِ لَقَدْ عَلِمْتَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " مَنْ يُبْكَى عَلَيْهِ يُعَذَّبُ ". قَالَ: فَذَكَرْتُ ذَلِكَ لِمُوسَى بْنِ طَلْحَةَ، فَقَالَ: كَانَتْ عَائِشَةُ، تَقُولُ: إِنَّمَا كَانَ أُولَئِكَ الْيَهُودَ.
سیدنا ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ نے کہا: جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخم لگا تو سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ اپنے گھر آئے اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس پہنچے اور ان کے آگے کھڑے ہو کر رونے لگے۔ سو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: تم کیوں روتے ہو؟ کیا مجھ پر روتے ہو؟ انہوں نے کہا کہ ہاں اللہ کی قسم! آپ پر روتا ہوں اے مؤمنوں کے سردار! تب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: قسم ہے اللہ کی! تم جان چکے ہو کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جس پر لوگ روئیں وہ عذاب کیا جاتا ہے۔“ انہوں نے کہا کہ میں نے اس کا ذکر موسیٰ بن طلحہ سے کیا۔ انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی تھیں کہ یہ لوگ یہود تھے جن کو نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا فرمایا تھا۔
وحدثني عمرو الناقد ، حدثنا عفان بن مسلم ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن ثابت ، عن انس ، ان عمر بن الخطاب لما طعن عولت عليه حفصة، فقال: يا حفصة اما سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " المعول عليه يعذب "، وعول عليه صهيب، فقال عمر: يا صهيب اما علمت ان المعول عليه يعذب.وحَدَّثَنِي عَمْرٌو النَّاقِدُ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ بْنُ مُسْلِمٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ لَمَّا طُعِنَ عَوَّلَتْ عَلَيْهِ حَفْصَةُ، فَقَالَ: يَا حَفْصَةُ أَمَا سَمِعْتِ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " الْمُعَوَّلُ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ "، وَعَوَّلَ عَلَيْهِ صُهَيْبٌ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ أَمَا عَلِمْتَ أَنَّ الْمُعَوَّلَ عَلَيْهِ يُعَذَّبُ.
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ زخمی ہوئے تو سیدہ حفصہ رضی اللہ عنہا ان پر چیخ کر رونے لگیں تو انہوں نے کہا: تم نے سنا نہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہ فرماتے تھے ”جس پر چیخ کر روئیں، اس پر عذاب ہوتا ہے۔“ اور سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ بھی ان پر چیخ کر رونے لگے تو ان کو بھی سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: جس پر چیخ کر روئیں تو اس پر عذاب ہوتا ہے۔
حدثنا داود بن رشيد ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، حدثنا ايوب ، عن عبد الله بن ابي مليكة ، قال: كنت جالسا إلى جنب ابن عمر، ونحن ننتظر جنازة ام ابان بنت عثمان، وعنده عمرو بن عثمان فجاء ابن عباس يقوده قائد، فاراه اخبره بمكان ابن عمر، فجاء حتى جلس إلى جنبي فكنت بينهما، فإذا صوت من الدار، فقال ابن عمر : كانه يعرض على عمر وان يقوم فينهاهم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن الميت ليعذب ببكاء اهله "، قال: فارسلها عبد الله مرسلة، فقال ابن عباس : كنا مع امير المؤمنين عمر بن الخطاب، حتى إذا كنا بالبيداء، إذا هو برجل نازل في ظل شجرة، فقال لي: اذهب فاعلم لي من ذاك الرجل، فذهبت فإذا هو صهيب، فرجعت إليه فقلت: إنك امرتني ان اعلم لك من ذاك وإنه صهيب، قال: مره فليلحق بنا، فقلت: إن معه اهله، قال: وإن كان معه اهله، وربما قال ايوب: مره فليلحق بنا، فلما قدمنا لم يلبث امير المؤمنين ان اصيب، فجاء صهيب، يقول: وا اخاه وا