وعن عبد الله بن عمر قال: كنا قعودا عند النبي صلى الله عليه وسلم فذكر الفتن فاكثر في ذكرها حتى ذكر فتنة الاحلاس فقال قائل: وما فتنة الاحلاس. قال: هي هرب وحرب ثم فتنة السراء دخنها من تحت قدمي رجل من اهل بيتي يزعم انه مني وليس مني إنما اوليائي المتقون ثم يصطلح الناس على رجل كورك على ضلع ثم فتنة الدهماء لا تدع احدا من هذه الامة إلا لطمته لطمة فإذا قيل: انقضت تمادت يصبح الرجل فيها مؤمنا ويمسي كافرا حتى يصير الناس إلى فسطاطين: فسطاط إيمان لا نفاق فيه وفسطاط نفاق لا إيمان فيه. فإذا كان ذلك فانتظروا الدجال من يومه او من غده. رواه ابو داود وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ قَالَ: كُنَّا قُعُودًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرَ الْفِتَنَ فَأَكْثَرَ فِي ذِكْرِهَا حَتَّى ذَكَرَ فِتْنَةَ الْأَحْلَاسِ فَقَالَ قَائِلٌ: وَمَا فِتْنَةُ الْأَحْلَاسِ. قَالَ: هِيَ هَرَبٌ وَحَرَبٌ ثُمَّ فِتْنَةُ السَّرَّاءِ دَخَنُهَا مِنْ تَحْتِ قَدَمَيْ رَجُلٍ مِنْ أَهْلِ بَيْتِي يَزْعُمُ أَنَّهُ مِنِّي وَلَيْسَ مِنِّي إِنَّمَا أَوْلِيَائِي الْمُتَّقُونَ ثُمَّ يَصْطَلِحُ النَّاسُ عَلَى رَجُلٍ كورك على ضلع ثمَّ فتْنَة الدهماء لَا تَدَعُ أَحَدًا مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ إِلَّا لَطْمَتْهُ لَطْمَةً فَإِذَا قِيلَ: انْقَضَتْ تَمَادَتْ يُصْبِحُ الرَّجُلُ فِيهَا مُؤْمِنًا وَيُمْسِي كَافِرًا حَتَّى يَصِيرَ النَّاسُ إِلَى فُسْطَاطَيْنِ: فُسْطَاطِ إِيمَانٍ لَا نِفَاقَ فِيهِ وَفُسْطَاطِ نِفَاقٍ لَا إِيمَانَ فِيهِ. فَإِذَا كَانَ ذَلِكَ فَانْتَظِرُوا الدَّجَّالَ مِنْ يَوْمِهِ أَوْ من غده. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر تھے کہ آپ نے فتنوں کا ذکر کیا اور آپ نے ان کے متعلق بہت بیان فرمایا حتیٰ کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فتنہ احلاس کا ذکر فرمایا، کسی نے عرض کیا، فتنہ احلاس کیا چیز ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بھاگنا اور لوٹنا ہے، پھر فتنہ خوشحالی ہے اس کا ابھرنا میرے اہل بیت کے ایک آدمی کے پاؤں کے نیچے سے ہو گا، وہ گمان کرے گا کہ وہ مجھ سے ہے، حالانکہ وہ مجھ میں سے نہیں، میرے دوست تو متقی لوگ ہی ہیں، پھر لوگ ایک ایسے شخص (کی امامت و حکمرانی) پر راضی ہو جائیں گے جیسے سرین ایک پسلی پر ہو (یعنی نا اہل شخص کو حکمران بنا لیں گے) پھر فتنہ دہیماء اس امت کے ہر فرد پر اثر انداز ہو گا، جب کہا جائے گا کہ وہ ختم ہو گیا ہے تو وہ دراز ہو جائے گا، اس (فتنے) میں آدمی صبح کے وقت مومن ہو گا تو شام کو کافر حتیٰ کہ لوگ دو گروہوں میں بٹ جائیں گے، ایمان کا گروہ جس میں کوئی نفاق نہیں، اور نفاق کا گروہ جس میں ایمان نہیں، جب یہ صورت ہو تو پھر دجال کا انتظار کرو آج ظاہر ہوا یا کل۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه أبو داود (4242)»