12. باب: آیت کی تفسیر ”بہت جلد بیوقوف لوگ کہنے لگیں گے کہ مسلمانوں کو ان کے پہلے قبلہ سے کس چیز نے پھیر دیا، آپ کہہ دیں کہ اللہ ہی کے لیے سب مشرق و مغرب ہے اور اللہ جسے چاہتا ہے سیدھی راہ کی طرف ہدایت کر دیتا ہے“۔
(12) Chapter. The Statement of Allah: “The fools (pagans, hypocrites and Jews) among the people will say, ’What has turned them (Muslims) from their Qiblah [Salat (prayer) direction (towards Jerusalem)]…’ ” (V.2:142)
حدثنا ابو نعيم، سمع زهيرا , عن ابي إسحاق، عن البراء رضي الله عنه , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صلى إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا او سبعة عشر شهرا، وكان يعجبه ان تكون قبلته قبل البيت، وانه صلى او صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم، فخرج رجل ممن كان صلى معه، فمر على اهل المسجد وهم راكعون، قال: اشهد بالله لقد صليت مع النبي صلى الله عليه وسلم قبل مكة فداروا كما هم قبل البيت، وكان الذي مات على القبلة قبل ان تحول قبل البيت رجال قتلوا لم ندر ما نقول فيهم، فانزل الله: وما كان الله ليضيع إيمانكم إن الله بالناس لرءوف رحيم سورة البقرة آية 143.حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، سَمِعَ زُهَيْرًا , عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْبَرَاءِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ , أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صَلَّى إِلَى بَيْتِ الْمَقْدِسِ سِتَّةَ عَشَرَ شَهْرًا أَوْ سَبْعَةَ عَشَرَ شَهْرًا، وَكَانَ يُعْجِبُهُ أَنْ تَكُونَ قِبْلَتُهُ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَأَنَّهُ صَلَّى أَوْ صَلَّاهَا صَلَاةَ الْعَصْرِ وَصَلَّى مَعَهُ قَوْمٌ، فَخَرَجَ رَجُلٌ مِمَّنْ كَانَ صَلَّى مَعَهُ، فَمَرَّ عَلَى أَهْلِ الْمَسْجِدِ وَهُمْ رَاكِعُونَ، قَالَ: أَشْهَدُ بِاللَّهِ لَقَدْ صَلَّيْتُ مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قِبَلَ مَكَّةَ فَدَارُوا كَمَا هُمْ قِبَلَ الْبَيْتِ، وَكَانَ الَّذِي مَاتَ عَلَى الْقِبْلَةِ قَبْلَ أَنْ تُحَوَّلَ قِبَلَ الْبَيْتِ رِجَالٌ قُتِلُوا لَمْ نَدْرِ مَا نَقُولُ فِيهِمْ، فَأَنْزَلَ اللَّهُ: وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُضِيعَ إِيمَانَكُمْ إِنَّ اللَّهَ بِالنَّاسِ لَرَءُوفٌ رَحِيمٌ سورة البقرة آية 143.
ہم سے ابونعیم نے بیان کیا، کہا میں نے زہیر سے سنا، انہوں نے ابواسحاق سے اور انہوں نے براء بن عازب رضی اللہ عنہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیت المقدس کی طرف رخ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی لیکن آپ چاہتے تھے کہ آپ کا قبلہ بیت اللہ (کعبہ) ہو جائے (آخر ایک دن اللہ کے حکم سے) آپ نے عصر کی نماز (بیت اللہ کی طرف رخ کر کے) پڑھی اور آپ کے ساتھ بہت سے صحابہ رضی اللہ عنہم نے بھی پڑھی۔ جن صحابہ نے یہ نماز آپ کے ساتھ پڑھی تھی، ان میں سے ایک صحابی مدینہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرے۔ اس مسجد میں لوگ رکوع میں تھے، انہوں نے اس پر کہا کہ میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے، تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ اس کے بعد لوگوں نے کہا کہ جو لوگ کعبہ کے قبلہ ہونے سے پہلے انتقال کر گئے، ان کے متعلق ہم کیا کہیں۔ (ان کی نمازیں قبول ہوئیں یا نہیں؟) اس پر یہ آیت نازل ہوئی «وما كان الله ليضيع إيمانكم إن الله بالناس لرءوف رحيم»”اللہ ایسا نہیں کہ تمہاری عبادات کو ضائع کرے، بیشک اللہ اپنے بندوں پر بہت بڑا مہربان اور بڑا رحیم ہے۔“