صاحباه، فقال عمر : الم تعلم، او لم تسمع، قال ايوب او قال: او لم تعلم، او لم تسمع، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الميت ليعذب ببعض بكاء اهله "، قال: فاما عبد الله فارسلها مرسلة، واما عمر، فقال: ببعض، فقمت فدخلت على عائشة فحدثتها بما قال ابن عمر، فقالت: " لا والله ما قاله رسول الله صلى الله عليه وسلم قط إن الميت يعذب ببكاء احد "، ولكنه قال: " إن الكافر يزيده الله ببكاء اهله عذابا، وإن الله لهو اضحك وابكى، ولا تزر وازرة وزر اخرى "، قال ايوب : قال ابن ابي مليكة : حدثني القاسم بن محمد ، قال: لما بلغ عائشة قول عمر، وابن عمر، قالت: " إنكم لتحدثوني عن غير كاذبين ولا مكذبين ولكن السمع يخطئ ".حَدَّثَنَا دَاوُدُ بْنُ رُشَيْدٍ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ ابْنُ عُلَيَّةَ ، حَدَّثَنَا أَيُّوبُ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: كُنْتُ جَالِسًا إِلَى جَنْبِ ابْنِ عُمَرَ، وَنَحْنُ نَنْتَظِرُ جَنَازَةَ أُمِّ أَبَانَ بِنْتِ عُثْمَانَ، وَعِنْدَهُ عَمْرُو بْنُ عُثْمَانَ فَجَاءَ ابْنُ عَبَّاسٍ يَقُودُهُ قَائِدٌ، فَأُرَاهُ أَخْبَرَهُ بِمَكَانِ ابْنِ عُمَرَ، فَجَاءَ حَتَّى جَلَسَ إِلَى جَنْبِي فَكُنْتُ بَيْنَهُمَا، فَإِذَا صَوْتٌ مِنَ الدَّارِ، فَقَالَ ابْنُ عُمَرَ : كَأَنَّهُ يَعْرِضُ عَلَى عَمْرٍ وَأَنْ يَقُومَ فَيَنْهَاهُمْ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ "، قَالَ: فَأَرْسَلَهَا عَبْدُ اللَّهِ مُرْسَلَةً، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ : كُنَّا مَعَ أَمِيرِ الْمُؤْمِنِينَ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، إِذَا هُوَ بِرَجُلٍ نَازِلٍ فِي ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَالَ لِي: اذْهَبْ فَاعْلَمْ لِي مَنْ ذَاكَ الرَّجُلُ، فَذَهَبْتُ فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ، فَرَجَعْتُ إِلَيْهِ فَقُلْتُ: إِنَّكَ أَمَرْتَنِي أَنْ أَعْلَمَ لَكَ مَنْ ذَاكَ وَإِنَّهُ صُهَيْبٌ، قَالَ: مُرْهُ فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَقُلْتُ: إِنَّ مَعَهُ أَهْلَهُ، قَالَ: وَإِنْ كَانَ مَعَهُ أَهْلُهُ، وَرُبَّمَا قَالَ أَيُّوبُ: مُرْهُ فَلْيَلْحَقْ بِنَا، فَلَمَّا قَدِمْنَا لَمْ يَلْبَثْ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ أَنْ أُصِيبَ، فَجَاءَ صُهَيْبٌ، يَقُولُ: وَا أَخَاهْ وَا صَاحِبَاهْ، فَقَالَ عُمَرُ : أَلَمْ تَعْلَمْ، أَوَ لَمْ تَسْمَعْ، قَالَ أَيُّوبُ أَوَ قَالَ: أَوَ لَمْ تَعْلَمْ، أَوَ لَمْ تَسْمَعْ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ "، قَالَ: فَأَمَّا عَبْدُ اللَّهِ فَأَرْسَلَهَا مُرْسَلَةً، وَأَمَّا عُمَرُ، فَقَالَ: بِبَعْضِ، فَقُمْتُ فَدَخَلْتُ عَلَى عَائِشَةَ فَحَدَّثْتُهَا بِمَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ، فَقَالَتْ: " لَا وَاللَّهِ مَا قَالَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَطُّ إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَحَدٍ "، وَلَكِنَّهُ قَالَ: " إِنَّ الْكَافِرَ يَزِيدُهُ اللَّهُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَذَابًا، وَإِنَّ اللَّهَ لَهُوَ أَضْحَكَ وَأَبْكَى، وَلَا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى "، قَالَ أَيُّوبُ : قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ : حَدَّثَنِي الْقَاسِمُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، قَالَ: لَمَّا بَلَغَ عَائِشَةَ قَوْلُ عُمَرَ، وَابْنِ عُمَرَ، قَالَتْ: " إِنَّكُمْ لَتُحَدِّثُونِّي عَنْ غَيْرِ كَاذِبَيْنِ وَلَا مُكَذَّبَيْنِ وَلَكِنَّ السَّمْعَ يُخْطِئُ ".
عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا کہ میں بیٹھا تھا سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے بازو پر اور ہم سب ام ابان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی کے جنازے کے منتظر تھے اور ان کے (یعنی سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے) پاس عمرو بن عثمان تھے اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی آئے کہ ان کو ایک شخص لاتا تھا جو ان کو لے آیا کرتا تھا (یعنی وہ نابینا تھے) پھر گمان کرتا ہوں میں کہ خبر دی ان کو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کی جگہ سے پھر وہ آئے اور میرے بازو پر بیٹھ گئے اور میں ان دونوں (یعنی سیدنا ابن عمر اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہم کے بیچ میں تھا کہ اتنے میں گھر میں ایک رونے کی آواز آئی اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا گویا اشارہ کیا سیدنا عمرو رضی اللہ عنہ کی طرف کہ وہ کھڑے ہو کر ان رونے والوں کو منع کر دیں (یعنی ان کو سنانے کے لئے کہا کہ سنا میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کہ فرماتے تھے: ”میت پر عذاب ہوتا اس پر لوگوں کے رونے سے۔“ اور سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے اس کو عام فرمایا (یعنی اس کی قید نہ لگائی کہ یہ حدیث نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے یہود کے لیے فرمائی تھی) اس پر سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ ہم امیر المؤمنین سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ تھے یہاں تک کہ جب بیداء میں پہنچے (بیداء ایک مقام کا نام ہے) یکایک ایک آدمی کو دیکھا کہ وہ ایک درخت کے سایہ میں اترا ہوا ہے تو مجھ سے امیرالمؤمنین رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ جاؤ اور معلوم کرو کہ یہ شخص کون ہے؟ پھر میں گیا اور میں نے دیکھا کہ وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر میں لوٹا اور میں نے کہا، مجھے آپ رضی اللہ عنہ نے حکم دیا تھا کہ دیکھو یہ کون ہے تو میں دیکھا کہ وہ سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ہیں۔ پھر انہوں نے فرمایا کہ جاؤ اور ان کو حکم دو کہ ہم سے ملیں۔ میں نے کہا: ان کے ساتھ ان کی بیوی ہیں۔ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ کیا مضائقہ ہے اگرچہ ہو ان کے ساتھ ان کی بیوی، پھر جب مدینہ میں آئے تو کچھ دیر ہی نہ لگی کہ امیرالمؤمنین زخمی ہو گئے اور صہیب رضی اللہ عنہ آئے اور کہنے لگے کہ ہائے میرے بھائی اور ہائے میرے صاحب! تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ تم نہیں جانتے ہو یا تم نے سنا نہیں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے۔ ”کہ مردہ اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب پاتا ہے۔“ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے یہ کہا تھا کہ بعض لوگوں کے رونے سے عذاب پاتا ہے۔ پھر میں کھڑا ہوا (یہ قول عبداللہ بن ابی ملیکہ کا ہے) اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس گیا اور ان سے یہ سب بیان کیا جو سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا تب انہوں (ام المؤمنین رضی اللہ عنہا) نے فرمایا: نہیں، یہ بات نہیں ہے اللہ کی قسم، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ نہیں فرمایا کبھی کہ مردہ کو اس کے لوگوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا ہے: ”کافر پر اس کے گھر والوں کے رونے سے عذاب اور زیادہ ہو جاتا ہے اور رلاتا بھی وہی ہے، اور ہنساتا بھی وہی ہے، (یعنی اللہ) اور کوئی کسی کا بوجھ نہیں اٹھاتا۔“ ایوب نے کہا کہ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ مجھ سے بیان کیا قاسم بن محمد نے کہ جب سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کو خبر پہنچی سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے قول کی تو انہوں نے فرمایا: تم ایسے لوگوں کی بات کرتے ہو جو جھوٹ نہیں بولتے اور نہ وہ جھٹلائے جا سکتے ہیں مگر سننے میں کبھی غلطی ہو جاتی ہے (یعنی مراد یہ ہے کہ محمد صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات یہود یا کسی اور کافر کے لئے فرمائی تھی۔ سننے والوں نے اس کو ہر شخص کے لئے عام سمجھ لیا)۔
