الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الصيام عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: روزوں کے احکام و مسائل
The Book on Fasting
60. باب كَرَاهِيَةِ الْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ
باب: روزہ دار کے پچھنا لگوانے کی کراہت کا بیان۔
حدیث نمبر: 774
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن يحيى، ومحمد بن رافع النيسابوري، ومحمود بن غيلان، ويحيى بن موسى، قالوا: حدثنا عبد الرزاق، عن معمر، عن يحيى بن ابي كثير، عن إبراهيم بن عبد الله بن قارظ، عن السائب بن يزيد، عن رافع بن خديج، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " افطر الحاجم والمحجوم ". قال ابو عيسى: وفي الباب عن علي، وسعد، وشداد بن اوس، وثوبان، واسامة بن زيد، وعائشة، ومعقل بن سنان ويقال ابن يسار، وابي هريرة، وابن عباس، وابي موسى، وبلال، وسعد. قال ابو عيسى: وحديث رافع بن خديج حديث حسن صحيح، وذكر عن احمد بن حنبل، انه قال: اصح شيء في هذا الباب حديث رافع بن خديج، وذكر عن علي بن عبد الله، انه قال: اصح شيء في هذا الباب حديث ثوبان، وشداد بن اوس، لان يحيى بن ابي كثير روى عن ابي قلابة الحديثين جميعا، حديث ثوبان، وحديث شداد بن اوس. وقد كره قوم من اهل العلم من اصحاب النبي صلى الله عليه وسلم وغيرهم الحجامة للصائم، حتى ان بعض اصحاب النبي احتجم بالليل، منهم ابو موسى الاشعري، وابن عمر، وبهذا يقول ابن المبارك. قال ابو عيسى: سمعت إسحاق بن منصور، يقول: قال عبد الرحمن بن مهدي: من احتجم وهو صائم فعليه القضاء، قال إسحاق بن منصور: وهكذا قال احمد، وإسحاق. حدثنا الزعفراني، قال: وقال الشافعي: قد روي عن النبي صلى الله عليه وسلم " انه احتجم وهو صائم " وروي عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال: " افطر الحاجم والمحجوم " ولا اعلم واحدا من هذين الحديثين ثابتا، ولو توقى رجل الحجامة وهو صائم كان احب إلي، ولو احتجم صائم لم ار ذلك ان يفطره. قال ابو عيسى: هكذا كان قول الشافعي ببغداد، واما بمصر فمال إلى الرخصة ولم ير بالحجامة للصائم باسا، واحتج بان النبي صلى الله عليه وسلم احتجم في حجة الوداع وهو محرم صائم.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ النَّيْسَابُورِيُّ، ومحمود بن غيلان، ويحيى بن موسى، قَالُوا: حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ مَعْمَرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ أَبِي كَثِيرٍ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ قَارِظٍ، عَنْ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: وَفِي الْبَاب عَنْ عَلِيٍّ، وَسَعْدٍ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، وَثَوْبَانَ، وَأُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، وَعَائِشَةَ، وَمَعْقِلِ بْنِ سِنَانٍ وَيُقَالُ ابْنُ يَسَارٍ، وَأَبِي هُرَيْرَةَ، وَابْنِ عَبَّاسٍ، وَأَبِي مُوسَى، وَبِلَالٍ، وَسَعْدٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: وَحَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَذُكِرَ عَنْ أَحْمَدَ بْنِ حَنْبَلٍ، أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثُ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ، وَذُكِرَ عَنْ عَلِيِّ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، أَنَّهُ قَالَ: أَصَحُّ شَيْءٍ فِي هَذَا الْبَاب حَدِيثُ ثَوْبَانَ، وَشَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ، لِأَنَّ يَحْيَى بْنَ أَبِي كَثِيرٍ رَوَى عَنْ أَبِي قِلَابَةَ الْحَدِيثَيْنِ جَمِيعًا، حَدِيثَ ثَوْبَانَ، وَحَدِيثَ شَدَّادِ بْنِ أَوْسٍ. وَقَدْ كَرِهَ قَوْمٌ مِنْ أَهْلِ الْعِلْمِ مِنْ أَصْحَابِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَغَيْرِهِمُ الْحِجَامَةَ لِلصَّائِمِ، حَتَّى أَنَّ بَعْضَ أَصْحَابِ النَّبِيِّ احْتَجَمَ بِاللَّيْلِ، مِنْهُمْ أَبُو مُوسَى