Narrated Al-Bara: The Prophet prayed facing Bait-ulMaqdis (i.e. Jerusalem) for sixteen or seventeen months but he wished that his Qibla would be the Ka`ba (at Mecca). (So Allah Revealed (2.144) and he offered `Asr prayers(in his Mosque facing Ka`ba at Mecca) and some people prayed with him. A man from among those who had prayed with him, went out and passed by some people offering prayer in another mosque, and they were in the state of bowing. He said, "I, (swearing by Allah,) testify that I have prayed with the Prophet facing Mecca." Hearing that, they turned their faces to the Ka`ba while they were still bowing. Some men had died before the Qibla was changed towards the Ka`ba. They had been killed and we did not know what to say about them (i.e. whether their prayers towards Jerusalem were accepted or not). So Allah revealed:-- "And Allah would never make your faith (i.e. prayer) to be lost (i.e. your prayers offered (towards Jerusalem). Truly Allah is Full of Pity, Most Merciful towards mankind." (2.143)
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 13
صلى إلى بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أو صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن كان صلى معه فمر على أهل المسجد وهم راكعون قال أشهد بالله لقد صليت مع النبي قبل مكة فداروا كما هم
صلى قبل بيت المقدس ستة عشر شهرا أو سبعة عشر شهرا وكان يعجبه أن تكون قبلته قبل البيت وأنه صلى أول صلاة صلاها صلاة العصر وصلى معه قوم فخرج رجل ممن صلى معه فمر على أهل مسجد وهم راكعون فقال أشهد بالله لقد صليت مع رسول الله قبل مكة فداروا كم
صلى نحو بيت المقدس ستة أو سبعة عشر شهرا وكان رسول الله يحب أن يوجه إلى الكعبة فأنزل الله قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام
قدم رسول الله المدينة فصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة
فصلى نحو بيت المقدس ستة عشر شهرا ثم إنه وجه إلى الكعبة فمر رجل قد كان صلى مع النبي على قوم من الأنصار فقال أشهد أن رسول الله قد وجه إلى الكعبة فانحرفوا إلى الكعبة
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 489
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سولہ یا سترہ مہینہ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، یہ شک سفیان کی طرف سے ہے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبلہ (خانہ کعبہ) کی طرف پھیر دئیے گئے۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 489]
489 ۔ اردو حاشیہ: حضرت براء بن عازب رضی اللہ عنہما انصاری صحابی ہیں۔ ظاہر ہے انہوں نے ہجرت تک کے بعد ہی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نمازیں پڑھیں۔ تو حدیث کا مطلب یہ ہوا کہ ہجرت سے سولہ سترہ ماہ بعد تک قبلہ بیت القدس ہی رہا۔ 15رجب یا شعبان 2ہجری میں بیت اللہ کو قبلہ مقرر کیا گیا۔ قبلے سے متعلق تفصیلی احکام و مسائل کے لیے کتاب القبلۃ کا ابتدائی ملاحظہ فرمائیں۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 489
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 490
´قبلہ کی فرضیت کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ آئے تو آپ نے سولہ مہینہ تک بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے، تو ایک آدمی جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کعبہ کی طرف پھیر دئیے گئے ہیں، (لوگوں نے یہ سنا) تو وہ بھی قبلہ کی طرف پھر گئے ۱؎۔ [سنن نسائي/كتاب الصلاة/حدیث: 490]
