34. بَابُ التَّمَتُّعِ وَالإِقْرَانِ وَالإِفْرَادِ بِالْحَجِّ، وَفَسْخِ الْحَجِّ لِمَنْ لَمْ يَكُنْ مَعَهُ هَدْيٌ:
34. باب: حج میں تمتع، قران اور افراد کا بیان اور جس کے ساتھ ہدی نہ ہو، اسے حج فسخ کر کے عمرہ بنا دینے کی اجازت ہے۔
(34) Chapter.What is said regarding Hajj-at-Tamattu, Hajj-al-Qiran and Hajj-al-Ifrad. And whoever has not brought the Hady with him, he should finish the Ihram of Hajj, and make it as Umra, ( and then assume another Ihram for Hajj form Makkah, etc.).
Narrated Abu Shihab: I left for Mecca for Hajj-at-Tamattu` assuming Ihram for `Umra. I reached Mecca three days before the day of Tarwiya (8th Dhul-Hijja). Some people of Mecca said to me, "Your Hajj will be like the Hajj performed by the people of Mecca (i.e. you will lose the superiority of assuming Ihram from the Miqat). So I went to `Ata' asking him his view about it. He said, "Jabir bin `Abdullah narrated to me, 'I performed Hajj with Allah's Apostle on the day when he drove camels with him. The people had assumed Ihram for Hajj-al-Ifrad. The Prophet ordered them to finish their Ihram after Tawaf round the Ka`ba, and between Safa and Marwa and to cut short their hair and then to stay there (in Mecca) as non-Muhrims till the day of Tarwiya (i.e. 8th of Dhul-Hijja) when they would assume Ihram for Hajj and they were ordered to make the Ihram with which they had come as for `Umra only. They asked, 'How can we make it `Umra (Tamattu`) as we have intended to perform Hajj?' The Prophet said, 'Do what I have ordered you. Had I not brought the Hadi with me, I would have done the same, but I cannot finish my Ihram till the Hadi reaches its destination (i.e. is slaughtered).' So, they did (what he ordered them to do)."
USC-MSA web (English) Reference: Volume 2, Book 26, Number 639
● صحيح البخاري | 7230 | جابر بن عبد الله | لو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت ولولا أن معي الهدي لحللت قال ولقيه سراقة وهو يرمي جمرة العقبة فقال يا رسول الله ألنا هذه خاصة قال لا بل لأبد قال وكانت عائشة قدمت معه مكة وهي حائض فأمرها النبي أن تنسك المناسك كلها غير أنها |
● صحيح البخاري | 7367 | جابر بن عبد الله | لولا هديي لحللت كما تحلون فحلوا فلو استقبلت من أمري ما استدبرت ما أهديت فحللنا وسمعنا وأطعنا |
● صحيح البخاري | 4352 | جابر بن عبد الله | أهد وامكث حراما كما أنت |
● صحيح البخاري | 1557 | جابر بن عبد الله | يقيم على إحرامه |
● صحيح البخاري | 1651 | جابر بن عبد الله | أهل النبي هو وأصحابه بالحج ليس مع أحد منهم هدي غير النبي وطلحة وقدم علي من اليمن ومعه هدي فقال أهللت بما أهل به النبي فأمر النبي أصحابه أن يجعلوها عمرة ويطوفوا ثم يقصروا ويحلوا |
● صحيح البخاري | 1568 | جابر بن عبد الله | أحلوا من إحرامكم بطواف البيت وبين الصفا و المروة |
● صحيح البخاري | 1570 | جابر بن عبد الله | لبيك اللهم لبيك بالحج أمرنا رسول الله فجعلناها عمرة |
● صحيح مسلم | 2949 | جابر بن عبد الله | لبيك بالحج أمرنا رسول الله أن نجعلها عمرة |
● صحيح مسلم | 2937 | جابر بن عبد الله | من لم يكن معه هدي قال فقلنا حل ماذا قال الحل كله فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا وليس بيننا وبين عرفة إلا أربع ليال أهللنا يوم التروية ثم دخل رسول الله على عائشة ا |
