-" يا ايها الناس! لا ترفعوني فوق قدري، فإن الله اتخذني عبدا قبل ان يتخذني نبيا".-" يا أيها الناس! لا ترفعوني فوق قدري، فإن الله اتخذني عبدا قبل أن يتخذني نبيا".
یحی بن سعید کہتے ہیں کہ ہم علی بن حسین کے پاس بیٹھے تھے، کوفی لوگوں کی ایک جماعت آئی۔ علی نے کہا: عراقیو! ہم سے اسلام کے نام پر محبت کرو۔ میں نے اپنے باپ سے سنا، انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”لوگو! مجھے میرے مقام سے بلند نہ کرنا، (یاد رکھنا کہ) اللہ تعالیٰ نے مجھے نبی بنانے سے پہلے بندہ بنایا ہے۔“ میں نے یہ حدیث سعید بن مسیب کے سامنے ذکر کی، انہوں نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نبی بننے کے بعد بھی بندے تھے۔
-" إن لله ملائكة سياحين في الارض يبلغوني عن امتي السلام".-" إن لله ملائكة سياحين في الأرض يبلغوني عن أمتي السلام".
سیدنا عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ کے بعض فرشتے زمین میں گھومتے پھرتے رہتے ہیں، وہ مجھے میری امت کے افراد کا سلام پہنچاتے رہتے ہیں۔“
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما بیان کرتے ہیں کہ قریشیوں کے اشراف لوگ حطیم میں جمع ہوئے، انہوں نے لات، عزی، نائلہ اور اساف کے نام پر باہم معاہدہ کیا کہ اگر ہم نے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو دیکھا، تو سب کے سب یکبارگی اس پر ٹوٹ پڑیں گے اور اسے قتل کئے بغیر پیچھے نہیں ہٹیں گے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی بیٹی سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا روتی ہوئی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی اور کہا: ان قریشی سرداروں نے باہم معاہدہ کیا کہ وہ جہاں بھی آپ کو دیکھیں گے، یکبارگی حملہ کر کے آپ کو قتل کر ڈالیں گے، ان میں سے ہر آدمی آپ کے خون میں سے اپنے حصے کا فیصلہ کر چکا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میری بیٹی! وضو کے لیے پانی لاؤ۔“ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور ان کے پاس بیت اللہ میں چلے گئے۔ جب انہوں نے آپ کو دیکھا تو کہنے لگے: یہ وہ ہے (محمد صلی اللہ علیہ وسلم )۔ پھر انہوں نے اپنی آنکھوں کو جھکا لیا، سروں کو پست کر لیا، اپنی اپنی جگہ پر ٹک کر کھڑے رہے اور ان میں سے کسی نے نہ آپ کو دیکھا اور نہ آپ کی طرف لپکا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ان کی طرف گئے، ان کے پاس کھڑے ہوئے، کنکریوں کی مٹھی بھری اور فرمایا: ”چہرے بھدے ہو گئے۔“ پھر وہ مٹھی ان پر پھینک دی، جس جس آدمی کو کنکری لگی، وہ بدر والے دن کفر کی حالت میں قتل ہو گیا۔
- (لو فعل (يعني: ابا جهل) ؛ لاخذته الملائكة عيانا، ولو ان اليهود تمنوا الموت، لماتوا).- (لو فَعَل (يعني: أبا جهل) ؛ لأَخذتْه الملائكة عِياناً، ولو أنّ اليهود تمنَّوُا الموت، لماتُوا).
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ ابوجہل نے کہا: اگر میں نے (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) کو دیکھا تو اس کی گردن روند دوں گا۔ اسے کہا گیا کہ وہ (محمد صلی اللہ علیہ و سلم) ہے۔ وہ کہنے لگا: مجھے تو نظر نہیں آ رہا۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر وہ ایسا کرتا تو فرشتے اس کو سب کے سامنے پکڑ لیتے، اگر یہودیوں نے موت کی تمنا کی ہوتی تو وہ مر جاتے۔“
-" إن لكل نبي حوضا، وإنهم يتباهون ايهم اكثر واردة، وإني ارجو الله ان اكون اكثرهم واردة".-" إن لكل نبي حوضا، وإنهم يتباهون أيهم أكثر واردة، وإني أرجو الله أن أكون أكثرهم واردة".
