الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْإِيمَانِ
ایمان کے احکام و مسائل
1. باب بَيَانِ الْإِيمَانِ وَالْإِسْلَامِ وَالْإِحْسَانِ وَوُجُوبِ الْإِيمَانِ بِإِثْبَاتِ قَدَرِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ وَتَعَالَى وَبَيَانِ الدَّلِيلِ عَلَى التَّبَرِّي مِمَّنْ لَا يُؤْمِنُ بِالْقَدَرِ وَإِغْلَاظِ الْقَوْلِ فِي حَقِّهِ.
باب: ایمان اور اسلام اور احسان کا بیان اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ کی تقدیر پر ایمان کا بیان۔
حدیث نمبر: 93
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
قال ابو الحسين مسلم بن الحجاج القشيري رحمه الله: بعون الله نبتدئ وإياه نستكفي، وما توفيقنا إلا بالله جل جلاله.
حدثني ابو خيثمة زهير بن حرب ، حدثنا وكيع ، عن كهمس ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر . ح وحدثنا وهذا حديثه، عبيد الله بن معاذ العنبري ، حدثنا ابي ، حدثنا كهمس ، عن ابن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، قال: كان اول من قال في القدر بالبصرة: معبد الجهني، فانطلقت انا وحميد بن عبد الرحمن الحميري، حاجين او معتمرين، فقلنا: لو لقينا احدا من اصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم، فسالناه عما يقول هؤلاء في القدر، فوفق لنا عبد الله بن عمر بن الخطاب داخلا المسجد، فاكتنفته انا، وصاحبي، احدنا عن يمينه والآخر عن شماله، فظننت ان صاحبي سيكل الكلام إلي، فقلت: ابا عبد الرحمن، إنه قد ظهر قبلنا ناس يقرءون القرآن، ويتقفرون العلم، وذكر من شانهم، وانهم يزعمون ان لا قدر، وان الامر انف، قال: فإذا لقيت اولئك، فاخبرهم اني بريء منهم، وانهم برآء مني، والذي يحلف به عبد الله بن عمر، لو ان لاحدهم، مثل احد ذهبا، فانفقه ما قبل الله منه، حتى يؤمن بالقدر، ثم قال: حدثني ابي عمر بن الخطاب ، قال: بينما نحن عند رسول الله صلى الله عليه وسلم ذات يوم، إذ طلع علينا رجل شديد، بياض الثياب، شديد، سواد الشعر، لا يرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد، حتى جلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم، فاسند ركبتيه إلى ركبتيه، ووضع كفيه على فخذيه، وقال: يا محمد، اخبرني عن الإسلام، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإسلام ان تشهد ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله صلى الله عليه وسلم، وتقيم الصلاة، وتؤتي الزكاة، وتصوم رمضان، وتحج البيت إن استطعت إليه سبيلا"، قال: صدقت، قال: فعجبنا له يساله، ويصدقه، قال: فاخبرني عن الإيمان، قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، واليوم الآخر، وتؤمن بالقدر خيره وشره"، قال: صدقت، قال: فاخبرني عن الإحسان، قال:" ان تعبد الله كانك تراه، فإن لم تكن تراه، فإنه يراك"، قال: فاخبرني عن الساعة، قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، قال: فاخبرني عن امارتها، قال:" ان تلد الامة ربتها، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء، يتطاولون في البنيان"، قال: ثم انطلق فلبثت مليا، ثم قال لي: يا عمر اتدري من السائل؟ قلت: الله ورسوله اعلم، قال: فإنه جبريل، اتاكم يعلمكم دينكم.
قَالَ أَبُو الْحُسَيْنِ مُسْلِمُ بْنُ الْحَجَّاجِ الْقُشَيْرِيُّ رَحِمَهُ اللَّهُ: بِعَوْنِ اللَّهِ نَبْتَدِئُ وَإِيَّاهُ نَسْتَكْفِي، وَمَا تَوْفِيقُنَا إِلَّا بِاللَّهِ جَلَّ جَلَالُهُ.
