الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
9. باب وَمِنْ سُورَةِ الأَنْفَالِ
باب: سورۃ الانفال سے بعض آیات کی تفسیر​۔
حدیث نمبر: 3079
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو كريب، حدثنا ابو بكر بن عياش، عن عاصم بن بهدلة، عن مصعب بن سعد، عن ابيه، قال: لما كان يوم بدر جئت بسيف، فقلت: يا رسول الله، إن الله قد شفى صدري من المشركين او نحو هذا، هب لي هذا السيف، فقال: " هذا ليس لي ولا لك "، فقلت: عسى ان يعطى هذا من لا يبلي بلائي، فجاءني الرسول فقال: " إنك سالتني وليس لي وإنه قد صار لي وهو لك، قال: فنزلت يسالونك عن الانفال سورة الانفال آية 1 "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وقد رواه سماك بن حرب، عن مصعب بن سعد ايضا، وفي الباب، عن عبادة بن الصامت.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو كُرَيْبٍ، حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ عَيَّاشٍ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ بَهْدَلَةَ، عَنْ مُصْعَبِ بْنِ سَعْدٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ جِئْتُ بِسَيْفٍ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِنَّ اللَّهَ قَدْ شَفَى صَدْرِي مِنَ الْمُشْرِكِينَ أَوْ نَحْوَ هَذَا، هَبْ لِي هَذَا السَّيْفَ، فَقَالَ: " هَذَا لَيْسَ لِي وَلَا لَكَ "، فَقُلْتُ: عَسَى أَنْ يُعْطَى هَذَا مَنْ لَا يُبْلِي بَلَائِي، فَجَاءَنِي الرَّسُولُ فَقَالَ: " إِنَّكَ سَأَلْتَنِي وَلِيس لِي وَإِنَّهُ قَدْ صَارَ لِي وَهُوَ لَكَ، قَالَ: فَنَزَلَتْ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الأَنْفَالِ سورة الأنفال آية 1 "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَقَدْ رَوَاه سِمَاكُ بْنُ حَرْبٍ، عَنْ مُصْعَبٍ بْنِ سَعْدٍ أَيْضًا، وَفِي الْبَابِ، عَنْ عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ.
سعد بن ابی وقاص رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جنگ بدر کے دن میں ایک تلوار لے کر (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس) پہنچا۔ میں نے کہا: اللہ کے رسول! اللہ نے میرا سینہ مشرکین سے ٹھنڈا کر دیا (یعنی انہیں خوب مارا) یہ کہا یا ایسا ہی کوئی اور جملہ کہا (راوی کو شک ہو گیا) آپ یہ تلوار مجھے عنایت فرما دیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ نہ میری ہے اور نہ تیری ۱؎، میں نے (جی میں) کہا ہو سکتا ہے یہ ایسے شخص کو مل جائے جس نے میرے جیسا کارنامہ جنگ میں نہ انجام دیا ہو، (میں حسرت و یاس میں ڈوبا ہوا آپ کے پاس سے اٹھ کر چلا آیا) تو (میرے پیچھے) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا قاصد آیا اور اس نے (آپ کی طرف سے) کہا: تم نے مجھ سے تلوار مانگی تھی، تب وہ میری نہ تھی اور اب وہ (بحکم الٰہی) میرے اختیار میں آ گئی ہے ۲؎، تو اب وہ تمہاری ہے (میں اسے تمہیں دیتا ہوں) راوی کہتے ہیں، اسی موقع پر «يسألونك عن الأنفال» ۳؎ والی آیت نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- اس حدیث کو سماک بن حرب نے بھی مصعب سے روایت کیا ہے،
