الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْإِيمَانِ ایمان کے احکام و مسائل 6. باب الْأَمْرِ بِالْإِيمَانِ بِاللَّهِ تَعَالَى وَرَسُولِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَشَرَائِعِ الدِّينِ وَالدُّعَاءِ إِلَيْهِ وَالسُّؤَالِ عَنْهُ وَحِفْظِهِ وَتَبْلِيغِهِ مَنْ لَمْ يَبْلُغْهُ باب: اللہ و رسول اور دینی احکام پر ایمان لانے کا حکم کرنا اور اس کی طرف لوگوں کو بلانا دین کی باتوں کو پوچھنا یاد رکھنا اور دوسروں کو پہنچانا۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ عبدالقیس کا وفد، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور کہا: یا رسول اللہ! ہم ربیعہ کے قبیلہ میں سے ہیں اور ہمارے اور آپ کے بیچ میں مضر کے کافر روک ہیں (مضر بھی ایک قبیلہ کا نام ہے۔ اس کے لوگ کافر تھے اور وہ عبدالقیس اور مدینہ کے بیچ میں رہتے تھے، عبدالقیس کے لوگوں کو آنے نہ دیتے تھے) اور ہم آپ تک نہیں آ سکتے مگر حرام مہینے میں (عرب کے نزدیک چار مہینے حرام تھے یعنی ذیقعد اور ذوالحجہ اور محرم اور رجب ان مہینوں میں وہ لوٹ مار نہ کرتے اور مسافروں کو نہ ستاتے اس وجہ سے ان مہینوں میں مسافر سفر کیا کرتے اور بےخوف ہو کر راہ چلتے) تو ہم کو کوئی ایسی بات بتلائیے جس پر ہم عمل کریں اور اپنی طرف کے لوگوں کو بھی اس طرف بلائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم کو حکم کرتا ہوں چار باتوں کا اور منع کرتا ہوں چار باتوں سے۔ پھر وضاحت کی ان کے لئے حکم کرتا ہوں کہ گواہی دو اس بات کی کہ کوئی معبود برحق نہیں سوا اللہ کے اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں، اور نماز قائم کرو اور زکوٰۃ ادا کرو۔ اور منع کرتا ہوں دباء سے (یعنی کدو کے تونبے) اور حنتم سے اور نقیر سے (یعنی چوبی برتن سے، ایک لکڑی کو لے کر اس کو کھود کر گڑھا سا بنا لیتے تھے) اور مقیر سے۔“ خلف بن ہشام نے اپنی روایت میں اتنا زیادہ کیا کہ گواہی دینی اس بات کی کہ کوئی سچا معبود نہیں سوا اللہ کے اور اشارہ کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انگلی سے ایک کا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، أخرجه البخاري فى ((صحيحه)) فى الايمان، باب: اداء الخمس من الايمان برقم (53) وفى المواقيت، باب: ﴿ مُنِيبِينَ إِلَيْهِ وَاتَّقُوهُ وَأَقِيمُوا الصَّلَاةَ وَلَا تَكُونُوا مِنَ الْمُشْرِكِينَ ﴾ برقم (523) وفي الزكاة باب: وجوب الزكاة برقم (1398) وفى فرض الخمس، باب: اداء الخمس من الدين برقم (3095) وفى المناقب، باب: 5 - برقم (3510) وفي المغازي باب: وقد عبد القيس برقم (4368 و 4369) وأخرجه ايضا فى الادب، باب: قول الرجل: مرحبا برقم (6176) وفى اخبار الاحاد، باب: وصاة النبى صلى الله عليه وسلم وفود العرب ان يبلغوا من ورائهم برقم (7266) وفى التوحيد، باب: قول الله تعالى: ﴿ وَاللَّهُ خَلَقَكُمْ وَمَا تَعْمَلُونَ ﴾ برقم (7556)»
ابوجمرہ (نصر بن عمران) سے روایت ہے کہ میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے سامنے ان کے اور لوگوں کے بیچ میں مترجم تھا (یعنی اوروں کی بات کو عربی میں ترجمہ کر کے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کو سمجھاتا) اتنے میں ایک عورت آئی جو پوچھتی تھی گھڑے کے نبیذ کے بارے میں۔ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: عبدالقیس کے وفد (وفد کے معنی اوپر گزر چکے ہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا: ”یہ وفد کون ہیں؟ یا یہ کس قوم کے لوگ ہیں؟“ لوگوں نے کہا ربیعہ کے لوگ ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مرحبا ہو قوم یا وفد کو جو نہ رسوا ہوئے نہ شرمندہ۔“ (کیونکہ بغیر لڑائی کے خود مسلمان ہونے کے لئے آئے۔ اگر لڑائی کے بعد مسلمان ہوتے تو وہ رسوا ہوتے لونڈی غلام بنائے جاتے، مال لٹ جاتا تو شرمندہ ہوتے) ان لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! ہم آپ کے پاس دور دراز سے سفر کر کے آتے ہیں اور ہمارے اور آپ کے بیچ میں یہ قبیلہ ہے مضر کے کافروں کا تو ہم نہیں آ سکتے آپ تک مگر حرام کے مہینہ میں (جب لوٹ مار نہیں ہوتی) اس لئے ہم کو حکم کیجئیے ایک صاف بات کا جس کو ہم بتلا دیں اور لوگوں کو بھی اور جائیں اس کے سبب سے جنت میں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو چار باتوں کا حکم کیا اور چار باتوں سے منع فرمایا ان کو حکم کیا اللہ کی توحید پر ایمان لانے کا اور ان سے پوچھا: ”تم جانتے ہو ایمان کیا ہے؟“ انہوں نے کہا: اللہ اور اس کا رسول خوب جانتا ہے۔ آپ نے فرمایا: ایمان گواہی دینا ہے اس بات کی کہ سوا اللہ کے کوئی عبادت کے لائق نہیں اور بے شک محمد صلی اللہ علیہ وسلم اس کے بھیجے ہوئے ہیں اور نماز کا قائم کرنا اور زکوٰۃ کا دینا اور رمضان کے روزے رکھنا (یہ چار باتیں ہو گئیں۔ اب ایک پانچویں بات اور ہے) اور غنیمت کے مال میں سے پانچویں حصے کا ادا کرنا۔“ (یعنی جو کافروں کی لوٹ میں سے مال ملے اس میں سے پانچواں حصہ اللہ اور رسول کے لئے نکالنا) اور منع فرمایا ان کو کدو کے تونبے اور سبز لاکھی گھڑے اور روغنی برتن سے۔ شعبہ نے کبھی یوں کہا اور نقیر سے اور کبھی کہا: مقیر سے (دونوں کے معنی اوپر گزر چکے ہیں) اور فرمایا: ”اس کو یاد رکھو اور ان باتوں کی ان لوگوں کو بھی خبر دو جو تمہارے پیچھے ہیں۔“ اور ابوبکر بن شیبہ نے «مَنْ وَرَاءَكُمْ» کہا بدلے «مِنْ وَرَائِكُمْ» کے (اور مطلب دونوں کا ایک ہے اور ان کی روایت میں مقیر کا ذکر نہیں ہے)۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخرجه في الحديث السابق برقم (115)»
دوسری روایت بھی سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اسی طرح ہے۔ اس میں یہ ہے کہ میں تم کو منع کرتا ہوں، اس نبیذ سے جو بھگوئی جائے کدو کے تونبے اور چوبی اور سبز لاکھی اور روغنی برتن میں۔ سیدنا ابن معاذ رضی اللہ عنہ نے اپنی روایت میں اپنے باپ سے اتنا زیادہ کیا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عبدالقیس کے اشج سے (جس کا نام منذر بن حارث بن زیاد تھا یا منذر بن عبید یا عائذ بن منذر یا عبداللہ بن عوف) فرمایا: ”تجھ میں دو عادتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے۔ ایک تو عقل مندی دوسرے دیر میں سوچ سمجھ کر کام کرنا، جلدی نہ کرنا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، تقدم تخرجه في الحديث قبل السابق برقم (115)»
قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ مجھ سے حدیث بیان کی اس شخص نے جو ملا تھا اس وفد سے جو رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے تھے عبدالقیس کے قبیلہ میں سے (اور قتادہ رضی اللہ عنہ نے نام نہ لیا اس شخص کا جس سے یہ حدیث سنی اس کو تدلیس کہتے ہیں) سعید نے کہا: قتادہ نے ابونضرہ کا نام لیا انہوں نے سنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے تو قتادہ نے اس حدیث کو ابونضرہ (منذر بن مالک بن قطعہ) سے سنا، انہوں نے ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے (سعید بن مالک سنان سے) کہ کچھ لوگ عبدالقیس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: اے اللہ کے نبی! ہم ایک شاخ ہیں ربیعہ کی۔ اور ہمارے اور آپ کے بیچ میں مضر کے کافر ہیں۔ اور ہم نہیں آ سکتے آپ تک مگر حرام مہینوں میں تو حکم کیجئیے ہم کو ایسے کام کا جس کو ہم بتلا دیں اور لوگوں کو جو ہمارے پیچھے ہیں اور ہم اس کی وجہ سے جنت میں جائیں، جب ہم اس پر عمل کریں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”میں تم کو چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں اور چار چیزوں سے منع کرتا ہوں (جن چار چیزوں کا حکم کرتا ہوں وہ یہ ہیں کہ) اللہ کی عبادت کرو اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ کرو اور نماز کو قائم کرو اور زکوٰۃ دو اور رمضان کے روزے رکھو اور غنیمت کے مالوں میں سے پانچواں حصہ ادا کرو۔ اور منع کرتا ہوں تم کو چار چیزوں سے کدو کے تونبے اور سبز لاکھی برتن اور روغنی برتن اور نقیر سے۔“ لوگوں نے کہا: یا رسول اللہ! نقیر، آپ نہیں جانتے۔ آپ نے فرمایا: ”کیوں نہیں جانتا، نقیر ایک لکڑی ہے جس کو تم کھود لیتے ہو پھر اس میں «قُطَيْعَاء» (ایک قسم کی چھوٹی کھجور اس کو شہریر بھی کہتے ہیں) بھگوتے ہو۔“ سعید نے کہا: یا تمر بھگوتے ہو پھر اس میں پانی ڈالتے ہو۔ جب اس کا جوش تھم جاتا ہے تو اس کو پیتے ہو یہاں تک کہ تمہارا ایک یا ان کا ایک اپنے چچا کے بیٹے کو تلوار سے مارتا ہے (نشہ میں آ کر جب عقل جاتی رہتی ہے تو دوست دشمن کی شناخت نہیں رہتی اپنے بھائی کو، جس کو سب سے زیادہ چاہتا ہے تلوار سے مارتا ہے۔ شراب کی برائیوں میں سے یہ ایک بڑی برائی ہے جس کو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بیان کیا) راوی نے کہا: ہمارے لوگوں میں اس وقت ایک شخص موجود تھا (جس کا نام جہم تھا) اس کو اسی نشہ کی بدولت ایک زخم لگ چکا تھا اس نے کہا کہ لیکن میں اس کو چھپاتا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے شرم کے مارے، میں نے کہا: یا رسول اللہ! پھر کس برتن میں ہم شربت پئیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پیو چمڑے کے برتنوں میں مشکووں میں جن کا منہ باندھا جاتا ہے۔“ (ڈوری یا تسمہ سے) لوگوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! ہمارے ملک میں چوہے بہت ہیں، وہاں چمڑے کے برتن نہیں رہ سکتے۔ آپ نے فرمایا: ”پیو چمڑے کے برتنوں میں اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں، اگرچہ چوہے ان کو کاٹ ڈالیں“ (یعنی جس طور سے ہو سکے چمڑے ہی کے برتن میں پیو۔ چوہوں سے حفاظت کرو لیکن ان برتنوں میں پینا درست نہیں کیونکہ وہ شراب کے برتن ہیں) راوی نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عبدالقیس کے اشج سے فرمایا: ”تجھ میں دو خصلتیں ایسی ہیں جن کو اللہ تعالیٰ پسند کرتا ہے ایک تو عقلمندی دوسری سہولت اور اطمینان، جلدی نہ کرنا۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4375)»
ایک اور سند سے ہے کہ سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ جب قبیلہ عبدالقیس کا وفد رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا (باقی پہلے والی حدیث بیان کی) صرف الفاظ میں معمولی تبدیلی ہے مفہوم پہلا ہی ہے۔
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد تخريجه في الحديث السابق برقم (118)»
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، عبدالقیس کا وفد جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تو کہنے لگا اے اللہ کے نبی! اللہ ہم کو آپ پر فدا کرے کون سی شراب ہم کو درست ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”نقیر میں نہ پیو۔“ انہوں نے کہا: اے اللہ کے نبی! اللہ ہم کو آپ پر فدا کرے کیا آپ جانتے ہیں نقیر کو؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”ہاں نقیر ایک لکڑی ہے جس کے بیچ میں کھود کر گڑھا کر لیتے ہیں اور کدو کے تونبے میں نہ پیو اور سبز لاکھی برتن میں نہ پیو اور پیو (چمڑے کی) مشکوں میں جن کا منہ ڈوری یا تسمہ سے بندھا ہو۔“
تخریج الحدیث: «أحاديث صحيح مسلم كلها صحيحة، انفرد به مسلم - انظر ((التحفة)) برقم (4355)»
|