كِتَابُ الْأَضَاحِي کتاب: قربانی کے احکام و مسائل 6. بَابُ: كَمْ تُجْزِئُ مِنَ الْغَنَمِ عَنِ الْبَدَنَةِ باب: ایک اونٹ کے بدلے کتنی بکریوں کی قربانی کافی ہو گی؟
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک شخص آیا، اور اس نے عرض کیا کہ میرے ذمہ ایک اونٹ کی (قربانی) ہے، اور میں اس کی استطاعت بھی رکھتا ہوں، لیکن اونٹ دستیاب نہیں کہ میں اسے خرید سکوں، تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے سات بکریاں خریدنے اور انہیں ذبح کرنے کا حکم دیا۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 5973، ومصباح الزجاجة: 1087)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/311، 312) (ضعیف)» (ابن جریج کی عطاء سے روایت میں ضعف ہے، نیز عطاء نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے نہیں سنا)
قال الشيخ الألباني: ضعيف
رافع بن خدیج رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم لوگ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تہامہ کے ذوالحلیفہ نامی جگہ میں تھے، ہم نے اونٹ اور بکریاں مال غنیمت میں پائیں، پھر لوگوں نے (گوشت کاٹنے میں) عجلت سے کام لیا، اور ہم نے (مال غنیمت) کی تقسیم سے پہلے ہی ہانڈیاں چڑھا دیں، پھر ہمارے پاس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے، اور ہانڈیوں کو الٹ دینے کا حکم دیا، تو وہ الٹ دی گئیں، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر ٹھہرایا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الشرکة 3 (2488)، 16 (2507)، الجہاد 191 (3075)، الذبائح 15 (5498)، 18 (5503)، 23 (5509)، 36 (5543)، 37 (5544)، صحیح مسلم/الأضاحي 4 (1968)، سنن ابی داود/الاضاحي 15 (2821)، سنن الترمذی/الأحکام 5 (1491) 16 (1492)، السیر 40 (1600)، سنن النسائی/الصید والذبائح 17 (4302)، الضحایا 15 (4396)، 26 (4414، 4415)، (تحفة الأشراف: 3561)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/463، 464، 4/140، 142) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس سے یہ نہیں معلوم ہوا کہ قربانی میں اونٹ دس بکریوں کے برابر ہے یعنی ایک اونٹ میں دس آدمی شریک ہو سکتے ہیں، یہ اسحاق بن راہویہ کا قول ہے بلکہ یہ خاص تھا اس موقع سے شاید وہاں کے اونٹ بڑے اور تیار ہوں گے، بکریاں چھوٹی ہوں گی، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک اونٹ کو دس بکریوں کے برابر رکھا۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
|