الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح البخاري کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح البخاري
كِتَاب تَفْسِيرِ الْقُرْآنِ
کتاب: قرآن پاک کی تفسیر کے بیان میں
The Book of Commentary
30. سورة الرُّومِ:
باب: سورۃ الروم کی تفسیر۔
(30) SURAT AR-RUM (The Romans)
حدیث نمبر: Q4774
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
{فلا يربو} من اعطى يبتغي افضل فلا اجر له فيها. قال مجاهد: يحبرون: ينعمون، يمهدون: يسوون المضاجع الودق المطر، قال ابن عباس: هل لكم مما ملكت ايمانكم: في الآلهة وفيه، تخافونهم: ان يرثوكم كما يرث بعضكم بعضا، يصدعون: يتفرقون، فاصدع، وقال غيره: ضعف وضعف لغتان، وقال مجاهد: السواى: الإساءة جزاء المسيئين.{فَلاَ يَرْبُو} مَنْ أَعْطَى يَبْتَغِي أَفْضَلَ فَلاَ أَجْرَ لَهُ فِيهَا. قَالَ مُجَاهِدٌ: يُحْبَرُونَ: يُنَعَّمُونَ، يَمْهَدُونَ: يُسَوُّونَ الْمَضَاجِعَ الْوَدْقُ الْمَطَرُ، قَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: هَلْ لَكُمْ مِمَّا مَلَكَتْ أَيْمَانُكُمْ: فِي الْآلِهَةِ وَفِيهِ، تَخَافُونَهُمْ: أَنْ يَرِثُوكُمْ كَمَا يَرِثُ بَعْضُكُمْ بَعْضًا، يَصَّدَّعُونَ: يَتَفَرَّقُونَ، فَاصْدَعْ، وَقَالَ غَيْرُهُ: ضُعْفٌ وَضَعْفٌ لُغَتَانِ، وَقَالَ مُجَاهِدٌ: السُّوأَى: الْإِسَاءَةُ جَزَاءُ الْمُسِيئِينَ.
‏‏‏‏ «فلا يربو‏» یعنی جو سود پر قرض دے اس کو کچھ ثواب نہیں ملے گا۔ مجاہد نے کہا «يحبرون‏» کا معنی نعمتیں دیئے جائیں گے۔ «فلا نفسهم يمهدون‏» یعنی اپنے لیے بسترے، بچھونے بچھاتے ہیں (قبر میں یا بہشت میں)۔ «الودق» مینہ کو کہتے ہیں۔ ابن عباس نے کہا کہ یہ آیت «هل لكم مما ملكت أيمانكم‏» اللہ پاک اور بتوں کی مثال میں اتری ہے۔ «تخافونهم‏» یعنی تم کیا اپنے لونڈی غلاموں سے یہ خوف کرتے ہو کہ وہ تمہارے وارث بن جائیں گے جیسے تم آپس میں ایک دوسرے کے وارث ہوتے ہو۔ «يصدعون‏» کے معنی جدا جدا ہو جائیں گے۔ «فاصدع‏» کا معنی حق بات کھول کر بیان کر دے اور بعض نے کہا «ضعف» اور «ضعف» ضاد کے ضمہ اور فتحہ کے ساتھ دونوں قرآت ہیں۔ مجاہد نے کہا «السوأى‏» کا معنی برائی یعنی برائی کرنے والوں کا بدلہ برا ملے گا۔
حدیث نمبر: 4774
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن كثير، حدثنا سفيان، حدثنا منصور، والاعمش، عن ابي الضحى، عن مسروق، قال: بينما رجل يحدث في كندة، فقال: يجيء دخان يوم القيامة، فياخذ باسماع المنافقين، وابصارهم ياخذ المؤمن كهيئة الزكام، ففزعنا، فاتيت ابن مسعود، وكان متكئا، فغضب فجلس، فقال: من علم فليقل، ومن لم يعلم فليقل الله اعلم، فإن من العلم ان، يقول: لما لا يعلم لا اعلم، فإن الله، قال لنبيه صلى الله عليه وسلم" قل ما اسالكم عليه من اجر وما انا من المتكلفين