الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام 1. باب صَلاَةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا: باب: مسافر کی نماز کا بیان۔
ام المومنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے فرمایا: فرض ہوئی نماز دو دو رکعت حضر میں بھی اور سفر میں بھی، پھر سفر کی نماز ویسی ہی رہی اور حضر کی بڑھا دی گئی۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے مروی ہے کہ انہوں نے فرمایا: اللہ نے فرض کی نماز دو رکعت پھر بڑھادی حضر میں اور اتنی ہی رکھی سفر میں جتنی کہ پہلے فرض ہوئی تھی۔
اس کا ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ زہری نے کہا کہ میں نے عروہ سے پوچھا کہ پھر سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سفر میں پوری نماز کیوں پڑھتی تھیں؟ (یعنی ان کے نزدیک تو دو ہی رکعت فرض تھی) تب انہوں نے کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے وہی تاویل کی جو تاویل کی سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ نے (یعنی وہ بھی پوری پڑھتے تھے جیسا کہ ہم اوپر کہہ آئے ہیں)۔
یعلیٰ بن امیہ نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ سے پوچھا کہ اللہ تو فرماتا ہے: «فلَيْسَ عَلَيْكُمْ جُنَاحٌ أَنْ تَقْصُرُوا مِنَ الصَّلاَةِ إِنْ خِفْتُمْ أَنْ يَفْتِنَكُمُ الَّذِينَ كَفَرُوا» ”کہ کچھ مضائقہ نہیں اگر قصر کرو تم نماز میں اگر خوف ہو تم کو کہ کافر لوگ ستائیں گے“ اور اب تو لوگ امن میں ہو گئے (یعنی اب قصر کیا ضروری ہے؟) تو انہوں نے کہا کہ مجھے بھی یہی تعجب ہوا جیسے تم کو تعجب ہوا تو میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے اس بات کو پوچھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ اللہ نے تم کو صدقہ دیا تو اس کا صدقہ قبول کرو“ (یعنی بغیر خوف کے بھی سفر میں قصر کرو)۔
یعلیٰ بن امیہ نے سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ سے مذکورہ بالا حدیث روایت کی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: اللہ تعالیٰ نے تمہارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زبان پر حضر میں چار رکعت مقرر کر دی اور سفر میں دو اور خوف میں ایک۔
سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہا فرماتے ہیں: اللہ نے فرض کیا تمہارے نبی کی زبان پر نماز کو، مسافر پر دو رکعتیں، مقیم پر چار اور حالت خوف میں ایک رکعت۔
سیدنا موسیٰ بن سلمہ رضی اللہ عنہ سے مروی ہے کہ میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے پوچھا کہ جب میں مکہ میں ہوں (یعنی سفر میں) اور امام کے ساتھ نماز نہ ہو تو کیسے نماز پڑھوں؟ انہوں نے فرمایا: دو رکعت ادا کرنی سنت ہے ابوالقاسم صلی اللہ علیہ وسلم کی۔ (ابوالقاسم نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی کنیت ہے)۔
اس سند سے قتادہ نے بھی ایسی ہی روایت بیان کی ہے۔
حفص بن عاصم نے کہا کہ میں مکہ کی راہ میں سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے ساتھ تھا تو انہوں نے ہم کو ظہر کی دو رکعت پڑھائیں پھر آئے اور ہم بھی ان کے ساتھ یہاں تک کہ اپنے اترنے کی جگہ پہنچے اور بیٹھ گئے اور ہم بھی ان کے ساتھ بیٹھ گئے تو ان کی نگاہ اس طرف پڑی جہاں نماز پڑھی تھی تو کچھ لوگوں کو کھڑے دیکھا، پوچھا: یہ کیا کرتے ہیں؟ میں نے کہا: سنتیں پڑھتے ہیں۔ انہوں نے کہا: مجھے سنت پڑھنی ہوتی تو میں نماز ہی پوری پڑھتا (یعنی فرض پورا کرتا)، اے میرے بھتیجے! میں سفر میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی صحبت میں رہا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے دو رکعت سے زیادہ نہیں پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو وفات دی اور سیدنا ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے ان کو بھی وفات دی۔ اور سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو رکعت سے زیادہ نہ پڑھیں یہاں تک کہ اللہ نے ان کو بھی وفات دی اور سیدنا عثمان رضی اللہ عنہ کے ساتھ رہا تو انہوں نے بھی دو سے زیادہ نہ پڑھیں یہاں تک کہ اللہ نے ان کو بھی وفات دی۔ اور اللہ تعالیٰ نے فرمایا: ”کہ تمہارے لئے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی چال اچھی ہے۔“
حفص نے کہا کہ میں ایک بار بیمار ہوا اور ابن عمر رضی اللہ عنہما میری بیمار پرسی کو آئے تو میں نے ان سے سفر میں سنتوں کے پڑھنے کے بارے میں پوچھا۔ انہوں نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ سفر میں رہا اور کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو سنت پڑھتے نہیں دیکھا۔ اگر مجھے سنت پڑھنی ہوتی تو میں فرض ہی پورے کرتا اور اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «لَقَدْ كَانَ لَكُمْ فِى رَسُولِ اللَّهِ إِسْوَةٌ حَسَنَةٌ» ”تمھارے لئے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کی چال اچھی ہے۔“
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مدینہ میں ظہر کی چار رکعتیں پڑھیں اور ذوالحلیفہ میں عصر کی دو رکعت۔
سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں میں نے مدینہ منورہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ ظہر کی چار رکعت اور میں نے نماز پڑھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ عصر کی ذی الحلیفہ میں دو رکعتیں۔
یحییٰ بن یزید نے کہا میں نے سیدنا انس بن مالک رضی اللہ عنہ سے نماز قصر کا حال پوچھا تو انہوں نے کہا کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تین میل یا تین فرسخ نکلتے۔ شعبہ کو اس میں شک ہے، تو دو رکعت پڑھتے۔
جبیر نے کہا میں شرحبیل بن سمط کے ساتھ ایک گاؤں میں گیا کہ وہ سترہ یا اٹھارہ میل تھا تو انہوں نے دو رکعت پڑھیں۔ میں نے انہیں ٹوکا تو انہوں نے کہا کہ میں نے سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کو دیکھا کہ انہوں نے ذوالحلیفہ میں دو رکعت پڑھیں اور میں نے ان کو ٹوکا تو انہوں نے کہا میں ویسا ہی کرتا ہوں جیسا کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو کرتے دیکھا ہے۔
شعبہ نے اسی اسناد سے روایت کی اور کہا کہ روایت ہے ابن سمط سے اور شرحبیل کا نام نہیں لیا اور کہا کہ وہ ایک زمین میں گئے جسے دومین کہتے ہیں اور وہ حمص سے اٹھارہ میل ہے (مراد یہ ہے کہ وہاں قصر کیا)۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ مدینہ سے مکہ کو نکلے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم دو دو رکعت پڑھتے رہے یہاں تک کہ لوٹے میں نے کہا: مکہ میں کب تک رہے؟ کہا: دس روز۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نے نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی روایت بیان کی ہے۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں ہم مدینہ سے حج کے لیے روانہ ہوئے پھر مذکورہ حدیث کی مثل بیان کیا۔
سیدنا انس رضی اللہ عنہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم سے ایسی ہی روایت بیان کرتے ہیں مگر اس میں حج کا تذکرہ نہیں۔
|