الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ترمذي کل احادیث 3956 :حدیث نمبر
سنن ترمذي
كتاب تفسير القرآن عن رسول الله صلى الله عليه وسلم
کتاب: تفسیر قرآن کریم
Chapters on Tafsir
57. باب وَمِنْ سُورَةِ الْحَدِيدِ
باب: سورۃ الحدید سے بعض آیات کی تفسیر۔
حدیث نمبر: 3298
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبد بن حميد، وغير واحد , المعنى واحد، قالوا: حدثنا يونس بن محمد، حدثنا شيبان بن عبد الرحمن، عن قتادة، قال: حدثنا الحسن، عن ابي هريرة، قال: بينما نبي الله صلى الله عليه وسلم جالس واصحابه إذ اتى عليهم سحاب، فقال نبي الله صلى الله عليه وسلم: " هل تدرون ما هذا؟ " فقالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " هذا العنان، هذه روايا الارض يسوقه الله تبارك وتعالى إلى قوم لا يشكرونه ولا يدعونه "، قال: " هل تدرون ما فوقكم؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها الرقيع سقف محفوظ وموج مكفوف، ثم قال: " هل تدرون كم بينكم وبينها؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " بينكم وبينها مسيرة خمس مائة سنة "، ثم قال: " هل تدرون ما فوق ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن فوق ذلك سماءين ما بينهما مسيرة خمس مائة سنة، حتى عد سبع سماوات ما بين كل سماءين كما بين السماء والارض، ثم قال: " هل تدرون ما فوق ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن فوق ذلك العرش وبينه وبين السماء بعد ما بين السماءين "، ثم قال: " هل تدرون ما الذي تحتكم؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإنها الارض "، ثم قال: " هل تدرون ما الذي تحت ذلك؟ " قالوا: الله ورسوله اعلم، قال: " فإن تحتها الارض الاخرى بينهما مسيرة خمس مائة سنة، حتى عد سبع ارضين بين كل ارضين مسيرة خمس مائة سنة "، ثم قال: " والذي نفس محمد بيده لو انكم دليتم رجلا بحبل إلى الارض السفلى لهبط على الله "، ثم قرا: هو الاول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم سورة الحديد آية 3 ". قال ابو عيسى: هذا حديث غريب من هذا الوجه، قال: ويروى عن ايوب، ويونس بن عبيد، وعلي بن زيد، قالوا: لم يسمع الحسن من ابي هريرة، وفسر بعض اهل العلم هذا الحديث، فقالوا: إنما هبط على علم الله وقدرته وسلطانه، علم الله وقدرته وسلطانه في كل مكان، وهو على العرش كما وصف في كتابه.(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ بْنُ حُمَيْدٍ، وَغَيْرُ وَاحِدٍ , المعنى واحد، قَالُوا: حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ، حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ، عَنْ قَتَادَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْحَسَنُ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ: بَيْنَمَا نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ جَالِسٌ وَأَصْحَابُهُ إِذْ أَتَى عَلَيْهِمْ سَحَابٌ، فَقَالَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا هَذَا؟ " فَقَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " هَذَا الْعَنَانُ، هَذِهِ رَوَايَا الْأَرْضِ يَسُوقُهُ اللَّهُ تَبَارَكَ وَتَعَالَى إِلَى قَوْمٍ لَا يَشْكُرُونَهُ وَلَا يَدْعُونَهُ "، قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَكُمْ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا الرَّقِيعُ سَقْفٌ مَحْفُوظٌ وَمَوْجٌ مَكْفُوفٌ، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ كَمْ بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ "، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ سَمَاءَيْنِ مَا بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ سَمَاوَاتٍ مَا بَيْنَ كُلِّ سَمَاءَيْنِ كَمَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا فَوْقَ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ فَوْقَ ذَلِكَ الْعَرْشَ وَبَيْنَهُ وَبَيْنَ السَّمَاءِ بُعْدُ مَا بَيْنَ السَّمَاءَيْنِ "، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَكُمْ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّهَا الْأَرْضُ "، ثُمَّ قَالَ: " هَلْ تَدْرُونَ مَا الَّذِي تَحْتَ ذَلِكَ؟ " قَالُوا: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: " فَإِنَّ تَحْتَهَا الأَرْضَ الأُخْرَى بَيْنَهُمَا مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ، حَتَّى عَدَّ سَبْعَ أَرَضِينَ بَيْنَ كُلِّ أَرْضَيْنِ مَسِيرَةُ خَمْسِ مِائَةِ سَنَةٍ "، ثُمَّ قَالَ: " وَالَّذِي نَفْسُ مُحَمَّدٍ بِيَدِهِ لَوْ أَنَّكُمْ دَلَّيْتُمْ رَجُلًا بِحَبْلٍ إِلَى الْأَرْضِ السُّفْلَى لَهَبَطَ عَلَى اللَّهِ "، ثُمَّ قَرَأَ: هُوَ الأَوَّلُ وَالآخِرُ وَالظَّاهِرُ وَالْبَاطِنُ وَهُوَ بِكُلِّ شَيْءٍ عَلِيمٌ سورة الحديد آية 3 ". قَالَ أَبُو عِيسَى: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ مِنْ هَذَا الْوَجْهِ، قَالَ: وَيُرْوَى عَنْ أَيُّوبَ، وَيُونُسَ بْنِ عُبَيْدٍ، وَعَلِيِّ بْنِ زَيْدٍ، قَالُوا: لَمْ يَسْمَعِ الْحَسَنُ مِنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، وَفَسَّرَ بَعْضُ أَهْلِ الْعِلْمِ هَذَا الْحَدِيثَ، فَقَالُوا: إِنَّمَا هَبَطَ عَلَى عِلْمِ اللَّهِ وَقُدْرَتِهِ وَسُلْطَانِهِ، عِلْمُ اللَّهِ وَقُدْرَتُهُ وَسُلْطَانُهُ فِي كُلِّ مَكَانٍ، وَهُوَ عَلَى الْعَرْشِ كَمَا وَصَفَ فِي كِتَابهِ.
