الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب صَلَاةِ الْمُسَافِرِينَ وَقَصْرِهَا
مسافروں کی نماز اور قصر کے احکام
18. باب جَامِعِ صَلاَةِ اللَّيْلِ وَمَنْ نَامَ عَنْهُ أَوْ مَرِضَ:
باب: رات کی نماز کے احکام اور جس سے سونے یا بیمار ہونے کی وجہ سے رہ جائے۔
حدیث نمبر: 1739
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا محمد بن المثنى العنزي ، حدثنا محمد بن ابي عدي ، عن سعيد ، عن قتادة ، عن زرارة ، ان سعد بن هشام بن عامر اراد ان يغزو في سبيل الله، فقدم المدينة، فاراد ان يبيع عقارا له بها، فيجعله في السلاح والكراع، ويجاهد الروم حتى يموت، فلما قدم المدينة، لقي اناسا من اهل المدينة فنهوه عن ذلك، واخبروه ان رهطا ستة ارادوا ذلك في حياة نبي الله صلى الله عليه وسلم، فنهاهم نبي الله صلى الله عليه وسلم، وقال:" اليس لكم في اسوة، فلما حدثوه بذلك، راجع امراته وقد كان طلقها واشهد على رجعتها، فاتى ابن عباس، فساله عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال ابن عباس: الا ادلك على اعلم اهل الارض بوتر رسول الله صلى الله عليه وسلم؟ قال: من؟ قال: عائشة، فاتها فاسالها، ثم ائتني فاخبرني بردها عليك، فانطلقت إليها، فاتيت على حكيم بن افلح، فاستلحقته إليها، فقال: ما انا بقاربها، لاني نهيتها ان تقول في هاتين الشيعتين شيئا، فابت فيهما إلا مضيا، قال: فاقسمت عليه، فجاء فانطلقنا إلى عائشة فاستاذنا عليها، فاذنت لنا فدخلنا عليها، فقالت: احكيم، فعرفته؟ فقال: نعم، فقالت: من معك؟ قال: سعد بن هشام، قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، فترحمت عليه، وقالت: خيرا، قال قتادة وكان اصيب يوم احد: فقلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن خلق رسول الله صلى الله عليه وسلم، قالت: الست تقرا القرآن؟ قلت: بلى، قالت: فإن خلق نبي الله صلى الله عليه وسلم، كان القرآن، قال: فهممت ان اقوم ولا اسال احدا عن شيء حتى اموت، ثم بدا لي، فقلت: انبئيني عن قيام رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت: الست تقرا يايها المزمل سورة المزمل آية 1؟ قلت: بلى، قالت: فإن الله عز وجل، افترض قيام الليل في اول هذه السورة، فقام نبي الله صلى الله عليه وسلم، واصحابه حولا، وامسك الله خاتمتها اثني عشر شهرا في السماء، حتى انزل الله في آخر هذه السورة التخفيف، فصار قيام الليل تطوعا بعد فريضة، قال: قلت: يا ام المؤمنين، انبئيني عن وتر رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقالت:" كنا نعد له، سواكه، وطهوره، فيبعثه الله ما شاء ان يبعثه من الليل، فيتسوك، ويتوضا، ويصلي تسع ركعات، لا يجلس فيها إلا في الثامنة، فيذكر الله ويحمده ويدعوه ثم ينهض، ولا يسلم، ثم يقوم فيصلي التاسعة، ثم يقعد فيذكر الله ويحمده ويدعوه، ثم يسلم تسليما يسمعنا، ثم يصلي ركعتين بعد ما يسلم وهو قاعد، وتلك إحدى عشرة ركعة، يا بني، فلما اسن نبي الله صلى الله عليه وسلم واخذ اللحم، اوتر بسبع وصنع في الركعتين مثل صنيعه الاول، فتلك تسع يا بني، وكان نبي الله صلى الله عليه وسلم، إذا صلى صلاة احب ان يداوم عليها، وكان إذا غلبه نوم او وجع عن قيام الليل، صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة، ولا اعلم نبي الله صلى الله عليه وسلم قرا القرآن كله في ليلة، ولا صلى ليلة إلى الصبح، ولا صام شهرا كاملا غير رمضان، قال: فانطلقت إلى ابن عباس، فحدثته بحديثها، فقال: صدقت لو كنت اقربها او ادخل عليها لاتيتها حتى تشافهني به، قال: قلت: لو علمت انك لا تدخل عليها ما حدثتك حديثها.
حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى الْعَنَزِيُّ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سَعِيدٍ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامِ بْنِ عَامِرٍ أَرَادَ أَنْ يَغْزُوَ فِي سَبِيلِ اللَّهِ، فَقَدِمَ الْمَدِينَةَ، فَأَرَادَ أَنْ يَبِيعَ عَقَارًا لَهُ بِهَا، فَيَجْعَلَهُ فِي السِّلَاحِ وَالْكُرَاعِ، وَيُجَاهِدَ الرُّومَ حَتَّى يَمُوتَ، فَلَمَّا قَدِمَ الْمَدِينَةَ، لَقِيَ أُنَاسًا مِنْ أَهْلِ الْمَدِينَةِ فَنَهَوْهُ عَنْ ذَلِكَ، وَأَخْبَرُوهُ أَنَّ رَهْطًا سِتَّةً أَرَادُوا ذَلِكَ فِي حَيَاةِ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَنَهَاهُمْ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَقَالَ:" أَلَيْسَ لَكُمْ فِيَّ أُسْوَةٌ، فَلَمَّا حَدَّثُوهُ بِذَلِكَ، رَاجَعَ امْرَأَتَهُ وَقَدْ كَانَ طَلَّقَهَا وَأَشْهَدَ عَلَى رَجْعَتِهَا، فَأَتَى ابْنَ عَبَّاسٍ، فَسَأَلَهُ عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ ابْنُ عَبَّاسٍ: أَلَا أَدُلُّكَ عَلَى أَعْلَمِ أَهْلِ الأَرْضِ بِوِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ؟ قَالَ: مَنْ؟ قَالَ: عَائِشَةُ، فَأْتِهَا فَاسْأَلْهَا، ثُمَّ ائْتِنِي فَأَخْبِرْنِي بِرَدِّهَا عَلَيْكَ، فَانْطَلَقْتُ إِلَيْهَا، فَأَتَيْتُ عَلَى حَكِيمِ بْنِ أَفْلَحَ، فَاسْتَلْحَقْتُهُ إِلَيْهَا، فَقَالَ: مَا أَنَا بِقَارِبِهَا، لِأَنِّي نَهَيْتُهَا أَنْ تَقُولَ فِي هَاتَيْنِ الشِّيعَتَيْنِ شَيْئًا، فَأَبَتْ فِيهِمَا إِلَّا مُضِيًّا، قَالَ: فَأَقْسَمْتُ عَلَيْهِ، فَجَاءَ فَانْطَلَقْنَا إِلَى عَائِشَةَ فَاسْتَأْذَنَّا عَلَيْهَا، فَأَذِنَتْ لَنَا فَدَخَلْنَا عَلَيْهَا، فَقَالَتْ: أَحَكِيمٌ، فَعَرَفَتْهُ؟ فَقَالَ: نَعَمْ، فَقَالَتْ: مَنْ مَعَكَ؟ قَالَ: سَعْدُ بْنُ هِشَامٍ، قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، فَتَرَحَّمَتْ عَلَيْهِ، وَقَالَتْ: خَيْرًا، قَالَ قَتَادَةُ وَكَانَ أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ: فَقُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ خُلُقِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ الْقُرْآنَ؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ خُلُقَ نَبِيِّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كَانَ الْقُرْآنَ، قَالَ: فَهَمَمْتُ أَنْ أَقُومَ وَلَا أَسْأَلَ أَحَدًا عَنْ شَيْءٍ حَتَّى أَمُوتَ، ثُمَّ بَدَا لِي، فَقُلْتُ: أَنْبِئِينِي عَنْ قِيَامِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ: أَلَسْتَ تَقْرَأُ يَأَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ سورة المزمل آية 1؟ قُلْتُ: بَلَى، قَالَتْ: فَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ، افْتَرَضَ قِيَامَ اللَّيْلِ فِي أَوَّلِ هَذِهِ السُّورَةِ، فَقَامَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَأَصْحَابُهُ حَوْلًا، وَأَمْسَكَ اللَّهُ خَاتِمَتَهَا اثْنَيْ عَشَرَ شَهْرًا فِي السَّمَاءِ، حَتَّى أَنْزَلَ اللَّهُ فِي آخِرِ هَذِهِ السُّورَةِ التَّخْفِيفَ، فَصَارَ قِيَامُ اللَّيْلِ تَطَوُّعًا بَعْدَ فَرِيضَةٍ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أُمَّ الْمُؤْمِنِينَ، أَنْبِئِينِي عَنْ وِتْرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَتْ:" كُنَّا نُعِدُّ لَهُ، سِوَاكَهُ، وَطَهُورَهُ، فَيَبْعَثُهُ اللَّهُ مَا شَاءَ أَنْ يَبْعَثَهُ مِنَ اللَّيْلِ، فَيَتَسَوَّكُ، وَيَتَوَضَّأُ، وَيُصَلِّي تِسْعَ رَكَعَاتٍ، لَا يَجْلِسُ فِيهَا إِلَّا فِي الثَّامِنَةِ، فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ ثُمَّ يَنْهَضُ، وَلَا يُسَلِّمُ، ثُمَّ يَقُومُ فَيُصَلِّي التَّاسِعَةَ، ثُمَّ يَقْعُدُ فَيَذْكُرُ اللَّهَ وَيَحْمَدُهُ وَيَدْعُوهُ، ثُمَّ يُسَلِّمُ تَسْلِيمًا يُسْمِعُنَا، ثُمَّ يُصَلِّي رَكْعَتَيْنِ بَعْدَ مَا يُسَلِّمُ وَهُوَ قَاعِدٌ، وَتِلْكَ إِحْدَى عَشْرَةَ رَكْعَةً، يَا بُنَيَّ، فَلَمَّا أَسَنَّ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَأَخَذَ اللَّحْمَ، أَوْتَرَ بِسَبْعٍ وَصَنَعَ فِي الرَّكْعَتَيْنِ مِثْلَ صَنِيعِهِ الأَوَّلِ، فَتِلْكَ تِسْعٌ يَا بُنَيَّ، وَكَانَ نَبِيُّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، إِذَا صَلَّى صَلَاةً أَحَبَّ أَنْ يُدَاوِمَ عَلَيْهَا، وَكَانَ إِذَا غَلَبَهُ نَوْمٌ أَوْ وَجَعٌ عَنْ قِيَامِ اللَّيْلِ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً، وَلَا أَعْلَمُ نَبِيَّ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَرَأَ الْقُرْآنَ كُلَّهُ فِي لَيْلَةٍ، وَلَا صَلَّى لَيْلَةً إِلَى الصُّبْحِ، وَلَا صَامَ شَهْرًا كَامِلًا غَيْرَ رَمَضَانَ، قَالَ: فَانْطَلَقْتُ إِلَى ابْنِ عَبَّاسٍ، فَحَدَّثْتُهُ بِحَدِيثِهَا، فَقَالَ: صَدَقَتْ لَوْ كُنْتُ أَقْرَبُهَا أَوْ أَدْخُلُ عَلَيْهَا لَأَتَيْتُهَا حَتَّى تُشَافِهَنِي بِهِ، قَالَ: قُلْتُ: لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا مَا حَدَّثْتُكَ حَدِيثَهَا.