حَدَّثَنِي أَبُو خَيْثَمَةَ زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ . ح وحَدَّثَنَا وَهَذَا حَدِيثُهُ، عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ مُعَاذٍ الْعَنْبَرِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبِي ، حَدَّثَنَا كَهْمَسٌ ، عَنْ ابْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: كَانَ أَوَّلَ مَنْ قَالَ فِي الْقَدَرِ بِالْبَصْرَةِ: مَعْبَدٌ الْجُهَنِيُّ، فَانْطَلَقْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ، حَاجَّيْنِ أَوْ مُعْتَمِرَيْنِ، فَقُلْنَا: لَوْ لَقِينَا أَحَدًا مِنْ أَصْحَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَسَأَلْنَاهُ عَمَّا يَقُولُ هَؤُلَاءِ فِي الْقَدَرِ، فَوُفِّقَ لَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ دَاخِلًا الْمَسْجِدَ، فَاكْتَنَفْتُهُ أَنَا، وَصَاحِبِي، أَحَدُنَا عَنْ يَمِينِهِ وَالآخَرُ عَنْ شِمَالِهِ، فَظَنَنْتُ أَنَّ صَاحِبِي سَيَكِلُ الْكَلَامَ إِلَيَّ، فَقُلْتُ: أَبَا عَبْدِ الرَّحْمَن، إِنَّهُ قَدْ ظَهَرَ قِبَلَنَا نَاسٌ يَقْرَءُونَ الْقُرْآنَ، وَيَتَقَفَّرُونَ الْعِلْمَ، وَذَكَرَ مِنْ شَأْنِهِمْ، وَأَنَّهُمْ يَزْعُمُونَ أَنْ لَا قَدَرَ، وَأَنَّ الأَمْرَ أُنُفٌ، قَالَ: فَإِذَا لَقِيتَ أُولَئِكَ، فَأَخْبِرْهُمْ أَنِّي بَرِيءٌ مِنْهُمْ، وَأَنَّهُمْ بُرَآءُ مِنِّي، وَالَّذِي يَحْلِفُ بِهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عُمَرَ، لَوْ أَنَّ لِأَحَدِهِمْ، مِثْلَ أُحُدٍ ذَهَبًا، فَأَنْفَقَهُ مَا قَبِلَ اللَّهُ مِنْهُ، حَتَّى يُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ، ثُمَّ قَالَ: حَدَّثَنِي أَبِي عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ ، قَالَ: بَيْنَمَا نَحْنُ عِنْدَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ ذَاتَ يَوْمٍ، إِذْ طَلَعَ عَلَيْنَا رَجُلٌ شَدِيدُ، بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ، سَوَادِ الشَّعَرِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، حَتَّى جَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَأَسْنَدَ رُكْبَتَيْهِ إِلَى رُكْبَتَيْهِ، وَوَضَعَ كَفَّيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، وَقَالَ: يَا مُحَمَّدُ، أَخْبِرْنِي عَنِ الإِسْلَامِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الإِسْلَامُ أَنْ تَشْهَدَ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ، وَتُؤْتِيَ الزَّكَاةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ، وَتَحُجَّ الْبَيْتَ إِنِ اسْتَطَعْتَ إِلَيْهِ سَبِيلًا"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَعَجِبْنَا لَهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِيمَانِ، قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَالْيَوْمِ الآخِرِ، وَتُؤْمِنَ بِالْقَدَرِ خَيْرِهِ وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ الإِحْسَانِ، قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ"، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنِ السَّاعَةِ، قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَأَخْبِرْنِي عَنْ أَمَارَتِهَا، قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الأَمَةُ رَبَّتَهَا، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ، يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبُنْيَانِ"، قَالَ: ثُمَّ انْطَلَقَ فَلَبِثْتُ مَلِيًّا، ثُمَّ قَالَ لِي: يَا عُمَرُ أَتَدْرِي مَنِ السَّائِلُ؟ قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ: فَإِنَّهُ جِبْرِيلُ، أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ دِينَكُمْ.
