الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
33. باب وَمِنْ سُورَةِ السَّجْدَةِ
باب: سورۃ السجدہ سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3196
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا حدثنا عبد الله بن ابي زياد، حدثنا عبد العزيز بن عبد الله الاويسي، عن سليمان بن بلال، عن يحيى بن سعيد، عن انس بن مالك، ان هذه الآية: تتجافى جنوبهم عن المضاجع سورة السجدة آية 16 نزلت في انتظار الصلاة التي تدعى العتمة ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح غريب، لا نعرفه إلا من هذا الوجه.(موقوف) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي زِيَادٍ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الْأُوَيْسِيُّ، عَنْ سُلَيْمَانَ بْنِ بِلَالٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ هَذِهِ الْآيَةَ: تَتَجَافَى جُنُوبُهُمْ عَنِ الْمَضَاجِعِ سورة السجدة آية 16 نَزَلَتْ فِي انْتِظَارِ الصَّلَاةِ الَّتِي تُدْعَى الْعَتَمَةَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ غَرِيبٌ، لَا نَعْرِفُهُ إِلَّا مِنْ هَذَا الْوَجْهِ.
انس بن مالک رضی الله عنہ سے روایت ہے کہ یہ آیت «تتجافى جنوبهم عن المضاجع» ان کے پہلو خواب گاہوں سے جدا رہتے ہیں (السجدۃ: ۱۶)، اس نماز کا انتظار کرنے والوں کے حق میں اتری ہے جسے رات کی پہلی تہائی کی نماز کہتے ہیں، یعنی نماز عشاء ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح غریب ہے، اس حدیث کو ہم صرف اسی سند سے جانتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 1662) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: یہ حدیث صحیح ہے، تو اسی کے مطابق اس سے مراد عشاء کی نماز لینی چاہیئے، (بعض لوگوں نے اس سے مراد تہجد کی نماز کو لیا ہے)۔

قال الشيخ الألباني: صحيح، التعليق الرغيب (1 / 160)
حدیث نمبر: 3197
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(قدسي) حدثنا حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان، عن ابي الزناد، عن الاعرج، عن ابي هريرة يبلغ به النبي صلى الله عليه وسلم، قال: " قال الله تعالى: اعددت لعبادي الصالحين ما لا عين رات، ولا اذن سمعت، ولا خطر على قلب بشر، وتصديق ذلك في كتاب الله عز وجل: فلا تعلم نفس ما اخفي لهم من قرة اعين جزاء بما كانوا يعملون سورة السجدة آية 17 ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح.(قدسي) حَدَّثَنَا حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، عَنْ أَبِي الزِّنَادِ، عَنِ الْأَعْرَجِ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ يَبْلُغُ بِهِ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: " قَالَ اللَّهُ تَعَالَى: أَعْدَدْتُ لِعِبَادِيَ الصَّالِحِينَ مَا لَا عَيْنٌ رَأَتْ، وَلَا أُذُنٌ سَمِعَتْ، وَلَا خَطَرَ عَلَى قَلْبِ بَشَرٍ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ: فَلا تَعْلَمُ نَفْسٌ مَا أُخْفِيَ لَهُمْ مِنْ قُرَّةِ أَعْيُنٍ جَزَاءً بِمَا كَانُوا يَعْمَلُونَ سورة السجدة آية 17 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ نے فرمایا ہے: میں نے اپنے نیک صالح بندوں کے لیے ایسی چیز تیار کی ہے جسے کسی آنکھ نے نہ دیکھا ہے نہ کسی کان نے سنا ہے نہ کسی کے دل میں اس کا خیال گزرا ہے، اس کی تصدیق کتاب اللہ (قرآن) کی اس آیت «فلا تعلم نفس ما أخفي لهم من قرة أعين جزاء بما كانوا يعملون» کوئی شخص نہیں جانتا جو ہم نے ان کے (صالح) اعمال کے بدلے ان کی آنکھوں کی ٹھنڈک (کے لیے) پوشیدہ رکھ رکھی ہے (السجدۃ: ۱۶)، سے ہوتی ہے۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
یہ حدیث حسن صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 8 (3244)، وتفسیرسورة السجدة 1 (4779، 4780)، والتوحید 35 (7498)، صحیح مسلم/الجنسة 1 (2824) (تحفة الأشراف: 13675) (صحیح)»