حدثنا محمد بن رافع ، وعبد بن حميد ، قال ابن رافع: حدثنا عبد الرزاق ، اخبرنا ابن جريج ، اخبرني عبد الله بن ابي مليكة ، قال: توفيت ابنة لعثمان بن عفان بمكة، قال: فجئنا لنشهدها، قال: فحضرها ابن عمر، وابن عباس، قال: وإني لجالس بينهما، قال: جلست إلى احدهما، ثم جاء الآخر فجلس إلى جنبي، فقال عبد الله بن عمر لعمرو بن عثمان وهو مواجهه: الا تنهى عن البكاء، فإن رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: " إن الميت ليعذب ببكاء اهله عليه "، فقال ابن عباس قد كان عمريقول بعض ذلك، ثم حدث، فقال: صدرت مع عمر من مكة حتى إذا كنا بالبيداء، إذا هو بركب تحت ظل شجرة، فقال: اذهب فانظر من هؤلاء الركب؟، فنظرت فإذا هو صهيب، قال: فاخبرته، فقال: ادعه لي، قال: فرجعت إلى صهيب، فقلت: ارتحل فالحق امير المؤمنين فلما ان اصيب عمر، دخل صهيب يبكي، يقول: وا اخاه وا صاحباه، فقال عمر: يا صهيب اتبكي علي؟، وقد قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الميت يعذب ببعض بكاء اهله عليه ". فقال ابن عباس: فلما مات عمر ذكرت ذلك لعائشة ، فقالت: يرحم الله عمر، لا والله ما حدث رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله يعذب المؤمن ببكاء احد، ولكن قال: " إن الله يزيد الكافر عذابا ببكاء اهله عليه "، قال: وقالت عائشة: حسبكم القرآن ولا تزر وازرة وزر اخرى سورة الانعام آية 164، قال: وقال ابن عباس عند ذلك: والله اضحك وابكى، قال ابن ابي مليكة: فوالله ما قال ابن عمر من شيء.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ ، وَعَبْدُ بْنُ حميد ، قَالَ ابْنُ رَافِعٍ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا ابْنُ جُرَيْجٍ ، أَخْبَرَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ ، قَالَ: تُوُفِّيَتِ ابْنَةٌ لِعُثْمَانَ بْنِ عَفَّانَ بِمَكَّةَ، قَالَ: فَجِئْنَا لِنَشْهَدَهَا، قَالَ: فَحَضَرَهَا ابْنُ عُمَرَ، وَابْنُ عَبَّاسٍ، قَالَ: وَإِنِّي لَجَالِسٌ بَيْنَهُمَا، قَالَ: جَلَسْتُ إِلَى أَحَدِهِمَا، ثُمَّ جَاءَ الْآخَرُ فَجَلَسَ إِلَى جَنْبِي، فَقَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ لِعَمْرِو بْنِ عُثْمَانَ وَهُوَ مُوَاجِهُهُ: أَلَا تَنْهَى عَنِ الْبُكَاءِ، فَإِنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ قَدْ كَانَ عُمَرُيَقُولُ بَعْضَ ذَلِكَ، ثُمَّ حَدَّثَ، فَقَالَ: صَدَرْتُ مَعَ عُمَرَ مِنْ مَكَّةَ حَتَّى إِذَا كُنَّا بِالْبَيْدَاءِ، إِذَا هُوَ بِرَكْبٍ تَحْتَ ظِلِّ شَجَرَةٍ، فَقَالَ: اذْهَبْ فَانْظُرْ مَنْ هَؤُلَاءِ الرَّكْبُ؟، فَنَظَرْتُ فَإِذَا هُوَ صُهَيْبٌ، قَالَ: فَأَخْبَرْتُهُ، فَقَالَ: ادْعُهُ لِي، قَالَ: فَرَجَعْتُ إِلَى صُهَيْبٍ، فَقُلْتُ: ارْتَحِلْ فَالْحَقْ أَمِيرَ الْمُؤْمِنِينَ فَلَمَّا أَنْ أُصِيبَ عُمَرُ، دَخَلَ صُهَيْبٌ يَبْكِي، يَقُولُ: وَا أَخَاهْ وَا صَاحِبَاهْ، فَقَالَ عُمَرُ: يَا صُهَيْبُ أَتَبْكِي عَلَيَّ؟، وَقَدْ قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ بِبَعْضِ بُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ ". فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: فَلَمَّا مَاتَ عُمَرُ ذَكَرْتُ ذَلِكَ لِعَائِشَةَ ، فَقَالَتْ: يَرْحَمُ اللَّهُ عُمَرَ، لَا وَاللَّهِ مَا حَدَّثَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ يُعَذِّبُ الْمُؤْمِنَ بِبُكَاءِ أَحَدٍ، وَلَكِنْ قَالَ: " إِنَّ اللَّهَ يَزِيدُ الْكَافِرَ عَذَابًا بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، قَالَ: وَقَالَتْ عَائِشَةُ: حَسْبُكُمُ الْقُرْآنُ وَلا تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى سورة الأنعام آية 164، قَالَ: وَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ عِنْدَ ذَلِكَ: وَاللَّهُ أَضْحَكَ وَأَبْكَى، قَالَ ابْنُ أَبِي مُلَيْكَةَ: فَوَاللَّهِ مَا قَالَ ابْنُ عُمَرَ مِنْ شَيْءٍ.