۳- اس باب میں عبادہ بن صامت سے بھی روایت ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 12 (1748)، سنن ابی داود/ الجھاد 156 (2740) (تحفة الأشراف: 3930) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: کیونکہ یہ ابھی ایسے مال غنیمت میں سے ہے جس کی تقسیم ابھی نہیں ہوئی ہے، تو کیسے تم کو دے دوں۔
۲؎: کیونکہ اب تقسیم میں (بطور خمس کے) وہ میرے حصے میں آ گئی ہے۔
۳؎: یہ لوگ آپ سے غنیمتوں کا حکم پوچھتے ہیں (الأنفال: ۱)۔

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، صحيح أبي داود (2747)
حدیث نمبر: 3080
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، حدثنا عبد الرزاق، عن إسرائيل، عن سماك، عن عكرمة، عن ابن عباس، قال: لما فرغ رسول الله صلى الله عليه وسلم من بدر قيل له: عليك العير ليس دونها شيء، قال: فناداه العباس وهو في وثاقه لا يصلح، وقال:" لان الله وعدك إحدى الطائفتين وقد اعطاك ما وعدك "، قال: صدقت، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ، عَنْ إِسْرَائِيلَ، عَنْ سِمَاكٍ، عَنْ عِكْرِمَةَ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ، قَالَ: لَمَّا فَرَغَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ بَدْرٍ قِيلَ لَهُ: عَلَيْكَ الْعِيرَ لَيْسَ دُونَهَا شَيْءٌ، قَالَ: فَنَادَاهُ الْعَبَّاسُ وَهُوَ فِي وَثَاقِهِ لَا يَصْلُحُ، وَقَالَ:" لِأَنَّ اللَّهَ وَعَدَكَ إِحْدَى الطَّائِفَتَيْنِ وَقَدْ أَعْطَاكَ مَا وَعَدَكَ "، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
عبداللہ بن عباس رضی الله عنہما کہتے ہیں کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنگ بدر سے نمٹ چکے تو آپ سے کہا گیا (شام سے آتا ہوا) قافلہ آپ کی زد اور نشانے پر ہے، اس پر غالب آنے میں کوئی چیز مانع اور رکاوٹ نہیں ہے۔ تو عباس نے آپ کو پکارا، اس وقت وہ (قیدی تھے) زنجیروں میں بندھے ہوئے تھے، اور کہا: آپ کا یہ اقدام (اگر آپ نے ایسا کیا) تو درست نہ ہو گا، اور درست اس لیے نہ ہو گا کہ اللہ نے آپ سے دونوں گروہوں (قافلہ یا لشکر) میں سے کسی ایک پر فتح و غلبہ کا وعدہ کیا تھا ۱؎ اور اللہ نے آپ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا کر دیا ہے، آپ نے فرمایا: تم سچ کہتے ہو۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔
۱؎: یہ اللہ تعالیٰ کا قول: «وإذ يعدكم الله إحدى الطائفتين أنها لكم» (الانفال: ۷) کی طرف اشارہ ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 612) (ضعیف الإسناد) (سماک کی عکرمہ سے روایت میں سخت اضطراب پایا جاتا ہے)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
حدیث نمبر: 3081