قال الشيخ الألباني: صحيح، الروض النضير (1106)
حدیث نمبر: 3198
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابن ابي عمر، حدثنا سفيان عن مطرف بن طريف، وعبد الملك وهو ابن ابجر، سمعا الشعبي، يقول: سمعت المغيرة بن شعبة على المنبر، يرفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، يقول: " إن موسى عليه السلام سال ربه، فقال: اي رب، اي اهل الجنة ادنى منزلة؟ قال: رجل ياتي بعدما يدخل اهل الجنة الجنة، فيقال له: ادخل الجنة، فيقول: كيف ادخل وقد نزلوا منازلهم واخذوا اخذاتهم؟ قال: فيقال له: اترضى ان يكون لك ما كان لملك من ملوك الدنيا؟ فيقول: نعم، اي رب قد رضيت، فيقال له: فإن لك هذا ومثله ومثله ومثله، فيقول: رضيت اي رب، فيقال له: فإن لك هذا وعشرة امثاله، فيقول: رضيت اي رب، فيقال له: فإن لك مع هذا ما اشتهت نفسك ولذت عينك ". قال ابو عيسى: هذا حديث حسن صحيح، وروى بعضهم هذا الحديث عن الشعبي، عن المغيرة ولم يرفعه، والمرفوع اصح.(مرفوع) حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عُمَرَ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ عَنْ مُطَرِّفِ بْنِ طَرِيفٍ، وَعَبْدِ الْمَلِكِ وَهُوَ ابْنُ أَبْجَرَ، سَمِعَا الشَّعْبِيَّ، يَقُولُ: سَمِعْتُ الْمُغِيرَةَ بْنَ شُعْبَةَ عَلَى الْمِنْبَرِ، يَرْفَعُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ: " إِنَّ مُوسَى عَلَيْهِ السَّلَام سَأَلَ رَبَّهُ، فَقَالَ: أَيْ رَبِّ، أَيُّ أَهْلِ الْجَنَّةِ أَدْنَى مَنْزِلَةً؟ قَالَ: رَجُلٌ يَأْتِي بَعْدَمَا يَدْخُلُ أَهْلُ الْجَنَّةِ الْجَنَّةَ، فَيُقَالُ لَهُ: ادْخُلِ الْجَنَّةَ، فَيَقُولُ: كَيْفَ أَدْخُلُ وَقَدْ نَزَلُوا مَنَازِلَهُمْ وَأَخَذُوا أَخَذَاتِهِمْ؟ قَالَ: فَيُقَالُ لَهُ: أَتَرْضَى أَنْ يَكُونَ لَكَ مَا كَانَ لِمَلِكٍ مِنْ مُلُوكِ الدُّنْيَا؟ فَيَقُولُ: نَعَمْ، أَيْ رَبِّ قَدْ رَضِيتُ، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ هَذَا وَمِثْلَهُ وَمِثْلَهُ وَمِثْلَهُ، فَيَقُولُ: رَضِيتُ أَيْ رَبِّ، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ هَذَا وَعَشْرَةَ أَمْثَالِهِ، فَيَقُولُ: رَضِيتُ أَيْ رَبِّ، فَيُقَالُ لَهُ: فَإِنَّ لَكَ مَعَ هَذَا مَا اشْتَهَتْ نَفْسُكَ وَلَذَّتْ عَيْنُكَ ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ حَسَنٌ صَحِيحٌ، وَرَوَى بَعْضُهُمْ هَذَا الْحَدِيثَ عَنِ الشَّعْبِيِّ، عَنِ الْمُغِيرَةِ وَلَمْ يَرْفَعْهُ، وَالْمَرْفُوعُ أَصَحُّ.
شعبی کہتے ہیں: میں نے مغیرہ بن شعبہ رضی الله عنہ کو منبر پر کھڑے ہو کر نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی حدیث بیان کرتے ہوئے سنا، آپ نے فرمایا: موسیٰ علیہ السلام نے اپنے رب سے پوچھتے ہوئے کہا: اے میرے رب! کون سا جنتی سب سے کمتر درجے کا ہو گا؟ اللہ فرمائے گا: جنتیوں کے جنت میں داخل ہو جانے کے بعد ایک شخص آئے گا، اس سے کہا جائے گا: تو بھی جنت میں داخل ہو جا، وہ کہے گا: میں کیسے داخل ہو جاؤں جب کہ لوگ (پہلے پہنچ کر) اپنے اپنے گھروں میں آباد ہو چکے ہیں اور اپنی اپنی چیزیں لے لی ہیں، آپ نے فرمایا: اس سے کہا جائے گا: دنیا کے بادشاہوں میں سے کسی بادشاہ کے پاس جتنا کچھ ہوتا ہے اتنا تمہیں دے دیا جائے، تو کیا تم اس سے راضی و خوش ہو گے؟ وہ کہے گا: ہاں، اے میرے رب! میں راضی ہوں، اس سے کہا جائے گا: تو جا تیرے لیے یہ ہے اور اتنا اور اتنا اور اتنا اور، وہ کہے گا: میرے رب! میں راضی ہوں، اس سے پھر کہا جائے گا جاؤ تمہارے لیے یہ سب کچھ اور اس سے دس گنا اور بھی وہ کہے گا، میرے رب! بس میں راضی ہو گیا، تو اس سے کہا جائے گا: اس (ساری بخشش و عطایا) کے باوجود تمہارا جی اور نفس جو کچھ چاہے اور جس چیز سے بھی تمہیں لذت ملے وہ سب تمہارے لیے ہے ۱؎۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث حسن صحیح ہے،
۲- ان میں سے بعض (محدثین) نے اس حدیث کو شعبی سے اور انہوں نے مغیرہ سے روایت کیا ہے۔ اور انہوں نے اسے مرفوع نہیں کیا ہے، لیکن (حقیقت یہ ہے کہ) مرفوع روایت زیادہ صحیح ہے۔

تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/الإیمان 84 (189) (تحفة الأشراف: 11503) (صحیح)»

وضاحت:
۱؎: مولف نے یہ حدیث مذکورہ آیت ہی کی تفسیر ذکر کی ہے۔

قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.