‏‏‏‏ قتادہ نے زرارہ سے روایت کی ہے کہ سعد بن ہشام بن عامر نے چاہا کہ اللہ کی راہ میں جہاد کرے اور مدینہ کو آئے اور چاہا کہ اپنے باغ و زمین بیچ ڈالیں اور اس سے ہتھیار اور گھوڑے خریدیں اور نصاریٰ سے مرنے کے وقت تک لڑیں۔ پھر جب مدینہ میں آئے اور مدینہ والوں سے ملے، انہوں نے ان کو منع کیا (یعنی بالکل کاروبار دنیا اور ضروریات بشریٰ چھوڑ کر ایسا نہ کرنا چاہیئے) اور خبر دی کہ چھ آدمیوں نے اس کا ارادہ کیا تھا نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو منع کیا اور فرمایا: کیا تمہارے لئے میری راہ اچھی نہیں۔ پھر جب لوگوں نے ان سے یہ کہا تو انہوں نے اپنی بیوی سے رجعت کی (یعنی جس کو طلاق دے دی تھی) اور ان کو طلاق دے دی تھی اور ان کی رجعت پر لوگوں کو گواہ کر لیا۔ پھر وہ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس آۓ اور ان سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال پوچھا۔ انہوں نے کہا: میں تم کو ایسا شخص بتا دوں کہ جو ساری زمین کے لوگوں سے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کا حال بہتر جانتا ہے۔ انہوں نے کہا: وہ کون ہے؟ سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنہا۔ تو تم ان کے پاس جاؤ ان سے پوچھو پھر میرے پاس آؤ اور ان کے جواب سے خبر دو۔ پھر میں ان کے پاس چلا حکیم بن افلح کے پاس آیا اور ان سے چاہا کہ وہ مجھے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس لے چلیں۔ انہوں نے کہا کہ میں ان کے پاس نہیں جاتا اس لئے کہ میں نے ان کو روکا تھا کہ وہ ان دونوں گروہوں کے بیچ میں کچھ نہ بولیں۔ (یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم کی آپس کی لڑائیوں میں) مگر انہوں نے نہ مانا اور چلی گئیں۔ زرارہ نے کہا کہ میں نے حکیم کو قسم دی۔ غرض وہ آئے اور ہم سے سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کی طرف چلے اور انہیں اطلاع دی۔ انہوں نے اجازت دی اور ہم ان کی خدمت میں حاضر ہوئے تب انہوں نے فرمایا: کیا یہ حکیم ہیں؟ انہوں نے کہا: ہاں غرض سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے ان کو پہچان لیا، (یعنی آواز وغیرہ سے پردہ کی آڑ سے) پھر انہوں نے فرمایا: کہ تمہارے ساتھ کون ہے؟ حکیم نے کیا: میرے ساتھ سعد بن ہشام ہیں۔ انہوں نے فرمایا: ہشام کون سے؟ حکیم نے کہا: عامر کے بیٹے تب ان پر بہت مہربانی کی اور قتادہ نے کہا کہ جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔ پھر میں نے عرض کیا کہ ام المؤمنین! مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اخلاق سے خبر دیجئے۔ انہوں نے فرمایا: کیا تم نے قرآن نہیں پڑھا؟ میں نے کہا: کیوں نہیں۔ انہوں نے فرمایا: نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا خلق وہی تھا جس کا قرآن میں حکم ہے۔ انہوں نے کہا: پھر میں نے چلنے کا ارادہ کیا اور چاہا کہ موت کے وقت تک اب کسی سے کوئی چیز نہ پوچھوں۔ پھر مجھے خیال آیا تو میں نے عرض کیا کہ خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے رات کے اٹھنے سے۔ پھر انہوں نے فرمایا: کیا تم نے «يَا أَيُّهَا الْمُزَّمِّلُ» نہیں پڑھی میں نے کہا کیوں نہیں۔ فرمایا کہ اللہ تعالیٰ نے فرض کیا رات کو کھڑے ہو کر پڑھنے کو اس سورت کے اول میں پھر نبی صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سب صحابہ رات کو نماز پڑھتے رہے اور اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کا خاتمہ بارہ مہینے تک آسمان پر روک رکھا یہاں تک کہ اللہ تعالیٰ نے اس سورۃ کا آخر اتارا اور اس میں تخفیف فرمائی (یعنی تہجد کی فرضیت معاف کر دی۔ مسنون ہونا باقی رہا) پھر ہو گیا رات کا نماز پڑھنا خوشی کا سودا بعد اس کے کہ فرض تھا۔ پھر میں نے عرض کیا: اے ام المؤمنین! خبر دیجئے مجھے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے وتر کی۔ تب انہوں نے فرمایا کہ ہم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے لئے مسواک اور وضو کا پانی تیار رکھتے تھے اور اللہ تعالیٰ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو جب چاہتا اٹھا دیتا تھا رات کو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسواک کرتے تھے اور وضو، پھر نو رکعت پڑھتے تھے نہ بیٹھتے اس میں مگر آٹھویں رکعت کے بعد اور یاد کرتے اللہ تعالیٰ کو اور اس کی حمد کرتے اور دعا کرتے (یعنی تشہد پڑھتے) پھر کھڑے ہو جاتے اور سلام نہ پھیرتے اور نویں رکعت پڑھتے پھر بیٹھتے اور اللہ کو یاد کرتے اور اس کی تعریف کرتے اور اس سے دعا کرتے اور اس طرح سلام پھیرتے کہ ہم کو سنا دیتے (تاکہ سوتے جاگ اٹھیں) پھر دو رکعت پڑھتے اس کے بعد، بیٹھے بیٹھے بعد سلام کے۔ غرض یہ گیارہ رکعات ہوئیں اے میرے بیٹے! پھر جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عمر زیادہ ہو گئی اور بعد میں گوشت آ گیا، سات رکعات وتر پڑھنے لگے اور دو رکعتیں ویسی ہی پڑھتے جیسے اوپر ہم نے بیان کیں۔ غرض یہ سب نو رکعتیں ہوئیں۔ اے میرے بیٹے! (یعنی سات وتر و تہجد کی اور دو بعد وتر کے) اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی عادت تھی کہ جب کوئی نماز پڑھتے اس پر ہمیشگی کرتے۔ اور جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم پر نیند یا کسی درد کا غلبہ ہوتا کہ رات کو نہ اٹھ سکتے تو دن کو بارہ رکعات ادا کرتے (یعنی وتر نہ پڑھتے۔ اس سے ثابت ہوا کہ وتر کی قضا نہیں) اور میں نہیں جانتی کہ کبھی نبی صلی اللہ علیہ وسلم نے سارا قرآن ایک رات میں پڑھ لیا ہو (اس سے ایک شب قرآن ختم کرنے کا بدعت ہونا ثابت ہوا) نہ یہ جانتی ہوں کہ ساری رات آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھی صبح تک (یعنی ذرا بھی نہ سوئے نہ آرام لیا ہو) اور نہ یہ کہ سارا مہینہ روزہ رکھا ہو، سوا رمضان کے۔ پھر میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس گیا اور ان سے یہ ساری حدیث بیان کی۔ انہوں نے کہا کہ بیشک سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے سچ فرمایا اور کہا: کہ اگر میں ان کے پاس ہوتا یا جاتا تو یہ سب منہ در منہ سنتا۔ زرارہ نے کہا: کہ اگر مجھے معلوم ہوتا کہ آپ ان کے پاس نہیں جاتے ہیں تو میں کبھی ان کی بات آپ سے نہ کہتا۔
حدیث نمبر: 1740
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا محمد بن المثنى ، حدثنا معاذ بن هشام ، حدثني ابي ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، انه طلق امراته، ثم انطلق إلى المدينة ليبيع عقاره، فذكر نحوه.وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، حَدَّثَنَا مُعَاذُ بْنُ هِشَامٍ ، حَدَّثَنِي أَبِي ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، ثُمَّ انْطَلَقَ إِلَى الْمَدِينَةِ لِيَبِيعَ عَقَارَهُ، فَذَكَرَ نَحْوَهُ.
‏‏‏‏ سعد بن ہشام نے طلاق دی اپنی بیوی کو پھر وہ گیا مدینہ کہ جائیداد بھی بیچ ڈالے باقی گزشتہ حدیث کی طرح بیان کیا۔
حدیث نمبر: 1741
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا محمد بن بشر ، حدثنا سعيد بن ابي عروبة ، حدثنا قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، انه قال: انطلقت إلى عبد الله بن عباس، فسالته عن الوتر، وساق الحديث بقصته، وقال فيه: قالت: من هشام؟ قلت: ابن عامر، قالت: نعم، المرء كان عامر، اصيب يوم احد.وحَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بِشْرٍ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ أَبِي عَرُوبَةَ ، حَدَّثَنَا قَتَادَةُ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، أَنَّهُ قَالَ: انْطَلَقْتُ إِلَى عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ، فَسَأَلْتُهُ عَنِ الْوِتْرِ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِقِصَّتِهِ، وَقَالَ فِيهِ: قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قُلْتُ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَتْ: نِعْمَ، الْمَرْءُ كَانَ عَامِرٌ، أُصِيبَ يَوْمَ أُحُدٍ.