عبداللہ بن ابی ملیکہ نے کہا: سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی صاحبزادی نے انتقال کیا مکہ میں اور ہم آئے کہ ان کے جنازہ میں شریک ہوں اور سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما بھی آئے اور میں ان دونوں کے بیچ میں بیٹھا ہوا تھا اور وہ یوں ہوا کہ پہلے میں ایک صاحب کے پاس بیٹھ گیا اور دوسرے صاحب جو آئے تو میرے بازو پر بیٹھے (اس لیے میں ان دونوں کے بیچ میں ہو گیا) پھر عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے عمرو بن عثمان رضی اللہ عنہ سے کہا اور وہ ان کے آگے بیٹھے تھے، کہ تم اس رونے سے منع نہیں کرتے اس لئے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت پر عذاب ہوتا ہے، اس کے گھر والوں کے رونے سے۔“ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ تو یوں کہا کرتے تھے کہ بعض گھر والوں کے رونے سے (یعنی تم نے بعض کا لفظ چھوڑ دیا) پھر حدیث بیان کی اور کہا میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ مکہ واپس آتا تھا یہاں تک کہ جب ہم بیداء میں پہنچے تو وہاں چند سوار ایک درخت کے سایہ کے نیچے دیکھے، تو سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے مجھ سے فرمایا کہ دیکھو یہ سوار کون ہیں؟ میں نے دیکھا تو وہ صہیب رضی اللہ عنہ تھے۔ پھر میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو خبر دی تو انہوں نے کہا ان کو بلاؤ۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: میں ان کے پاس گیا اور صہیب رضی اللہ عنہ سے کہا چلو اور امیر المؤمنین سے ملو۔ پھر جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو زخم لگا تو سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ ان کے پاس آئے اور رونے لگے اور کہنے لگے: ہائے میرے بھائی اور ہائے میرے صاحب! تو کہا سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے سیدنا صہیب رضی اللہ عنہ کو۔ اے صہیب! کیا تم میرے اوپر روتے ہو اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میت پر بعض لوگوں کے رونے سے عذاب کیا جاتا ہے۔“ تب سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا کہ جب سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے انتقال کیا میں نے اس کا ذکر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے کیا تو انہوں نے کہا: اللہ عمر رضی اللہ عنہ پر رحم کرے نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسا نہیں فرمایا تھا، اللہ کی قسم! اللہ تعالیٰ کافر کا عذاب اس کے لوگوں کے رونے سے زیادہ کر دیتا ہے۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ تم کو قرآن کافی ہے کہ اللہ تعالیٰ اس میں فرماتا ہے وَ «لاَ تَزِرُ وَازِرَةٌ وِزْرَ أُخْرَى»”کوئی کسی کا بوجھ اٹھانے والا نہیں۔