ابوہریرہ رضی الله عنہ کہتے ہیں کہ اس دوران کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم اور صحابہ بیٹھے ہوئے تھے، ان پر ایک بدلی آئی، نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: کیا تم جانتے ہو یہ کیا ہے؟ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ بادل ہے اور یہ زمین کے گوشے و کنارے ہیں۔ اللہ تعالیٰ اس بادل کو ایک ایسی قوم کے پاس ہانک کر لے جا رہا ہے جو اس کی شکر گزار نہیں ہے اور نہ ہی اس کو پکارتے ہیں، پھر آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو تمہارے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: یہ آسمان «رقیع» ہے، ایسی چھت ہے جو (جنوں سے) محفوظ کر دی گئی ہے، ایک ایسی (لہر) ہے جو (بغیر ستون کے) روکی ہوئی ہے، پھر آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو کہ کتنا فاصلہ ہے تمہارے اور اس کے درمیان؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ نے فرمایا: تمہارے اور اس کے درمیان پانچ سو سال مسافت کی دوری ہے، پھر آپ نے پوچھا: کیا تمہیں معلوم ہے اور اس سے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول کو زیادہ معلوم ہے، آپ نے فرمایا: اس کے اوپر دو آسمان ہیں جن کے بیچ میں پانچ سو سال کی مسافت ہے۔ ایسے ہی آپ نے سات آسمان گنائے، اور ہر دو آسمان کے درمیان وہی فاصلہ ہے جو آسمان و زمین کے درمیان ہے، پھر آپ نے پوچھا: اور اس کے اوپر کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، اور اس کے رسول آپ نے فرمایا: اس کے اوپر عرش ہے، عرش اور آسمان کے درمیان اتنی دوری ہے جتنی دوری دو آسمانوں کے درمیان ہے، آپ نے پوچھا: کیا تم جانتے ہو تمہارے نیچے کیا ہے؟ لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں: آپ نے فرمایا: یہ زمین ہے، آپ نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو اس کے نیچے کیا ہے؟، لوگوں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں آپ نے فرمایا: اس کے نیچے دوسری زمین ہے، ان دونوں کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری ہے، اس طرح آپ نے سات زمینیں شمار کیں، اور ہر زمین کے درمیان پانچ سو سال کی مسافت کی دوری بتائی، پھر آپ نے فرمایا: قسم ہے اس ذات کی جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے! اگر تم کوئی رسی زمین کی نچلی سطح تک لٹکاؤ تو وہ اللہ ہی تک پہنچے گی، پھر آپ نے آیت «هو الأول والآخر والظاهر والباطن وهو بكل شيء عليم» وہی اول و آخر ہے وہی ظاہر و باطن ہے اور وہ ہر چیز سے باخبر ہے (الحدید: ۳)، پڑھی۔
امام ترمذی کہتے ہیں:
۱- یہ حدیث اس سند سے غریب ہے،
۲- ایوب، یونس بن عبید اور علی بن زید سے مروی ہے، ان لوگوں نے کہا ہے کہ حسن بصری نے ابوہریرہ سے نہیں سنا ہے،
۳- بعض اہل علم نے اس حدیث کی تفسیر کرتے ہوئے کہا: مراد یہ ہے کہ وہ رسی اللہ کے علم پر اتری ہے، اور اللہ اور اس کی قدرت و حکومت ہر جگہ ہے اور جیسا کہ اس نے اپنی کتاب (قرآن مجید) میں اپنے متعلق بتایا ہے وہ عرش پر مستوی ہے۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ المؤلف (تحفة الأشراف: 12253) (ضعیف) (ابوہریرہ رضی الله عنہ سے حسن بصری کا سماع نہیں ہے، نیز وہ مدلس ہیں)»

قال الشيخ الألباني: ضعيف ظلال الجنة (578) // ضعيف الجامع الصغير (6094)، المشكاة (5735) //

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.