(مرفوع) حدثنا علي بن عبد الله، حدثنا سفيان، قال عمرو سمعت جابر بن عبد الله رضي الله عنهما , قال:" اتى رسول الله صلى الله عليه وسلم عبد الله بن ابي بعد ما ادخل حفرته، فامر به فاخرج، فوضعه على ركبتيه، ونفث عليه من ريقه، والبسه قميصه"، فالله اعلم , وكان كسا عباسا قميصا، قال سفيان: وقال ابو هارون: وكان على رسول الله صلى الله عليه وسلم قميصان، فقال له ابن عبد الله: يا رسول الله، البس ابي قميصك الذي يلي جلدك؟ قال سفيان: فيرون ان النبي صلى الله عليه وسلم البس عبد الله قميصه مكافاة لما صنع.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، قَالَ عَمْرٌو سَمِعْتُ جَابِرَ بْنَ عَبْدِ اللَّهِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا , قَالَ:" أَتَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ أُبَيٍّ بَعْدَ مَا أُدْخِلَ حُفْرَتَهُ، فَأَمَرَ بِهِ فَأُخْرِجَ، فَوَضَعَهُ عَلَى رُكْبَتَيْهِ، وَنَفَثَ عَلَيْهِ مِنْ رِيقِهِ، وَأَلْبَسَهُ قَمِيصَهُ"، فَاللَّهُ أَعْلَمُ , وَكَانَ كَسَا عَبَّاسًا قَمِيصًا، قَالَ سُفْيَانُ: وَقَالَ أَبُو هَارُونَ: وَكَانَ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَمِيصَانِ، فَقَالَ لَهُ ابْنُ عَبْدِ اللَّهِ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أَلْبِسْ أَبِي قَمِيصَكَ الَّذِي يَلِي جِلْدَكَ؟ قَالَ سُفْيَانُ: فَيُرَوْنَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَلْبَسَ عَبْدَ اللَّهِ قَمِيصَهُ مُكَافَأَةً لِمَا صَنَعَ.
ہم سے علی بن عبداللہ نے بیان کیا ‘ کہا کہ ہم سے سفیان نے بیان کیا ‘ عمرو نے کہا کہ میں نے جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے سنا ‘ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے تو عبداللہ بن ابی (منافق) کو اس کی قبر میں ڈالا جا چکا تھا۔ لیکن آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ارشاد پر اسے قبر سے نکال لیا گیا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنے گھٹنوں پر رکھ کر لعاب دہن اس کے منہ میں ڈالا اور اپنا کرتہ اسے پہنایا۔ اب اللہ ہی بہتر جانتا ہے۔ (غالباً مرنے کے بعد ایک منافق کے ساتھ اس احسان کی وجہ یہ تھی کہ) انہوں نے عباس رضی اللہ عنہ کو ایک قمیص پہنائی تھی (غزوہ بدر میں جب عباس رضی اللہ عنہ مسلمانوں کے قیدی بن کر آئے تھے) سفیان نے بیان کیا کہ ابوہارون موسیٰ بن ابی عیسیٰ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے استعمال میں دو کرتے تھے۔ عبداللہ کے لڑکے (جو مومن مخلص تھے رضی اللہ عنہ) نے کہا کہ یا رسول اللہ! میرے والد کو آپ وہ قمیص پہنا دیجئیے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے جسد اطہر کے قریب رہتی ہے۔ سفیان نے کہا لوگ سمجھتے ہیں کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنا کرتہ اس کے کرتے کے بدل پہنا دیا جو اس نے عباس رضی اللہ عنہ کو پہنایا تھا۔
Narrated Jabir bin `Abdullah: Allah's Apostle came to `Abdullah bin Ubai (a hypocrite) after his death and he has been laid in his pit (grave). He ordered (that he be taken out of the grave) and he was taken out. Then he placed him on his knees and threw some of his saliva on him and clothed him in his (the Prophet's) own shirt. Allah knows better (why he did so). `Abdullah bin Ubai had given his shirt to Al-Abbas to wear. Abu Harun said, "Allah's Apostle at that time had two shirts and the son of `Abdullah bin Ubai said to him, 'O Allah's Apostle! Clothe my father in your shirt which has been in contact with your skin.' ' Sufyan added, "Thus people think that the Prophet clothed `Abdullah bin Tubal in his shirt in lieu of what he (Abdullah) had done (for Al `Abbas, the Prophet's uncle.)"
