الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الصِّيَامِ روزوں کے احکام و مسائل 20. باب أَيُّ يَوْمٍ يُصَامُ فِي عَاشُورَاءَ: باب: عاشورہ کا روزہ کس دن رکھا جائے۔
حکم بن اعرج نے کہا: میں سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما کے پاس پہنچا اور وہ تکیہ لگائے بیٹھے تھے اپنی چادر پر زمزم کے کنارے سو میں نے کہا: خبر دیجئیے مجھ کو عاشورے کے روزے سے۔ انہوں نے فرمایا: جب تم چاند دیکھو محرم کا تو تاریخیں گنتے رہو۔ پھر نویں تاریخ ہو اس دن روزہ رکھو۔ میں نے کہا: محمد صلی اللہ علیہ وسلم ایسا ہی کیا کرتے تھے؟ انہوں نے کہا کہ ہاں۔
حکم بن اعرج نے کہا: پوچھا میں نے سیدنا ابن عباس رضی اللہ عنہما سے اور وہ تکیہ لگائے ہوئے تھے زمزم کے پاس عاشورے کے روزے کو پھر بیان کی روایت مثل روایت حاجب بن عمر کی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے تھے: جب روزہ رکھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے عاشورے کے دن کا اور حکم کیا اس کے روزے کا تو لوگوں نے عرض کی کہ یارسول اللہ! یہ دن تو ایسا ہے کہ اس کی تعظیم کرتے ہیں یہود و نصاریٰ، تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”جب اگلا سال آئے گا تو ان شاء اللہ تعالیٰ ہم نویں تاریخ کا روزہ رکھیں گے۔“ آخر اگلا سال نہ آنے پایا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے وفات پائی۔
سیدنا عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا: فرمایا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ”اگر میں باقی رہا سال آئندہ تک تو روزہ رکھوں گا میں نویں تاریخ کو۔“ اور ابوبکر کی روایت میں یہ ہے کہ انہوں نے کہا: مراد اس سے یومِ عاشوراء ہے۔
|