الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن نسائي کل احادیث 5761 :حدیث نمبر
سنن نسائي
كتاب البيوع
کتاب: خرید و فروخت کے احکام و مسائل
The Book of Financial Transactions
50. بَابُ: بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالذَّهَبِ وَبَيْعِ الذَّهَبِ بِالْفِضَّةِ
باب: چاندی سونے سے اور سونا چاندی سے بیچنے کا بیان۔
Chapter: Selling Silvder For Gold And Selling Gold For Silver
حدیث نمبر: 4582
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) وفيما قرئ علينا احمد بن منيع , قال: حدثنا عباد بن العوام , قال: حدثنا يحيى بن ابي إسحاق , قال: حدثنا عبد الرحمن بن ابي بكرة , عن ابيه , قال:" نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن بيع الفضة بالفضة , والذهب بالذهب , إلا سواء بسواء , وامرنا ان نبتاع الذهب بالفضة كيف شئنا , والفضة بالذهب كيف شئنا".
(مرفوع) وَفِيمَا قُرِئَ عَلَيْنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ , قَالَ: حَدَّثَنَا يَحْيَى بْنُ أَبِي إِسْحَاق , قَالَ: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ أَبِي بَكْرَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ:" نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ بَيْعِ الْفِضَّةِ بِالْفِضَّةِ , وَالذَّهَبِ بِالذَّهَبِ , إِلَّا سَوَاءً بِسَوَاءٍ , وَأَمَرَنَا أَنْ نَبْتَاعَ الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ كَيْفَ شِئْنَا , وَالْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْنَا".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاندی کے بدلے چاندی اور سونے کے بدلے سونا بیچنے سے منع فرمایا، مگر برابر برابر، اور ہمیں حکم دیا کہ چاندی کے بدلے سونا جیسے چاہیں خریدیں اور سونے کے بدلے چاندی جیسے چاہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 77 (2175)، 81 (2182)، صحیح مسلم/البیوع 37 (المساقاة16) (1590)، (تحفة الأشراف: 11681)، مسند احمد (3/38، 39) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی کمی و زیادتی کے ساتھ بشرطیکہ نقدا ہو ادھار نہ ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4583
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرنا محمد بن يحيى بن محمد بن كثير الحراني , قال: حدثنا ابو توبة , قال: حدثنا معاوية بن سلام , عن يحيى بن ابي كثير , عن عبد الرحمن بن ابي بكرة , عن ابيه , قال: نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان نبيع الفضة بالفضة إلا عينا بعين سواء بسواء , ولا نبيع الذهب بالذهب , إلا عينا بعين سواء بسواء , قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" تبايعوا الذهب بالفضة كيف شئتم , والفضة بالذهب كيف شئتم".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ كَثِيرٍ الْحَرَّانِيُّ , قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو تَوْبَةَ , قَالَ: حَدَّثَنَا مُعَاوِيَةُ بْنُ سَلَّامٍ , عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ , عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ أَبِي بَكْرَةَ , عَنْ أَبِيهِ , قَالَ: نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَبِيعَ الْفِضَّةَ بِالْفِضَّةِ إِلَّا عَيْنًا بِعَيْنٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ , وَلَا نَبِيعَ الذَّهَبَ بِالذَّهَبِ , إِلَّا عَيْنًا بِعَيْنٍ سَوَاءً بِسَوَاءٍ , قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" تَبَايَعُوا الذَّهَبَ بِالْفِضَّةِ كَيْفَ شِئْتُمْ , وَالْفِضَّةَ بِالذَّهَبِ كَيْفَ شِئْتُمْ".
ابوبکرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منع فرمایا کہ ہم چاندی کے بدلے چاندی بیچیں مگر نقدا نقد اور برابر برابر، اور سونے کے بدلے سونا بیچیں مگر نقدا نقد اور برابر برابر، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چاندی کے بدلے سونا اور سونے کے بدلے چاندی جیسے چاہو بیچو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی کمی و زیادتی کے ساتھ بشرطیکہ نقداً ہو۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4584
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا عمرو بن علي , قال: حدثنا سفيان , عن عبيد الله بن ابي يزيد , سمع ابن عباس , يقول: حدثني اسامة بن زيد , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا ربا إلا في النسيئة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا عَمْرُو بْنُ عَلِيٍّ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ أَبِي يَزِيدَ , سَمِعَ ابْنَ عَبَّاسٍ , يَقُولُ: حَدَّثَنِي أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا رِبًا إِلَّا فِي النَّسِيئَةِ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ مجھ سے اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود تو صرف ادھار میں ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/البیوع 79 (2178، 2179)، صحیح مسلم/البیوع 39 (المساقاة18) (1596)، سنن ابن ماجہ/التجارات 49 (2257)، (تحفة الأشراف: 94)، مسند احمد (5/200، 202، 204، 206، 209)، سنن الدارمی/البیوع 42 (2622) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یعنی: سونا سونے کے بدلے اور چاندی چاندی کے بدلے، یا اسی طرح ہم جنس غلہ جات کی نقداً خرید و فروخت میں اگر کمی بیشی ہو تو سود نہیں ہے، سود تو اسی وقت ہے جب معاملہ ادھار کا ہو، امام نووی نیز دیگر علماء کہتے ہیں کہ اہل اسلام کا اس بات پر اجماع ہے کہ اس حدیث کے ظاہر پر عمل نہیں ہے، کچھ لوگ اسے منسوخ کہتے ہیں اور کچھ تاویل کرتے ہیں کہ اس سے مراد یہ ہے کہ اجناس مختلفہ میں سود صرف ادھار کی صورت میں ہے، پچھلی حدیثوں میں صراحت ہے کہ تفاضل میں سود ہے، اس لیے حدیث کو منسوخ ماننا ضروری ہے، یا اسامہ رضی اللہ عنہ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے باہم مختلف اجناس کی خرید و فروخت کے بارے میں پوچھا تو آپ نے فرمایا کہ اس میں کوئی حرج نہیں اگر نقداً ہو، سود تو ادھار میں ہے۔ اس حدیث کو منسوخ ماننا، یا یہ تاویل اس لیے بھی ضروری ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما وغیرھم کو تفاضل والی حدیث پہنچ گئی تو انہوں نے اس حدیث کے مطابق فتوی دینے سے رجوع کر لیا (کما حققہ العلماء)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4585
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) اخبرنا قتيبة بن سعيد , قال: حدثنا سفيان , عن عمرو , عن ابي صالح , سمع ابا سعيد الخدري , يقول: قلت لابن عباس: ارايت هذا الذي تقول , اشيئا وجدته في كتاب الله عز وجل , او شيئا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ , قال: ما وجدته في كتاب الله عز وجل , ولا سمعته من رسول الله صلى الله عليه وسلم , ولكن اسامة بن زيد اخبرني , ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" إنما الربا في النسيئة".
