وكتب عبد الله بن عمرو إلى قهرمانه وهو غائب عنه ان يزكي عن اهله الصغير والكبير.وَكَتَبَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو إِلَى قَهْرَمَانِهِ وَهُوَ غَائِبٌ عَنْهُ أَنْ يُزَكِّيَ عَنْ أَهَلَهُ الْصَغِيرِ وَالْكَبِيرِ.
اور عبداللہ بن عمرو رضی اللہ عنہما نے اپنے وکیل کو جو ان سے غائب تھا یہ لکھا کہ چھوٹے بڑے ان کے تمام گھر والوں کی طرف سے وہ صدقہ فطر نکال دیں۔
(مرفوع) حدثنا ابو نعيم، حدثنا سفيان، عن سلمة بن كهيل، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة رضي الله عنه، قال:" كان لرجل على النبي صلى الله عليه وسلم سن من الإبل، فجاءه يتقاضاه، فقال: اعطوه، فطلبوا سنه، فلم يجدوا له إلا سنا فوقها، فقال: اعطوه، فقال: اوفيتني اوفى الله بك، قال النبي صلى الله عليه وسلم: إن خياركم احسنكم قضاء".(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ كُهَيْلٍ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ:" كَانَ لِرَجُلٍ عَلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ سِنٌّ مِنَ الْإِبِلِ، فَجَاءَهُ يَتَقَاضَاهُ، فَقَالَ: أَعْطُوهُ، فَطَلَبُوا سِنَّهُ، فَلَمْ يَجِدُوا لَهُ إِلَّا سِنًّا فَوْقَهَا، فَقَالَ: أَعْطُوهُ، فَقَالَ: أَوْفَيْتَنِي أَوْفَى اللَّهُ بِكَ، قَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ خِيَارَكُمْ أَحْسَنُكُمْ قَضَاءً".
ہم سے ابونعیم فضل بن دکین نے بیان کیا، کہا کہ ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، ان سے سلمہ بن کہیل نے بیان کیا، ان سے ابوسلمہ نے اور ان سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم پر ایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ شخص تقاضا کرنے آیا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے (اپنے صحابہ سے) فرمایا کہ ادا کر دو۔ صحابہ رضی اللہ عنہم نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہیں ملا۔ البتہ اس سے زیادہ عمر کا (مل سکا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ یہی انہیں دے دو۔ اس پر اس شخص نے کہا کہ آپ نے مجھے پورا پورا حق دے دیا۔ اللہ تعالیٰ آپ کو بھی پورا بدلہ دے۔ پھر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ تم میں سب سے بہتر وہ لوگ ہیں جو قرض وغیرہ کو پوری طرح ادا کر دیتے ہیں۔
Narrated Abu Huraira: The Prophet owed somebody a camel of a certain age. When he came to demand it back, the Prophet said (to some people), "Give him (his due)." When the people searched for a camel of that age, they found none, but found a camel one year older. The Prophet said, "Give (it to) him." On that, the man remarked, "You have given me my right in full. May Allah give you in full." The Prophet said, "The best amongst you is the one who pays the rights of others generously."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 3, Book 38, Number 501
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 2305
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: ”وہی اس کو دے دو۔“ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: ”تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ: مستحب ہے کہ قرض ادا کرنے والا قرض سے بہتر اور زیادہ مال قرض دینے والے کو ادا کرے، تاکہ اس کے احسان کا بدلہ ہو، کیوں کہ اس نے قرض حسنہ دیا۔ اور بلا شرط جو زیادہ دیا جائے وہ سود نہیں ہے۔ بلکہ وہ ﴿هَلْ جَزَاءُ الْإِحْسَانِ إِلَّا الْإِحْسَانُ﴾(الرحمن: 60) کے تحت ہے
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 2305
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:2305
2305. حضرت ابو ہریرہ ؓ سے روایت ہے، انھوں نے کہا کہ نبی ﷺ کے ذمےایک شخص کا ایک خاص عمر کا اونٹ قرض تھا۔ وہ تقاضا کرنے آیا تو آپ نے فرمایا: ”اسے اونٹ دے دو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے اس عمر کا اونٹ تلاش کیا لیکن نہ مل سکا اور اس کے اونٹ سے بڑا اونٹ پایا تو آپ نے فرمایا: ”وہی اس کو دے دو۔“ اس شخص نے کہا: آپ نے میرا حق پورا پورا دے دیا ہے۔ اللہ تعالیٰ بھی آپ کو پورا بدلہ دے۔ نبی نے فرمایا: ”تم میں سے اچھا شخص وہ ہے جو ادائیگی کرنے میں بہتر ہو۔“[صحيح بخاري، حديث نمبر:2305]
حدیث حاشیہ: (1) بعض حضرات کا موقف ہے کہ بیماری یا سفر کے عذر کی وجہ سے وکیل کیا جاسکتا ہے، اگر کوئی عذر نہیں ہے تو فریق ثانی کی رضامندی سے وکیل کرنا چاہیے۔ امام بخاری ؒ کے نزدیک یہ تکلف محض ہے۔ جو شخص شہر میں موجود ہے، اسے کوئی عذر نہیں وہ بھی وکیل کرسکتا ہے۔ رسول اللہ ﷺ نے موجود صحابۂ کرام ؓ سے فرمایا: ”اسے اونٹ دےدو۔ “ اگرچہ یہ خطاب حاضرین کےلیے ہے لیکن عرف کے اعتبار سے ہر وکیل کو شامل ہے۔ خواہ وہ غائب ہو یا حاضر، نیز رسول اللہ ﷺ نے صحابۂ کرام ؓ کو وکیل بنایا، حالانکہ آپ مقیم اور تندرست تھے، نہ آپ غائب تھے اور نہ آپ بیمار اور مسافر ہی تھے۔ (2) حافظ ابن حجر ؒ لکھتے ہیں کہ جب حاضر کےلیے وکیل کرنا جائز ہے، حالانکہ وہ خود کام کرسکتا ہے تو غائب کو بطریق اولیٰ وکیل کرنا جائز ہے،اس لیے کہ وہ اس کا محتاج ہے۔ (فتح الباري: 608/4)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 2305