(مرفوع) حدثنا ازهر بن مروان ، قال: حدثنا حماد بن زيد ، عن ايوب ، عن القاسم الشيباني ، عن عبد الله بن ابي اوفى ، قال: لما قدم معاذ من الشام، سجد للنبي صلى الله عليه وسلم، قال: ما هذا يا معاذ؟، قال: اتيت الشام فوافقتهم يسجدون لاساقفتهم، وبطارقتهم، فوددت في نفسي ان نفعل ذلك بك، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" فلا تفعلوا، فإني لو كنت آمرا احدا ان يسجد لغير الله، لامرت المراة ان تسجد لزوجها، والذي نفس محمد بيده، لا تؤدي المراة حق ربها حتى تؤدي حق زوجها، ولو سالها نفسها وهي على قتب لم تمنعه". (مرفوع) حَدَّثَنَا أَزْهَرُ بْنُ مَرْوَانَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ أَيُّوبَ ، عَنِ الْقَاسِمِ الشَّيْبَانِيِّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي أَوْفَى ، قَالَ: لَمَّا قَدِمَ مُعَاذٌ مِنَ الشَّامِ، سَجَدَ لِلنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: مَا هَذَا يَا مُعَاذُ؟، قَالَ: أَتَيْتُ الشَّامَ فَوَافَقْتُهُمْ يَسْجُدُونَ لِأَسَاقِفَتِهِمْ، وَبَطَارِقَتِهِمْ، فَوَدِدْتُ فِي نَفْسِي أَنْ نَفْعَلَ ذَلِكَ بِكَ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" فَلَا تَفْعَلُوا، فَإِنِّي لَوْ كُنْتُ آمِرًا أَحَدًا أَنْ يَسْجُدَ لِغَيْرِ اللَّهِ، لَأَمَرْتُ الْمَرْأَةَ أَنْ تَسْجُدَ لِزَوْجِهَا، وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ، لَا تُؤَدِّي الْمَرْأَةُ حَقَّ رَبِّهَا حَتَّى تُؤَدِّيَ حَقَّ زَوْجِهَا، وَلَوْ سَأَلَهَا نَفْسَهَا وَهِيَ عَلَى قَتَبٍ لَمْ تَمْنَعْهُ".
عبداللہ بن ابی اوفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب معاذ رضی اللہ عنہ شام سے واپس آئے، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو سجدہ (سجدہ تحیہ) کیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”اے معاذ! یہ کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: میں شام گیا تو دیکھا کہ وہ لوگ اپنے پادریوں اور سرداروں کو سجدہ کرتے ہیں، تو میری دلی تمنا ہوئی کہ ہم بھی آپ کے ساتھ ایسا ہی کریں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نہیں، ایسا نہ کرنا، اس لیے کہ اگر میں اللہ کے علاوہ کسی کو سجدہ کرنے کا حکم دیتا تو عورت کو حکم دیتا کہ وہ اپنے شوہر کو سجدہ کرے، قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے، عورت اپنے رب کا حق ادا نہیں کر سکتی جب تک کہ اپنے شوہر کا حق ادا نہ کر لے، اور اگر شوہر عورت سے جماع کی خواہش کرے، اور وہ کجاوے پر سوار ہو تو بھی وہ شوہر کو منع نہ کرے“۱؎۔
وضاحت: ۱؎: اس لئے کہ نیک اور دیندار عورت دنیاوی عیش و عشرت کا عنوان ہوتی ہے، اس کی صحبت سے آدمی کو خوشی ہوتی ہے، باہر سے کتنے ہی رنج میں آئے جب اپنی پاک سیرت عورت کے پاس بیٹھتا ہے تو سارا رنج و غم بھول جاتا ہے برخلاف اس کے اگر عورت خراب اور بدخلق ہو تو دنیا کی زندگی جہنم بن جاتی ہے، کتنا ہی مال اور دولت ہو سب بیکار اور لغو ہو جاتا ہے، کچھ مزا نہیں آتا، علی رضی اللہ عنہ نے «رَبَّنَا آتِنَا فِي الدُّنْيَا حَسَنَةً وَفِي الآخِرَةِ حَسَنَةً»(سورة البقرة: 201) سے دنیا کی نیکی سے نیک اور دیندار عورت اور آخرت کی نیکی سے جنت کی حور، اور آگ کے عذاب سے خراب اور بدزبان عورت مراد لی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5180، ومصباح الزجاجة: 657)، وقد أخرجہ: مسند احمد (/3814) (حسن صحیح)»