● صحيح مسلم | 2940 | جابر بن عبد الله | من لم يكن معه هدي فليحلل قال قلنا أي الحل قال الحل كله قال فأتينا النساء ولبسنا الثياب ومسسنا الطيب لما كان يوم التروية أهللنا بالحج وكفانا الطواف الأول بين الصفا والمروة أمرنا رسول الله أن نشترك في الإبل والبقر كل سبعة من |
● صحيح مسلم | 2941 | جابر بن عبد الله | أمرنا النبي لما أحللنا أن نحرم إذا توجهنا إلى منى |
● صحيح مسلم | 2943 | جابر بن عبد الله | لولا هديي لحللت كما تحلون ولو استقبلت من أمري ما استدبرت لم أسق الهدي فحلوا فحللنا وسمعنا وأطعنا بم أهللت قال بما أهل به النبي فقال له رسول الله فأهد وامكث حراما قال وأهدى له |
● صحيح مسلم | 2944 | جابر بن عبد الله | أحلوا فلولا الهدي الذي معي فعلت كما فعل |
● صحيح مسلم | 2945 | جابر بن عبد الله | أحلوا من إحرامكم فطوفوا بالبيت وبين الصفا والمروة |
● صحيح مسلم | 2946 | جابر بن عبد الله | أمرنا رسول الله أن نجعلها عمرة ونحل قال وكان معه الهدي فلم يستطع أن يجعلها عمرة |
● سنن أبي داود | 1785 | جابر بن عبد الله | يحل منا من لم يكن معه هدي قال فقلنا حل ماذا فقال الحل كله فواقعنا النساء وتطيبنا بالطيب ولبسنا ثيابنا وليس بيننا وبين عرفة إلا أربع ليال ثم أهللنا يوم التروية ثم دخل رسول الله على عائشة فوجدها تبكي فقال ما شأنك قالت شأني أني قد |
● سنن أبي داود | 1788 | جابر بن عبد الله | اجعلوها عمرة إلا من كان معه الهدي لما كان يوم التروية أهلوا بالحج فلما كان يوم النحر قدموا فطافوا بالبيت ولم يطوفوا بين الصفا و المروة |
● سنن أبي داود | 1789 | جابر بن عبد الله | ما أهديت ولولا أن معي الهدي لأحللت |
● سنن النسائى الصغرى | 2744 | جابر بن عبد الله | اللهم إني أهل بما أهل به رسول الله ومعي الهدي قال فلا تحل |
● سنن النسائى الصغرى | 2745 | جابر بن عبد الله | بما أهل به النبي قال فاهد وامكث حراما كما أنت |
● سنن النسائى الصغرى | 2807 | جابر بن عبد الله | أبركم وأتقاكم ولولا الهدي لحللت ولو استقبلت من أمري ما استدبرت |
● سنن النسائى الصغرى | 2713 | جابر بن عبد الله | لم أسق الهدي وجعلتها عمرة فمن لم يكن معه هدي فليحلل وليجعلها عمرة وقدم علي من اليمن بهدي وساق رسول الله من المدينة هديا وإذا فاطمة قد لبست ثيابا صبيغا واكتحلت قال فانطلقت محرشا أستفتي رسول ال |
● سنن النسائى الصغرى | 2997 | جابر بن عبد الله | أحلوا فلولا الهدي الذي معي لفعلت مثل الذي تفعلون |
● سنن النسائى الصغرى | 2875 | جابر بن عبد الله | قدم النبي مكة صبيحة رابعة مضت من ذي الحجة |
● سنن ابن ماجه | 2966 | جابر بن عبد الله | أفرد الحج |
● سنن ابن ماجه | 2967 | جابر بن عبد الله | أفردوا الحج |
● سنن ابن ماجه | 1074 | جابر بن عبد الله | قدم النبي مكة صبح رابعة مضت من شهر ذي الحجة |
● المعجم الصغير للطبراني | 439 | جابر بن عبد الله | قرن رسول الله صلى الله عليه وسلم بين الحج والعمرة ، وطاف لهما طوافا واحدا |
● مسندالحميدي | 1325 | جابر بن عبد الله | أذن في الناس أن رسول الله صلى الله عليه وسلم يريد الحج، فامتلأت المدينة، فخرج رسول الله صلى الله عليه وسلم في زمان الحج، وفي حين الحج، فلما أشرف على البيداء أهل منها، وأهل الناس معه |
● مسندالحميدي | 1330 | جابر بن عبد الله | لو استقبلت من أمري ما استدبرت، ما صنعت الذي صنعت |
مولانا عطا الله ساجد حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابن ماجه، تحت الحديث1074