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 23, Number 433
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1350
حدیث حاشیہ: (1) ایک حدیث میں ہے کہ غزوہ بدر کے موقع پر جب جنگی قیدیوں کو مدینہ منورہ لایا گیا تو رسول اللہ ﷺ کے چچا حضرت عباس بن عبدالمطلب کا بدن ننگا تھا۔ رسول اللہ ﷺ نے دیکھا تو رئیس المنافقین کی قمیص ان کے قد کے مطابق پوری تھی تو آپ نے اس کی قمیص حضرت عباس ؓ کو پہنا دی۔ جب وہ فوت ہوا تو آپ نے اس کا احسان چکانے کے لیے اپنی قمیص اسے پہنا دی۔ (صحیح البخاري، الجھادوالسیر، حدیث: 3008)(2) امام بخاری ؒ نے اس حدیث سے یہ مسئلہ ثابت کیا ہے کہ بوقت ضرورت میت کو قبر سے نکالا جا سکتا ہے، جبکہ بعض حضرات کا خیال ہے کہ اگر میت کو غسل یا جنازہ کے بغیر دفن کیا گیا ہو تو اسے غسل دینے اور جنازہ پڑھنے کے لیے نکالا جا سکتا ہے۔ امام بخاری ؒ نے ان حضرات کی تردید فرما دی ہے کہ ان اسباب کے علاوہ بھی اگر ضرورت ہو تو قبر سے میت کو نکالنے میں کوئی حرج نہیں۔ (فتح الباري: 274/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1350
تخریج الحدیث کے تحت دیگر کتب سے حدیث کے فوائد و مسائل
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله، سنن نسائي، تحت الحديث 1902
´کفن میں قمیص کے ہونے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم عبداللہ بن ابی کی قبر پر آئے، اور اسے اس کی قبر میں رکھا جا چکا تھا، تو آپ اس پر کھڑے ہوئے، اور اس کے نکالنے کا حکم دیا تو اسے نکالا گیا، تو آپ نے اسے اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، اور اپنی قمیص پہنائی اور اس پر تھو تھو کیا، واللہ تعالیٰ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 1902]
1902۔ اردو حاشیہ: یہ روایت مشہور روایا ت سے متعارض معلوم ہوتی ہے جن میں قمیص پہلے دینے، جنازہ پڑھنے اور پھر قبر پر جنازے کے ساتھ آنے کا ذکر ہے، حافظ ابن حجر رحمہ اللہ نے اس کا ایک حل یہ پیش کیا ہے کہ پہلی روایت میں دینے سے مراد دینے کا وعدہ ہے، وعدے پر عطیہ کا لفظ بول دیا گیا ہے۔ دوسرا حل اور تطبیق یہ ہے کہ ممکن ہے دو مرتبہ آپ نے قمیص دی ہو، ایک پہلے اور دوسری مرتبہ جب آپ قبر پر حاضر ہوئے۔ مزید دیکھیے: (فتح الباري الجنائز، باب الکفن في القمیص الذی یکف أولا یکف، حدیث: 1270) واللہ أعلم۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 1902
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث2022
´میت کو لحد میں رکھنے کے بعد باہر نکالنے کا بیان۔` جابر بن عبداللہ رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عبداللہ بن ابی کو اس کی قبر سے نکلوایا، پھر اس کا سر اپنے دونوں گھٹنوں پر رکھا، اور اس پر تھو تھو کیا، اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ اور اس کی نماز (جنازہ) پڑھی، واللہ اعلم۔ [سنن نسائي/كتاب الجنائز/حدیث: 2022]
اردو حاشہ: تفصیل کے لیے دیکھیے حدیث: 1901، 1902 - 1968۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث/صفحہ نمبر: 2022
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1524
´اہل قبلہ کی نماز جنازہ ادا کرنا۔` جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ منافقین کا سردار (عبداللہ بن ابی) مدینہ میں مر گیا، اس نے وصیت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اس کی نماز جنازہ پڑھیں، اور اس کو اپنی قمیص میں کفنائیں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کی نماز جنازہ پڑھی، اور اسے اپنے کرتے میں کفنایا، اور اس کی قبر پہ کھڑے ہوئے، تو اللہ تعالیٰ نے یہ آیت کریمہ نازل فرمائی: «ولا تصل على أحد منهم مات أبدا ولا تقم على قبره»”منافقوں میں سے جو کوئی مر جائے تو اس کی نماز جنازہ نہ پڑھیں، اور اس کی قبر پہ مت کھڑے ہوں۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الجنائز/حدیث: 1524]