490 ۔ اردو حاشیہ: ➊انصار کے اس قبیلے کا نام بنوحارثہ تھا۔ ➋انصار کا نماز ہی میں بیت اللہ کی طرف رخ کرنا تمام نمازیوں کے لیے کچھ نہ کچھ حرکات کا باعث بنا کیونکہ بیت اللہ، بیت المقدس سے بالکل مخالف جانب ہے۔ ظاہر ہے امام کو صفیں چیر کر دوسری جانب آنا پڑا اور مقتدیوں کو بھی صفیں بدلنی پڑیں۔ معلوم ہوا کہ نماز کی اصلاح کے لیے جو بھی حرکت کرنی پڑے، وہ نماز کے فساد کا موجب نہیں، قلیل ہو یا کثیر۔ ➌ثابت ہوا کہ خبرواحد حجت ہے۔ ➍کسی حکم کے علم سے قبل اس حکم کا اطلاق نہیں ہوتا کیونکہ تبدیلی قبلہ کا حکم تو اس قبیلے کے نماز شروع کرنے سے قبل آچکا تھا مگر چونکہ ان کو علم نماز کے دوران میں ہوا، لہٰذا پہلے سے پڑھی ہوئی نماز جو دوسرے قبلے کی طرف تھی، فاسد نہیں ہوئی۔ ➎یہ بات اختلافی ہے کہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا بیت المقدس کی طرف نماز پڑھنا وحی سے تھا یا اہل کتاب سے موافقت کی بنا پر۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 490
فوائد ومسائل از الشيخ حافظ محمد امين حفظ الله سنن نسائي تحت الحديث 743
´قبلہ رخ ہونے کا بیان۔` براء بن عازب رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مدینہ تشریف لائے تو آپ نے سولہ ماہ تک بیت المقدس کی جانب نماز پڑھی، پھر آپ خانہ کعبہ کی طرف پھیر دیئے گئے، ایک شخص جو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ نماز پڑھ چکا تھا، انصار کے کچھ لوگوں کے پاس سے گزرا تو اس نے کہا: میں گواہی دیتا ہوں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا رخ کعبہ کی طرف کر دیا گیا ہے، وہ لوگ (یہ سنتے ہی نماز کی حالت میں) کعبہ کی طرف پھر گئے۔ [سنن نسائي/كتاب القبلة/حدیث: 743]
743 ۔ اردو حاشیہ: دیکھیے سنن نسائی حدیث: 489، 490۔
سنن نسائی ترجمہ و فوائد از الشیخ حافظ محمد امین حفظ اللہ، حدیث\صفحہ نمبر: 743
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 2962
´سورۃ البقرہ سے بعض آیات کی تفسیر۔` براء بن عازب رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مکہ سے مدینہ تشریف لے آئے تو سولہ یا سترہ مہینے تک آپ بیت المقدس کی طرف رخ کر کے نماز پڑھتے رہے، حالانکہ آپ کی خواہش یہی تھی کہ قبلہ کعبہ کی طرف کر دیا جائے، تو اللہ نے آپ کی اس خواہش کے مطابق «قد نرى تقلب وجهك في السماء فلنولينك قبلة ترضاها فول وجهك شطر المسجد الحرام»”ہم آپ کے چہرے کو باربار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد الحرام کی طرف پھیر لیں“(البقرہ: ۱۴۴)، پھر آپ کعبہ کی طرف پھیر ۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[سنن ترمذي/كتاب تفسير القرآن/حدیث: 2962]
اردو حاشہ: وضاحت: 1؎: ہم آپﷺ کے چہرے کو بار بار آسمان کی طرف اٹھتے ہوئے دیکھ رہے ہیں، اب ہم آپﷺ کو اس قبلہ کی جانب پھیر دیں گے جس سے آپ خوش ہو جائیں، آپ اپنا منہ مسجد حرام کی طرف پھیر لیں (البقرۃ: 144)
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 2962
مولانا داود راز رحمه الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري: 4486
4486. حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی، البتہ آپ کی خواہش تھی کہ قبلہ، بیت اللہ (کعبہ) ہو جائے۔ بالآخر آپ نے ایک دن نماز عصر (بیت اللہ کی طرف رخ کر کے) پڑھی اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ جن حضرات نے آپ کے ہمراہ یہ نماز پڑھی تھی، ان میں سے ایک شخص مدینہ طیبہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرا تو نمازی مسجد میں بحالت رکوع تھے۔ اس (صحابی) نے کہا: میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر مسجد کے تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ (سلام کے بعد آپس میں) کہنے لگے کہ جو حضرات کعبہ کے قبلہ بننے سے قبل انتقال کر گئے ہیں ان کے متعلق ہم کیا کہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: "اللہ تعالٰی ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان (نمازوں) کو ضائع کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4486]