´جب مسافر کسی مقام پر ٹھہرے تو کتنے دنوں تک قصر کر سکتا ہے؟`
عطاء کہتے ہیں کہ جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما نے مجھ سے میرے ساتھ کئی لوگوں کی موجودگی میں حدیث بیان کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مکہ مکرمہ چار ذی الحجہ کی صبح تشریف لائے۔ [سنن ابن ماجه/كتاب إقامة الصلاة والسنة/حدیث: 1074]
اردو حاشہ:
فائدہ:
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ذوالحجہ کو صبح کے وقت مکہ مکرمہ تشریف فرما ہوئے۔
اور یہاں سے یوم الترویہ (8 ذوالحجہ)
کو منیٰ کی طرف روانہ ہوئے۔
اس میں یہ ارشاد ہے کہ چاردن ٹھرنے کی صورت میں بھی دوگانہ ادا کیاجا سکتا ہے۔
الغرض قصر نماز کےلئے دنوں کے تعین میں یہ روایت پہلی روایت سے زیادہ واضح اور فیصلہ کن ہے۔
واللہ أعلم تاہم دونوں ہی موقف صحیح ہیں۔
سنن ابن ماجہ شرح از مولانا عطا الله ساجد، حدیث\صفحہ نمبر: 1074
الشيخ عمر فاروق سعيدي حفظ الله، فوائد و مسائل، سنن ابي داود ، تحت الحديث 1789
´حج افراد کا بیان۔`
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے صحابہ کرام نے حج کا احرام باندھا ان میں سے اس دن نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور طلحہ رضی اللہ عنہ کے علاوہ کسی کے پاس ہدی کے جانور نہیں تھے اور علی رضی اللہ عنہ یمن سے ساتھ ہدی لے کر آئے تھے تو انہوں نے کہا: میں نے اسی کا احرام باندھا ہے جس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے باندھا ہے، اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے صحابہ کو حکم دیا کہ وہ حج کو عمرہ میں بدل لیں یعنی وہ طواف کر لیں پھر بال کتروا لیں اور پھر احرام کھول دیں سوائے ان لوگوں کے جن کے ساتھ ہدی ہو، تو لوگوں نے عرض کیا: کیا ہم منیٰ کو اس حال میں جائیں کہ ہمارے ذکر منی ٹپکا رہے ہوں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب یہ معلوم ہوا تو آپ نے فرمایا: ”اگر مجھے پہلے سے یہ معلوم ہوتا جو اب معلوم ہوا ہے تو میں ہدی نہ لاتا، اور اگر میرے ساتھ ہدی نہ ہوتا تو میں بھی احرام کھول دیتا۔“ [سنن ابي داود/كتاب المناسك /حدیث: 1789]
1789. اردو حاشیہ:
➊ صحابہ کرام خوب سمجھتے تھے کہ دین و شریعت رسول اللہ ﷺ کی اطاعت ا ور پیروی کانام ہے۔ اسی لیے حضرت علی نے احرام کی نیت میں یہ کہا کہ میرا احرام اور میری نیت وہی ہے جو رسول اللہ ﷺ کی ہے۔
➋ اور دوسری بات (کہ ہم منی کو اس حالت میں جائیں ......)کہنے کی وجہ یہ تھی کہ عبادت چونکہ انسان سے زہد و رغبت الی اللہ کا تقاضا کرتی ہے اور اعمال حج شروع ہونےمیں دو دن باقی تھے تو انہیں کامل حلت کچھ عجیب سی لگی۔ نیز رسول اللہ ﷺ خود بھی تو حلال نہیں ہوئے تھے۔ او روہ رسول اللہ ﷺ کی پیروی کے شائق تھے۔ لیکن رسول اللہ ﷺ نے اپنی مجبوری کی وضاحت کرکے صحابہ کرام کا اشکال دور فرما دیا۔
سنن ابی داود شرح از الشیخ عمر فاروق سعدی، حدیث\صفحہ نمبر: 1789
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 1568
1568. حضرت ابوشہاب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے آیا۔ میری نیت حج تمتع کرنے کی تھی۔ چنانچہ ہم آٹھ ذوالحجہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچے تو مجھے اہل مکہ میں سے چند لوگوں نے کہا کہ تیرا حج تو مکی ہوگا۔ میں حضرت عطاء بن ابی رباح کے پاس آیا تاکہ ان سے مسئلہ دریافت کروں۔ انھوں نے کہا: مجھے جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے۔ دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ”تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام کھول دو اور بال کٹوا دو پھر اسی طرح احرام کے بغیر ٹھہرے رہو۔ جب آٹھویں تاریخ ہوتو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ لو اور جس احرام میں تم آئے تھے اسے تمتع بنالو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہم اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1568]