اردو حاشہ: فائدہ: مذکورہ روایت کوہمارے فاضل محقق نے سنداً ضعیف اور معناً صحیح قراردیا ہے۔ جبکہ دیگر محققین نے اس کی بابت لکھا ہے کہ اس روایت میں وصیت کا تذکرہ منکر ہے اس کے علاوہ باقی حدیث صحیح ہے جیسا کہ گزشتہ حدیث میں بھی اس کا تذکرہ ہے تفصیل کےلئے دیکھئے: (سنن ابن ماجه للدکتور بشار عواد، حدیث: 1524، وأحکام الجنائز، ص: 160)
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1524
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1270
1270. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی منافق کے دفن ہونے کے بعد تشریف لائے، اسے قبر سے باہر نکالا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1270]
حدیث حاشیہ: عبد اللہ بن ابی مشہور منافق ہے جو جنگ احد کے موقع پر راستے میں سے کتنے ہی سادہ لوح مسلمانوں کو بہکا کر واپس لے آیا تھا اور اسی نے ایک موقع پر یہ بھی کہا تھا کہ ہم مدنی اور شریف لوگ ہیں اور یہ مہاجر مسلمان ذلیل پردیسی ہیں۔ ہمارا داؤ لگے گا تو ہم ان کو مدینہ سے نکال باہر کریں گے۔ اس کا بیٹا عبداللہ سچا مسلمان صحابی رسول تھا۔ آپ ﷺ نے ان کی دل شکنی گوارا نہیں کی اور ازراہ کرم اپنا کرتہ اس کے کفن کے لیے عنایت فرمایا۔ بعضوں نے کہا کہ جنگ بدر میں جب حضرت عباس ؓ قید ہو کر آئے تو وہ ننگے تھے۔ ان کا یہ حال زاردیکھ کر اسی عبداللہ بن ابی نے اپنا کرتا ان کو پہنادیا تھا۔ آنحضرت ﷺ نے اس کا بدلہ ادا کردیا کہ یہ احسان باقی نہ رہے۔ ان منافق لوگوں کے بارے میں پہلی آیت ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُم﴾(التوبة: 80) نازل ہوئی تھی۔ اس آیت سے حضرت عمر ؓ سمجھے کہ ان پر نماز پڑھنا منع ہے۔ آنحضرت ﷺ نے ان کو سمجھایا کہ اس آیت میں مجھ کو اختیار دیا گیا ہے۔ تب حضرت عمر ؓ خاموش رہے۔ بعد میں آیت ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم﴾(التوبة: 84) نازل ہوئی۔ جس میں آپ ﷺ کو اللہ نے منافقوں پر نماز جنازہ پڑھنے سے قطعاً روک دیا۔ پہلی اور دوسری روایتوں میں تطبیق یہ ہے کہ پہلے آپ ﷺ نے کرتہ دینے کا وعدہ فرمادیا تھا پھر عبداللہ کے عزیزوں نے آپ ﷺ کو تکلیف دینا مناسب نہ جانا اور عبداللہ کا جنازہ تیار کرکے قبر میں اتاردیا کہ آنحضرت ﷺ تشریف لے آئے اور آپ ﷺ نے وہ کیا جو روایت میں مذکور ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 1270
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 5795
5795. حضرت جابر بن عبداللہ ؓ سے روایت ہے انہوں نے کہا کہ نبی ﷺ، عبداللہ بن ابی کے پاس اس وقت آئے جب وہ قبر میں داخل کیا جاچکا تھا، پھر آپ کے حکم سے اس کی لاش نکالی گئی اور اسے آپ کے گٹھنوں پر رکھا گیا۔ آپ نے اس پر اپنا لعاب دہن ڈالا اور اسے اپنی قمیض پہنائی۔ واللہ أعلم [صحيح بخاري، حديث نمبر:5795]
حدیث حاشیہ: بعض روایتوں میں آیا ہے کہ عبداللہ بن ابی نے حضور اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے چچا حضرت عباس رضی اللہ عنہ کو اپنی قمیص ایک موقع پر پہنائی تھی۔ اس لیے اس کے بدلہ کے طور پر آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم بھی اسے اپنی قمیص ایسے موقع پر دی یہ سب کچھ آپ نے اس کے بیٹے کا دل خوش کرنے کے لیے کیا جو سچا مسلمان تھا، واللہ أعلم بالصواب۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث/صفحہ نمبر: 5795