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار، حدثنا عمر بن يونس اليمامي، حدثنا عكرمة بن عمار، حدثنا ابو زميل، حدثنا عبد الله بن عباس، حدثنا عمر بن الخطاب، قال: " نظر نبي الله صلى الله عليه وسلم إلى المشركين وهم الف واصحابه ثلاث مائة وبضعة عشر رجلا، فاستقبل نبي الله صلى الله عليه وسلم القبلة ثم مد يديه وجعل يهتف بربه: اللهم انجز لي ما وعدتني، اللهم آتني ما وعدتني، اللهم إن تهلك هذه العصابة من اهل الإسلام لا تعبد في الارض، فما زال يهتف بربه مادا يديه مستقبل القبلة حتى سقط رداؤه من منكبيه، فاتاه ابو بكر فاخذ رداءه فالقاه على منكبيه ثم التزمه من ورائه، فقال: يا نبي الله كفاك مناشدتك ربك إنه سينجز لك ما وعدك فانزل الله تبارك وتعالى إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم اني ممدكم بالف من الملائكة مردفين سورة الانفال آية 9 فامدهم الله بالملائكة "، قال: هذا حديث حسن صحيح غريب لا نعرفه من حديث عمر إلا من حديث عكرمة بن عمار، عن ابي زميل، وابو زميل اسمه سماك الحنفي، وإنما كان هذا يوم بدر.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ يُونُسَ الْيَمَامِيُّ، حَدَّثَنَا عِكْرِمَةُ بْنُ عَمَّارٍ، حَدَّثَنَا أَبُو زُمَيْلٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عبَّاسٍ، حَدَّثَنَا عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ، قَالَ: " نَظَرَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْمُشْرِكِينَ وَهُمْ أَلْفٌ وَأَصْحَابُهُ ثَلَاثُ مِائَةٍ وَبِضْعَةُ عَشَرَ رَجُلًا، فَاسْتَقْبَلَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الْقِبْلَةَ ثُمَّ مَدَّ يَدَيْهِ وَجَعَلَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ: اللَّهُمَّ أَنْجِزْ لِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ آتِنِي مَا وَعَدْتَنِي، اللَّهُمَّ إِنْ تُهْلِكْ هَذِهِ الْعِصَابَةَ مِنْ أَهْلِ الْإِسْلَامِ لَا تُعْبَدُ فِي الْأَرْضِ، فَمَا زَالَ يَهْتِفُ بِرَبِّهِ مَادًّا يَدَيْهِ مُسْتَقْبِلَ الْقِبْلَةِ حَتَّى سَقَطَ رِدَاؤُهُ مِنْ مَنْكِبَيْهِ، فَأَتَاهُ أَبُو بَكْرٍ فَأَخَذَ رِدَاءَهُ فَأَلْقَاهُ عَلَى مَنْكِبَيْهِ ثُمَّ الْتَزَمَهُ مِنْ وَرَائِهِ، فَقَالَ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ كَفَاكَ مُنَاشَدَتَكَ رَبَّكَ إِنَّهُ سَيُنْجِزُ لَكَ مَا وَعَدَكَ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِذْ تَسْتَغِيثُونَ رَبَّكُمْ فَاسْتَجَابَ لَكُمْ أَنِّي مُمِدُّكُمْ بِأَلْفٍ مِنَ الْمَلائِكَةِ مُرْدِفِينَ سورة الأنفال آية 9 فَأَمَدَّهُمُ اللَّهُ بِالْمَلَائِكَةِ "، قَالَ: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ لَا نَعْرِفُهُ مِنْ حَدِيثِ عُمَرَ إِلَّا مِنْ حَدِيثِ عِكْرِمَةَ بْنِ عَمَّارٍ، عَنْ أَبِي زُمَيْلٍ، وَأَبُو زُمَيْلٍ اسْمُهُ سِمَاكٌ الْحَنَفِيُّ، وَإِنَّمَا كَانَ هَذَا يَوْمَ بَدْرٍ.
