الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب الجنائز عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: جنازہ کے احکام و مسائل
The Book on Jana\'iz (Funerals)
15. باب مَا جَاءَ فِي غُسْلِ الْمَيِّتِ
باب: میت کو غسل دینے کا بیان۔
حدیث نمبر: 990
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا هشيم، اخبرنا خالد، ومنصور، وهشام، فاما خالد، وهشام، فقالا: عن محمد، وحفصة، وقال: منصور: عن محمد، عن ام عطية، قالت: توفيت إحدى بنات النبي صلى الله عليه وسلم، فقال: " اغسلنها وترا ثلاثا او خمسا او اكثر من ذلك إن رايتن، واغسلنها بماء وسدر واجعلن في الآخرة كافورا، او شيئا من كافور، فإذا فرغتن فآذنني "، فلما فرغنا آذناه، فالقى إلينا حقوه، فقال: " اشعرنها به ". قال هشيم: وفي حديث غير هؤلاء ولا ادري ولعل هشاما منهم، قالت: وضفرنا شعرها ثلاثة قرون، قال هشيم: اظنه قال: فالقيناه خلفها، قال هشيم: فحدثنا خالد من بين القوم، عن حفصة، ومحمد، عن ام عطية، قالت: وقال لنا رسول الله صلى الله عليه وسلم: " وابدان بميامنها ومواضع الوضوء " وفي الباب: عن ام سليم. قال ابو عيسى: حديث ام عطية حديث حسن صحيح، والعمل على هذا عند اهل العلم، وقد روي عن إبراهيم النخعي، انه قال: غسل الميت كالغسل من الجنابة، وقال مالك بن انس: ليس لغسل الميت عندنا حد مؤقت وليس لذلك صفة معلومة ولكن يطهر، وقال الشافعي: إنما قال مالك قولا مجملا: يغسل وينقى، وإذا انقي الميت بماء قراح او ماء غيره، اجزا ذلك من غسله، ولكن احب إلي ان يغسل ثلاثا فصاعدا لا يقصر عن ثلاث، لما قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " اغسلنها ثلاثا او خمسا، وإن انقوا في اقل من ثلاث مرات اجزا "، ولا نرى ان قول النبي صلى الله عليه وسلم إنما هو على معنى الإنقاء ثلاثا او خمسا ولم يؤقت، وكذلك قال: الفقهاء وهم اعلم بمعاني الحديث، وقال احمد، وإسحاق: وتكون الغسلات بماء وسدر، ويكون في الآخرة شيء من كافور.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا هُشَيْمٌ، أَخْبَرَنَا خَالِدٌ، وَمَنْصُورٌ، وَهِشَامٌ، فأما خالد، وهشام، فقالا: عَنْ مُحَمَّدٍ، وَحَفْصَةَ، وَقَالَ: مَنْصُورٌ: عَنْ مُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: تُوُفِّيَتْ إِحْدَى بَنَاتِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ: " اغْسِلْنَهَا وِتْرًا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا أَوْ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ إِنْ رَأَيْتُنَّ، وَاغْسِلْنَهَا بِمَاءٍ وَسِدْرٍ وَاجْعَلْنَ فِي الْآخِرَةِ كَافُورًا، أَوْ شَيْئًا مِنْ كَافُورٍ، فَإِذَا فَرَغْتُنَّ فَآذِنَّنِي "، فَلَمَّا فَرَغْنَا آذَنَّاهُ، فَأَلْقَى إِلَيْنَا حِقْوَهُ، فَقَالَ: " أَشْعِرْنَهَا بِهِ ". قَالَ هُشَيْمٌ: وَفِي حَدِيثِ غَيْرِ هَؤُلَاءِ وَلَا أَدْرِي وَلَعَلَّ هِشَامًا مِنْهُمْ، قَالَتْ: وَضَفَّرْنَا شَعْرَهَا ثَلَاثَةَ قُرُونٍ، قَالَ هُشَيْمٌ: أَظُنُّهُ قَالَ: فَأَلْقَيْنَاهُ خَلْفَهَا، قَالَ هُشَيْمٌ: فَحَدَّثَنَا خَالِدٌ مِنْ بَيْنِ الْقَوْمِ، عَنْ حَفْصَةَ، وَمُحَمَّدٍ، عَنْ أُمِّ عَطِيَّةَ، قَالَتْ: وَقَالَ لَنَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " وَابْدَأْنَ بِمَيَامِنِهَا وَمَوَاضِعِ الْوُضُوءِ " وَفِي الْبَاب: عَنْ أُمِّ سُلَيْمٍ. قَالَ أَبُو عِيسَى: حَدِيثُ أُمِّ عَطِيَّةَ حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَالْعَمَلُ عَلَى هَذَا عِنْدَ أَهْلِ الْعِلْمِ، وَقَدْ رُوِيَ عَنْ إِبْرَاهِيمَ النَّخَعِيِّ، أَنَّهُ قَالَ: غُسْلُ الْمَيِّتِ كَالْغُسْلِ مِنَ الْجَنَابَةِ، وقَالَ مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ: لَيْسَ لِغُسْلِ الْمَيِّتِ عِنْدَنَا حَدٌّ مُؤَقَّتٌ وَلَيْسَ لِذَلِكَ صِفَةٌ مَعْلُومَةٌ وَلَكِنْ يُطَهَّرُ، وقَالَ الشَّافِعِيُّ: إِنَّمَا قَالَ مَالِكٌ قَوْلًا مُجْمَلًا: يُغَسَّلُ وَيُنْقَى، وَإِذَا أُنْقِيَ الْمَيِّتُ بِمَاءٍ قَرَاحٍ أَوْ مَاءٍ غَيْرِهِ، أَجْزَأَ ذَلِكَ مِنْ غُسْلِهِ، وَلَكِنْ أَحَبُّ إِلَيَّ أَنْ يُغْسَلَ ثَلَاثًا فَصَاعِدًا لَا يُقْصَرُ عَنْ ثَلَاثٍ، لِمَا قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " اغْسِلْنَهَا ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا، وَإِنْ أَنْقَوْا فِي أَقَلَّ مِنْ ثَلَاثِ مَرَّاتٍ أَجْزَأَ "، وَلَا نَرَى أَنَّ قَوْلَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّمَا هُوَ عَلَى مَعْنَى الْإِنْقَاءِ ثَلَاثًا أَوْ خَمْسًا وَلَمْ يُؤَقِّتْ، وَكَذَلِكَ قَالَ: الْفُقَهَاءُ وَهُمْ أَعْلَمُ بِمَعَانِي الْحَدِيثِ، وقَالَ أَحْمَدُ، وَإِسْحَاق: وَتَكُونُ الْغَسَلَاتُ بِمَاءٍ وَسِدْرٍ، وَيَكُونُ فِي الْآخِرَةِ شَيْءٌ مِنْ كَافُورٍ.
ام عطیہ رضی الله عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی ایک بیٹی ۱؎ کا انتقال ہو گیا تو آپ نے فرمایا: اسے طاق بار غسل دو، تین بار یا پانچ بار یا اس سے زیادہ بار، اگر ضروری سمجھو اور پانی اور بیر کی پتی سے غسل دو، آخر میں کافور ملا لینا، یا فرمایا: تھوڑا سا کافور ملا لینا اور جب تم غسل سے فارغ ہو جاؤ تو مجھے اطلاع دینا، چنانچہ جب ہم (نہلا کر) فارغ ہو گئے، تو ہم نے آپ کو اطلاع دی، آپ نے اپنا تہبند ہماری طرف ڈال دیا اور فرمایا: اسے اس کے بدن سے لپیٹ دو۔ ہشیم کہتے ہیں کہ اور دوسرے لوگوں ۲؎ کی روایتوں میں، مجھے نہیں معلوم شاید ہشام بھی انہیں میں سے ہوں، یہ ہے کہ انہوں نے کہا: اور ہم نے ان کے بالوں کو تین چوٹیوں میں گوندھ دیا۔ ہشیم کہتے ہیں: میرا گمان ہے کہ ان کی روایتوں میں یہ بھی ہے کہ پھر ہم نے ان چوٹیوں کو ان کے پیچھے ڈال دیا ۳؎ ہشیم کہتے ہیں: پھر خالد نے ہم سے لوگوں کے سامنے بیان کیا وہ حفصہ اور محمد سے روایت کر رہے تھے اور یہ دونوں ام عطیہ رضی الله عنہا سے کہ وہ کہتی ہیں کہ ہم سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: پہلے ان کے داہنے سے اور وضو کے اعضاء سے شروع کرنا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- ام عطیہ رضی الله عنہا کی حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس باب میں ام سلیم رضی الله عنہا سے بھی روایت ہے،