“ اور سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے ایسی بات فرمائی کہ اللہ ہی ہنساتا ہے اور وہی رلاتا ہے۔ ابن ابی ملیکہ نے کہا کہ قسم ہے اللہ کی پھر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما نے اس پر کچھ نہیں کہا۔
وحدثنا عبد الرحمن بن بشر ، حدثنا سفيان ، قال عمرو ، عن ابن ابي مليكة : كنا في جنازة ام ابان بنت عثمان، وساق الحديث، ولم ينص رفع الحديث عن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، كما نصه ايوب، وابن جريج، وحديثهما اتم من حديث عمر.وحَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، قَالَ عَمْرٌو ، عَنْ ابْنِ أَبِي مُلَيْكَةَ : كُنَّا فِي جَنَازَةِ أُمِّ أَبَانَ بِنْتِ عُثْمَانَ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ، وَلَمْ يَنُصَّ رَفْعَ الْحَدِيثِ عَنْ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَمَا نَصَّهُ أَيُّوبُ، وَابْنُ جُرَيْجٍ، وَحَدِيثُهُمَا أَتَمُّ مِنْ حَدِيثِ عَمْرٍ.
ابن ابی ملیکہ نے کہا: ہم جنارہ میں تھے کہ وہ ام ابان سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کی صاجزادی کا تھا اور بیان کی حدیث اور مرفوع کہا ایوب اور ابن جریج نے اور حدیث ان دونوں کی پوری ہے عمرو کی حدیث سے۔
وحدثنا خلف بن هشام ، وابو الربيع الزهراني ، جميعا، عن حماد ، قال خلف، حدثنا حماد بن زيد ، عن هشام بن عروة ، عن ابيه ، قال: ذكر عند عائشة قول ابن عمر: الميت يعذب ببكاء اهله عليه، فقالت: رحم الله ابا عبد الرحمن سمع شيئا فلم يحفظه، إنما مرت على رسول الله صلى الله عليه وسلم جنازة يهودي، وهم يبكون عليه، فقال: " انتم تبكون وإنه ليعذب ".وحَدَّثَنَا خَلَفُ بْنُ هِشَامٍ ، وَأَبُو الرَّبِيعِ الزَّهْرَانِيُّ ، جميعا، عَنْ حَمَّادٍ ، قَالَ خَلَفٌ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ هِشَامِ بْنِ عُرْوَةَ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ قَوْلُ ابْنِ عُمَرَ: الْمَيِّتُ يُعَذَّبُ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ، فَقَالَتْ: رَحِمَ اللَّهُ أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَنِ سَمِعَ شَيْئًا فَلَمْ يَحْفَظْهُ، إِنَّمَا مَرَّتْ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَنَازَةُ يَهُودِيٍّ، وَهُمْ يَبْكُونَ عَلَيْهِ، فَقَالَ: " أَنْتُمْ تَبْكُونَ وَإِنَّهُ لَيُعَذَّبُ ".
