الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الطهارة عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: طہارت کے احکام و مسائل
The Book on Purification
21. بَابُ مَا جَاءَ فِي الْمَضْمَضَةِ وَالاِسْتِنْشَاقِ
باب: وضو اور غسل میں کلی کرنے اور ناک میں پانی ڈالنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 27
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا حماد بن زيد , وجرير , عن منصور، عن هلال بن يساف، عن سلمة بن قيس، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إذا توضات فانتثر، وإذا استجمرت فاوتر ". قال: وفي الباب عن عثمان , ولقيط بن صبرة , وابن عباس , والمقدام بن معدي كرب , ووائل بن حجر , وابي هريرة. قال ابو عيسى: حديث سلمة بن قيس حسن صحيح، واختلف اهل العلم فيمن ترك المضمضة والاستنشاق، فقالت طائفة منهم: إذا تركهما في الوضوء حتى صلى، اعاد الصلاة وراوا ذلك في الوضوء والجنابة سواء وبه. يقول ابن ابي ليلى , وعبد الله بن المبارك , واحمد , وإسحاق , وقال احمد: الاستنشاق اوكد من المضمضة. قال ابو عيسى: وقالت طائفة من اهل العلم: يعيد في الجنابة ولا يعيد في الوضوء , وهو قول سفيان الثوري وبعض اهل الكوفة، وقالت طائفة: لا يعيد في الوضوء ولا في الجنابة لانهما سنة من النبي صلى الله عليه وسلم، فلا تجب الإعادة على من تركهما في الوضوء ولا في الجنابة , وهو قول مالك , والشافعي في آخرة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ , وَجَرِيرٌ , عَنْ مَنْصُورٍ، عَنْ هِلَالِ بْنِ يَسَافٍ، عَنْ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِذَا تَوَضَّأْتَ فَانْتَثِرْ، وَإِذَا اسْتَجْمَرْتَ فَأَوْتِرْ ". قال: وَفِي الْبَاب عَنْ عُثْمَانَ , وَلَقِيطِ بْنِ صَبِرَةَ , وَابْنِ عَبَّاسٍ , وَالْمِقْدَامِ بْنِ مَعْدِي كَرِبَ , وَوَائِلِ بْنِ حُجْرٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ. قال أبو عيسى: حَدِيثُ سَلَمَةَ بْنِ قَيْسٍ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَاخْتَلَفَ أَهْلُ الْعِلْمِ فِيمَنْ تَرَكَ الْمَضْمَضَةَ وَالِاسْتِنْشَاقَ، فَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْهُمْ: إِذَا تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ حَتَّى صَلَّى، أَعَادَ الصَّلَاةَ وَرَأَوْا ذَلِكَ فِي الْوُضُوءِ وَالْجَنَابَةِ سَوَاءً وَبِهِ. يَقُولُ ابْنُ أَبِي لَيْلَى , وَعَبْدُ اللَّهِ بْنُ الْمُبَارَكِ , وَأَحْمَدُ , وَإِسْحَاق , وقَالَ أَحْمَدُ: الِاسْتِنْشَاقُ أَوْكَدُ مِنَ الْمَضْمَضَةِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَالَتْ طَائِفَةٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ: يُعِيدُ فِي الْجَنَابَةِ وَلَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ , وَهُوَ قَوْلُ سُفْيَانَ الثَّوْرِيِّ وَبَعْضِ أَهْلِ الْكُوفَةِ، وَقَالَتْ طَائِفَةٌ: لَا يُعِيدُ فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ لِأَنَّهُمَا سُنَّةٌ مِنَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَا تَجِبُ الْإِعَادَةُ عَلَى مَنْ تَرَكَهُمَا فِي الْوُضُوءِ وَلَا فِي الْجَنَابَةِ , وَهُوَ قَوْلُ مَالِكٍ , وَالشَّافِعِيِّ فِي آخِرَةٍ.
سلمہ بن قیس رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی الله علیہ وسلم نے فرمایا: جب تم وضو کرو تو ناک جھاڑو اور جب ڈھیلے سے استنجاء کرو تو طاق ڈھیلے لو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- اس باب میں عثمان، لقیط بن صبرہ، ابن عباس، مقدام بن معدیکرب، وائل بن حجر اور ابوہریرہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۲- سلمہ بن قیس والی حدیث حسن صحیح ہے،
۳- جو کلی نہ کرے اور ناک میں پانی نہ چڑھائے اس کے بارے میں اہل علم میں اختلاف ہے: ایک گروہ کا کہنا ہے کہ جب کوئی ان دونوں چیزوں کو وضو میں چھوڑ دے اور نماز پڑھ لے تو وہ نماز کو لوٹائے ۱؎ ان لوگوں کی رائے ہے کہ وضو اور جنابت دونوں میں یہ حکم یکساں ہے، ابن ابی لیلیٰ، عبداللہ بن مبارک، احمد اور اسحاق بن راہویہ یہی کہتے ہیں، امام احمد (مزید) کہتے ہیں کہ ناک میں پانی چڑھانا کلی کرنے سے زیادہ تاکیدی حکم ہے، اور اہل علم کی ایک جماعت کہتی ہے کہ جنابت میں کلی نہ کرنے اور ناک نہ جھاڑنے کی صورت میں نماز لوٹائے اور وضو میں نہ لوٹائے ۲؎ یہ سفیان ثوری اور بعض اہل کوفہ کا قول ہے، ایک گروہ کا کہنا ہے کہ نہ وضو میں لوٹائے اور نہ جنابت میں کیونکہ یہ دونوں چیزیں مسنون ہیں، تو جو انہیں وضو اور جنابت میں چھوڑ دے اس پر نماز لوٹانا واجب نہیں، یہ مالک اور شافعی کا آخری قول ہے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «سنن النسائی/الطہارة 72 (89) سنن ابن ماجہ/الطہارة 44 (406) (تحفة الأشراف: 4556) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ ان کے نزدیک یہ دونوں عمل وضو اور غسل دونوں میں فرض ہیں، ان کی دلیل یہی حدیث ہے، اس میں امر کا صیغہ استعمال ہوا ہے، اور امر کا صیغہ وجوب پر دلالت کرتا ہے، الا یہ کہ کوئی قرینہ ایسا قرینہ موجود ہو جس سے امر کا صیغہ حکم اور وجوب کے معنی سے استحباب کے معنی میں بدل جائے جو ان کے بقول یہاں نہیں ہے، صاحب تحفۃ الاحوذی اسی کے موید ہیں۔
۲؎: ان لوگوں کے یہاں یہ دونوں عمل وضو میں مسنون اور جنابت میں واجب ہیں کیونکہ جنابت میں پاکی میں مبالغہ کا حکم ہے۔
۳؎: یہی جمہور علماء کا قول ہے کیونکہ عطاء کے سوا کسی بھی صحابی یا تابعی سے یہ منقول نہیں ہے کہ وہ بغیر کلی اور ناک جھاڑے پڑھی ہوئی نماز دہرانے کے قائل ہو، گویا یہ مسنون ہوا فرض اور واجب نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (406)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.