الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
8. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَعْرَافِ
باب: سورۃ الاعراف سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3074
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن عبد الرحمن، اخبرنا سليمان بن حرب، حدثنا حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، ان النبي صلى الله عليه وسلم " قرا هذه الآية فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا سورة الاعراف آية 143، قال حماد: هكذا وامسك سليمان بطرف إبهامه على انملة إصبعه اليمنى قال فساخ الجبل: وخر موسى صعقا سورة الاعراف آية 143 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب صحيح، لا نعرفه إلا من حديث حماد بن سلمة.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، أَخْبَرَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ حَرْبٍ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ " قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ فَلَمَّا تَجَلَّى رَبُّهُ لِلْجَبَلِ جَعَلَهُ دَكًّا سورة الأعراف آية 143، قَالَ حَمَّادٌ: هَكَذَا وَأَمْسَكَ سُلَيْمَانُ بِطَرَفِ إِبْهَامِهِ عَلَى أُنْمُلَةِ إِصْبَعِهِ الْيُمْنَى قَالَ فَسَاخَ الْجَبَلُ: وَخَرَّ مُوسَى صَعِقًا سورة الأعراف آية 143 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ صَحِيحٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ.
انس رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی: «فلما تجلى ربه للجبل جعله دكا» جب موسیٰ کے رب نے پہاڑ پر اپنی تجلی ڈالی تو تجلی نے اس کے پرخچ اڑا دیے (الأعراف: ۱۴۳)، حماد (راوی) نے کہا: اس طرح، پھر سلیمان (راوی) نے اپنی داہنی انگلی کے پور پر اپنے انگوٹھے کا کنارا رکھا، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (بس اتنی سی دیر میں) پہاڑ زمین میں دھنس گیا، «وخر موسى صعقا» اور موسیٰ علیہ السلام چیخ مار کر گر پڑے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب صحیح ہے، ہم اسے صرف حماد بن سلمہ کی روایت سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 380) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح ظلال الجنة (480)
حدیث نمبر: 3074M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد الوهاب الوراق البغدادي، حدثنا معاذ بن معاذ، عن حماد بن سلمة، عن ثابت، عن انس، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه هذا حديث حسن.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ الْوَهَّابِ الْوَرَّاقُ الْبَغْدَادِيُّ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ مُعَاذٍ، عَنْ حَمَّادِ بْنِ سَلَمَةَ، عَنْ ثَابِتٍ، عَنْ أَنَسٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ.
اس سند سے معاذ حماد بن سلمہ سے، حماد بن سلمہ نے ثابت سے اور ثابت نے انس کے واسطہ سے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی جیسی حدیث روایت کی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح ظلال الجنة (480)
حدیث نمبر: 3075
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا الانصاري، حدثنا معن، حدثنا مالك بن انس، عن زيد ابن ابي انيسة، عن عبد الحميد بن عبد الرحمن بن زيد بن الخطاب، عن مسلم بن يسار الجهني، ان عمر بن الخطاب سئل عن هذه الآية وإذ اخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم واشهدهم على انفسهم الست بربكم قالوا بلى شهدنا ان تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين سورة الاعراف آية 172، فقال عمر بن الخطاب: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يسال عنها، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله خلق آدم، ثم مسح ظهره بيمينه، فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للجنة وبعمل اهل الجنة يعملون، ثم مسح ظهره فاستخرج منه ذرية، فقال: خلقت هؤلاء للنار وبعمل اهل النار يعملون "، فقال رجل: يا رسول، الله ففيم العمل؟ قال: فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إن الله إذا خلق العبد للجنة استعمله بعمل اهل الجنة حتى يموت على عمل من اعمال اهل الجنة فيدخله الله الجنة، وإذا خلق العبد للنار استعمله بعمل اهل النار حتى يموت على عمل من اعمال اهل النار فيدخله الله النار "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، ومسلم بن يسار لم يسمع من عمر، وقد ذكر بعضهم في هذا الإسناد بين مسلم بن يسار وبين عمر رجلا مجهولا.(قدسي) حَدَّثَنَا الْأَنْصَارِيُّ، حَدَّثَنَا مَعْنٌ، حَدَّثَنَا مَالِكُ بْنُ أَنَسٍ، عَنْ زَيْدِ ابْنِ أَبِي أُنَيْسَةَ، عَنْ عَبْدِ الْحَمِيدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ زَيْدِ بْنِ الْخَطَّابِ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ الْجُهَنِيِّ، أَنَّ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ سُئِلَ عَنْ هَذِهِ الْآيَةِ وَإِذْ أَخَذَ رَبُّكَ مِنْ بَنِي آدَمَ مِنْ ظُهُورِهِمْ ذُرِّيَّتَهُمْ وَأَشْهَدَهُمْ عَلَى أَنْفُسِهِمْ أَلَسْتُ بِرَبِّكُمْ قَالُوا بَلَى شَهِدْنَا أَنْ تَقُولُوا يَوْمَ الْقِيَامَةِ إِنَّا كُنَّا عَنْ هَذَا غَافِلِينَ سورة الأعراف آية 172، فَقَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يُسْأَلُ عَنْهَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ خَلَقَ آدَمَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ بِيَمِينِهِ، فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلْجَنَّةِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ يَعْمَلُونَ، ثُمَّ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَاسْتَخْرَجَ مِنْهُ ذُرِّيَّةً، فَقَالَ: خَلَقْتُ هَؤُلَاءِ لِلنَّارِ وَبِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ يَعْمَلُونَ "، فَقَالَ رَجُلٌ: يَا رَسُولَ، اللَّهِ فَفِيمَ الْعَمَلُ؟ قَالَ: فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِنَّ اللَّهَ إِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلْجَنَّةِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ الْجَنَّةِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ الْجَنَّةِ فَيُدْخِلَهُ اللَّهُ الْجَنَّةَ، وَإِذَا خَلَقَ الْعَبْدَ لِلنَّارِ اسْتَعْمَلَهُ بِعَمَلِ أَهْلِ النَّارِ حَتَّى يَمُوتَ عَلَى عَمَلٍ مِنْ أَعْمَالِ أَهْلِ النَّارِ فَيُدْخِلَهُ اللَّهُ النَّارَ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَمُسْلِمُ بْنُ يَسَارٍ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ عُمَرَ، وَقَدْ ذَكَرَ بَعْضُهُمْ فِي هَذَا الْإِسْنَادِ بَيْنَ مُسْلِمِ بْنِ يَسَارٍ وَبَيْنَ عُمَرَ رَجُلًا مَجْهُولًا.
مسلم بن یسار جہنی سے روایت ہے کہ عمر بن خطاب رضی الله عنہ سے آیت «وإذ أخذ ربك من بني آدم من ظهورهم ذريتهم وأشهدهم على أنفسهم ألست بربكم قالوا بلى شهدنا أن تقولوا يوم القيامة إنا كنا عن هذا غافلين» ۱؎ کا مطلب پوچھا گیا، تو عمر بن خطاب رضی الله عنہ نے کہا: میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنا آپ سے اسی آیت کے بارے میں پوچھا گیا تھا تو آپ نے فرمایا: اللہ نے آدم کو پیدا کیا پھر اپنا داہنا ہاتھ ان کی پیٹھ پر پھیرا اور ان کی ایک ذریت (نسل) کو نکالا، اور کہا: میں نے انہیں جنت کے لیے پیدا کیا ہے اور یہ لوگ جنت ہی کا کام کریں گے، پھر (دوبارہ) ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا اور وہاں سے ایک ذریت (ایک نسل) نکالی اور کہا کہ میں نے انہیں جہنم کے لیے پیدا کیا ہے اور جہنمیوں کا کام کریں گے۔ ایک شخص نے کہا: پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟ اللہ کے رسول! ۲؎ راوی کہتے ہیں: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ جنتی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جنتیوں کے کام میں لگا دیتا ہے یہاں تک کہ وہ جنتیوں کا کام کرتا ہوا مر جاتا ہے تو اللہ اسے جنت میں داخل فرما دیتا ہے۔ اور جب اللہ جہنمی شخص کو پیدا کرتا ہے تو اسے جہنمیوں کے کام میں لگا دیتا ہے، یہاں تک کہ وہ جہنمیوں کا کام کرتا ہوا مرتا ہے تو اللہ اسے جہنم میں داخل کر دیتا ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- مسلم بن یسار نے عمر رضی الله عنہ سے سنا نہیں ہے،
۳- بعض راویوں نے اس اسناد میں مسلم بن یسار اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان کسی غیر معروف راوی کا ذکر کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/ السنة 17 (4703، و4704) (تحفة الأشراف: 10654)، و مسند احمد (1/4