‏‏‏‏ امام ابوالحسین مسلم بن الحجاج اس کتاب کے مؤلف فرماتے ہیں ہم شروع کرتے ہیں کتاب کو اللہ تعالیٰ کی مدد سے اور اسی کو کافی سمجھ کر۔ اور نہیں ہے ہم کو توفیق دینے والا مگر اللہ تعالیٰ بڑا ہے جلال اس کا۔
یحییٰ بن یعمر سے روایت ہے، سب سے پہلے جس نے تقدیر میں گفتگو کی بصرے میں (جو ایک شہر ہے دہانہ خلیج فارس پر آباد کیا تھا اس کو عتبہ بن غزوان نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کی خلافت میں۔ سمعانی نے کہا: بصرہ قبہ ہے اہل اسلام کا اور خزانہ ہے عرب کا۔ اور درحقیقت بصرہ ایک شہر ہے جس سے تجارت اہل ہند اور فارس کے ساتھ بخوبی قائم ہو سکتی ہے اور شاید اسی مصلحت سے اس شہر کی بنا ہوئی ہو گی) وہ معبد جہنی تھا، تو میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حمیری دونوں مل کر چلے حج یا عمرے کے لئے اور ہم نے کہا: کاش! ہم کو کوئی صحابی رسول مل جائے جس سے ہم ذکر کریں اس بات کا جو یہ لوگ کہتے ہیں تقدیر میں تو مل گئے ہم کو اتفاق سے سیدنا عبداللہ بن عمر بن خطاب رضی اللہ عنہما مسجد کو جاتے ہوئے۔ ہم نے ان کو بیچ میں کر لیا یعنی میں اور میرا ساتھی داہنے اور بائیں بازو ہو گئے۔ میں سمجھا کہ میرا ساتھی (حمید) مجھ کو بات کرنے دے گا (اس لئے کہ میری گفتگو اچھی تھی) تو میں نے کہا اے ابا عبدالرحمٰن (یہ کنیت ہے ابنِ عمر رضی اللہ عنہما کی) ہمارے ملک میں کچھ ایسے لوگ پیدا ہوئے ہیں جو قرآن کو پڑھتے ہیں اور علم کا شوق رکھتے ہیں یا اس کی باریکیاں نکالتے ہیں اور بیان کیا حال ان کا اور کہا کہ وہ کہتے ہیں کہ تقدیر کوئی چیز نہیں اور سب کام ناگہاں ہو گئے ہیں۔ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: تو جب ایسے لوگوں سے ملے تو کہہ دے ان سے میں بیزار ہوں اور وہ مجھ سے۔ اور قسم ہے اللہ جل جلالہ کی کہ ایسے لوگوں میں سے (جن کا ذکر تو نے کیا جو تقدیر کے قائل نہیں) اگر کسی کے پاس احد پہاڑ کے برابر سونا ہو پھر وہ اس کو خرچ کرے اللہ کی راہ میں تو اللہ قبول نہ کرے گا جب تک تقدیر پر ایمان نہ لائے پھر کہا کہ حدیث بیان کی مجھ سے میرے باپ سیدنا عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ نے کہ ایک روز ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے تھے۔ اتنے میں ایک شخص آن پہنچا جس کے کپڑے نہایت سفید تھے اور بال نہایت کالے تھے۔ یہ نہ معلوم ہوتا تھا کہ وہ سفر سے آیا ہے اور کوئی ہم میں سے اس کو پہچانتا نہ تھا، وہ بیٹھ گیا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آ کر اور اپنے گھٹنے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنوں سے ملا دئیے اور دونوں ہاتھ اپنی رانوں پر رکھے (جیسے شاگرد استاد کے سامنے بیٹھتا ہے) پھر بولا: اے محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم )! بتائیے مجھ کو اسلام کیا ہے؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تو گواہی دے (یعنی زبان سے کہے اور دل سے یقین کرے) اس بات کی کہ کوئی معبود سچا نہیں سوا اللہ کے اور محمد ( صلی اللہ علیہ وسلم ) اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور قائم کرے نماز کو اور ادا کرے زکوٰۃ کو اور روزے رکھے رمضان کے اور حج کرے خانہ کعبہ کا اگر تجھ سے ہو سکے۔ (یعنی راہ خرچ ہو اور راستے میں خوف نہ ہو) وہ بولا: سچ کہا آپ نے، ہم کو تعجب ہوا کہ آپ ہی پوچھتا ہے پھر آپ ہی کہتا ہے کہ سچ کہا (حالانکہ پوچھنے والا لاعلم ہے اور سچ کہنے والا وہ ہوتا ہے جس کو علم ہو تو یہ دونوں کام ایک شخص کیوں کرے گا) پھر وہ شخص بولا: مجھ کو بتائیے ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تو یقین کرے (دل سے) اللہ پر، فرشتوں پر (کہ وہ اللہ تعالیٰ کے پاک بندے ہیں اور اس کا حکم بجا لاتے ہیں اللہ تعالیٰ نے ان کو بڑی طاقت دی ہے) اور اس کے پیغمبروں پر (جن کو اس نے بھیجا خلق کو راہ بتلانے کے لئے) اور پچھلے دن پر (یعنی قیامت کے دن پر جس روز حساب کتاب ہو گا اور اچھے اور برے اعمال کی جانچ پڑتال ہو گی) اور یقین کرے تو تقدیر پر کہ برا اور اچھا سب اللہ پاک کی طرف سے ہے۔ (یعنی سب کا خالق وہی ہے) وہ شخص بولا: سچ کہا آپ نے۔ پھر اس شخص نے پوچھا: مجھ کو بتائیے احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ تو اللہ کی عبادت کرے اس طرح دل لگا کر جیسے تو دیکھ رہا ہے۔ اگر اتنا نہ ہو تو یہی سہی کہ وہ تجھ کو دیکھ رہا ہے۔ پھر وہ شخص بولا: بتائیے مجھ کو قیامت کب ہو گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس کو جس سے پوچھتے ہو وہ خود پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا۔ وہ شخص بولا تو مجھے اس کی نشانیاں بتلائیے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک نشانی یہ ہے کہ لونڈی اپنی مالکہ کو جنے گی۔ دوسری نشانی یہ ہے کہ تو دیکھے گا ننگوں کو جن کے پاؤں میں جوتا نہ تھا، تن پہ کپڑا نہ تھا، کنگال بڑی بڑی عمارتیں ٹھونک رہے ہیں۔ راوی نے کہا: پھر وہ شخص چلا گیا۔ میں بڑی دیر تک ٹھہرا رہا۔ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے فرمایا: اے عمر! تو جانتا ہے یہ پوچھنے والا کون تھا؟ میں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ جبرئیل علیہ السلام تھے تم کو تمھارا دین سکھانے آئے تھے۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداود في ((سننه))، باب في القدر برقم (4695) والترمذي في ((جامعه)) في الايمان، باب: ماجاء في وصف جبريل للنبي صلى الله عليه وسلم الايمان والاسلام برقم (2610) والنسائي في ((المجتبى)) 97/8-101 فی الایمان، باب: نعت الاسلام برقم (5005) وابن ماجه في ((سننه)) في المقدمة، باب: في الايمان برقم (63) - انظر ((التحفة)) برقم (10572) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (2)»
حدیث نمبر: 94
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني محمد بن عبيد الغبري وابو كامل الجحدري واحمد بن عبدة ، قالوا: حدثنا حماد بن زيد ، عن مطر الوراق ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، قال: لما تكلم معبد بما تكلم به في شان القدر انكرنا ذلك، قال: فحججت انا وحميد بن عبد الرحمن الحميري حجة، وساقوا الحديث بمعنى حديث كهمس وإسناده، وفيه بعض زيادة، ونقصان احرف.حَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ عُبَيْدٍ الْغُبَرِيُّ وَأَبُو كَامِلٍ الْجَحْدَرِيُّ وَأَحْمَدُ بْن عَبْدَةَ ، قَالُوا: حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ زَيْدٍ ، عَنْ مَطَرٍ الْوَرَّاقِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، قَالَ: لَمَّا تَكَلَّمَ مَعْبَدٌ بِمَا تَكَلَّمَ بِهِ فِي شَأْنِ الْقَدَرِ أَنْكَرْنَا ذَلِكَ، قَالَ: فَحَجَجْتُ أَنَا وَحُمَيْدُ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْحِمْيَرِيُّ حَجَّةً، وَسَاقُوا الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ كَهْمَسٍ وَإِسْنَادِهِ، وَفِيهِ بَعْضُ زِيَادَةٍ، وَنُقْصَانُ أَحْرُفٍ.
