الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْفَضَائِلِ انبیائے کرام علیہم السلام کے فضائل 41. باب مِنْ فَضَائِلِ إِبْرَاهِيمَ الْخَلِيلِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: باب: سیدنا ابراہیم علیہ السلام کی بزرگی کا بیان۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ایک شخص رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہنے لگا: اے خیر البریہ! یعنی بہترین خلق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ تو ابراہیم علیہ السلام ہیں۔“
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی بات ذکر کی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ ایک آدمی نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح کی بات ذکر کی۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے ختنہ کیا بسولے سے اور ان کی عمر اس وقت اسی (۸۰) برس کی تھی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہم زیادہ حق رکھتے ہیں شک کرنےکا ابراہیم علیہ السلام سے۔ جب انہوں نے کہا: اے پروردگار! مجھ کو دکھلائے تو کیونکر جلاتا ہے مردوں کو، پروردگار نے فرمایا: کیا تجھ کو یقین نہیں ہے؟ ابراہیم علیہ السلام بولے: کیوں نہیں مجھ کو یقین ہے، لیکن میں چاہتا ہوں کہ میرے دل کو تشفی ہو جائے (علم الیقین سے عین الیقین کا مرتبہ حاصل ہو جائے) اور رحم کرے اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام پر وہ پناہ چاہتے تھے، مضبوط سخت کی اور جو میں قید خانے میں اتنی مدت رہتا جتنی مدت یوسف علیہ السلام رہے تو فوراً بلانے والے کے ساتھ چلا آتا۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسے ہی بیان کرتے ہیں جیسا زہری سے یونس نے بیان کیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”بخشے اللہ تعالیٰ لوط علیہ السلام کو انہوں نے مضبوط سخت کی پناہ چاہی۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ابراہیم علیہ السلام نے کبھی جھوٹ نہیں بولا مگر تین بار، ان میں دو جھوٹ اللہ کے لیے تھے۔ ان کا یہ قول کہ میں بیمار ہوں، اور دوسرا یہ قول کہ ان بتوں کو بڑے بت نے توڑا ہو گا، تیسرا جھوٹ سارہ علیہا السلام کے باب میں تھا، اس کا قصہ یہ ہے کہ ابراہیم علیہ السلام ایک ظالم بادشاہ کے ملک میں پہنچے۔ ان کے ساتھ ان کی بی بی سارہ علیہا السلام بھی تھیں، وہ بڑی خوبصورت تھیں، انہوں نے اپنی بی بی سے کہا کہ یہ ظالم بادشاہ کو اگر معلوم ہو گا کہ تو میری بی بی ہے تو مجھ سے چھین لے گا، اس لیے اگر وہ پوچھے تو یہ کہنا کہ میں اس شخص کی بہن ہوں، اور تو اسلام کے رشتہ سے میری بہن ہے۔ (یہ بھی کچھ جھوٹ نہ تھا) اس لیے کہ ساری دنیا میں آج میرے اور تیرے سوا کوئی مسلمان معلوم نہیں ہوتا، جب ابراہیم علیہ السلام اس ظالم کے ملک میں پہنچے تو اس کے کارندے اس کے پاس گئے اور بیان کیا کہ تیرے ملک میں ایسی عورت آئی ہے جو سوائے تیرے کسی کے لائق نہیں ہے، اس نے سارہ علیہا السلام کو بلا بھیجا وہ گئیں اور ابراہیم علیہ السلام نماز کے لیے کھڑے ہوئے (اللہ سے دعا کرنے لگے اس کے شر سے بچنے کے لیے)۔ جب سارہ علیہا السلام اس ظالم کے پاس پہنچیں اس نے بےاختیار اپنا ہاتھ ان کی طرف دراز کیا، لیکن فوراً اس کا ہاتھ سوکھ گیا، وہ بولا: تو اللہ سے دعا کر میرا ہاتھ کھل جائے میں تجھے نہیں ستاؤں گا، انہوں نے دعا کی اس مردود نے پھر ہاتھ دراز کیا، پھر پہلے سے بڑھ کر سوکھ گیا، اس نے دعا کے لیے کہا، انہوں نے دعا کی پھر اس مردود نے دست درازی کی، پھر دونوں بار سے بڑھ کر سوکھ گیا، تب وہ بولا: تو اللہ سے دعا کر میرا ہاتھ کھل جائے، اللہ کی قسم میں اب نہ تجھے ستاؤں گا۔ سارہ علیہا السلام نے پھر دعا کی اس کا ہاتھ کھل گیا، تب اس نے اس شخص کو بلایا جو سارہ علیہا السلام کو لے کر آیا تھا، اور اس سے بولا: تو میرے پاس شیطاننی کو لے کر آیا تھا، یہ آدمی نہیں ہے، اس کو میرے ملک سے باہر نکال دے اور ہاجرہ علیہا السلام ایک لونڈی کو حوالے کر۔ سارہ ہاجرہ علیہا السلام کو لے کر لوٹ آئیں۔ جب ابراہیم علیہ السلام نے ان کو دیکھا تو لوٹے، اور ان سے پوچھا: کیا گزرا؟ انہوں نے کہا: سب خیریت رہی، اللہ تعالیٰ نے اس بدکار کا ہاتھ مجھ سے روک دیا، اور ایک لونڈی بھی دلوائی۔“ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر یہی لونڈی یعنی ہاجرہ علیہا السلام تمہاری ماں ہے اے بارش کے بچو۔
|