الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْمَسَاجِدِ وَمَوَاضِعِ الصَّلَاة مسجدوں اور نماز کی جگہ کے احکام 54. باب اسْتِحْبَابِ الْقُنُوتِ فِي جَمِيعِ الصَّلاَةِ إِذَا نَزَلَتْ بِالْمُسْلِمِينَ نَازِلَةٌ: باب: جب مسلمانوں پر کوئی بلا نازل ہو تو نمازوں میں بلند آواز سے قنوت پڑھنا اور اللہ کے ساتھ پناہ مانگنا مستحب ہے اور اس کا محل و مقام آخری رکعت کے رکوع سے سر اٹھانے کے بعد ہے اور صبح کی نماز میں قنوت پر دوام مستحب ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب نماز فجر کی قرأت سے فارغ ہو جاتے تو سر مبارک رکوع سے اٹھاتے (یعنی دوسری رکعت میں) کہتے «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ رَبَّنَا وَلَكَ الْحَمْدُ» یعنی ”سنا اللہ نے جس نے اس کی حمد کی، اے ہمارے رب! سب تعریف تجھ ہی کو ہے“ پھر کھڑے ہی کھڑے کہتے: ”یا اللہ! نجات دے ولید بن ولید کو اور سلمہ بن ہشام اور عیاش بن ابی ربیعہ کو (یہ سب مسلمان کفار کے ہاتھ میں تھے) اور نجات دے مؤمنوں میں سے ضعیف لوگوں کو، (یعنی جو مکہ والوں کے ہاتھ میں دبے پڑے ہیں) یا اللہ (قبیلہ) مضر کو اپنی سختی سے روندھ دے اور ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ کی طرح قحط ڈال دے (جیسے مصر میں سات برس واقع ہوا تھا) یا اللہ! لعنت کر لحیان اور رعل اور ذکوان اور عصیہ پر جنہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی) پھر ہم کو خبر پہنچی کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بددعا موقوف کی جب یہ آیت اتری «لَيْسَ لَكَ مِنَ الأَمْرِ شَىْءٌ أَوْ يَتُوبَ عَلَيْهِمْ أَوْ يُعَذِّبَهُمْ فَإِنَّهُمْ ظَالِمُونَ» یعنی ”اے نبی! تم کو اس کام میں کچھ اختیار نہیں اللہ چاہے تو ان کی توبہ قبول کرے چاہے انہیں عذاب کرے کیونکہ وہ ظالم ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے یہاں تک بیان کرتے ہیں کہ ”اے اللہ! قحط ڈال ان پر یوسف علیہ السلام کے سالوں کی طرح۔“ اور اس کے بعد والے الفاظ ذکر نہیں کئے۔
سیدنا ابوسلمہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد ایک مہینہ تک قنوت پڑھا۔ جب «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہتے تو اپنی قنوت میں کہتے: یا اللہ! چھوڑ دے ولید بن ولید کو، یا اللہ! چھوڑ دے سلمہ بن ہشام، کو یا اللہ! چھوڑ دے عیاش بن ابی ربیعہ کو، یا اللہ! چھوڑ دے ضعیف مؤمنوں کو، یا اللہ! (قبیلہ) مضر کو سختی سے روندھ ڈال، یا اللہ! ان پر یوسف علیہ السلام کے زمانہ جیسا قحط ڈال۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ پھر میں نے دیکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کہ اس کے بعد آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا چھوڑ دی۔ تو میں نے کہا کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو دیکھتا ہوں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دعا چھوڑدی تو لوگوں نے کہا کہ دیکھتے نہیں ہو کہ جن کے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم دعا کرتے تھے وہ تو آ گئے (یعنی کافروں کے پاس سے چھوٹ آئے)۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم عشاء کی نماز پڑھا رہے تھے جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے «سَمِعَ اللَّهُ لِمَنْ حَمِدَهُ» کہا۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سجدہ کرنے سے پہلے یہ دعا فرمائی: «اللَّهُمَّ نَجِّ عَيَّاشَ بْنَ أَبِى رَبِيعَةَ» ”اے اللہ! عیاش بن ابی ربیعہ کو نجات عطا فرما۔“ پھر اس طرح ذکر فرمائی: «كَسِنِى يُوسُفَ» تک اور اس کے بعد کچھ ذکر نہیں فرمایا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ واللہ! میں تمہارے ساتھ ادا کروں نماز جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی نماز کے قریب قریب ہو۔ پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ ظہر اور عشاء اور صبح میں قنوت پڑھتے تھے اور مؤمنوں کے لئے یہ دعا کرتے تھے اور کافروں پر لعنت کرتے تھے۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان لوگوں پر بددعا کی جنہوں نے بئر معونہ کے لوگوں کو قتل کیا تھا تیس دن تک (یعنی تیس دن تک بددعا کی) بددعا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم رعل اور ذکوان اور لحیان اور عصیہ پر کہ انہوں نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ اللہ تعالیٰ نے ان مقتولوں شہیدوں کے حال میں قرآن اتارا جو بئر معونہ پر قتل ہوئے تھے ہم نے اس آیت کو اسی قرآن کی طرح پڑھا پھر منسوخ ہو گئی۔ اسے آخر تک یعنی ہماری طرف سے ہماری قوم کو بشارت پہنچا دو کہ ہم اپنے پروردگار سے ملے اور وہ بھی راضی ہوا ہم سے اور ہم اس سے راضی ہوئے۔
محمد نے کہا کہ میں نے سیدنا انس رضی اللہ عنہ سے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کی نماز میں قنوت پڑھا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا: ہاں بعد رکوع کے تھوڑی دیر۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے صبح کی نماز میں رکوع کے بعد ایک مہینہ تک قنوت پڑھا رعل اور ذکوان کے لئے بددعا کرتے تھے اور فرماتے تھے کہ عصیہ نے اللہ کی اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز فجر میں بعد رکوع کے ایک مہینہ تک قنوت پڑھا۔ بددعا کرتے تھے آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنی عصیہ کے قبیلہ پر۔
سیدنا عاصم رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ قنوت رکوع سے پہلے ہے یا بعد؟ انہوں نے کہا کہ پہلے۔ میں نے کہا کہ بعض لوگ دعوے کرتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کے بعد قنوت پڑھا ہے تو انہوں نے کہا کہ رسول رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک قنوت پڑھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم ان لوگوں پر بددعا کرتے تھے جنہوں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے چند اصحاب رضی اللہ عنہم کو قتل کر دیا تھا۔ جنہیں قاری کہا جاتا تھا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کسی چھوٹے لشکر کے لئے اس قدر غصہ ہوتے کبھی نہیں دیکھا جس قدر ان ستر صحابیوں رضی اللہ عنہم کے لئے غصہ ہوئے جو بیر معونہ میں شہید ہوئے کہ ان کو قاری کہتے تھے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ماہ تک برابر ان کے قاتلوں پر بددعا کرتے رہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے بیان کرتے ہیں یہی حدیث مگر بعض راوی ایک دوسرے سے کچھ کمی بیشی کے ساتھ بیان کرتے ہیں۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے قنوت کی ایک ماہ، آپ صلی اللہ علیہ وسلم لعنت کرتے تھے رعل، ذکوان اور عصیہ قبائل پر انہوں نے نافرمانی کی اللہ اور اس کے رسول کی۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح بیان کرتے ہیں۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک مہینہ تک قنوت پڑھا اور عرب کے کئی گھرانوں پر بددعا کی پھر چھوڑ دیا۔
سیدنا براء بن عازب رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح اور مغرب میں قنوت پڑھتے تھے۔
سیدنا براء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: قنوت کی آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فجر اور مغرب میں۔
سیدنا خفاف بن ایماء غفاری رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے کسی نماز میں فرمایا: ”یا اللہ! لعنت کر بنی لحیان اور ذکوان اور عصبہ پر کیوں کہ انہوں نے اللہ اور اس کے رسول کی نافرمانی کی۔ غفار کی اللہ مغفرت کرے اور سالم کو آفتوں سے بچائے۔“
حارث نے کہا کہ خفاف نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے رکوع کیا پھر سر مبارک اٹھایا اور کہا: ”غفار کو اللہ بخشے اور اسلم کو بچائے اور عصیہ نے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی نافرمانی کی، یا اللہ! لعنت کر بنی لحیان پر اور رعل اور ذکوان پر“ پھر سجدہ میں گئے۔ خفاف نے کہا کہ اسی وجہ سے کفار پر قنوت میں لعنت کی جاتی ہے۔
خفاف بن ایماء مذکورہ حدیث کی طرح بیان کرتے ہیں مگر انہوں نے یہ لفظ بیان نہیں کیے کہ کافروں پر لعنت اسی وجہ سے کی جاتی ہے۔
|