الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
13. باب مَا جَاءَ فِي تَعْجِيلِ الإِفْطَارِ
باب: افطار میں جلدی کرنے کا بیان۔
حدیث نمبر: 699
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عبد الرحمن بن مهدي، عن سفيان، عن ابي حازم ح. قال: واخبرنا ابو مصعب قراءة، عن مالك، عن ابي حازم، عن سهل بن سعد، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا يزال الناس بخير ما عجلوا الفطر ". قال: وفي الباب عن ابي هريرة، وابن عباس، وعائشة، وانس بن مالك. قال ابو عيسى: حديث سهل بن سعد حديث حسن صحيح، وهو الذي اختاره اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم استحبوا تعجيل الفطر، وبه يقول الشافعي، واحمد، وإسحاق.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ح. قَالَ: وأَخْبَرَنَا أَبُو مُصْعَبٍ قِرَاءَةً، عَنْ مَالِكٍ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَزَالُ النَّاسُ بِخَيْرٍ مَا عَجَّلُوا الْفِطْرَ ". قَالَ: وَفِي الْبَاب عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَائِشَةَ، وَأَنَسِ بْنِ مَالِكٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَهُوَ الَّذِي اخْتَارَهُ أَهْلُ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ اسْتَحَبُّوا تَعْجِيلَ الْفِطْرِ، وَبِهِ يَقُولُ الشَّافِعِيُّ، وَأَحْمَدُ، وَإِسْحَاق.
سہل بن سعد رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لوگ برابر خیر میں رہیں گے ۱؎ جب تک کہ وہ افطار میں جلدی کریں گے ۲؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- سہل بن سعد رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ابوہریرہ، ابن عباس، عائشہ اور انس بن مالک رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۳- اور یہی قول ہے جسے صحابہ کرام وغیرہم میں سے اہل علم نے اختیار کیا ہے، ان لوگوں نے افطار میں جلدی کرنے کو مستحب جانا ہے اور اسی کے شافعی، احمد اور اسحاق بن راہویہ بھی قائل ہیں۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الصوم 45 (1957)، (تحفة الأشراف: 4746)، موطا امام مالک/الصیام 3 (6)، مسند احمد (5/337، 339) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح مسلم/الصیام 9 (1098)، وسنن ابن ماجہ/الصیام 24 (1697)، مسند احمد (5/331، 334، 336)، وسنن الدارمی/الصوم 11 (1741) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎: «خیر» سے مراد دین و دنیا کی بھلائی ہے۔
۲؎: افطار میں جلدی کریں گے، کا مطلب یہ نہیں ہے کہ سورج ڈوبنے سے پہلے روزہ کھول لیں گے، بلکہ مطلب یہ ہے کہ سورج ڈوبنے کے بعد روزہ کھولنے میں تاخیر نہیں کریں گے جیسا کہ آج کل احتیاط کے نام پر کیا جاتا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، الإرواء (917)
حدیث نمبر: 700
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا إسحاق بن موسى الانصاري، حدثنا الوليد بن مسلم، عن الاوزاعي، عن قرة بن عبد الرحمن، عن الزهري، عن ابي سلمة، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: قال الله عز وجل: " احب عبادي إلي اعجلهم فطرا ".(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ مُوسَى الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْوَلِيدُ بْنُ مُسْلِمٍ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ، عَنْ قُرَّةَ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ أَبِي سَلَمَةَ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: قَالَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ: " أَحَبُّ عِبَادِي إِلَيَّ أَعْجَلُهُمْ فِطْرًا ".
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ عزوجل فرماتا ہے: مجھے میرے بندوں میں سب سے زیادہ محبوب وہ ہیں جو افطار میں جلدی کرنے والے ہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 15235)، وانظر: مسند احمد (2/238، 329) (ضعیف) (سند میں قرة بن عبدالرحمن کی بہت سے منکر روایات ہیں، نیز ولید بن مسلم مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے)۔»

وضاحت:
۱؎: اس محبت کی وجہ شاید سنت کی متابعت، بدعت سے دور رہنے اور اہل کتاب کی مخالفت ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف، المشكاة (1989)، التعليق الرغيب (2 / 95)، التعليقات الجياد // ضعيف الجامع الصغير (4041) //
حدیث نمبر: 701
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا ابو عاصم، وابو المغيرة، عن الاوزاعي بهذا الإسناد نحوه. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب.(قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَاصِمٍ، وَأَبُو الْمُغِيرَةِ، عَنْ الْأَوْزَاعِيِّ بِهَذَا الْإِسْنَادِ نَحْوَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ.