سورة ص آية 86، وإن قريشا ابطئوا عن الإسلام، فدعا عليهم النبي صلى الله عليه وسلم فقال:" اللهم اعني عليهم بسبع كسبع يوسف"، فاخذتهم سنة حتى هلكوا فيها واكلوا الميتة والعظام، ويرى الرجل ما بين السماء والارض كهيئة الدخان، فجاءه ابو سفيان، فقال: يا محمد جئت تامرنا بصلة الرحم، وإن قومك قد هلكوا، فادع الله، فقرا: فارتقب يوم تاتي السماء بدخان مبين إلى قوله عائدون سورة الدخان آية 10 - 15، افيكشف عنهم عذاب الآخرة إذا جاء ثم عادوا إلى كفرهم، فذلك قوله تعالى: يوم نبطش البطشة الكبرى سورة الدخان آية 16 يوم بدر ولزاما يوم بدر، الم غلبت الروم إلى سيغلبون سورة الروم آية 1 - 3 والروم قد مضى.(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ كَثِيرٍ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ، حَدَّثَنَا مَنْصُورٌ، وَالْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي الضُّحَى، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: بَيْنَمَا رَجُلٌ يُحَدِّثُ فِي كِنْدَةَ، فَقَالَ: يَجِيءُ دُخَانٌ يَوْمَ الْقِيَامَةِ، فَيَأْخُذُ بِأَسْمَاعِ الْمُنَافِقِينَ، وَأَبْصَارِهِمْ يَأْخُذُ الْمُؤْمِنَ كَهَيْئَةِ الزُّكَامِ، فَفَزِعْنَا، فَأَتَيْتُ ابْنَ مَسْعُودٍ، وَكَانَ مُتَّكِئًا، فَغَضِبَ فَجَلَسَ، فَقَالَ: مَنْ عَلِمَ فَلْيَقُلْ، وَمَنْ لَمْ يَعْلَمْ فَلْيَقُلِ اللَّهُ أَعْلَمُ، فَإِنَّ مِنَ الْعِلْمِ أَنْ، يَقُولَ: لِمَا لَا يَعْلَمُ لَا أَعْلَمُ، فَإِنَّ اللَّهَ، قَالَ لِنَبِيِّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ" قُلْ مَا أَسْأَلُكُمْ عَلَيْهِ مِنْ أَجْرٍ وَمَا أَنَا مِنَ الْمُتَكَلِّفِينَ سورة ص آية 86، وَإِنَّ قُرَيْشًا أَبْطَئُوا عَنِ الْإِسْلَامِ، فَدَعَا عَلَيْهِمُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ:" اللَّهُمَّ أَعِنِّي عَلَيْهِمْ بِسَبْعٍ كَسَبْعِ يُوسُفَ"، فَأَخَذَتْهُمْ سَنَةٌ حَتَّى هَلَكُوا فِيهَا وَأَكَلُوا الْمَيْتَةَ وَالْعِظَامَ، وَيَرَى الرَّجُلُ مَا بَيْنَ السَّمَاءِ وَالْأَرْضِ كَهَيْئَةِ الدُّخَانِ، فَجَاءَهُ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ جِئْتَ تَأْمُرُنَا بِصِلَةِ الرَّحِمِ، وَإِنَّ قَوْمَكَ قَدْ هَلَكُوا، فَادْعُ اللَّهَ، فَقَرَأَ: فَارْتَقِبْ يَوْمَ تَأْتِي السَّمَاءُ بِدُخَانٍ مُبِينٍ إِلَى قَوْلِهِ عَائِدُونَ سورة الدخان آية 10 - 15، أَفَيُكْشَفُ عَنْهُمْ عَذَابُ الْآخِرَةِ إِذَا جَاءَ ثُمَّ عَادُوا إِلَى كُفْرِهِمْ، فَذَلِكَ قَوْلُهُ تَعَالَى: يَوْمَ نَبْطِشُ الْبَطْشَةَ الْكُبْرَى سورة الدخان آية 16 يَوْمَ بَدْرٍ وَلِزَامًا يَوْمَ بَدْرٍ، الم غُلِبَتِ الرُّومُ إِلَى سَيَغْلِبُونَ سورة الروم آية 1 - 3 وَالرُّومُ قَدْ مَضَى.
