انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حمزہ
(کی لاش) کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ
۱؎ کر دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا:
”اگر صفیہ
(حمزہ کی بہن) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی
(دفن کیے بغیر) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے
“، پھر آپ
صلی اللہ علیہ وسلم نے
«نمر» (ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے دونوں پیروں کی طرف کھینچتے تو سر کھل جاتا۔ مقتولین کی تعداد بڑھ گئی اور کپڑے کم پڑ گئے تھے، چنانچہ ایک ایک دو دو اور تین تین آدمیوں کو ایک کپڑے میں کفنایا جاتا، پھر وہ سب ایک قبر میں دفن کر دیئے جاتے۔ رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم ان کے بارے میں پوچھتے کہ ان میں کس کو قرآن زیادہ یاد تھا تو آپ اسے آگے قبلہ کی طرف کر دیتے، رسول اللہ
صلی اللہ علیہ وسلم نے ان مقتولین کو دفن کیا اور ان پر نماز نہیں پڑھی
۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- انس کی حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے انس کی روایت سے صرف اسی طریق سے جانتے ہیں،
۲- اس حدیث کی روایت میں اسامہ بن زید کی مخالفت کی گئی ہے۔ لیث بن سعد بسند
«عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن كعب بن مالك عن جابر بن عبد الله بن زيد» ۳؎ روایت کی ہے اور معمر نے بسند
«عن الزهري عن عبد الله بن ثعلبة عن جابر» روایت کی ہے۔ ہمارے علم میں سوائے اسامہ بن زید کے کوئی ایسا شخص نہیں ہے جس نے زہری کے واسطے سے انس سے روایت کی ہو،
۳- میں نے محمد بن اسماعیل بخاری سے اس حدیث کے بارے میں پوچھا تو انہوں نے کہا: لیث کی حدیث بسند
«عن ابن شهاب عن عبدالرحمٰن بن كعب بن مالك عن جابر» زیادہ صحیح ہے،
۴- نمرہ: پرانی چادر کو کہتے ہیں۔
الشیخ ڈاکٹر عبد الرحمٰن فریوائی حفظ اللہ، فوائد و مسائل، سنن ترمذی، تحت الحديث 1016
´شہدائے احد اور حمزہ بن عبدالمطلب رضی الله عنہ کا ذکر۔`
انس بن مالک رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم احد کے دن حمزہ (کی لاش) کے پاس آئے۔ آپ اس کے پاس رکے، آپ نے دیکھا کہ لاش کا مثلہ ۱؎ کر دیا گیا ہے۔ آپ نے فرمایا: ”اگر صفیہ (حمزہ کی بہن) اپنے دل میں برا نہ مانتیں تو میں انہیں یوں ہی (دفن کیے بغیر) چھوڑ دیتا یہاں تک کہ درند و پرند انہیں کھا جاتے۔ پھر وہ قیامت کے دن ان کے پیٹوں سے اٹھائے جاتے“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «نمر» (ایک پرانی چادر) منگوائی اور حمزہ کو اس میں کفنایا۔ جب آپ چادر ان کے سر کی طرف کھینچتے تو ان کے دونوں پیر کھل جاتے اور جب ان کے۔۔۔۔ (مکمل حدیث اس نمبر پر پڑھیے۔) [سنن ترمذي/كتاب الجنائز/حدیث: 1016]
اردو حاشہ:
وضاحت:
1؎:
ناک کان اورشرمگاہ وغیرہ کاٹ ڈالنے کومثلہ کہتے ہیں۔
2؎:
جو لوگ اس بات کے قائل ہیں کہ شہید پرجنازہ کی صلاۃ نہیں پڑھی جائیگی ان کااستدلال اسی حدیث سے ہے،
اور جولوگ یہ کہتے ہیں کہ شہید پر صلاۃ جنازہ پڑھی جائے گی وہ اس کی تاویل یہ کر تے ہیں کہ اس کا مطلب ہے کہ آپ نے ان میں سے کسی پراس طرح صلاۃ نہیں پڑھی جیسے حمزہ رضی اللہ عنہ پرکئی بارپڑھی۔
3؎:
تمام نسخوں میں اسی طرح ”جابر بن عبد اللہ بن زید“ ہے جب کہ اس نام کے کسی صحابی کا تذکرہ کسی مصدر میں نہیں ملا،
اور کتب تراجم میں سب نے ”عبدالرحمن بن کعب بن مالک“ کے اساتذہ میں معروف صحابی ”جابر بن عبداللہ بن عمرو بن حرام“ ہی کا لکھا ہے،
نیز ”جابر بن عبداللہ بن عمرو“ ہی کے تلامذہ میں ”عبدالرحمن بن کعب بن مالک“ کا نام آیا ہوا ہے۔
سنن ترمذي مجلس علمي دار الدعوة، نئى دهلى، حدیث\صفحہ نمبر: 1016