اس سند سے بھی اوزاعی سے اسی طرح مروی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (ضعیف) (سابقہ حدیث کے رواة اس میں بھی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: **
حدیث نمبر: 702
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمارة بن عمير، عن ابي عطية، قال: دخلت انا ومسروق على عائشة، فقلنا: يا ام المؤمنين رجلان من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم احدهما يعجل الإفطار ويعجل الصلاة، والآخر يؤخر الإفطار ويؤخر الصلاة، قالت: ايهما يعجل الإفطار ويعجل الصلاة؟ قلنا: عبد الله بن مسعود، قالت: هكذا صنع رسول الله صلى الله عليه وسلم، والآخر ابو موسى. قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وابو عطية اسمه مالك بن ابي عامر الهمداني ويقال ابن عامر الهمداني، وابن عامر اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عُمَيْرٍ، عَنْ أَبِي عَطِيَّةَ، قَالَ: دَخَلْتُ أَنَا وَمَسْرُوقٌ عَلَى عَائِشَةَ، فَقُلْنَا: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ رَجُلَانِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَحَدُهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ، وَالْآخَرُ يُؤَخِّرُ الْإِفْطَارَ وَيُؤَخِّرُ الصَّلَاةَ، قَالَتْ: أَيُّهُمَا يُعَجِّلُ الْإِفْطَارَ وَيُعَجِّلُ الصَّلَاةَ؟ قُلْنَا: عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ، قَالَتْ: هَكَذَا صَنَع رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالْآخَرُ أَبُو مُوسَى. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَأَبُو عَطِيَّةَ اسْمُهُ مَالِكُ بْنُ أَبِي عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ وَيُقَالُ ابْنُ عَامِرٍ الْهَمْدَانِيُّ، وَابْنُ عَامِرٍ أَصَحُّ.
ابوعطیہ کہتے ہیں کہ میں اور مسروق دونوں ام المؤمنین عائشہ رضی الله عنہا کے پاس گئے، ہم نے عرض کیا: ام المؤمنین! صحابہ میں سے دو آدمی ہیں، ان میں سے ایک افطار جلدی کرتا ہے اور نماز ۱؎ بھی جلدی پڑھتا ہے اور دوسرا افطار میں تاخیر کرتا ہے اور نماز بھی دیر سے پڑھتا ہے ۲؎ انہوں نے کہا: وہ کون ہے جو افطار جلدی کرتا ہے اور نماز بھی جلدی پڑھتا ہے، ہم نے کہا: وہ عبداللہ بن مسعود ہیں، اس پر انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسی طرح کرتے تھے اور دوسرے ابوموسیٰ ہیں۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ابوعطیہ کا نام مالک بن ابی عامر ہمدانی ہے اور انہیں ابن عامر ہمدانی بھی کہا جاتا ہے۔ اور ابن عامر ہی زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الصوم 9 (1099)، سنن ابی داود/ الصوم 20 (2354)، سنن النسائی/الصیام 23 (2160)، (تحفة الأشراف: 17799)، مسند احمد (6/48) (صحیح) وأخرجہ مسند احمد (6/173) من غیر ہذا الطریق۔»

وضاحت:
۱؎: بظاہر اس سے مراد مغرب ہے اور عموم پربھی اسے محمول کیا جا سکتا ہے اس صورت میں مغرب بھی من جملہ انہی میں سے ہو گی۔
۲؎: پہلے شخص یعنی عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ عزیمت اور سنت پر عمل پیرا تھے اور دوسرے شخص یعنی ابوموسیٰ اشعری جواز اور رخصت پر۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، صحيح أبي داود (2039)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.