‏‏‏‏ سعد بن ہشام نے کہا کہ میں چلا گیا سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس، میں نے ان سے وتر کے متعلق سوال کیا اور باقی سارا وہی واقعہ بیان کیا اور اس میں کہا کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: ہشام کون ہے؟ میں نے کہا: عامر کا بیٹا تو سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے کہا: اچھا شخص تھا عامر جنگ احد میں شہید ہوئے تھے۔
حدیث نمبر: 1742
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا إسحاق بن إبراهيم ، ومحمد بن رافع كلاهما، عن عبد الرزاق ، اخبرنا معمر ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، ان سعد بن هشام كان جارا له فاخبره انه طلق امراته، واقتص الحديث بمعنى حديث سعيد، وفيه قالت: من هشام؟ قال: ابن عامر، قالت: نعم، المرء كان اصيب مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم احد، وفيه فقال حكيم بن افلح: اما إني لو علمت انك لا تدخل عليها، ما انباتك بحديثها.وحَدَّثَنَا إِسْحَاق بْنُ إِبْرَاهِيمَ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ رَافِعٍ كِلَاهُمَا، عَنْ عَبْدِ الرَّزَّاقِ ، أَخْبَرَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، أَنَّ سَعْدَ بْنَ هِشَامٍ كَانَ جَارًا لَهُ فَأَخْبَرَهُ أَنَّهُ طَلَّقَ امْرَأَتَهُ، وَاقْتَصَّ الْحَدِيثَ بِمَعْنَى حَدِيثِ سَعِيدٍ، وَفِيهِ قَالَتْ: مَنْ هِشَامٌ؟ قَالَ: ابْنُ عَامِرٍ، قَالَتْ: نِعْمَ، الْمَرْءُ كَانَ أُصِيبَ مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ أُحُدٍ، وَفِيهِ فَقَالَ حَكِيمُ بْنُ أَفْلَحَ: أَمَا إِنِّي لَوْ عَلِمْتُ أَنَّكَ لَا تَدْخُلُ عَلَيْهَا، مَا أَنْبَأْتُكَ بِحَدِيثِهَا.
‏‏‏‏ زراہ بن اوفی سے روایت ہے کہ سعد بن ہشام ان کے ہمسایہ تھے، پس انہوں نے خبر دی کہ طلاق دی انہوں نے اپنی بیوی کو اور حدیث بیان کی جیسے سعید کی روایت ہے اور اس میں یہ بھی ہے کہ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے پوچھا کہ کون سے ہشام؟ انہوں نے کہا کہ عامر کے بیٹے۔ سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہانے فرمایا: کہ ہاں وہ کیا خوب آدمی تھے، وہ شہید ہوئے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ احد کے دن۔ اور اس میں یہ بھی ہے کہ حکیم بن افلح نے کہا کہ اگر میں جانتا کہ تم ان کے پاس نہیں جاتے تو میں ان کی حدیث سے تم کو خبر نہ دیتا۔
حدیث نمبر: 1743
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا سعيد بن منصور ، وقتيبة بن سعيد جميعا، عن ابي عوانة ، قال سعيد: حدثنا ابو عوانة ، عن قتادة ، عن زرارة بن اوفى ، عن سعد بن هشام ، عن عائشة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " كان إذا فاتته الصلاة من الليل من وجع او غيره، صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة ".حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَنْصُورٍ ، وَقُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ جميعا، عَنْ أَبِي عَوَانَةَ ، قَالَ سَعِيدٌ: حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ بْنِ أَوْفَى ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ ، عَنْ عَائِشَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " كَانَ إِذَا فَاتَتْهُ الصَّلَاةُ مِنَ اللَّيْلِ مِنْ وَجَعٍ أَوْ غَيْرِهِ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً ".
‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی شب کی تہجد جب قضا ہو جاتی کسی درد وغیرہ کے عذر سے تو دن کو بارہ رکعت پڑھ لیتے۔
حدیث نمبر: 1744
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنا علي بن خشرم ، اخبرنا عيسى وهو ابن يونس ، عن شعبة ، عن قتادة ، عن زرارة ، عن سعد بن هشام الانصاري ، عن عائشة ، قالت: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، " إذا عمل عملا اثبته، وكان إذا نام من الليل او مرض، صلى من النهار ثنتي عشرة ركعة "، قالت: وما رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم قام ليلة حتى الصباح، وما صام شهرا متتابعا، إلا رمضان.وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ خَشْرَمٍ ، أَخْبَرَنَا عِيسَى وَهُوَ ابْنُ يُونُسَ ، عَنْ شُعْبَةَ ، عَنْ قَتَادَةَ ، عَنْ زُرَارَةَ ، عَنْ سَعْدِ بْنِ هِشَامٍ الأَنْصَارِيِّ ، عَنْ عَائِشَةَ ، قَالَتْ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، " إِذَا عَمِلَ عَمَلًا أَثْبَتَهُ، وَكَانَ إِذَا نَامَ مِنَ اللَّيْلِ أَوْ مَرِضَ، صَلَّى مِنَ النَّهَارِ ثِنْتَيْ عَشْرَةَ رَكْعَةً "، قَالَتْ: وَمَا رَأَيْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَامَ لَيْلَةً حَتَّى الصَّبَاحِ، وَمَا صَامَ شَهْرًا مُتَتَابِعًا، إِلَّا رَمَضَانَ.
‏‏‏‏ ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدّیقہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب کوئی کام کرتے تو اسے ہمیشہ کیا کرتے تھے اور جب رات کو سو جاتے یا بیمار ہو جاتے تو دن کو بارہ رکعت پڑھ لیتے اور میں نے نہیں دیکھا کہ کبھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم ساری رات صبح تک جاگے ہوں اور کبھی ایک ماہ برابر روزے نہ رکھے مگر رمضان میں۔
حدیث نمبر: 1745
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا هارون بن معروف ، حدثنا عبد الله بن وهب . ح، وحدثني ابو الطاهر ، وحرملة ، قالا: اخبرنا ابن وهب ، عن يونس بن يزيد ، عن ابن شهاب ، عن السائب بن يزيد وعبيد الله بن عبد الله اخبراه، عن عبد الرحمن بن عبد القاري ، قال: سمعت عمر بن الخطاب ، يقول: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: " من نام عن حزبه او عن شيء منه، فقراه فيما بين صلاة الفجر وصلاة الظهر، كتب له كانما قراه من الليل ".حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ مَعْرُوفٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ وَهْبٍ . ح، وَحَدَّثَنِي أَبُو الطَّاهِرِ ، وَحَرْمَلَةُ ، قَالَا: أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ ، عَنِ ابْنِ شِهَابٍ ، عَنِ السَّائِبِ بْنِ يَزِيدَ وَعُبَيْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ أخبراه، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ عَبْدٍ الْقَارِيِّ ، قَالَ: سَمِعْتُ عُمَرَ بْنَ الْخَطَّابِ ، يَقُولُ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: " مَنْ نَامَ عَنْ حِزْبِهِ أَوْ عَنْ شَيْءٍ مِنْهُ، فَقَرَأَهُ فِيمَا بَيْنَ صَلَاةِ الْفَجْرِ وَصَلَاةِ الظُّهْرِ، كُتِبَ لَهُ كَأَنَّمَا قَرَأَهُ مِنَ اللَّيْلِ ".
‏‏‏‏ سیدنا عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کہتے تھے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو سو گیا اپنے وظیفہ سے کسی چیز کو چھوڑ کر اور پڑھ لیا اس کو فجر اور ظہر کے بیچ میں تو لکھتا ہے اس کو اللہ ایسا کہ گویا پڑھ لیا اس نے رات کو۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.