ہشام اپنے باپ عروہ سے روای ہیں کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے آگے سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما کے اس کہنے کا ذکر ہوا کہ مردوں پر اس کے لوگوں کے رونے سے عذاب ہوتا ہے تو انہوں نے فرمایا کہ اللہ ابو عبدالرحمٰن پر رحمت کرے کہ انہوں نے سنا کچھ اور اس کو یاد نہ رکھا۔ حقیقت اس کی یوں ہے کہ ایک یہودی کا جنازہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے آگے آیا اور لوگ اس پر روتے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کہ تم روتے ہو اس پر عذاب ہوتا ہے۔“
حدثنا ابو كريب ، حدثنا ابو اسامة ، عن هشام ، عن ابيه ، قال: ذكر عند عائشة ، ان ابن عمر يرفع إلى النبي صلى الله عليه وسلم: " إن الميت يعذب في قبره ببكاء اهله عليه "، فقالت: وهل إنما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إنه ليعذب بخطيئته او بذنبه، وإن اهله ليبكون عليه الآن ". وذاك مثل قوله إن رسول الله صلى الله عليه وسلم قام على القليب يوم بدر، وفيه قتلى بدر من المشركين، فقال لهم ما قال: " إنهم ليسمعون ما اقول "، وقد وهل، إنما قال: " إنهم ليعلمون ان ما كنت اقول لهم حق "، ثم قرات إنك لا تسمع الموتى سورة النمل آية 80، وما انت بمسمع من في القبور سورة فاطر آية 22، يقول: حين تبوءوا مقاعدهم من النار.حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ ، حَدَّثَنَا أَبُو أُسَامَةَ ، عَنْ هِشَامٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: ذُكِرَ عِنْدَ عَائِشَةَ ، أَنَّ ابْنَ عُمَرَ يَرْفَعُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ الْمَيِّتَ يُعَذَّبُ فِي قَبْرِهِ بِبُكَاءِ أَهْلِهِ عَلَيْهِ "، فَقَالَتْ: وَهِلَ إِنَّمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّهُ لَيُعَذَّبُ بِخَطِيئَتِهِ أَوْ بِذَنْبِهِ، وَإِنَّ أَهْلَهُ لَيَبْكُونَ عَلَيْهِ الْآنَ ". وَذَاكَ مِثْلُ قَوْلِهِ إِنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ عَلَى الْقَلِيبِ يَوْمَ بَدْرٍ، وَفِيهِ قَتْلَى بَدْرٍ مِنَ الْمُشْرِكِينَ، فَقَالَ لَهُمْ مَا قَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَسْمَعُونَ مَا أَقُولُ "، وَقَدْ وَهِلَ، إِنَّمَا قَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَعْلَمُونَ أَنَّ مَا كُنْتُ أَقُولُ لَهُمْ حَقٌّ "، ثُمَّ قَرَأَتْ إِنَّكَ لا تُسْمِعُ الْمَوْتَى سورة النمل آية 80، وَمَا أَنْتَ بِمُسْمِعٍ مَنْ فِي الْقُبُورِ سورة فاطر آية 22، يَقُولُ: حِينَ تَبَوَّءُوا مَقَاعِدَهُمْ مِنَ النَّارِ.