عمر بن خطاب رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ (جنگ بدر کے موقع پر) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے (مشرکین مکہ پر) ایک نظر ڈالی، وہ ایک ہزار تھے اور آپ کے صحابہ تین سو دس اور کچھ (کل ۳۱۳) تھے۔ پھر آپ قبلہ رخ ہو گئے اور اپنے دونوں ہاتھ اللہ کے حضور پھیلا دیئے اور اپنے رب کو پکارنے لگے: اے میرے رب! مجھ سے اپنا کیا ہوا وعدہ پورا فرما دے، جو کچھ تو نے مجھے دینے کا وعدہ فرمایا ہے، اسے عطا فرما دے، اے میرے رب! اگر اہل اسلام کی اس مختصر جماعت کو تو نے ہلاک کر دیا تو پھر زمین پر تیری عبادت نہ کی جا سکے گی۔ آپ قبلہ کی طرف منہ کیے ہوئے اپنے دونوں ہاتھ پھیلائے ہوئے اپنے رب کے سامنے گڑگڑاتے رہے یہاں تک کہ آپ کی چادر آپ کے دونوں کندھوں پر سے گر پڑی۔ پھر ابوبکر رضی الله عنہ نے آ کر آپ کی چادر اٹھائی اور آپ کے کندھوں پر ڈال کر پیچھے ہی سے آپ سے لپٹ کر کہنے لگے۔ اللہ کے نبی! بس، کافی ہے آپ کی اپنے رب سے اتنی ہی دعا۔ اللہ نے آپ سے جو وعدہ کر کھا ہے وہ اسے پورا کرے گا (ان شاءاللہ) پھر اللہ نے یہ آیت نازل فرمائی «إذ تستغيثون ربكم فاستجاب لكم أني ممدكم بألف من الملائكة مردفين» ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے،
۲- عمر رضی الله عنہ کی اس حدیث کو صرف عکرمہ بن عمار کی روایت سے جانتے ہیں۔ جسے وہ ابوزمیل سے روایت کرتے ہیں۔ ابوزمیل کا نام سماک حنفی ہے۔ ایسا بدر کے دن ہوا ۲؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الجھاد 18 (1763) (تحفة الأشراف: 10496)، و مسند احمد (1/30) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یاد کرو اس وقت کو جب تم اپنے رب سے فریاد رسی چاہتے تھے تو اللہ نے تمہاری درخواست قبول کر لی، اور فرمایا: میں تمہاری ایک ہزار فرشتوں سے مدد کروں گا وہ پیہم یکے بعد دیگرے آتے رہیں گے، تو اللہ نے ان کی فرشتوں سے مدد کی۔ (الأنفال: ۹)
۲؎: یعنی فرشتوں کے ذریعہ مسلمانوں کی مدد کا واقعہ بدر کے دن پیش آیا۔

قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 3082
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سفيان بن وكيع، حدثنا ابن نمير، عن إسماعيل بن إبراهيم بن مهاجر، عن عباد بن يوسف، عن ابي بردة بن ابي موسى، عن ابيه، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " انزل الله علي امانين لامتي وما كان الله ليعذبهم وانت فيهم سورة الانفال آية 33 وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون سورة الانفال آية 33 فإذا مضيت تركت فيهم الاستغفار إلى يوم القيامة "، هذا حديث غريب، وإسماعيل بن مهاجر يضعف في الحديث.(مرفوع) حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ وَكِيعٍ، حَدَّثَنَا ابْنُ نُمَيْرٍ، عَنْ إِسْمَاعِيل بْنِ إِبْرَاهِيمَ بْنِ مُهَاجِرٍ، عَنْ عَبَّادِ بْنِ يُوسُفَ، عَنْ أَبِي بُرْدَةَ بْنِ أَبِي مُوسَى، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " أَنْزَلَ اللَّهُ عَلَيَّ أَمَانَيْنِ لِأُمَّتِي وَمَا كَانَ اللَّهُ لِيُعَذِّبَهُمْ وَأَنْتَ فِيهِمْ سورة الأنفال آية 33 وَمَا كَانَ اللَّهُ مُعَذِّبَهُمْ وَهُمْ يَسْتَغْفِرُونَ سورة الأنفال آية 33 فَإِذَا مَضَيْتُ تَرَكْتُ فِيهِمُ الِاسْتِغْفَارَ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ "، هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ، وَإِسْمَاعِيلُ بْنُ مُهَاجِرٍ يُضَعَّفُ فِي الْحَدِيثِ.