ہم سے محمد بن کثیر نے بیان کیا، کہا ہم سے سفیان ثوری نے بیان کیا، کہا ہم سے منصور اور اعمش نے بیان کیا، ان سے ابوالضحیٰ نے، ان سے مسروق نے بیان کیا کہ ایک شخص نے قبیلہ کندہ میں وعظ بیان کرتے ہوئے کہا کہ قیامت کے دن ایک دھواں اٹھے گا جس سے منافقوں کے آنکھ کان بالکل بیکار ہو جائیں گے لیکن مومن پر اس کا اثر صرف زکام جیسا ہو گا۔ ہم اس کی بات سے بہت گھبرا گئے۔ پھر میں ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا (اور انہیں ان صاحب کی یہ بات سنائی) وہ اس وقت ٹیک لگائے بیٹھے تھے، اسے سن کر بہت غصہ ہوئے اور سیدھے بیٹھ گئے۔ پھر فرمایا کہ اگر کسی کو کسی بات کا واقعی علم ہے تو پھر اسے بیان کرنا چاہئے لیکن اگر علم نہیں ہے تو کہہ دینا چاہئے کہ اللہ زیادہ جاننے والا ہے۔ یہ بھی علم ہی ہے کہ آدمی اپنی لاعلمی کا اقرار کر لے اور صاف کہہ دے کہ میں نہیں جانتا۔ اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے فرمایا تھا «قل ما أسألكم عليه من أجر وما أنا من المتكلفين‏» آپ کہہ دیجئیے کہ میں اپنی تبلیغ و دعوت پر تم سے کوئی اجر نہیں چاہتا اور نہ میں بناوٹ کرتا ہوں۔ اصل میں واقعہ یہ ہے کہ قریش کسی طرح اسلام نہیں لاتے تھے۔ اس لیے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے حق میں بددعا کی کہ اے اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانے جیسا قحط بھیج کر میری مدد کر پھر ایسا قحط پڑا کہ لوگ تباہ ہو گئے اور مردار اور ہڈیاں کھانے لگے کوئی اگر فضا میں دیکھتا (تو فاقہ کی وجہ سے) اسے دھویں جیسا نظر آتا۔ پھر ابوسفیان آئے اور کہا کہ اے محمد! آپ ہمیں صلہ رحمی کا حکم دیتے ہیں لیکن آپ کی قوم تباہ ہو رہی ہے، اللہ سے دعا کیجئے (کہ ان کی یہ مصیبت دور ہو)۔ اس پر نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت پڑھی «فارتقب يوم تأتي السماء بدخان مبين‏» سے «عائدون‏» تک۔ ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے بیان کیا کہ قحط کا یہ عذاب تو نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی دعا کے نتیجہ میں ختم ہو گیا تھا لیکن کیا آخرت کا عذاب بھی ان سے ٹل جائے گا؟ چنانچہ قحط ختم ہونے کے بعد پھر وہ کفر سے باز نہ آئے، اس کی طرف اشارہ «يوم نبطش البطشة الكبرى‏» میں ہے، یہ بطش کفار پر غزوہ بدر کے موقع پر نازل ہوئی تھی (کہ ان کے بڑے بڑے سردار قتل کر دیئے گئے) اور «لزاما» (قید) سے اشارہ بھی معرکہ بدر ہی کی طرف ہے «الم * غلبت الروم‏» سے «سيغلبون‏» تک کا واقعہ گزر چکا ہے کہ (کہ روم والوں نے فارس والوں پر فتح پالی تھی)۔

Narrated Masruq: While a man was delivering a speech in the tribe of Kinda, he said, "Smoke will prevail on the Day of Resurrection and will deprive the hypocrites their faculties of hearing and seeing. The believers will be afflicted with something like cold only thereof." That news scared us, so I went to (Abdullah) Ibn Mas`ud while he was reclining (and told him the story) whereupon he became angry, sat up and said, "He who knows a thing can say, it, but if he does not know, he should say, 'Allah knows best,' for it is an aspect of knowledge to say, 'I do not know,' if you do not know a certain thing. Allah said to His prophet. 'Say (O Muhammad): No wage do I ask of you for this (Qur'an), nor I am one of the pretenders (a person who pretends things which do not exist.)' (38.86) The Qur'aish delayed in embracing Islam for a period, so the Prophet invoked evil on them, saying, 'O Allah! Help me against them by sending seven years of (famine) like those of Joseph.' So they were afflicted with such a severe year of famine that they were destroyed therein and ate dead animals and bones. They started seeing something like smoke between the sky and the earth (because of severe hunger). Abu Sufyan then came (to the Prophet) and said, "O Muhammad! You came to order us for to keep good relations with Kith and kin, and your kinsmen have now perished, so please invoke Allah (to relieve them).' Then Ibn Mas`ud recited:-- 'Then watch you for the day that the sky will bring forth a kind of smoke plainly visible....but truly you will return! (to disbelief) (44.10-15) Ibn Mas`ud added, Then the punishment was stopped, but truly, they reverted to heathenism (their old way). So Allah (threatened them thus): 'On the day when we shall seize you with a mighty grasp.' (44.16) And that was the day of the Battle of Badr. Allah's saying- "Lizama" (the punishment) refers to the day of Badr Allah's Statement: Alif-Lam-Mim, the Romans have been defeated, and they, after their defeat, will be victorious,' (30.1- 3) (This verse): Indicates that the defeat of Byzantine has already passed.
USC-MSA web (English) Reference: Volume 6, Book 60, Number 297


http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.