كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام 17. باب نَهْيِ مَنْ أَكَلَ ثُومًا أَوْ بَصَلاً أَوْ كُرَّاثًا أَوْ نَحْوَهَا عَنْ حُضُورِ الْمَسْجِدِ: باب: لہسن، پیاز، گندنا یا کوئی بدبودار چیز کھا کر مسجد میں جانا اس وقت تک ممنوع ہے جب تک اس کی بو منہ سے نہ جائے اور اس کو مسجد سے نکالنا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا خیبر کی جنگ میں: ”جو شخص اس درخت میں سے کھائے یعنی لہسن کے درخت کو تو مسجد میں نہ آئے۔“ اور زہیر کی روایت میں صرف غزوہ ہے خیبر کا نام نہیں لیا۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اس درخت میں سے کھائے یعنی لہسن کے درخت میں سے وہ ہماری مسجد کے پاس نہ پھٹکے جب تک اس کی بدبو دور نہ ہو۔“
عبدالعزیز بن صہیب سے روایت ہے کہ سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے لہسن کے بارے میں پوچھا گیا تو انہوں نے کہا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس درخت میں سے کھائے وہ ہمارے پاس نہ آئے نہ ہمارے ساتھ نماز پڑھے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس درخت میں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے پاس نہ پھٹکے اور نہ ہم کو لہسن کی بو سے ستائے۔“
سیدنا جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پیاز اور گندنا کھانے سے منع کیا۔ پھر ہم کو ضرورت ہوئی اور ہم نے کھایا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو کوئی اس بدبودار درخت میں سے کھائے وہ ہماری مسجد کے پاس نہ آئے اس لئے کہ فرشتوں کو بھی تکلیف ہوتی ہے جس سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص پیاز یا لہسن کھائے وہ ہم سے جدا رہے یا ہماری مسجد سے جدا رہے اور اپنے گھر بیٹھے۔“ ایک مرتبہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس ہانڈی لائی گئی جس میں ترکاری تھیں آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس میں بدبو پائی تو پوچھا: ”اس میں کیا پڑا ہے“؟ جب آپ کو معلوم ہوا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو فلاں صحابی کے پاس لے جاؤ“، جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دیکھا کہ اس نے بھی اس کا کھانا برا سمجھا (اس وجہ سے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نہیں کھایا) تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تو کھالے۔ میں تو اس سے سرگوشی کرتا ہوں جس سے تو نہیں کرتا۔“ (یعنی فرشتوں سے)
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس درخت یعنی لہسن میں سے کھائے“ اور کبھی ہوں فرمایا: ”جو شخص پیاز یا لہسن یا گندنا کھائے وہ ہماری مسجد میں نہ آئے اس لیے کہ فرشتوں کو تکلیف ہوتی ہے ان چیزوں سے جن سے آدمیوں کو تکلیف ہوتی ہے“ (یعنی بدبو اور غلاظت سے)۔
اس سند کے ساتھ یہ الفاظ آئے ہیں کہ ”جس نے کھایا اس درخت سے یعنی لہسن، پس وہ نہ ملے ہمارے ساتھ ہماری مسجد میں۔“ لیکن اس میں پیاز اور گندنا کا ذکر نہیں۔
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ہم لوٹے نہ تھے کہ خیبر کا قلعہ فتح ہو گیا اس روز ہم لوگ یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے صحابہ رضی اللہ عنہم لہسن پر گرے۔ لوگ بھوکے تھے۔ خوب کھایا، پھر مسجد میں آئے تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو بو معلوم ہوئی تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اس ناپاک درخت میں سے کھائے وہ مسجد میں ہمارے پاس نہ پھٹکے۔“ لوگ بولے: لہسن حرام ہو گیا، حرام ہو گیا۔ یہ خبر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو پہنچی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے لوگو! میں وہ چیز حرام نہیں کرتا جس کو اللہ تعالیٰ نے میرے لئے حلال کیا ہے لیکن لہسن کی بو مجھے بری معلوم ہوتی ہے۔“