ابوموسیٰ اشعری رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے لیے اللہ نے مجھ پر دو امان نازل فرمائے ہیں (ایک) «وما كان الله ليعذبهم وأنت فيهم» تمہارے موجود رہتے ہوئے اللہ انہیں عذاب سے دوچار نہ کرے گا (الأنفال: ۳۳)، (دوسرا) «وما كان الله معذبهم وهم يستغفرون» دوسرے جب وہ توبہ و استغفار کرتے رہیں گے تو بھی ان پر اللہ عذاب نازل نہ کرے گا (الأنفال: ۳۳)، اور جب میں (اس دنیا سے) چلا جاؤں گا تو ان کے لیے دوسرا امان استغفار قیامت تک چھوڑ جاؤں گا۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث غریب ہے۔
۲- اسماعیل بن مہاجر حدیث میں ضعیف مانے جاتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 9109) (ضعیف الإسناد) (سند میں اسماعیل بن ابراہیم بن مہاجر ضعیف راوی ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد // ضعيف الجامع الصغير (1341) //
حدیث نمبر: 3083
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن منيع، حدثنا وكيع، عن اسامة بن زيد، عن صالح بن كيسان، عن رجل لم يسمه، عن عقبة بن عامر، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قرا هذه الآية على المنبر: واعدوا لهم ما استطعتم من قوة سورة الانفال آية 60، قال: الا إن القوة الرمي ثلاث مرات، الا إن الله سيفتح لكم الارض وستكفون المؤنة فلا يعجزن احدكم ان يلهو باسهمه "، قال ابو عيسى: وقد روى بعضهم هذا الحديث عن اسامة بن زيد، عن صالح بن كيسان، عن عقبة بن عامر، رواه ابو اسامة، وغير واحد، وحديث وكيع اصح، وصالح بن كيسان لم يدرك عقبة بن عامر وقد ادرك ابن عمر.(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ مَنِيعٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ رَجُلٍ لَمْ يُسَمِّهِ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ هَذِهِ الْآيَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ: وَأَعِدُّوا لَهُمْ مَا اسْتَطَعْتُمْ مِنْ قُوَّةٍ سورة الأنفال آية 60، قَالَ: أَلَا إِنَّ الْقُوَّةَ الرَّمْيُ ثَلَاثَ مَرَّاتٍ، أَلَا إِنَّ اللَّهَ سَيَفْتَحُ لَكُمُ الْأَرْضَ وَسَتُكْفَوْنَ الْمُؤْنَةَ فَلَا يَعْجِزَنَّ أَحَدُكُمْ أَنْ يَلْهُوَ بِأَسْهُمِهِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: وَقَدْ رَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنْ أُسَامَةَ بْنِ زَيْدٍ، عَنْ صَالِحِ بْنِ كَيْسَانَ، عَنْ عُقْبَةَ بْنِ عَامِرٍ، رَوَاهُ أَبُو أُسَامَةَ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ، وَحَدِيثُ وَكِيعٍ أَصَحُّ، وَصَالِحُ بْنُ كَيْسَانَ لَمْ يُدْرِكْ عُقْبَةَ بْنَ عَامِرٍ وَقَدْ أَدْرَكَ ابْنَ عُمَرَ.
عقبہ بن عامر رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر آیت: «وأعدوا لهم ما استطعتم من قوة» تم کافروں کے مقابلے کے لیے جتنی قوت فراہم کر سکتے ہو کرو (الانفال: ۶۰) پڑھی، اور فرمایا: «قوة» سے مراد تیر اندازی ہے۔ آپ نے یہ بات تین بار کہی، سنو عنقریب اللہ تمہیں زمین پر فتح دیدے گا۔ اور تمہیں مستغنی اور بے نیاز کر دے گا۔ تو ایسا ہرگز نہ ہو کہ تم میں سے کوئی بھی (نیزہ بازی اور) تیر اندازی سے عاجز و غافل ہو جائے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- بعض نے یہ حدیث اسامہ بن زید سے روایت کی ہے اور اسامہ نے صالح بن کیسان سے روایت کی ہے،