ہشام نے وہی مضمون روایت کیا جو اوپر گزر چکا ہے۔ اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا کہ وہ (یعنی سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما) بھول گئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے تو یہی فرمایا تھا: ”اس پر عذاب ہوتا ہے اس کے گناہ اور خطا کے سبب سے اور لوگ اس پر رو رہے ہیں اس وقت۔“ اور یہ قول بھول سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ کی ایسی ہے کہ جیسے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بدر کے کنوئیں پر جس میں بدر کے مشرکوں کے مقتول تھے کھڑے ہو کر فرمایا اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ نے یوں روایت کی کہ وہ لوگ سنتے ہیں جو میں کہتا ہوں اور سیدنا عبداللہ رضی اللہ عنہ بھول گئے حقیقت یہ ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اب وہ جانتے ہیں کہ وہ جو میں ان سے کہا کرتا تھا (یعنی ان کی زندگی میں) وہ سچ نکلا۔“ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے یہ آیت پڑھی «إِنَّكَ لاَ تُسْمِعُ الْمَوْتَى»”تو نہیں سنا سکتا ہے ان کو جو قبروں میں ہیں“ ان کے اس حال کی خبر دیتا ہے جب وہ جگہ پکڑ چکے دوزخ کی بیٹھکوں میں۔
وحدثنا قتيبة بن سعيد ، عن مالك بن انس فيما قرئ عليه، عن عبد الله بن ابي بكر ، عن ابيه ، عن عمرة بنت عبد الرحمن ، انها اخبرته، انها سمعت عائشة ، وذكر لها ان عبد الله بن عمر، يقول: " إن الميت ليعذب ببكاء الحي "، فقالت عائشة: يغفر الله لابي عبد الرحمن، اما إنه لم يكذب، ولكنه نسي او اخطا، إنما مر رسول الله صلى الله عليه وسلم على يهودية يبكى عليها، فقال: " إنهم ليبكون عليها، وإنها لتعذب في قبرها ".وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، عَنْ مَالِكِ بْنِ أَنَسٍ فِيمَا قُرِئَ عَلَيْهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي بَكْرٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَمْرَةَ بِنْتِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، أَنَّهَا أَخْبَرَتْهُ، أَنَّهَا سَمِعَتْ عَائِشَةَ ، وَذُكِرَ لَهَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ، يَقُولُ: " إِنَّ الْمَيِّتَ لَيُعَذَّبُ بِبُكَاءِ الْحَيِّ "، فَقَالَتْ عَائِشَةُ: يَغْفِرُ اللَّهُ لِأَبِي عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَمَا إِنَّهُ لَمْ يَكْذِبْ، وَلَكِنَّهُ نَسِيَ أَوْ أَخْطَأَ، إِنَّمَا مَرَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى يَهُودِيَّةٍ يُبْكَى عَلَيْهَا، فَقَالَ: " إِنَّهُمْ لَيَبْكُونَ عَلَيْهَا، وَإِنَّهَا لَتُعَذَّبُ فِي قَبْرِهَا ".
عمرہ نے خبر دی کہ انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے آگے ذکر ہوا کہ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مردہ پر عذاب ہوتا ہے زندہ کے رونے سے تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ اللہ ابوعبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ کو بخشے انہوں نے جھوٹ نہیں کہا مگر بھول چوک ہو گئی۔ حقیقت یہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک یہودی عورت پر گزرے کہ لوگ اس پر رو رہے تھے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو اس پر روتے ہیں اور اس کو قبر میں عذاب ہوتا ہے۔“
علی بن ربیعہ نے کہا پہلے جس پر کوفہ میں نوحہ ہوا وہ کعب کا بیٹا قرظہ تھا اور سیدنا مغیرہ رضی اللہ عنہ نے سن کر کہا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا کہ ”جس پر نوحہ کیا جائے اس کو اس کے سبب سے قیامت کے دن عذاب ہو گا۔“