سیدنا ابوسعید خدری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیاز کے کھیت پر اپنے اصحاب رضی اللہ عنہم کے ساتھ گزرے تو بعض لوگ اترے انہوں نے پیاز کھائی اور بعض نے نہ کھائی۔ پھر ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس گئے تو جن لوگوں نے پیاز نہ کھائی تھی ان کو تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پاس بلایا اور جنہوں نے کھائی تھی ان کے بلانے میں دیر کی یہاں تک کہ اس کی بو جاتی رہی۔
معدان بن ابی طلحہ سے روایت ہے کہ سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے جمعہ کے دن خطبہ پڑھا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کا ذکر کیا اور کہا: میں نے خواب میں دیکھا کہ ایک مرغ نے مجھے تین ٹھونگیں ماریں۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس کی تعبیر یہ ہے کہ میری موت اب نزدیک ہے۔ بعض لوگ مجھ سے کہتے ہیں کہ تم اپنا جانشین اور خلیفہ کسی کو کر دو لیکن اللہ تعالیٰ اپنے دین کو برباد نہیں کرے گا نہ اپنی خلافت کو نہ اس چیز کو جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دے کر بھیجا تھا۔ اگر میری موت جلد ہو جائے تو خلافت مشورہ کرنے پر چھ آدمیوں کے اندر رہے گی جن سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم وفات تک راضی رہے اور میں جانتا ہوں کہ بعض لوگ طعن کرتے ہیں اس کام میں جن کو میں نے خود اپنے اس ہاتھ سے مارا ہے اسلام پر پھر اگر انہوں نے ایسا کیا (یعنی اس طعن کو درست سمجھے) تو وہ دشمن ہیں اللہ کے۔ اور کافر گمراہ ہیں اور میں اپنے بعد کسی چیز کو اتنا مشکل نہیں چھوڑتا جتنا کلالہ، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے کسی بات کو اتنی بار نہیں پوچھا جتنی بار کلالہ کو پوچھا اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے بھی مجھ پر کسی بات میں اتنی سختی نہیں کی کہ جتنی اس میں کی یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی انگلی سے ٹھونسا مارا میرے سینہ میں اور فرمایا: ”اے عمر! کیا تجھ کو وہ آیت بس نہیں جو گرمی کے موسم میں اتری سورۂ نساء کے آخر میں «يَسْتَفْتُونَكَ قُلِ اللَّـهُ يُفْتِيكُمْ فِي الْكَلَالَةِ» “ (۴:النساء:۱۷۶) آخر تک اور میں اگر زندہ رہوں تو کلالہ میں ایسا فیصلہ کروں گا جس کے موافق ہر شخص حکم کرے خواہ قرآن پڑھا ہو یا نہ پڑھا ہو، پھر سیدنا عمر رضی اللہ عنہ نے کہا: یا اللہ! میں تجھ کو گوہ کرتا ہوں ان لوگوں پر جن کو میں نے ملکوں کی حکومت دی ہے (یعنی نائبوں اور صوبہ داروں اور عالموں پر) میں نے ان کو اسی لئے بھیجا کہ وہ انصاف کریں اور لوگوں کو دین کی باتیں بتلائیں اور اپنے پیغمبر صلی اللہ علیہ وسلم کا طریقہ سکھائیں اور ان کا کمایا ہوا مال جو لڑائی میں ہاتھ آئے بانٹ دیں اور جس بات میں ان کو مشکل پیش آئے اس کو مجھ سے دریافت کریں۔ پھر اے لوگو! میں دیکھتا ہوں تم دو درختوں کو کھاتے ہو میں ان کو ناپاک سمجھتا ہوں وہ کون؟ پیاز اور لہسن اور میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھا کہ جب ان دونوں کی بو کسی شخص میں سے آتی ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے حکم سے وہ نکالا جاتا مسجد سے بقیع کی طرف اب اگر کوئی ان کو کھائے تو خوب پکا کر (تاکہ ان کے منہ میں بدبو نہ رہے)۔
سیدنا قتادہ رضی اللہ عنہ سے بھی مذکورہ بالا حدیث روایت کی گئی ہے۔
|