۲- ابواسامہ نے اور کئی لوگوں نے اسے عقبہ بن عامر سے روایت کیا ہے،
۳- وکیع کی حدیث زیادہ صحیح ہے،
۴- صالح بن کیسان کی ملاقات عقبہ بن عامر سے نہیں ہے، ہاں ان کی ملاقات ابن عمر سے ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإمارة 52 (1917)، سنن ابی داود/ الجھاد 24 (2514)، سنن ابن ماجہ/الجھاد 19 (2813) (تحفة الأشراف: 9975)، و مسند احمد (4/157)، وسنن الدارمی/الجھاد 14 (2448) (صحیح) (سند میں ایک راوی مبہم ہے جو دوسروں کی سند میں نہیں ہے، لیکن متابعات کی بنا پر مؤلف کی یہ روایت صحیح لغیرہ ہے)»

قال الشيخ الألباني: حسن صحيح، ابن ماجة (2813)
حدیث نمبر: 3084
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا هناد، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن عمرو بن مرة، عن ابي عبيدة بن عبد الله، عن عبد الله بن مسعود، قال: لما كان يوم بدر وجيء بالاسارى، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " ما تقولون في هؤلاء الاسارى؟ فذكر في الحديث قصة طويلة، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " لا ينفلتن منهم احد إلا بفداء او ضرب عنق "، قال عبد الله بن مسعود: فقلت: يا رسول الله، إلا سهيل ابن بيضاء فإني قد سمعته يذكر الإسلام، قال: فسكت رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: فما رايتني في يوم اخوف ان تقع علي حجارة من السماء مني في ذلك اليوم، قال: حتى قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " إلا سهيل بن بيضاء "، قال: ونزل القرآن بقول عمر: ما كان لنبي ان يكون له اسرى حتى يثخن في الارض سورة الانفال آية 67 إلى آخر الآيات "، قال ابو عيسى: هذا حديث حسن، وابو عبيدة بن عبد الله لم يسمع من ابيه.(مرفوع) حَدَّثَنَا هَنَّادٌ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ عَمْرِو بْنِ مُرَّةَ، عَنْ أَبِي عُبَيْدَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مَسْعُودٍ، قَالَ: لَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَجِيءَ بِالْأَسَارَى، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَا تَقُولُونَ فِي هَؤُلَاءِ الْأَسَارَى؟ فَذَكَرَ فِي الْحَدِيثِ قِصَّةً طَوِيلَةً، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " لَا يَنْفَلِتَنَّ مِنْهُمْ أَحَدٌ إِلَّا بِفِدَاءٍ أَوْ ضَرْبِ عُنُقٍ "، قَالَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْعُودٍ: فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، إِلَّا سُهَيْلَ ابْنَ بَيْضَاءَ فَإِنِّي قَدْ سَمِعْتُهُ يَذْكُرُ الْإِسْلَامَ، قَالَ: فَسَكَتَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: فَمَا رَأَيْتُنِي فِي يَوْمٍ أَخْوَفَ أَنْ تَقَعَ عَلَيَّ حِجَارَةٌ مِنَ السَّمَاءِ مِنِّي فِي ذَلِكَ الْيَوْمِ، قَالَ: حَتَّى قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " إِلَّا سُهَيْلَ بْنَ بَيْضَاءِ "، قَالَ: وَنَزَلَ الْقُرْآنُ بِقَوْلِ عُمَرَ: مَا كَانَ لِنَبِيٍّ أَنْ يَكُونَ لَهُ أَسْرَى حَتَّى يُثْخِنَ فِي الأَرْضِ سورة الأنفال آية 67 إِلَى آخِرِ الْآيَاتِ "، قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ، وَأَبُو عُبَيْدَةَ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ لَمْ يَسْمَعْ مِنْ أَبِيهِ.
