الحمدللہ! انگلش میں کتب الستہ سرچ کی سہولت کے ساتھ پیش کر دی گئی ہے۔
كتاب النكاح کتاب: نکاح (شادی بیاہ) کے احکام و مسائل 79. بَابُ: الْبِنَاءِ فِي السَّفَرِ باب: دوران سفر کی رخصتی کا بیان۔
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خیبر فتح کرنے کے ارادے سے نکلے، ہم نے نماز فجر خیبر کے قریب اندھیرے ہی میں پڑھی پھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سوار ہوئے اور ابوطلحہ رضی اللہ عنہ بھی سوار ہوئے اور میں ابوطلحہ کی سواری پر ان کے پیچھے بیٹھا، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم خیبر کے تنگ راستے سے گزرنے لگے تو میرا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران سے چھونے اور ٹکرانے لگا، (اور یہ واقعہ میری نظروں میں اس طرح تازہ ہے گویا کہ) میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ران کی سفیدی (و چمک) دیکھ رہا ہوں، جب آپ بستی میں داخل ہوئے تو تین بار کہا: «اللہ أكبر خربت خيبر إنا إذا نزلنا بساحة قوم فساء صباح المنذرين» ”اللہ بہت بڑا ہے، خیبر کی بربادی آئی، جب ہم کسی قوم کی آبادی (و حدود) میں داخل ہو جاتے ہیں تو اس پر ڈرائی گئی قوم کی بدبختی کی صبح نمودار ہو جاتی ہے ۱؎۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: (جب ہم خیبر میں داخل ہوئے) لوگ اپنے کاموں پر جانے کے لیے نکل رہے تھے۔ (عبدالعزیز بن صہیب کہتے ہیں:) لوگ کہنے لگے: محمد (آ گئے) ہیں (اور بعض کی روایت میں «الخمیس» ۲؎ کا لفظ آیا ہے) یعنی لشکر آ گیا ہے۔ (بہرحال) ہم نے خیبر طاقت کے زور پر فتح کر لیا، قیدی اکٹھا کئے گئے، دحیہ کلبی نے آ کر کہا: اللہ کے نبی! ایک قیدی لونڈی مجھے دے دیجئیے؟ آپ نے فرمایا: جاؤ ایک لونڈی لے لو، تو انہوں نے صفیہ بنت حیی رضی اللہ عنہا کو لے لیا۔ (ان کے لے لینے کے بعد) ایک شخص نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور عرض کیا: اللہ کے نبی! آپ نے دحیہ کو صفیہ بنت حیی کو دے دیا، وہ بنو قریظہ اور بنو نضیر گھرانے کی سیدہ (شہزادی) ہے، وہ تو صرف آپ کے لیے موزوں و مناسب ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اسے (دحیہ کو) بلاؤ، اسے (صفیہ کو) لے کر آئیں“، جب وہ انہیں لے کر آئے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں ایک نظر دیکھا تو فرمایا: ”تم انہیں چھوڑ کر کوئی دوسری باندی لے لو“۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں آزاد کر کے ان سے شادی کر لی، ثابت نے ان سے (یعنی انس سے) پوچھا: اے ابوحمزہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں کتنا مہر دیا تھا؟ انہوں نے کہا: آپ نے انہیں آزاد کر دیا اور ان سے شادی کر لی (یہی آزادی ان کا مہر تھا)۔ انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: آپ راستے ہی میں تھے کہ ام سلیم رضی اللہ عنہا نے صفیہ کو آراستہ و پیراستہ کر کے رات میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچا دیا۔ آپ نے صبح ایک دولہے کی حیثیت سے کی اور فرمایا: ”جس کے پاس جو کچھ (کھانے کی چیز) ہو وہ لے آئے“، چمڑا (دستر خوان) بچھا یا گیا۔ کوئی پنیر لایا، کوئی کھجور اور کوئی گھی لایا اور لوگوں نے سب کو ملا کر ایک کر دیا (اور سب نے مل کر کھایا) یہی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ولیمہ تھا۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصلاة 12 ال صلاة 12 (317)، صحیح مسلم/النکاح 14 (1365)، الجہاد 43 (1365) (مختصر)، سنن ابی داود/الخراج 24 (3009)، (تحفة الأشراف: 990)، مسند احمد (3/101، 186) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: وہ اپنی پہلی حالت پر برقرار نہیں رہ سکتی وہاں اسلامی انقلاب آ کر رہے گا اور ہم محمد اور محمد کے شیدائی جیسا چاہیں گے ویسا ہی ہو گا۔ ۲؎: چونکہ لشکر کے پانچ حصے مقدمہ، ساقہ، میمنہ، میسرہ، قلب ہوتے ہیں اس لیے اسے «الخمیس» کہا جاتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صفیہ بنت حیی بن اخطب رضی اللہ عنہا کے ساتھ خیبر کے راستے میں تین دن گزارے، پھر ان کا شمار ان عورتوں میں ہو گیا جن پر پردہ فرض ہو گیا یعنی صفیہ آپ کی ازواج مطہرات میں ہو گئیں۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/المغازي 38 (4212)، (تحفة الأشراف: 796) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے خیبر اور مدینہ طیبہ کے درمیان صفیہ بنت حی رضی اللہ عنہا کے ساتھ تین (عروسی) دن گزارے، میں نے لوگوں کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ولیمے کے لیے بلایا، اس ولیمے میں روٹی گوشت نہیں تھا، آپ نے دستر خوان بچھانے کا حکم دیا اور اس (چمڑے کے) دستر خوان پر کھجوریں، پنیر اور گھی ڈالے گئے (اور انہیں ملا کر پیش کر دیا گیا) یہی آپ کا ولیمہ تھا۔ لوگوں نے کہا: صفیہ امہات المؤمنین میں سے ایک ہو گئیں یا ابھی آپ کی لونڈی ہی رہیں؟ پھر لوگ کہنے لگے: اگر آپ نے انہیں پردے میں رکھا تو سمجھو کہ یہ امہات المؤمنین میں سے ہیں اور اگر آپ نے انہیں پردے میں نہ بٹھایا تو سمجھو کہ یہ آپ کی باندی ہیں۔ پھر جب آپ نے کوچ فرمایا تو ان کے لیے کجاوے پر آپ کے پیچھے بچھونا بچھایا گیا اور ان کے اور لوگوں کے درمیان پردہ تان دیا گیا (کہ دوسرے لوگ انہیں نہ دیکھ سکیں)۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/النکاح 13 (5085)، 60 (1559)، (تحفة الأشراف: 577)، مسند احمد (3/264) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|