الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الصَّلَاةِ نماز کے احکام و مسائل 47. باب سُتْرَةِ الْمُصَلِّي: باب: نمازی کا سترہ اور سترہ کی طرف منہ کر کے نماز پڑھنے کا استحباب، اور نمازی کے آگے سے گزرنے سے روکنا، اور گزرنے والے کا حکم اور گزرنے والے کو روکنا، نمازی کے آگے لیٹنے کا جواز اور سواری کی طرف منہ کر کے نماز ادا کرنے اور سترہ کے قریب ہونے کا حکم اور مقدار سترہ اور اس کے متعلق امور کا بیان۔
سیدنا موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے روایت کیا کہا کہ فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”جب تم میں سے کوئی اپنے سامان پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر کچھ رکھ لے تو نماز پڑھے اور پرواہ نہ کرے جو چیز چاہے اس کے پرے سے جائے۔“
سیدنا موسیٰ بن طلحہ رضی اللہ عنہ نے اپنے باپ سے سنا۔ ہم نماز پڑھتے تھے اور جانور ہمارے سامنے سے نکلا کرتے تھے تو بیان کیا ہم نے اس کا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگرچہ پالان کی پچھلی لکڑی برابر کوئی چیز تمہارے سامنے ہو تو پھر سامنے سے کسی چیز کا جانا ضرر نہیں کرتا۔“
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا گیا نمازی کے سترہ کے متعلق تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سواری کے کجاوے کی لکڑی کے برابر ہو۔“
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سوال ہوا غزوہ تبوک میں نمازی کے سترہ کا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”پالان کی پچھلی لکڑی کے برابر چاہیئے۔“
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب عید کے دن باہر نکلتے تو اپنے سامنے برچھا گاڑنے کا حکم فرماتے، پھر اس کی آڑ میں نماز پڑھتے۔ اور لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے ہوتے۔ اور یہ امر سفر میں کرتے۔ اسی وجہ سے امیروں نے اس کو مقرر کر لیا ہے (کہ برچھا ساتھ رکھتے ہیں)۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم برچھی کو گاڑتے اور اسی کر طرف نماز پڑھتے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کو قبلہ کی طرف کر کے اس کی طرف نماز پڑھتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اپنی اونٹنی کی طرف نماز پڑھتے تھے اور ابن نمیر نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھی اونٹ کی طرف۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں مکہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ابطح (ایک مقام ہے باب مکہ پر) میں تھے ایک لال چمڑے کے شامیانے میں تو سیدنا بلال رضی اللہ عنہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے وضو کا پانی لے کر نکلے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے وضو کیا) پھر کسی کو پانی ملا اور کسی کو نہ ملا تو اس نے دوسرے سے لے کر چھڑک لیا پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا پہنے ہوئے باہر نکلے گویا میں اس وقت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی پنڈلیوں کی سفیدی دیکھ رہا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وضو کیا اور سیدنا بلال رضی اللہ عنہ نے اذان دی۔ میں نے ان کے منہ کی پیروی کی جو دائیں بائیں کی طرف پھیر کر کہتے تھے «حَىَّ عَلَى الصَّلاَةِ، حَىَّ عَلَى الْفَلاَحِ» پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے ایک پھالا گاڑا گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم آگے بڑھے اور ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں (سفر میں ہونے کی وجہ سے قصر کیا) آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے سے گدھے اور کتے گزر رہے تھے (مگر) آپ صلی اللہ علیہ وسلم روکتے نہ تھے (کیونکہ بھالے کا سترہ تھا) پھر عصر کی دو رکعتیں پڑھیں دونوں نمازوں کو جمع کیا پھر برابر دو ہی رکعتیں قصر سے پڑھتے رہے یہاں تک کہ واپس مدینہ پہنچے۔
عون بن ابی حجیفہ سے روایت ہے کہ ان کے باپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو چمڑے کے سرخ شامیانے میں دیکھا اور میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو کا بچا ہوا پانی نکالا تو لوگ اس کو لینے کے لئے جھپٹنے لگے پھر جس کو پانی مل گیا اس نے بدن پر مل لیا اور جس کو نہ ملا اس نے اپنے ساتھی کے ہاتھ سے ہاتھ تر کر لیا پھر میں نے بلال رضی اللہ عنہ کو دیکھا۔ انہوں نے برچھا نکالا اور اس کو گاڑ دیا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سرخ جوڑا پہنے ہوئے اس کو (پنڈلیوں تک) اٹھائے ہوئے نکلے اور برچھے کی طرف کھڑے ہو کر لوگوں کے ساتھ دو رکعتیں پڑھیں اور میں نے آدمیوں کو اور جانوروں کو دیکھا کہ وہ برچھے کے سامنے سے گزر رہے تھے۔
اس سند سے بھی کچھ کمی بیشی کے ساتھ گزشتہ روایت آئی ہے اور مالک بن مغول کی حدیث میں یہ لفظ ہیں کہ جب دوپہر کا وقت ہوا تو بلال رضی اللہ عنہ نکلے اور نماز کے لئے اذان دی۔
سیدنا ابوحجیفہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دوپہر کو بطحا کی طرف نکلے اور وضو کیا پھر ظہر کی دو رکعتیں پڑھیں اور عصر کی دو رکعتیں پڑھیں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے برچھی لگی ہوئی تھی اس کے پار عورتیں اور گدھے گزر رہے تھے۔
شعبہ ان سندوں سے مذکورہ حدیث کے مثل روایت کرتے ہیں مگر حکم کی حدیث میں یہ اضافہ ہے کہ لوگ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے وضو سے بچے ہوئے پانی کو لینے کے لیے جلدی کرنے لگے۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ میں گدھی پر سوار ہو کر آیا ان دنوں میں جوان ہونے کو تھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں نماز پڑھا رہے تھے۔ میں صف کے سامنے آ کر اترا اور گدھی کو چھوڑ دیا۔ وہ چرنے لگی اور میں صف میں شریک ہو گیا پھر کسی نے اعتراض نہ کیا تھا۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ وہ گدھے پر سوار ہو کر آئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم منیٰ میں حجتہ الوادع میں کھڑے ہوئے نماز پڑھا رہے تھے تو گدھا صفوں کے سامنے سے ہو کر نکلا پھر وہ اترے اور صف میں شریک ہوئے۔
زہری سے اس سند کے ساتھ بھی روایت ہے اور اس میں یہ ہے کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم عرفات میں نماز پڑھا رہے تھے۔
اس روایت میں نہ منٰی کا ذکر ہے، نہ عرفات کا بلکہ حجۃ الوداع کہا یا مکہ کے فتح کا دن کہا (لیکن صحیح حجۃ الوداع ہے)۔
|