‏‏‏‏ یحییٰ بن یعمر بیان کرتے ہیں کہ جب معبد نے تقدیر کے مسئلہ میں باتیں شروع کیں تو ہم نے مخالفت کی اس وقت کی بات ہے کہ میں اور حمید بن عبدالرحمٰن حج کے لئے روانہ ہوئے باقی حدیث بعض الفاظ کی کمی بیشی کے ساتھ بیان کی۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انظر الحديث السابق برقم (93)»
حدیث نمبر: 95
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني محمد بن حاتم ، حدثنا يحيي بن سعيد القطان ، حدثنا عثمان بن غياث ، حدثنا عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر وحميد بن عبد الرحمن ، قالا: لقينا عبد الله بن عمر ، فذكرنا القدر وما يقولون فيه، فاقتص الحديث كنحو حديثهم، عن عمر رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم، وفيه شيء من زيادة، وقد نقص منه شيئا.وحَدَّثَنِي مُحَمَّدُ بْنُ حَاتِمٍ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ سَعِيدٍ الْقَطَّانُ ، حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ غِيَاثٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ وَحُمَيْدِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، قَالَا: لَقِينَا عَبْدَ اللَّهِ بْنَ عُمَرَ ، فَذَكَرْنَا الْقَدَرَ وَمَا يَقُولُونَ فِيهِ، فَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ كَنَحْوِ حَدِيثِهِمْ، عَنْ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَفِيهِ شَيْءٌ مِنْ زِيَادَةٍ، وَقَدْ نَقَصَ مِنْهُ شَيْئًا.
‏‏‏‏ (دوسری سند) یحیٰی بن یعمر اور حمید بن عبدالرحمٰن کہتے ہیں کہ ہم عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے ملے اور ہم نے تقدیر کے بارے جو لوگ غلط باتیں کرتے ہیں ان کا تذکرہ کیا تو انہوں نے وہی حدیث بیان کی جو گزر چکی ہے کچھ کمی بیشی کے ساتھ۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه ابوداؤد في ((سننه)) في السنة، باب: في القدر برقم (4696) انظر ((التحفة)) برقم (10516 و 10572) وهو في ((جامع الاصول)) برقم (2)» ‏‏‏‏
حدیث نمبر: 96
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثني حجاج بن الشاعر ، حدثنا يونس بن محمد ، حدثنا المعتمر ، عن ابيه ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابن عمر ، عن عمر ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، بنحو حديثهم.وحَدَّثَنِي حَجَّاجُ بْنُ الشَّاعِر ِ، حَدَّثَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا الْمُعْتَمِرُ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، بِنَحْوِ حَدِيثِهِمْ.
‏‏‏‏ ایک اور سند سے یحییٰ بن عمر سیدنا ابن عمر رضی اللہ عنہما سے وہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی طرح حدیث بیان کرتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخريجه في الحديث قبل السابق برقم (93)»

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.