4- 45) (ضعیف) (سند میں مسلم بن یسار اور عمر رضی الله عنہ کے درمیان انقطاع ہے، اور ابوداود وغیرہ کی دوسری سند میں ان دونوں کے درمیان جو نعیم بن ربیعہ راوی ہے وہ مجہول ہے)»

وضاحت:
۱؎: جب تمہارے رب نے بنی آدم کی ذریت کو ان کی صلب سے نکلا اور انہیں کو ان پر (اس بات کا) گواہ بنایا کہ کیا میں تمہارا رب نہیں ہوں؟ لوگوں نے کہا: کیوں نہیں، (آپ ہمارے رب ہیں) ہم اس کے گواہ ہیں۔ (یہ گواہی اس لیے لی ہے کہ) کہیں تم قیامت کے دن یہ کہنے نہ لگو کہ ہمیں تو اس کی کچھ خبر نہیں نہ تھی (الاعراف: ۱۷۲)۔
۲؎: یعنی جب جہنمی اور جنتی کا فیصلہ پہلے ہی کر دیا گیا ہے تو اس کو لامحالہ، چار و ناچار وہیں پہنچنا ہے جہاں بھیجنے کے لیے اللہ نے اسے پیدا فرمایا ہے۔ تو پھر عمل کی کیا ضرورت ہے؟

قال الشيخ الألباني: ضعيف الظلال (196)، الضعيفة (3071) // ضعيف الجامع الصغير (1602) //
حدیث نمبر: 3076
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما خلق الله آدم مسح ظهره فسقط من ظهره كل نسمة هو خالقها من ذريته إلى يوم القيامة، وجعل بين عيني كل إنسان منهم وبيصا من نور، ثم عرضهم على آدم، فقال: اي رب من هؤلاء؟ قال: هؤلاء ذريتك، فراى رجلا منهم فاعجبه وبيص ما بين عينيه، فقال: اي رب من هذا؟، فقال: هذا رجل من آخر الامم من ذريتك يقال له: داود، فقال: رب كم جعلت عمره؟، قال: ستين سنة، قال: اي رب زده من عمري اربعين سنة، فلما قضي عمر آدم جاءه ملك الموت، فقال: اولم يبق من عمري اربعون سنة؟، قال: اولم تعطها ابنك داود، قال: فجحد آدم، فجحدت ذريته، ونسي آدم فنسيت ذريته، وخطئ آدم فخطئت ذريته "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد روي من غير وجه عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم.(قدسي) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نُعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا خَلَقَ اللَّهُ آدَمَ مَسَحَ ظَهْرَهُ فَسَقَطَ مِنْ ظَهْرِهِ كُلُّ نَسَمَةٍ هُوَ خَالِقُهَا مِنْ ذُرِّيَّتِهِ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ، وَجَعَلَ بَيْنَ عَيْنَيْ كُلِّ إِنْسَانٍ مِنْهُمْ وَبِيصًا مِنْ نُورٍ، ثُمَّ عَرَضَهُمْ عَلَى آدَمَ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَؤُلَاءِ؟ قَالَ: هَؤُلَاءِ ذُرِّيَّتُكَ، فَرَأَى رَجُلًا مِنْهُمْ فَأَعْجَبَهُ وَبِيصُ مَا بَيْنَ عَيْنَيْهِ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ مَنْ هَذَا؟، فَقَالَ: هَذَا رَجُلٌ مِنْ آخِرِ الْأُمَمِ مِنْ ذُرِّيَّتِكَ يُقَالُ لَهُ: دَاوُدُ، فَقَالَ: رَبِّ كَمْ جَعَلْتَ عُمْرَهُ؟، قَالَ: سِتِّينَ سَنَةً، قَالَ: أَيْ رَبِّ زِدْهُ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعِينَ سَنَةً، فَلَمَّا قُضِيَ عُمْرُ آدَمَ جَاءَهُ مَلَكُ الْمَوْتِ، فَقَالَ: أَوَلَمْ يَبْقَ مِنْ عُمْرِي أَرْبَعُونَ سَنَةً؟، قَالَ: أَوَلَمْ تُعْطِهَا ابْنَكَ دَاوُدَ، قَالَ: فَجَحَدَ آدَمُ، فَجَحَدَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَنُسِّيَ آدَمُ فَنُسِّيَتْ ذُرِّيَّتُهُ، وَخَطِئَ آدَمُ فَخَطِئَتْ ذُرِّيَّتُهُ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رُوِيَ مِنْ غَيْرِ وَجْهٍ عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ نے آدم کو پیدا کیا اور ان کی پیٹھ پر ہاتھ پھیرا تو اس سے ان کی اولاد کی وہ ساری روحیں باہر آ گئیں جنہیں وہ قیامت تک پیدا کرنے والا ہے۔ پھر ان میں سے ہر انسان کی آنکھوں کی بیچ میں نور کی ایک ایک چمک رکھ دی، پھر انہیں آدم کے سامنے پیش کیا، تو آدم نے کہا: میرے رب! کون ہیں یہ لوگ؟ اللہ نے کہا: یہ تمہاری ذریت (اولاد) ہیں، پھر انہوں نے ان میں ایک ایسا شخص دیکھا جس کی دونوں آنکھوں کے درمیان کی چمک انہیں بہت اچھی لگی، انہوں نے کہا: اے میرے رب! یہ کون ہے؟ اللہ نے فرمایا: تمہاری اولاد کی آخری امتوں میں سے ایک فرد ہے۔ اسے داود کہتے ہیں: انہوں نے کہا: میرے رب! اس کی عمر کتنی رکھی ہے؟ اللہ نے کہا: ساٹھ سال، انہوں نے کہا: میرے رب! میری عمر میں سے چالیس سال لے کر اس کی عمر میں اضافہ فرما دے، پھر جب آدم کی عمر پوری ہو گئی، ملک الموت ان کے پاس آئے تو انہوں نے کہا: کیا میری عمر کے چالیس سال ابھی باقی نہیں ہیں؟ تو انہوں نے کہا: کیا تو نے اپنے بیٹے داود کو دے نہیں دیئے تھے؟ آپ نے فرمایا: تو آدم نے انکار کیا، چنانچہ ان کی اولاد بھی انکاری بن گئی۔ آدم بھول گئے تو ان کی اولاد بھی بھول گئی۔ آدم نے غلطی کی تو ان کی اولاد بھی خطاکار بن گئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- یہ حدیث کئی سندوں سے ابوہریرہ رضی الله عنہ کے واسطہ سے اور نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے آئی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12325) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: الظلال (206)، تخريج الطحاوية (220 و 221)
حدیث نمبر: 3077
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن المثنى، حدثنا عبد الصمد بن عبد الوارث، حدثنا عمر بن إبراهيم، عن قتادة، عن الحسن، عن سمرة بن جندب، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لما حملت حواء طاف بها إبليس وكان لا يعيش لها ولد، فقال: سميه عبد الحارث فسمته عبد الحارث فعاش، وكان ذلك من وحي الشيطان وامره "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن غريب لا نعرفه مرفوعا إلا من حديث عمر بن إبراهيم، عن قتادة، ورواه بعضهم عن عبد الصمد ولم يرفعه، عمر بن إبراهيم شيخ بصري.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى، حَدَّثَنَا عَبْدُ الصَّمَدِ بْنُ عَبْدِ الْوَارِثِ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، عَنِ الْحَسَنِ، عَنْ سَمُرَةَ بْنِ جُنْدُبٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمَّا حَمَلَتْ حَوَّاءُ طَافَ بِهَا إِبْلِيسُ وَكَانَ لَا يَعِيشُ لَهَا وَلَدٌ، فَقَالَ: سَمِّيهِ عَبْدَ الْحَارِثِ فَسَمَّتْهُ عَبْدَ الْحَارِثِ فَعَاشَ، وَكَانَ ذَلِكَ مِنْ وَحْيِ الشَّيْطَانِ وَأَمْرِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مَرْفُوعًا إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ بْنِ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ قَتَادَةَ، وَرَوَاهُ بَعْضُهُمْ عَنْ عَبْدِ الصَّمَدِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، عُمَرُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ شَيْخٌ بَصْرِيٌّ.
سمرہ بن جندب رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب حواء حاملہ ہوئیں تو ان کے پاس شیطان آیا، ان کے بچے جیتے نہ تھے، تو اس نے کہا: (اب جب تیرا بچہ پیدا ہو) تو اس کا نام عبدالحارث رکھ، چنانچہ حواء نے اس کا نام عبدالحارث ہی رکھا تو وہ جیتا رہا۔ ایسا انہوں نے شیطانی وسوسے اور اس کے مشورے سے کیا تھا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن غریب ہے۔ ہم اسے مرفوع صرف عمر بن ابراہیم کی روایت سے جانتے ہیں اور وہ قتادہ سے روایت کرتے ہیں،
۲- بعض راویوں نے یہ حدیث عبدالصمد سے روایت کی ہے، لیکن اسے مرفوع نہیں کیا ہے،
۳- عمر بن ابراہیم بصریٰ شیخ ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 4604) (ضعیف) (حسن بصری مدلس ہیں اور روایت عنعنہ سے ہے، اور حسن کا سمرہ رضی الله عنہ سے سماع میں سخت اختلاف ہے، اور عمر بن ابراہیم کی قتادہ سے روایت میں اضطراب پایا جاتا ہے، ملاحظہ ہو: الضعیفة رقم 342)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف، الضعيفة (342) // ضعيف الجامع الصغير (4769) //
حدیث نمبر: 3078
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا ابو نعيم، حدثنا هشام بن سعد، عن زيد بن اسلم، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لما خلق آدم " الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا أَبُو نَعَيْمٍ، حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ سَعْدٍ، عَنْ زَيْدٍ بْنِ أَسْلَمَ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللهِ صَلَّى اللهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَمَّا خُلِقَ آَدَمُ " الْحَدِيثُ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب آدم پیدا کئے گئے … (آگے) پوری حدیث بیان کی۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 3076 (صحیح) (حدیث پہلے گزری)۔»

قال الشيخ الألباني: *

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.