۳- اہل علم کا اسی پر عمل ہے،
۴- ابراہیم نخعی کہتے ہیں کہ میت کا غسل غسل جنابت کی طرح ہے،
۵- مالک بن انس کہتے ہیں: ہمارے نزدیک میت کے غسل کی کوئی متعین حد نہیں اور نہ ہی کوئی متعین کیفیت ہے، بس اسے پاک کر دیا جائے گا،
۶- شافعی کہتے ہیں کہ مالک کا قول کہ اسے غسل دیا جائے اور پاک کیا جائے مجمل ہے، جب میت بیری یا کسی اور چیز کے پانی سے پاک کر دیا جائے تو بس اتنا کافی ہے، البتہ میرے نزدیک مستحب یہ ہے کہ اسے تین یا اس سے زیادہ بار غسل دیا جائے۔ تین بار سے کم غسل نہ دیا جائے، اس لیے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے اسے تین بار یا پانچ بار غسل دو، اور اگر لوگ اسے تین سے کم مرتبہ میں ہی پاک صاف کر دیں تو یہ بھی کافی ہے، ہم یہ نہیں سمجھتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا تین یا پانچ بار کا حکم دینا محض پاک کرنے کے لیے ہے، آپ نے کوئی حد مقرر نہیں کی ہے، ایسے ہی دوسرے فقہاء نے بھی کہا ہے۔ وہ حدیث کے مفہوم کو خوب جاننے والے ہیں،
۷- احمد اور اسحاق بن راہویہ کہتے ہیں: ہر مرتبہ غسل پانی اور بیری کی پتی سے ہو گا، البتہ آخری بار اس میں کافور ملا لیں گے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الوضوء 31 (167)، والجنائز 10 (1255)، و11 (1256)، صحیح مسلم/الجنائز 12 (939)، سنن ابی داود/ الجنائز 33 (3144، 3145)، سنن النسائی/الجنائز 31 (1885)، و32 (1886)، (تحفة الأشراف: 18102، و18109، و18111، و18124، 18135) (صحیح) وأخرجہ کل من: صحیح البخاری/الجنائز 8 (1253)، و9 (1254)، و12 (1257)، و13 (1258)، و14 (1260)، و15 (1261)، و16 (1262)، و17 (1263)، صحیح مسلم/الجنائز (المصدرالمذکور)، سنن ابی داود/ الجنائز 33 (3142، 3146، 3147)، سنن النسائی/الجنائز 33 (3142، 3143، 3146، 3147)، سنن النسائی/الجنائز 28 (1882)، و30 (1884)، و33 (1887)، و34 (1888، 1889، 1890)، و35 (1891، 1892)، و36 (1894، 1895)، سنن ابن ماجہ/الجنائز 8 (1458)، موطا امام مالک/الجنائز 1 (2)، مسند احمد (6/407)، من غیر ہذا الوجہ۔»

وضاحت:
۱؎: جمہور کے قول کے مطابق یہ ابوالعاص بن ربیع کی بیوی زینب رضی الله عنہا تھیں، ایک قول یہ ہے کہ عثمان رضی الله عنہ کی اہلیہ ام کلثوم رضی الله عنہا تھیں، صحیح پہلا قول ہی ہے۔
۲؎: یعنی خالد، منصور اور ہشام کے علاوہ دوسرے لوگوں کی روایتوں میں۔
۳؎: اس سے معلوم ہوا کہ عورت کے بالوں کی تین چوٹیاں کر کے انہیں پیچھے ڈال دینا چاہیئے انہیں دو حصوں میں تقسیم کر کے سینے پر ڈالنے کا کوئی ثبوت نہیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، ابن ماجة (1458)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.