الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الصلاة
کتاب: نماز کے احکام و مسائل
The Book on Salat (Prayer)
159. باب مَا جَاءَ فِي الإِشَارَةِ فِي الصَّلاَةِ
باب: نماز میں اشارہ کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 367
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا قتيبة، حدثنا الليث بن سعد، عن بكير بن عبد الله بن الاشج، عن نابل صاحب العباء، عن ابن عمر، عن صهيب، قال: " مررت برسول الله صلى الله عليه وسلم وهو يصلي، فسلمت عليه، فرد إلي إشارة، وقال: لا اعلم، إلا انه قال: إشارة بإصبعه "، قال: وفي الباب عن بلال , وابي هريرة , وانس , وعائشة.(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ الْأَشَجِّ، عَنْ نَابِلٍ صَاحِبِ الْعَبَاءِ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، عَنْ صُهَيْبٍ، قَالَ: " مَرَرْتُ بِرَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ يُصَلِّي، فَسَلَّمْتُ عَلَيْهِ، فَرَدَّ إِلَيَّ إِشَارَةً، وَقَالَ: لَا أَعْلَمُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: إِشَارَةً بِإِصْبَعِهِ "، قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ بِلَالٍ , وَأَبِي هُرَيْرَةَ , وَأَنَسٍ , وَعَائِشَةَ.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما سے روایت ہے کہ صہیب رضی الله عنہ کہتے ہیں: میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس سے گزرا اور آپ نماز پڑھ رہے تھے، میں نے سلام کیا تو آپ نے مجھے اشارے سے جواب دیا، راوی (ابن عمر) کہتے ہیں کہ میرا یہی خیال ہے کہ صہیب نے کہا: آپ نے اپنی انگلی کے اشارے سے جواب دیا ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- صہیب کی حدیث حسن ہے ۲؎،
۲- اس باب میں بلال، ابوہریرہ، انس، ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 170 (925)، سنن النسائی/السہو 6 (1178)، (تحفة الأشراف: 4966)، مسند احمد (4/332)، سنن الدارمی/الصلاة 94 (1401) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث اس بات پر دلالت کرتی ہے کہ نماز میں سلام کا جواب اشارہ سے دینا مشروع ہے، یہی جمہور کی رائے ہے، بعض لوگ اسے ممنوع کہتے ہیں، ان کا کہنا ہے کہ پہلے جائز تھا بعد میں منسوخ ہو گیا، لیکن یہ صحیح نہیں، بلکہ صحیح یہ ہے کہ پہلے نماز میں کلام کرنا جائز تھا تو لوگ سلام کا جواب بھی وعلیکم السلام کہہ کر دیتے تھے، پھر جب نماز میں کلام کرنا ناجائز قرار دے دیا گیا تو وعلیکم السلام کہہ کر سلام کا جواب دینا بھی ناجائز ہو گیا اور اس کے بدلے اشارے سے سلام کا جواب دینا مشروع ہوا، اس اشارے کی نوعیت کے سلسلہ میں احادیث مختلف ہیں، بعض احادیث سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے اپنی انگلی سے اشارہ کیا اور بعض سے معلوم ہوتا ہے کہ آپ نے ہاتھ سے اشارہ کیا اس طرح کہ ہاتھ کی پشت اوپر تھی اور ہتھیلی نیچے تھی، اور بعض احادیث میں ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سر سے اشارہ کیا ان سب سے معلوم ہوا کہ یہ تینوں صورتیں جائز ہیں۔
۲؎: اگلی حدیث نمبر ۳۶۸ کے تحت مولف نے اس حدیث پر حکم لگایا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (858)
حدیث نمبر: 368
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمود بن غيلان، حدثنا وكيع، حدثنا هشام بن سعد، عن نافع، عن ابن عمر، قال: قلت لبلال: كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يرد عليهم حين كانوا يسلمون عليه وهو في الصلاة؟ قال: " كان يشير بيده ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وحديث صهيب حسن لا نعرفه إلا من حديث الليث، عن بكير، وقد روي عن زيد بن اسلم، عن ابن عمر، قال: قلت لبلال: كيف كان النبي صلى الله عليه وسلم يصنع حيث كانوا يسلمون عليه في مسجد بني عمرو بن عوف؟ قال: كان يرد إشارة، وكلا الحديثين عندي صحيح، لان قصة حديث صهيب غير قصة حديث بلال، وإن كان ابن عمر روى عنهما فاحتمل ان يكون سمع منهما جميعا.(مرفوع) حَدَّثَنَا مَحْمُودُ بْنُ غَيْلَانَ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ نَافِعٍ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرُدُّ عَلَيْهِمْ حِينَ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ وَهُوَ فِي الصَّلَاةِ؟ قَالَ: " كَانَ يُشِيرُ بِيَدِهِ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَحَدِيثُ صُهَيْبٍ حَسَنٌ لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ اللَّيْثِ، عَنْ بُكَيْرٍ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ ابْنِ عُمَرَ، قَالَ: قُلْتُ لِبِلَالٍ: كَيْفَ كَانَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَصْنَعُ حَيْثُ كَانُوا يُسَلِّمُونَ عَلَيْهِ فِي مَسْجِدِ بَنِي عَمْرِو بْنِ عَوْفٍ؟ قَالَ: كَانَ يَرُدُّ إِشَارَةً، وَكِلَا الْحَدِيثَيْنِ عِنْدِي صَحِيحٌ، لِأَنَّ قِصَّةَ حَدِيثِ صُهَيْبٍ غَيْرُ قِصَّةِ حَدِيثِ بِلَالٍ، وَإِنْ كَانَ ابْنُ عُمَرَ رَوَى عَنْهُمَا فَاحْتَمَلَ أَنْ يَكُونَ سَمِعَ مِنْهُمَا جَمِيعًا.
عبداللہ بن عمر رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ میں نے بلال رضی الله عنہ سے پوچھا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم صحابہ کو جب وہ سلام کرتے اور آپ نماز میں ہوتے تو کیسے جواب دیتے تھے؟ تو بلال نے کہا: آپ اپنے ہاتھ کے اشارہ سے جواب دیتے تھے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اور صہیب کی حدیث حسن ہے، ہم اسے صرف لیث ہی کی روایت سے جانتے ہیں انہوں نے بکیر سے روایت کی ہے اور یہ زید ابن اسلم سے بھی مروی ہے وہ ابن عمر سے روایت کرتے ہیں کہ میں نے بلال سے پوچھا: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کس طرح جواب دیتے تھے جب لوگ مسجد بنی عمرو بن عوف میں آپ کو سلام کرتے تھے؟ تو انہوں نے جواب دیا کہ آپ اشارے سے جواب دیتے تھے۔ میرے نزدیک دونوں حدیثیں صحیح ہیں، اس لیے کہ صہیب رضی الله عنہ کا قصہ بلال رضی الله عنہ کے قصے کے علاوہ ہے، اگرچہ ابن عمر رضی الله عنہما نے ان دونوں سے روایت کی ہے، تو اس بات کا احتمال ہے کہ انہوں نے دونوں سے سنا ہو۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ الصلاة 170 (925)، (تحفة الأشراف: 2038)، مسند احمد (6/12) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1017)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.