It was narrated that:
Abdullah bin Abu Awfa said “When Muadh bin Jabal came from Sham, he prostrated to the Prophet who said: 'What is this, O Muadh?' He said: 'I went to Sham and saw them prostrating to their bishops and patricians and I wanted to do that for you.' The messenger of Allah said: 'Do not do that. If I were to command anyone to prostrate to anyone other than Allah, I would have commanded women to prostrate to their husbands. By the One in Whose Hand is the soul of Muhammad! No woman can fulfill her duty towards Allah until she fulfills her duty towards her husband. If he asks her (for intimacy) even if she is on her camel saddle, she should not refuse.' ”
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1853
اردو حاشہ: فوائد ومسائل:
(1) عبادت کےطور پر مخلوق میں سے کسی کو سجدہ کرنا کفر ہے۔ احترام کے طور پر سجدہ کرنا سابقہ شریعتوں میں جائز تھا، ہماری شریعت میں یہ بھی حرام ہے۔
(2) سابقہ شریعت میں کوئی کام جائز ہونے سے یہ ثابت نہیں ہوتا کہ اس میں کوئی حرج نہیں مثلاً: حضرت آدم کے زمانے میں سگی بہن سے نکاح جائز تھا، اب حرام ہے۔ پہلے چار سے زیادہ عورتوں کوبیک وقت نکاح میں رکھنا یا دو بہنوں سے بیک وقت نکاح کر لینا جائز تھا اب نہیں۔
(3) بعض لوگ کہتے ہیں کہ ہم بزرگوں کو سجدہ نہیں کرتے بلکہ ان کے قدم چومتے ہیں، یا کسی کو راضی کرنے کے لیے اس کے پاؤں پڑ جاتے ہیں، اس کے قدموں میں گر جاتے ہیں یہ بھی سجدہ ہے۔ نام بدل لینے سے حرام کا حلال نہیں ہو جاتا۔
(4) یہود و نصاریٰ کے رسم و رواج اور آداب اختیار کرنے سے پرہیز کرنا چاہیے کیونکہ ان کے ایسے اعمال کا تعلق بالعموم ان کے غلط عقائد سے ہوتا ہے اگرچہ ہمارے لیے وہ تعلق اس قدر واضح نہ ہو۔ دوسری غیر مسلم اقوام مثلاً: ہندو، سکھ، پارسی اور بدھ وغیرہ کے رسم و رواج کا بھی یہی حکم ہے۔
(5) خاوند کا حق بہت زیادہ ہے لیکن اس کا یہ مطلب نہیں کہ بیوی کے حقوق فراموش کردیے جائیں، جیسے والدین کا حق بہت زیادہ ہے لیکن اولاد کے حقوق بھی پیش نظر رہنے چاہییں۔
(6) نکاح کا ایک بڑا مقصد عصمت و عفت کی حفاظت ہے، اس لیے عورت کو مرد کی جنسی خواہش پوری کرنے میں پس و پیش نہیں کرنا چاہیے۔ مرد کو بھی چاہیے کہ جب محسوس ہو کہ عورت مقاربت کی خواہش رکھتی ہے تو اس کا یہ حق ادا کرے۔ حدیث میں عورت کا ذکر اس لیے کیا گیا ہے کہ عام طور پر تکلف کا اظہار عورت ہی کی طرف سے ہوتا ہے، اس کے برعکس صورت شاذ و نادر ہے۔
(7) عورت کو چاہیے کہ مرد کا احترام ملحوظ رکھے۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث/صفحہ نمبر: 1853