الْأَشْعَرِيُّ، وَابْنُ عُمَرَ، وَبِهَذَا يَقُولُ ابْنُ الْمُبَارَكِ. قَالَ أَبُو عِيسَى: سَمِعْت إِسْحَاق بْنَ مَنْصُورٍ، يَقُولُ: قَالَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ مَهْدِيٍّ: مَنِ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ فَعَلَيْهِ الْقَضَاءُ، قَالَ إِسْحَاق بْنُ مَنْصُورٍ: وَهَكَذَا قَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق. حَدَّثَنَا الزَّعْفَرَانِيُّ، قَالَ: وقَالَ الشَّافِعِيُّ: قَدْ رُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " أَنَّهُ احْتَجَمَ وَهُوَ صَائِمٌ " وَرُوِيَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّهُ قَالَ: " أَفْطَرَ الْحَاجِمُ وَالْمَحْجُومُ " وَلَا أَعْلَمُ وَاحِدًا مِنْ هَذَيْنِ الْحَدِيثَيْنِ ثَابِتًا، وَلَوْ تَوَقَّى رَجُلٌ الْحِجَامَةَ وَهُوَ صَائِمٌ كَانَ أَحَبَّ إِلَيَّ، وَلَوِ احْتَجَمَ صَائِمٌ لَمْ أَرَ ذَلِكَ أَنْ يُفْطِرَهُ. قَالَ أَبُو عِيسَى: هَكَذَا كَانَ قَوْلُ الشَّافِعِيِّ بِبَغْدَادَ، وَأَمَّا بِمِصْرَ فَمَالَ إِلَى الرُّخْصَةِ وَلَمْ يَرَ بِالْحِجَامَةِ لِلصَّائِمِ بَأْسًا، وَاحْتَجَّ بِأَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ احْتَجَمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ وَهُوَ مُحْرِمٌ صَائِمٌ.
رافع بن خدیج رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سینگی (پچھنا) لگانے اور لگوانے والے دونوں کا روزہ نہیں رہا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- رافع بن خدیج رضی الله عنہ کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- احمد بن حنبل کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح رافع بن خدیج کی روایت ہے،
۳- اور علی بن عبداللہ (ابن المدینی) کہتے ہیں کہ اس باب میں سب سے صحیح ثوبان اور شداد بن اوسکی حدیثیں ہیں، اس لیے کہ یحییٰ بن ابی کثیر نے ابوقلابہ سے ثوبان اور شداد بن اوس دونوں کی حدیثوں کی ایک ساتھ روایت کی ہے،
۴- اس باب میں علی، سعد، شداد بن اوس، ثوبان، اسامہ بن زید، عائشہ، معقل بن سنان (ابن یسار بھی کہا جاتا ہے)، ابوہریرہ، ابن عباس، ابوموسیٰ، بلال اور سعد رضی الله عنہم سے بھی احادیث آئی ہیں،
۵- صحابہ کرام وغیرہم میں سے بعض اہل علم نے روزہ دار کے لیے پچھنا لگوانے کو مکروہ قرار دیا ہے، یہاں تک کہ بعض صحابہ نے رات کو پچھنا لگوایا۔ ان میں موسیٰ اشعری، اور ابن عمر بھی ہیں۔ ابن مبارک بھی یہی کہتے ہیں:
۶- عبدالرحمٰن بن مہدی کہتے ہیں کہ جس نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا، اس پر اس کی قضاء ہے، اسحاق بن منصور کہتے ہیں: اسی طرح احمد اور اسحاق بن راہویہ نے بھی کہا ہے،
۷- شافعی کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے روزے کی حالت میں پچھنا لگوایا۔ اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے یہ بھی مروی ہے کہ آپ نے فرمایا: پچھنا لگانے اور لگوانے والے دونوں نے روزہ توڑ دیا، اور میں ان دونوں حدیثوں میں سے ایک بھی صحیح نہیں جانتا، لیکن اگر کوئی روزہ کی حالت میں پچھنا لگوانے سے اجتناب کرے تو یہ مجھے زیادہ محبوب ہے، اور اگر کوئی روزہ دار پچھنا لگوا لے تو میں نہیں سمجھتا کہ اس سے اس کا روزہ ٹوٹ گیا،
۸- بغداد میں شافعی کا بھی یہی قول تھا کہ اس سے روزہ ٹوٹ جاتا ہے۔ البتہ مصر میں وہ رخصت کی طرف مائل ہو گئے تھے اور روزہ دار کے پچھنا لگوانے میں کوئی حرج نہیں سمجھتے تھے۔ ان کی دلیل یہ تھی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے حجۃ الوداع میں احرام کی حالت میں پچھنا لگوایا تھا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 3556) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: گویا ان کا موقف یہ تھا کہ سینگی لگوانے سے روزہ ٹوٹ جانے کا حکم منسوخ ہو گیا ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1679 - 1681)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.