حدیث حاشیہ:
مکی حج سے یہ مراد ہے کہ مکہ والے جو مکہ ہی سے حج کرتے ہیں ان کو چونکہ تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے لہٰذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملتا۔
ان لوگوں کی غرض یہ تھی کہ جب تمتع کیا اور حج کا احرام مکہ سے باندھا، تو اب حج کا ثواب اتنا نہ ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا جس کا احرام باہر سے باندھا ہوتا۔
جابر ؓ نے یہ حدیث بیان کرکے مکہ والوں کا رد کیا اور ابو شہاب کا شبہ دور کردیا کہ تمتع میں ثواب کم ملے گا۔
تمتع تو سب قسموں میں افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 1568
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:1568
1568. حضرت ابوشہاب سے روایت ہے، انھوں نے کہا: میں مکہ مکرمہ میں عمرے کا احرام باندھے ہوئے آیا۔ میری نیت حج تمتع کرنے کی تھی۔ چنانچہ ہم آٹھ ذوالحجہ سے تین دن پہلے مکہ پہنچے تو مجھے اہل مکہ میں سے چند لوگوں نے کہا کہ تیرا حج تو مکی ہوگا۔ میں حضرت عطاء بن ابی رباح کے پاس آیا تاکہ ان سے مسئلہ دریافت کروں۔ انھوں نے کہا: مجھے جابر بن عبداللہ ؓ نے خبر دی ہے کہ انھوں نے رسول اللہ ﷺ کے ہمراہ حج کیا۔ رسول اللہ ﷺ اس وقت قربانی کے جانور ساتھ لائے تھے۔ دیگر تمام صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے حج مفرد کا احرام باندھا تھا۔ آپ نے ان سے فرمایا: ”تم لوگ کعبہ کا طواف اور صفا مروہ کی سعی کرکے احرام کھول دو اور بال کٹوا دو پھر اسی طرح احرام کے بغیر ٹھہرے رہو۔ جب آٹھویں تاریخ ہوتو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھ لو اور جس احرام میں تم آئے تھے اسے تمتع بنالو۔“ صحابہ کرام رضوان اللہ عنھم اجمعین نے عرض کیا: ہم اسے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [صحيح بخاري، حديث نمبر:1568]
حدیث حاشیہ:
(1)
مکی حج کا مطلب یہ ہے کہ اہل مکہ جو مکہ ہی سے حج کا احرام باندھتے ہیں اس میں تکلیف اور محنت کم ہوتی ہے، لہذا ثواب بھی زیادہ نہیں ملے گا کیونکہ حج کا ثواب تو بقدر مشقت ہوتا ہے۔
ان لوگوں کا مطلب یہ تھا کہ جب حج تمتع کیا اور عمرہ کر کے احرام کھول دیا تو حج کا احرام مکہ سے باندھنا ہو گا، اس طرح حج کا ثواب اتنا نہیں ملے گا جتنا حج مفرد میں ملتا ہے جس کا احرام باہر سے باندھا جاتا ہے۔
عطاء ؒ نے حضرت جابر ؓ کی حدیث بیان کر کے اہل مکہ کا رد کیا جو ابو شہاب کو بلا فیس مشورے دے رہے تھے۔
اس طرح ابو شہاب کا شبہ دور ہو گیا کہ حج تمتع کرنے سے ثواب کم ملتا ہے۔
تمتع تو تمام اقسام حج سے افضل ہے اور اس میں افراد اور قران دونوں سے زیادہ ثواب ملتا ہے، نیز جو شخص حج سے چند دن پہلے عمرہ کرے اسے قصر کرنا (بال کٹوانا)
چاہیے تاکہ دسویں تاریخ تک بال حلق (مونڈنے)
کے قابل ہو جائیں۔
(2)
امام بخاری ؒ نے حدیث کے آخر میں وضاحت کی ہے کہ حضرت عطاء بن ابی رباح کے واسطے سے ابو شہاب کی صرف یہی ایک روایت متصل سند سے مروی ہے، تاہم دوسرے طرق سے اس کی متعدد روایات کتب حدیث میں مروی ہیں۔
(فتح الباري: 544/3)
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 1568