حدیث حاشیہ: یہ حدیث کتاب الصلٰوۃ میں گذر چکی ہے۔ یعنی اللہ ایسا نہیں کرے گا کہ تمہاری نمازوں کو جو بیت المقدس کی طرف منہ کر کے پڑھی گئی ہیں ضائع کردے، ان کا ثواب نہ دے۔ ہوایہ کہ جب قبلہ بدلاتومشرکین مکہ کہنے لگے کہ اب محمد ﷺ رفتہ رفتہ ہمارے طریقہ پر آچلے ہیں۔ چند روز میں یہ پھر اپنا آبائی دین اختیار کرلیں گے۔ منافق کہنے لگے کہ اگر پہلاقبلہ حق تھا تو یہ دوسرا قبلہ باطل ہے۔ اہل کتاب کہنے لگے اگر یہ سچے پیغمبر ہوتے تو اگلے پیغمبروں کی طرح اپناقبلہ بیت المقدس ہی کو بنا تے۔ اسی قسم کی بیہودہ باتیں بنا نے لگے۔ اس وقت اللہ تعالیٰ نے آیات ﴿سَيَقُولُ السُّفَهَاءُ مِنَ النَّاسِ﴾(البقرہ: 142) کو نازل فرمایا۔ آیت میں لفظ عبادت کو ایمان کہا گیا ہے جس سے اعمال صالحہ اور ایمان میں یکسانیت ثابت ہوتی ہے۔
صحیح بخاری شرح از مولانا داود راز، حدیث\صفحہ نمبر: 4486
الشيخ حافط عبدالستار الحماد حفظ الله، فوائد و مسائل، تحت الحديث صحيح بخاري:4486
4486. حضرت براء ؓ سے روایت ہے کہ نبی ﷺ نے بیت المقدس کی طرف منہ کر کے سولہ یا سترہ مہینے تک نماز پڑھی، البتہ آپ کی خواہش تھی کہ قبلہ، بیت اللہ (کعبہ) ہو جائے۔ بالآخر آپ نے ایک دن نماز عصر (بیت اللہ کی طرف رخ کر کے) پڑھی اور آپ کے ہمراہ صحابہ کرام ؓ بھی تھے۔ جن حضرات نے آپ کے ہمراہ یہ نماز پڑھی تھی، ان میں سے ایک شخص مدینہ طیبہ کی ایک مسجد کے قریب سے گزرا تو نمازی مسجد میں بحالت رکوع تھے۔ اس (صحابی) نے کہا: میں اللہ کا نام لے کر گواہی دیتا ہوں کہ میں نے نبی ﷺ کے ہمراہ مکہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھی ہے۔ یہ سن کر مسجد کے تمام نمازی اسی حالت میں بیت اللہ کی طرف پھر گئے۔ (سلام کے بعد آپس میں) کہنے لگے کہ جو حضرات کعبہ کے قبلہ بننے سے قبل انتقال کر گئے ہیں ان کے متعلق ہم کیا کہیں؟ اس پر یہ آیت نازل ہوئی: "اللہ تعالٰی ایسا نہیں کہ تمہارے ایمان (نمازوں) کو ضائع کر۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔)[صحيح بخاري، حديث نمبر:4486]
حدیث حاشیہ: جب تحویل قبلہ ہوا تو ومشرکین اور منافقین و یہود نے طرح طرح کی باتیں کرنا شروع کردیں۔ مشرکین مکہ کہنے لگے۔ اب محمد (صلی اللہ علیه وسلم) رفتہ رفتہ ہمارے طریقے کو اختیار کر رہے ہیں۔ چند دنوں کے بعد نیا دین چھوڑ کر اپنے آبائی دین کو اختیار کرلیں گے مدینہ طیبہ کے منافقین کہنے لگے۔ اگر پہلا قبلہ صحیح تھا تو دوسرا قبلہ غلط ہے اور اگردوسرا صحیح ہے تو پہلا غلط تھا۔ اسی طرح اہل کتاب کہنے لگے۔ اگر یہ سچے رسول اللہ ﷺ! ہوتے تو پہلے انبیاء ؑ کی طرح بیت المقدس ہی کو قبلہ بناتے۔ اسی طرح یہ سب مل کر بے ہودہ اور فضول باتیں کرنے لگے۔ اللہ تعالیٰ نے ان کی فضول باتوں کے جواب میں یہ آیات نازل فرمائیں۔ "عنقریب بے وقوف لوگ کہیں گے۔ ۔ ۔ "آخر تک۔ (فتح الباري: 215/8) 2۔ واضح رہے کہ آیت کریمہ میں نمازوں کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے جس سے ایمان اور اعمال میں یکسانیت معلوم ہوتی ہے۔ ثابت ہوا کہ ایمان کوئی جامد چیز نہیں جس میں کمی و بیشی نہ ہو بلکہ اطاعت سے اس میں اضافہ اور نافرمانی سے اس میں کمی آجاتی ہے۔ اللہ تعالیٰ نے مذکورہ آیت میں اہل ایمان کوتسلی دی ہے کہ ان کی نمازیں ضائع نہیں ہوئیں بلکہ انھیں ان کی نمازوں کا بھرپور بدلہ دیا جائے گا۔ اس آیت میں نماز کو ایمان سے تعبیر کیا گیا ہے کیونکہ نماز کے بغیر ایمان کی کوئی حیثیت نہیں۔
هداية القاري شرح صحيح بخاري، اردو، حدیث\صفحہ نمبر: 4486