الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الصِّيَامِ روزوں کے احکام و مسائل 13. باب صِحَّةِ صَوْمِ مَنْ طَلَعَ عَلَيْهِ الْفَجْرُ وَهُوَ جُنُبٌ: باب: روزے میں اگر جنبی کو صبح ہو جائے تو روزہ صحیح ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اپنی روایتوں میں کہتے تھے کہ جس کو فجر ہو جائے حالت جنابت میں وہ روزہ نہ رکھے۔ سو میں نے (یہ مقولہ ہے ابوبکر بن عبدالرحمٰن کا) عبدالرحمٰن سے کہا: جو میرے باپ تھے انہوں نے اس کا انکار کیا اور ہم دونوں (یعنی ابوبکر اور عبدالرحمٰن) سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہن کے پاس گئے اور عبدالرحمٰن نے ان سے پوچھا: تو دونوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت جنابت میں صبح ہو جاتی تھی اور پھر روزہ رکھتے تھے اور جنابت بغیر احتلام کے ہوتی تھی (اس لیے کہ انبیاء کو احتلام نہیں ہوتا یعنی صحبت سے بیبیوں کے جنابت ہوتی ہے) کہا ابوبکر نے پھر ہم گئے مروان کے پاس اور عبدالرحمٰن نے ان سے ذکر کیا۔ سو مروان نے کہا: میں تم کو قسم کو دیتا ہوں کہ تم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس جاؤ اور ان کی بات کا جواب دے دو پھر ہم سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کے پاس آئے اور ابوبکر ان سب باتوں میں حاضر تھا اور ذکر کیا عبدالرحمٰن نے تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ان دونوں بیبیوں نے فرمایا تم سے؟ انہوں نے کہا: ہاں، تو سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا کہ بیشک وہ اور لوگوں سے زیادہ جانتی ہیں پھر سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس قول کی نسبت فضل بن عباس کی طرف کی اور کہا سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہ میں نے یہ بات فضل سے سنی تھی تو اس کو میں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے نہیں سنا۔ غرض سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے اس بات سے رجوع کیا جو وہ اس مسئلہ میں کہا کرتے تھے پھر میں نے (یہ مقولہ ہے ابن جریج کا) عبدالملک سے کہا کہ کیا ان دونوں بیبیوں نے رمضان کے روزے کو کہا؟ انہوں نے کہا کہ ایسا فرمایا بیبیوں نے کہ صبح ہوتی تھی آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو حالت جنابت میں بغیر احتلام کے پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم روزہ رکھتے تھے۔
ام المؤمنین سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح ہو جاتی تھی رمضان میں اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم جنبی ہوتے تھے بغیر احتلام کے (یعنی صحبت سے جنبی ہوتے تھے نہ کہ احتلام سے کہ اس سے انبیاء علیہم السلام پاک ہیں) پھر غسل فرماتے تھے اور روزہ رکھتے تھے۔
سیدنا عبداللہ بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ ابوبکر بن عبدالرحمٰن رضی اللہ عنہ نے ان سے بیان کیا کہ مروان نے ان کو بھیجا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا کی طرف کہ پوچھیں کہ جو شخص صبح کرے جنابت میں آیا وہ روزہ رکھے یا نہیں؟ انہوں نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جنابت میں صبح کرتے تھے جماع کے سبب سے نہ کہ احتلام سے اور پھر نہ افطار کرتے تھے اور نہ قضا کرتے تھے (یعنی روزہ کو صحیح جانتے تھے۔)
سیدہ عائشہ اور سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہن نے فرمایا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو صبح ہو جاتی تھی بغیر احتلام کے رمضان میں اور پھر وہ روزہ رکھتے تھے۔
سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ ایک شخص نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا اور سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا دروازے کی اوٹ سے سنتی تھیں۔ غرض اس نے عرض کی کہ اے اللہ کے رسول! مجھے نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں کیا میں روزہ رکھوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”مجھے بھی نماز کا وقت آ جاتا ہے اور میں جنبی ہوتا ہوں، پھر میں روزہ رکھتا ہوں۔“ اس نے عرض کی کہ آپ اور ہم برابر نہیں ہیں اے اللہ کے رسول! اس لیے کہ اللہ پاک نے آپ کے اگلے پچھلے گناہ بخش دیئے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اللہ کی! میں امید رکھتا ہوں کہ میں تم سب سے زیادہ اللہ سے ڈرنے والا ہوں اور تم سب سے زیادہ ہوں جاننے والا ان چیزوں کا جن سے بچنا ضروری ہے۔“ (غرض اس سائل کو یہ گمان ہوا کہ شاید یہ حکم آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ خاص ہے مگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرما دیا کہ یہ حکم مجھ کو، تم کو، سب کو برابر ہے اور اس حدیث سے معلوم ہوا کہ بندہ کسی حالت میں تکلیف شرعی سے اور لوازم عبدیت سے باہر نہیں ہو سکتا اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اس سے کہ ”میں امید رکھتا ہوں۔“ یہ کمال عبدیت ہے ورنہ واقع میں نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا مرتبہ ایسا ہی ہے کہ سارے جہاں سے اعلم واتفیٰ ہیں)۔
سلیمان سے روایت ہے انہوں نے پوچھا سیدہ ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے کہ جو شخص صبح کرے جنابت میں وہ روزہ رکھے تو انہوں نے فرمایا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صبح کرتے تھے جنابت میں بغیر احتلام کے اور پھر روزہ رکھتے تھے۔
|