سیدنا سمرہ رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہر نبی کا حوض ہو گا اور انبیاء اس پر آنے والے لوگوں کی اکثریت کی بنا پر باہم فخر کریں گے۔ مجھے امید ہے کہ میرے حوض پر آنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہو گی۔“
-" إن الله ارسلني مبلغا ولم يرسلني متعنتا".-" إن الله أرسلني مبلغا ولم يرسلني متعنتا".
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: آپ نے اپنی بیویوں کو یہ نہیں بتلانا کہ میں نے آپ کا انتخاب کر لیا ہے۔ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ تعالیٰ نے مجھے تبلیغ کرنے والا بنا کر بھیجا ہے، نہ کہ تکلیف دینے والا (اور پریشان کرنے والا)۔“
-" كان يعرض نفسه على الناس في الموقف، فيقول: الا رجل يحملني إلى قومه، فإن قريشا قد منعوني ان ابلغ كلام ربي".-" كان يعرض نفسه على الناس في الموقف، فيقول: ألا رجل يحملني إلى قومه، فإن قريشا قد منعوني أن أبلغ كلام ربي".
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم حج کے موسم میں اپنے آپ کو لوگوں پر پیش کرتے اور کہتے: آیا کوئی ایسا آدمی ہے جو مجھے (بحفاظت و ضمانت) اپنی قوم کے پاس لے جائے، تاکہ میں اپنے رب کا پیغام لوگوں تک پہنچا سکوں، کیونکہ قریش نے مجھے ایسا کرنے سے روک دیا ہے۔“
-" شهدت حلف المطيبين مع عمومتي - وانا غلام - فما احب ان لي حمر النعم واني انكثه".-" شهدت حلف المطيبين مع عمومتي - وأنا غلام - فما أحب أن لي حمر النعم وأني أنكثه".
سیدنا عبدالرحمٰن بن عوف رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں اپنے چچاؤں کے ساتھ «مطيبين» کے معاہدے میں شریک ہوا، اس وقت میں ایک لڑکا تھا، اب بھی میں ایسے عہد و پیمان کو سرخ اونٹوں کے عوض توڑنے کے لیے تیار نہیں۔“
-" ما انا باقدر على ان ادع لكم ذلك على ان تشعلوا لي منها شعلة. يعني الشمس".-" ما أنا بأقدر على أن أدع لكم ذلك على أن تشعلوا لي منها شعلة. يعني الشمس".
سیدنا عقیل بن ابوطالب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ قریشی، ابوطالب کے پاس آئے اور کہا: آپ احمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو نہیں دیکھتے؟ وہ ہمیں ہماری مجالس اور مساجد میں تکلیف دیتا ہے، آپ اسے ایسی ایذا پہنچانے سے منع کر دیں۔ انہوں نے مجھے کہا: عقیل! محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) کو بلاؤ۔ میں گیا اور ان کو بلا کر لے آیا۔ ابوطالب نے کہا: میرے بھتیجے! تیرے چچا زاد بھائیوں نے یہ شکایت کی ہے کہ تم انہیں مجلسوں اور مسجدوں میں تکلیف دیتے ہو، اس طرح کرنے سے باز آ جاؤ۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کن انکھیوں سے آسمان کی طرف دیکھا اور فرمایا: ”اگر تم لوگ میرے لیے آسمان سے شعلہ (یعنی سورج) بھی لے آؤ تو میں ایسا کرنے سے نہیں رک سکتا۔“ یہ سن کر ابوطالب نے کہا: میرا بھتیجا محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) جھوٹا نہیں ہے، تم سب یہاں سے چلے جاؤ۔