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1270
1270. حضرت جابر ؓ سے روایت ہے،انھوں نے کہا:نبی کریم ﷺ عبداللہ بن ابی منافق کے دفن ہونے کے بعد تشریف لائے، اسے قبر سے باہر نکالا اور اس کے منہ میں اپنا لعاب ڈالا اور اسے اپنی قمیص پہنائی۔ [صحيح بخاري، حديث نمبر:1270]
حدیث حاشیہ: 1۔ ابن سیرین کا موقف ہے کہ کفن قمیص کی طرح سلا ہوا ہونا چاہیے اور اس کے بٹن وغیرہ لگے ہوئے ہوں۔ امام بخاری ؒ اس موقف کی تردید فرماتے ہیں کہ کفن کے لیے اس قسم کی پابندی ناروا ہے۔ اس کے لیے تین سپاٹ چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں بھی ہو سکتی ہیں اور دو چادریں اور ایک قمیص، خواہ سلی ہو یا اَن سلی وہ بھی کافی ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی منافق کو سلی ہوئی قمیص پہنائی جو کفن کے طور پر تھی۔ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین عبداللہ بن ابی کو اپنی قمیص کیوں پہنائی؟ علامہ عینی ؒ نے اس کی تین وجوہات لکھی ہیں: ٭ رسول اللہ ﷺ نے رئیس المنافقین کے مومن بیٹے عبداللہ بن عبداللہ ؓ کے اکرام کے پیش نظر اسے اپنی قمیص پہنائی۔ ٭ اس کے قبیلے کی دل جوئی مقصود تھی، چنانچہ آپ کے اس خلق کریم کے باعث قبیلہ خزرج کے ایک ہزار اشخاص مسلمان ہو گئے۔ حضرت عباس ؓ جب غزوہ بدر میں قیدی بن کر آئے تو ان کے گلے میں قمیص نہ تھی۔ چونکہ وہ طویل القامت تھے، اس لیے عبداللہ بن ابی نے اپنی قمیص پہنائی کیونکہ وہ طویل القامت تھا۔ اس احسان کا بدلہ چکانے کے لیے آپ نے اسے قمیص پہنائی۔ (عمدة القاري: 75/6) والله أعلم۔ (2) سیاق حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ حضرت عمر فاروق ؓ کے پیش نظر درج ذیل آیت کریمہ تھی: ﴿اسْتَغْفِرْ لَهُمْ أَوْ لَا تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ إِن تَسْتَغْفِرْ لَهُمْ سَبْعِينَ مَرَّةً فَلَن يَغْفِرَ اللَّـهُ لَهُمْ﴾”آپ ان کے لیے بخشش مانگیں یا نہ مانگیں (فرق نہیں پڑے گا) ۔ اگر آپ ان کے لیے ستر مرتبہ بھی دعائے مغفرت کریں تو بھی اللہ انہیں معاف نہیں کرے گا۔ “(التوبة: 80/9) انہوں نے اس آیت سے استدلال کیا کہ اللہ تعالیٰ نے آپ کو منافقین کی نماز جنازہ پڑھانے سے منع کر دیا ہے، لیکن رسول اللہ ﷺ کے موقف سے معلوم ہوا کہ اس آیت میں ممانعت کی صراحت نہیں بلکہ جنازہ پڑھنے اور نہ پڑھنے میں اختیار ہے، اسی لیے آپ نے فرمایا کہ مجھے دو باتوں کا اختیار دیا گیا ہے، اس لیے ستر سے زیادہ مرتبہ دعا کے بعد بخشش کی امید کی جا سکتی ہے۔ اس کے بعد صراحت کے ساتھ اللہ تعالیٰ نے یہ آیت نازل فرمائی کہ ﴿وَلَا تُصَلِّ عَلَىٰ أَحَدٍ مِّنْهُم مَّاتَ أَبَدًا﴾ ان کے لیے بخشش طلب کرنے سے منع فرما دیا جیسا کہ حدیث میں اس کی وضاحت موجود ہے۔ (فتح الباري: 178/3)(3) امام بخاری ؒ کی پیش کردہ پہلی حدیث سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے حضرت عبداللہ ؓ کو اپنی قمیص عطا فرمائی تاکہ وہ اپنے باپ کو پہنا دے، لیکن حدیث جابر سے معلوم ہوتا ہے کہ رسول اللہ ﷺ نے اسے قبر سے نکلوا کر خود قمیص پہنائی۔ ان دونوں احادیث میں کوئی تضاد نہیں۔ جہاں قمیص دینے کا ذکر ہے تو اس سے مراد یہ ہے کہ نبی ﷺ نے عبداللہ بن ابی کے بیٹے سے وعدہ کیا تھا کہ آپ اسے قمیص دیں گے اور اس وعدے پر دینے کا اطلاق مجازی طور پر ہے، کیونکہ آپ نے حتمی طور پر قمیص عطا فرمانی تھی، اس لیے تحقق وقوع کے اعتبار سے "أعطاہ" فرمایا اور عملا خود اسے پہنائی جس کا ذکر حدیث جابر میں ہے۔ (فتح الباري: 178/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث/صفحہ نمبر: 1270