عبداللہ بن مسعود رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ جب بدر کی لڑائی ہوئی اور قیدی پکڑ کر لائے گئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قیدیوں کے بارے میں تم لوگ کیا کہتے ہو؟ پھر راوی نے حدیث میں اصحاب رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے مشوروں کا طویل قصہ بیان کیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بغیر فدیہ کے کسی کو نہ چھوڑا جائے، یا اس کی گردن اڑا دی جائے۔ عبداللہ بن مسعود کہتے ہیں: میں نے کہا: اللہ کے رسول! سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر، اس لیے کہ میں نے انہیں اسلام کی باتیں کرتے ہوئے سنا ہے، (مجھے توقع ہے کہ وہ ایمان لے آئیں گے) یہ سن کر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم خاموش رہے، تو میں نے اس دن اتنا خوف محسوس کیا کہ کہیں مجھ پر پتھر نہ برس پڑیں، اس سے زیادہ کسی دن بھی میں نے اپنے کو خوف زدہ نہ پایا ۱؎، بالآخر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: سہیل بن بیضاء کو چھوڑ کر، اور عمر رضی الله عنہ کی تائید میں «ما كان لنبي أن يكون له أسرى حتى يثخن في الأرض» کسی نبی کے لیے یہ مناسب اور سزاوار نہیں ہے کہ اس کے پاس قیدی ہوں جب تک کہ وہ پورے طور پر خوں ریزی نہ کر لے (الأنفال: ۶۷)، والی آیت آخر تک نازل ہوئی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن ہے،
۲- ابوعبیدہ نے اپنے باپ عبداللہ بن مسعود سے سنا نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم 1714 (ضعیف) (سند میں ابو عبیدہ کا اپنے باپ سے سماع نہیں ہے)»

وضاحت:
۱؎: آپ کی خاموشی میرے لیے پریشانی کا باعث تھی کہ کہیں میری بات آپ کو ناگوار نہ لگی ہو۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف مضى (1767) // (288 / 1783) //
حدیث نمبر: 3085
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، اخبرني معاوية بن عمرو، عن زائدة، عن الاعمش، عن ابي صالح، عن ابي هريرة، عن النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " لم تحل الغنائم لاحد سود الرءوس من قبلكم كانت تنزل نار من السماء فتاكلها "، قال سليمان الاعمش: فمن يقول هذا إلا ابو هريرة الآن، فلما كان يوم بدر وقعوا في الغنائم قبل ان تحل لهم فانزل الله تعالى: لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما اخذتم عذاب عظيم سورة الانفال آية 68، قال 12 ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب من حديث الاعمش.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، أَخْبَرَنِي مُعَاوِيَةُ بْنُ عَمْرٍو، عَنْ زَائِدَةَ، عَنِ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " لَمْ تَحِلَّ الْغَنَائِمُ لِأَحَدٍ سُودِ الرُّءُوسِ مِنْ قَبْلِكُمْ كَانَتْ تَنْزِلُ نَارٌ مِنَ السَّمَاءِ فَتَأْكُلُهَا "، قَالَ سُلَيْمَانُ الْأَعْمَشُ: فَمَنْ يَقُولُ هَذَا إِلَّا أَبُو هُرَيْرَةَ الْآنَ، فَلَمَّا كَانَ يَوْمُ بَدْرٍ وَقَعُوا فِي الْغَنَائِمِ قَبْلَ أَنْ تَحِلَّ لَهُمْ فَأَنْزَلَ اللَّهُ تَعَالَى: لَوْلا كِتَابٌ مِنَ اللَّهِ سَبَقَ لَمَسَّكُمْ فِيمَا أَخَذْتُمْ عَذَابٌ عَظِيمٌ سورة الأنفال آية 68، قَالَ 12 أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ مِنْ حَدِيثِ الْأَعْمَشِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم مسلمانوں سے پہلے کسی کالے بالوں والے (مراد ہے انسان) کے لیے اموال غنیمت حلال نہ تھے، آسمان سے ایک آگ آتی اور غنائم کو کھا جاتی (بھسم کر دیتی) سلیمان اعمش کہتے ہیں: اسے ابوہریرہ کے سوا اور کون کہہ سکتا ہے اس وقت؟ بدر کی لڑائی کے وقت مسلمانوں کا حال یہ ہوا کہ قبل اس کے کہ اموال غنیمت تقسیم کر کے ہر ایک کو دے کر ان کے لیے حلال کر دی جاتیں وہ لوگ اموال غنیمت پر ٹوٹ پڑے۔ اس وقت اللہ نے یہ آیت «لولا كتاب من الله سبق لمسكم فيما أخذتم عذاب عظيم» اگر پہلے سے تمہارے حق میں اللہ کی جانب سے لکھا نہ جا چکا ہو تاکہ تمہیں غنائم ملیں گے تو تمہیں تمہارے اس کے لینے کے سبب سے بڑا عذاب پہنچتا (الأنفال: ۶۸) نازل فرمائی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث اعمش کی روایت سے حسن صحیح غریب ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12378)، وانظر صحیح مسلم/الجھاد 11 (1747)، و مسند احمد (2/252، 317، 318) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الصحيحة (2155)

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.