الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل 34. باب الْقِرَاءَةِ فِي الظُّهْرِ وَالْعَصْرِ: باب: ظہر اور عصر کی نمازوں میں قرأت کا بیان۔
حجاج صواف نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ اور ابو سلمہ سے اور انہوں نے حضرت ابو قتادہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ہمیں نماز پڑھاتے تو ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سورہ فاتحہ اور دو سورتیں (ہر رکعت میں فاتحہ کے بعد ایک سورت) پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں کوئی آیت سنا دیتے۔ ظہر کی پہلی رکعت لمبی کرتے اور دوسری رکعت مختصر کرتے اور صبح کی نماز میں بھی ایسا ہی کرتے۔
حجاج کے بجائے) ہمام اور ابان بن یزید نے یحییٰ بن ابی کثیر سے، انہوں نے عبد اللہ بن ابی قتادہ سے اور انہوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم ظہر اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں (سے ہر رکعت میں) سورۃ فاتحہ اور ایک سورت پڑھتے اور کبھی کبھار ہمیں بھی کوئی آیت سنا دیتے اور آخری دو رکعتوں میں سورۃ فاتحہ پڑھا کرتے تھے۔
یحییٰ بن یحییٰ اور ابو بکر بن ابی شیبہ نے ہشیم سے، انہوں نے منصور سے، انہوں نے ولید بن مسلم سے، انہوں نے ابو صدیق (ناجی) سے اور انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے ر وایت کی، انہوں نے کہا: ہم ظہر اور عصر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے قیام کا اندازہ لگاتے تھے تو ہم نے ظہر کی پہلی دو رکعتوں میں قیام کا اندازہ ﴿الم 0 تنزیل﴾ (السجدہ) کی قراءت کے بقدر لگایا اور اس کی آخری دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ اس سے نصف کے بقدر لگایا اور ہم نے عصر کی پہلی دو رکعتوں کے قیام کا اندازہ لگایا کہ وہ ظہر کی آخری دو رکعتوں کے برابر تھا اور عصر کی دو رکعتوں کا قیام اس سے آدھا تھا۔ امام مسلم رضی اللہ عنہ کے استادہ ابو بکر بن ابی شیبہ نے اپنی روایت میں ﴿الم 0 تنزیل﴾ (کا نام) ذکر نہیں کیا، انہوں نے کہا: تیس آیات کےبقدر
۔ ابو عوانہ نے منصور سے باقی ماندہ سابقہ سند سے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ظہر کی نماز میں پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں تیس آیات کے بقدر قراءت فرماتے تھے اور آخری دو میں پندرہ آیتوں کے بقدر یا یہ کہا: اس (پہلی دو) سے نصف۔ اور عصر کی پہلی دو رکعتوں میں سے ہر رکعت میں پندرہ آیتوں کے برابر اور آخری دو میں اس سے نصف۔
ہشیم نے عبد الملک بن عمیر سے اور انہوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ کوفہ والوں نے حضرت عمر رضی اللہ عنہ سے حضرت حضرت سعد رضی اللہ عنہ کی شکایت کی اور (اس میں) ان کی نماز کا بھی ذکر کیا۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان کی طرف پیغام بھیجا، وہ آئے تو حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے ان سے، کوفہ والوں نے ان کی نماز پر جو اعتراض کیا تھا، اس کا تذکرہ کیا، تو انہوں نے کہا: یقیناً میں انہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کی طرف نماز پڑھاتا ہوں، اس میں کمی نہیں کرتا۔ میں انہیں پہلی دو رکعتوں لمبی پڑھاتا ہوں اور آخری میں دو تخفیف کرتا ہوں۔ اس پر عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: اے ابو اسحاق! آپ کے بارے میں گمان (بھی) یہی ہے۔
ہشیم کے بجائے) جریر نے عبد الملک بن عمیر سے اسی سند کے ساتھ یہی روایت بیان کی۔
شعبہ نے ابوعون سے روایت کی، انہوں نے کہا کہ میں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے سنا کہ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے کہا: لوگوں نے آپ کی ہر چیز حتیٰ کہ نماز کی بھی شکایت کی ہے۔ حضرت سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: میں (یہ کہتا ہوں کہ میں) پہلی دو رکعتوں میں (قیام کو) طول دیتا ہوں اور آخری دو رکعتوں میں تخفیف کرتا ہوں، میں نے جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی تھی، اس میں کوئی کوتاہی نہیں کرتا۔ تو عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: آپ کے بارے میں یہی گمان ہے یا آپ کے بارے میں میرا گمان یہی ہے۔
۔ مسعر نے عبد الملک (بن عمیر) اور ابو عون سے روایت کی، انہوں نے حضرت جابر بن سمرہ رضی اللہ عنہ سے ان کی حدیث کے ہم معنیٰ روایت بیان کی اور اس میں یہ اضافہ کیا ہے کہ سعد رضی اللہ عنہ نے کہا: بدوی مجھے نماز سکھائیں گے؟ (میں نے تو خود رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے نماز سیکھی ہے
۔ عطیہ بن قیس نے قزعہ سے، انہوں نے حضرت ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت کی، انہوں نے کہا: ظہر کی نماز اقامت کہی جاتی اور کوئی جانے والا بقیع جاتا، اپنی ضرورت سے فارغ ہو کر وضو کرتا، پھر (مسجد میں) آتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اسے لمبا کرنے کی وجہ سے ابھی پہلی رکعت میں ہوتے۔
ربیعہ نے کہا: قزعہ نے مجھے حدیث سنائی، کہا: میں ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کی خدمت میں حاضر ہوا، ان کے پاس (استفادے کے لیے) کثرت سے لوگ موجود تھے۔ جب یہ لوگ ان سے (رخصت ہو کر) منتشر ہو گئے تو میں نے عرض کی: میں آپ سے ان چیزوں کے بارے میں سوال نہیں کروں گا جن کے بارے میں لوگ آپ سے سوال کر رہے تھے۔ میں نے کہا: میں آپ سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے بارے میں پوچھتا ہوں۔ انہوں نے کہا: اس سوال میں تیرے لیے بھلائی نہیں ہے (کیونکہ تم نماز پڑھانے والے حکمرانوں کے پیچھے ایسے نماز نہیں پڑھ سکو گے) انہوں نے ان کے سامنے دوبارہ اپنا مسئلہ پیش کیا تو ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے کہا: ظہر کی نماز کھڑی کی جاتی اور ہم میں سے کوئی بقیع کی طرف جاتا، اپنی ضرورت پوری کرتا، پھر اپنے گھر آ کر وضو کرتا، اس کے بعد واپس مسجد میں آتا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ابھی پہلی رکعت میں ہوتے تھے۔
|