(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا هشيم، اخبرنا عبد الملك، عن عطاء، عن جابر بن عبد الله، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الجار احق بشفعة جاره ينتظر بها، وإن كان غائبا إذا كان طريقهما واحدا". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا عَبْدُ الْمَلِكِ، عَنْ عَطَاءٍ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْجَارُ أَحَقُّ بِشُفْعَةِ جَارِهِ يُنْتَظَرُ بِهَا، وَإِنْ كَانَ غَائِبًا إِذَا كَانَ طَرِيقُهُمَا وَاحِدًا".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوسی کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، اگر وہ موجود نہ ہو گا تو شفعہ میں اس کا انتظار کیا جائے گا، جب دونوں ہمسایوں کے آنے جانے کا راستہ ایک ہو“۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/الأحکام 32 (1369)، سنن ابن ماجہ/الشفعة 2 (2494)، (تحفة الأشراف: 2434)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/303)، سنن الدارمی/ البیوع 83 (2669) (صحیح)»
Narrated Jabir ibn Abdullah: The Prophet ﷺ said: The neighbour is most entitled to the right of pre-emption, and he should wait for its exercise even if he is absent, when the two properties have one road.
USC-MSA web (English) Reference: Book 23 , Number 3511
قال الشيخ الألباني: صحيح
قال الشيخ زبير على زئي: إسناده حسن مشكوة المصابيح (2967)
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث2499
´جائیداد کی حد بندی کے بعد حق شفعہ نہیں ہے۔` جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے شفعہ ہر اس جائیداد میں ٹھہرایا ہے جو تقسیم نہ کی گئی ہو، اور جب حد بندی ہو جائے اور راستے جدا ہو جائیں تو اب شفعہ نہیں ہے ۱؎۔ [سنن ابن ماجه/كتاب الشفعة/حدیث: 2499]
اردو حاشہ: فوائد و مسائل: (1) مشترک چیز میں اگر ایک شریک اپنا حصہ فروخت کرنا چاہے تو پہلے اپنے دوسرے شریکوں کو بتائے تاکہ اگر وہ خریدنا چاہیں تو خرید لیں۔
(2) یہ حق زمین یا مکان میں بھی ہے اوردوسری کسی بھی مشترک چیز میں بھی۔
(3) جب مشترک چیز تقسیم کر لی جائے اورمکان یا زمین کو تقسیم کرکے ہرشخص کا حصہ مقرر ہو جائے کہ یہاں تک فلاں کا حصہ ہے اوراس سے آگے فلاں کا حصہ ہے توشراکت ختم ہوجاتی ہے صرف ہمسائیگی باقی رہ جاتی ہے اس صورت میں جو شخص پہلے شریک تھا وہ ہمسائیگی کی بنیاد پرشفعے کا دعوی نہیں کر سکتا۔
(4) بعض احادیث میں جو پڑوسی کے حق شفعہ کا ذکر ہے تو اس سے مراد مطلق پڑوسی نہیں بلکہ صرف وہ پڑوسی مراد ہے جو راستے یا زمین وغیرہ میں شریک ہو، اگر ایسا نہ ہوتو پھر پڑوسی بھی شفعے کا حق دار نہیں ہے اس لیے کہ جب یہ فرما دیا گیا کہ حد بندی اورراستے الگ الگ ہو جانےکے بعد حق شفعہ نہیں تو پھر محض پڑوسی ہونا پڑوسی کےحق شفعہ کا جواز نہیں بن سکتا۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 2499
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1369
´غائب (جو شخص موجود نہ ہو) کے شفعہ کا بیان۔` جابر رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پڑوسی اپنے پڑوسی (ساجھی) کے شفعہ کا زیادہ حقدار ہے، جب دونوں کا راستہ ایک ہو تو اس کا انتظار کیا جائے گا ۱؎ اگرچہ وہ موجود نہ ہو۔“[سنن ترمذي/كتاب الأحكام/حدیث: 1369]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: یہ حدیث اس بات پردلیل ہے کہ غیرحاضرشخص کا شفعہ باطل نہیں ہو تا، نیز اس سے یہ بھی معلوم ہوتا ہے کہ شفعہ کے لیے مجرد ہمسائیگی ہی کافی نہیں بلکہ اس کے لیے راستے میں اشتراک بھی ضروری ہے، اس کی تائید ذیل کے اس ارشاد سے بھی ہوتی ہے کہ ”جب حدبندی ہوجائے اورراستے جدا جدا ہو جائیں تو پھر شفعہ کا استحقاق نہیں رہتا“۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1369