تفسير ابن كثير



بہتر عمل کی آزمائش کا نام زندگی ہے ٭٭

اللہ تعالیٰ اپنی تعریف بیان فرما رہا ہے اور خبر دے رہا ہے کہ ” تمام مخلوق پر اسی کا قبضہ ہے جو چاہے کرے۔ کوئی اس کے احکام کو ٹال نہیں سکتا اس کے غلبہ اور حکمت اور عدل کی وجہ سے اس سے کوئی بازپرس بھی نہیں کر سکتا وہ تمام چیزوں پر قدرت رکھنے والا ہے “۔

پھر خود موت و حیات کا پیدا کرنا بیان کر رہا ہے، اس آیت سے ان لوگوں نے استدلال کیا ہے کہ موت ایک وجودی امر ہے کیونکہ وہ بھی پیدا کردہ شدہ ہے، آیت کا مطلب یہ ہے کہ تمام مخلوق کو عدم سے وجود میں لایا تاکہ اچھے اعمال والوں کا امتحان ہو جائے۔

جیسے اور جگہ ہے «‏‏‏‏كَيْفَ تَكْفُرُوْنَ باللّٰهِ وَكُنْتُمْ اَمْوَاتًا فَاَحْيَاكُم» [2-البقرة:28] ‏‏‏‏ ” تم اللہ تعالیٰ کے ساتھ کیوں کفر کرتے ہو؟ تم تو مردہ تھے پھر اس نے تمہیں زندہ کر دیا “ “، پس پہلے حال یعنی عدم کو یہاں بھی موت کہا گیا اس پیدائش کو حیات کہا گیا اسی لیے اس کے بعد ارشاد ہوتا ہے «ثُمَّ يُمِيْتُكُمْ ثُمَّ يُحْيِيْكُمْ» [2-البقرة:28] ‏‏‏‏ ” وہ پھر تمہیں مار ڈالے گا اور پھر زندہ کر دے گا “۔

ابن ابی حاتم میں ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے ہیں کہ بنی آدم موت کی ذلت میں تھے، دنیا کو اللہ تعالیٰ نے حیات کا گھر بنا دیا پھر موت کا اور آخرت کو جزا کا پھر بقا کا قلعہ ۔ لیکن یہی روایت اور جگہ قتادہ رحمہ اللہ کا اپنا قول ہونا بیان کی گئی ہے۔



http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.