(مرفوع) أَخْبَرَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ , عَنْ عَمْرٍو , عَنْ أَبِي صَالِحٍ , سَمِعَ أَبَا سَعِيدٍ الْخُدْرِيَّ , يَقُولُ: قُلْتُ لِابْنِ عَبَّاسٍ: أَرَأَيْتَ هَذَا الَّذِي تَقُولُ , أَشَيْئًا وَجَدْتَهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , أَوْ شَيْئًا سَمِعْتَهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ , قَالَ: مَا وَجَدْتُهُ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ , وَلَا سَمِعْتُهُ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ , وَلَكِنْ أُسَامَةُ بْنُ زَيْدٍ أَخْبَرَنِي , أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" إِنَّمَا الرِّبَا فِي النَّسِيئَةِ".
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے کہا: آپ جو یہ باتیں کہتے ہیں، کیا آپ نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے یا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے؟ تو انہوں نے کہا: نہ تو میں نے انہیں کتاب اللہ (قرآن) میں پایا ہے اور نہ ہی انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا ہے، لیکن اسامہ بن زید رضی اللہ عنہما نے مجھ سے بیان کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سود تو صرف ادھار میں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح) (لیکن یہ حکم منسوخ ہے)»

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 4586
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) اخبرني احمد بن يحيى , عن ابي نعيم , قال: حدثنا حماد بن سلمة , عن سماك بن حرب , عن سعيد بن جبير , عن ابن عمر , قال: كنت ابيع الإبل بالبقيع فابيع بالدنانير وآخذ الدراهم , فاتيت النبي صلى الله عليه وسلم في بيت حفصة , فقلت: يا رسول الله , إني اريد ان اسالك إني ابيع الإبل بالبقيع فابيع بالدنانير وآخذ الدراهم؟ , قال:" لا باس ان تاخذها بسعر يومها , ما لم تفترقا وبينكما شيء".
(مرفوع) أَخْبَرَنِي أَحْمَدُ بْنُ يَحْيَى , عَنْ أَبِي نُعَيْمٍ , قَالَ: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ , عَنْ سِمَاكِ بْنِ حَرْبٍ , عَنْ سَعِيدِ بْنِ جُبَيْرٍ , عَنْ ابْنِ عُمَرَ , قَالَ: كُنْتُ أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ , فَأَتَيْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي بَيْتِ حَفْصَةَ , فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ , إِنِّي أُرِيدُ أَنْ أَسْأَلَكَ إِنِّي أَبِيعُ الْإِبِلَ بِالْبَقِيعِ فَأَبِيعُ بِالدَّنَانِيرِ وَآخُذُ الدَّرَاهِمَ؟ , قَالَ:" لَا بَأْسَ أَنْ تَأْخُذَهَا بِسِعْرِ يَوْمِهَا , مَا لَمْ تَفْتَرِقَا وَبَيْنَكُمَا شَيْءٌ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ میں بقیع میں اونٹ بیچتا، چنانچہ میں دینار سے بیچتا تھا اور درہم لیتا تھا، پھر میں ام المؤمنین حفصہ رضی اللہ عنہا کے گھر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا، تو میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! میں آپ سے کچھ معلوم کرنا چاہتا ہوں، میں بقیع میں اونٹ بیچتا ہوں تو دینار سے بیچتا اور درہم لیتا ہوں؟ آپ نے فرمایا: کوئی حرج نہیں، اگر تم اسی دن کے بھاؤ سے لے لو جب تک کہ جدا نہ ہو اور تمہارے درمیان ایک دوسرے کا کچھ باقی نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/البیوع 14 (3354، 3355)، سنن الترمذی/البیوع 24 (1242)، سنن ابن ماجہ/التجارات51(2262)، (تحفة الأشراف: 7053، 18685)، مسند احمد (2/33، 59، 83، 89، 101، 139، سنن الدارمی/البیوع 43 (2623)، ویأتي عند المؤلف بأرقام: 4587-4589، 4591-4593) (ضعیف) (اس روایت کا مرفوع ہونا ضعیف ہے، صحیح یہ ہے کہ یہ ابن عمر رضی الله عنہما کا اپنا واقعہ ہے، ضعیف ہونے کی وجہ سماک ہیں جو حافظہ کے کمزور ہیں، انہیں اختلاط بھی ہوتا تھا، بس موقوف کو مرفوع بنا دیا جب کہ ان کے دوسرے ساتھیوں نے موقوفاً ہی روایت کی ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.