الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

صحيح مسلم کل احادیث 3033 :ترقیم فواد عبدالباقی
صحيح مسلم کل احادیث 7563 :حدیث نمبر
صحيح مسلم
كِتَاب الْجِهَادِ وَالسِّيَرِ
جہاد اور اس کے دوران میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے اختیار کردہ طریقے
The Book of Jihad and Expeditions
31. باب فَتْحِ مَكَّةَ:
باب: مکہ فتح ہونے کا بیان۔
حدیث نمبر: 4622
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثنا شيبان بن فروخ ، حدثنا سليمان بن المغيرة ، حدثنا ثابت البناني ، عن عبد الله بن رباح ، عن ابي هريرة ، قال: " وفدت وفود إلى معاوية وذلك في رمضان، فكان يصنع بعضنا لبعض الطعام فكان ابو هريرة مما يكثر ان يدعونا إلى رحله، فقلت: الا اصنع طعاما فادعوهم إلى رحلي، فامرت بطعام يصنع ثم لقيت ابا هريرة من العشي، فقلت: الدعوة عندي الليلة، فقال: قلت: نعم، فدعوتهم، فقال ابو هريرة: الا اعلمكم بحديث من حديثكم يا معشر الانصار ثم ذكر فتح مكة، فقال: اقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى قدم مكة، فبعث الزبير على إحدى المجنبتين، وبعث خالدا على المجنبة الاخرى، وبعث ابا عبيدة على الحسر، فاخذوا بطن الوادي ورسول الله صلى الله عليه وسلم في كتيبة، قال: فنظر فرآني، فقال ابو هريرة، قلت: لبيك يا رسول الله، فقال: لا ياتيني إلا انصاري " زاد غير شيبان، فقال: اهتف لي بالانصار، قال: فاطافوا به ووبشت قريش اوباشا لها واتباعا، فقالوا نقدم هؤلاء، فإن كان لهم شيء كنا معهم، وإن اصيبوا اعطينا الذي سئلنا، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ترون إلى اوباش قريش واتباعهم، ثم قال: بيديه إحداهما على الاخرى، ثم قال: حتى توافوني بالصفا، قال: فانطلقنا فما شاء احد منا ان يقتل احدا إلا قتله، وما احد منهم يوجه إلينا شيئا، قال: فجاء ابو سفيان، فقال: يا رسول الله، ابيحت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم، ثم قال: من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، فقالت الانصار بعضهم لبعض: اما الرجل فادركته رغبة في قريته ورافة بعشيرته، قال ابو هريرة: وجاء الوحي وكان إذا جاء الوحي لا يخفى علينا، فإذا جاء فليس احد يرفع طرفه إلى رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى ينقضي الوحي، فلما انقضى الوحي، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: يا معشر الانصار، قالوا: لبيك يا رسول الله، قال: قلتم اما الرجل فادركته رغبة في قريته؟، قالوا: قد كان ذاك، قال: كلا إني عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله، وإليكم والمحيا محياكم والممات مماتكم، فاقبلوا إليه يبكون، ويقولون: والله ما قلنا الذي قلنا إلا الضن بالله وبرسوله، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم "، قال: فاقبل الناس إلى دار ابي سفيان واغلق الناس ابوابهم، قال: واقبل رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى اقبل إلى الحجر فاستلمه، ثم طاف بالبيت، قال: فاتى على صنم إلى جنب البيت كانوا يعبدونه، قال: وفي يد رسول الله صلى الله عليه وسلم قوس وهو آخذ بسية القوس، فلما اتى على الصنم جعل يطعنه في عينه، ويقول: جاء الحق وزهق الباطل، فلما فرغ من طوافه اتى الصفا فعلا عليه حتى نظر إلى البيت ورفع يديه، فجعل يحمد الله ويدعو بما شاء ان يدعو "،حَدَّثَنَا شَيْبَانُ بْنُ فَرُّوخَ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ ، حَدَّثَنَا ثَابِتٌ الْبُنَانِيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: " وَفَدَتْ وُفُودٌ إِلَى مُعَاوِيَةَ وَذَلِكَ فِي رَمَضَانَ، فَكَانَ يَصْنَعُ بَعْضُنَا لِبَعْضٍ الطَّعَامَ فَكَانَ أَبُو هُرَيْرَةَ مِمَّا يُكْثِرُ أَنْ يَدْعُوَنَا إِلَى رَحْلِهِ، فَقُلْتُ: أَلَا أَصْنَعُ طَعَامًا فَأَدْعُوَهُمْ إِلَى رَحْلِي، فَأَمَرْتُ بِطَعَامٍ يُصْنَعُ ثُمَّ لَقِيتُ أَبَا هُرَيْرَةَ مِنَ الْعَشِيِّ، فَقُلْتُ: الدَّعْوَةُ عِنْدِي اللَّيْلَةَ، فَقَالَ: قُلْتُ: نَعَمْ، فَدَعَوْتُهُمْ، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: أَلَا أُعْلِمُكُمْ بِحَدِيثٍ مِنْ حَدِيثِكُمْ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ ثُمَّ ذَكَرَ فَتْحَ مَكَّةَ، فَقَالَ: أَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى قَدِمَ مَكَّةَ، فَبَعَثَ الزُّبَيْرَ عَلَى إِحْدَى الْمُجَنِّبَتَيْنِ، وَبَعَثَ خَالِدًا عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْأُخْرَى، وَبَعَثَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْحُسَّرِ، فَأَخَذُوا بَطْنَ الْوَادِي وَرَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي كَتِيبَةٍ، قَالَ: فَنَظَرَ فَرَآنِي، فَقَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ، قُلْتُ: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، فَقَالَ: لَا يَأْتِينِي إِلَّا أَنْصَارِيٌّ " زَادَ غَيْرُ شَيْبَانَ، فَقَالَ: اهْتِفْ لِي بِالْأَنْصَارِ، قَالَ: فَأَطَافُوا بِهِ وَوَبَّشَتْ قُرَيْشٌ أَوْبَاشًا لَهَا وَأَتْبَاعًا، فَقَالُوا نُقَدِّمُ هَؤُلَاءِ، فَإِنْ كَانَ لَهُمْ شَيْءٌ كُنَّا مَعَهُمْ، وَإِنْ أُصِيبُوا أَعْطَيْنَا الَّذِي سُئِلْنَا، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: تَرَوْنَ إِلَى أَوْبَاشِ قُرَيْشٍ وَأَتْبَاعِهِمْ، ثُمَّ قَالَ: بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى، ثُمَّ قَالَ: حَتَّى تُوَافُونِي بِالصَّفَا، قَالَ: فَانْطَلَقْنَا فَمَا شَاءَ أَحَدٌ مِنَّا أَنْ يَقْتُلَ أَحَدًا إِلَّا قَتَلَهُ، وَمَا أَحَدٌ مِنْهُمْ يُوَجِّهُ إِلَيْنَا شَيْئًا، قَالَ: فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيحَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، ثُمَّ قَالَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ بَعْضُهُمْ لِبَعْضٍ: أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ وَرَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ، قَالَ أَبُو هُرَيْرَةَ: وَجَاءَ الْوَحْيُ وَكَانَ إِذَا جَاءَ الْوَحْيُ لَا يَخْفَى عَلَيْنَا، فَإِذَا جَاءَ فَلَيْسَ أَحَدٌ يَرْفَعُ طَرْفَهُ إِلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يَنْقَضِيَ الْوَحْيُ، فَلَمَّا انْقَضَى الْوَحْيُ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ، قَالُوا: لَبَّيْكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَأَدْرَكَتْهُ رَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ؟، قَالُوا: قَدْ كَانَ ذَاكَ، قَالَ: كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ وَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، فَأَقْبَلُوا إِلَيْهِ يَبْكُونَ، وَيَقُولُونَ: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا الَّذِي قُلْنَا إِلَّا الضِّنَّ بِاللَّهِ وَبِرَسُولِهِ، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ "، قَالَ: فَأَقْبَلَ النَّاسُ إِلَى دَارِ أَبِي سُفْيَانَ وَأَغْلَقَ النَّاسُ أَبْوَابَهُمْ، قَالَ: وَأَقْبَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى أَقْبَلَ إِلَى الْحَجَرِ فَاسْتَلَمَهُ، ثُمَّ طَافَ بِالْبَيْتِ، قَالَ: فَأَتَى عَلَى صَنَمٍ إِلَى جَنْبِ الْبَيْتِ كَانُوا يَعْبُدُونَهُ، قَالَ: وَفِي يَدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَوْسٌ وَهُوَ آخِذٌ بِسِيَةِ الْقَوْسِ، فَلَمَّا أَتَى عَلَى الصَّنَمِ جَعَلَ يَطْعُنُهُ فِي عَيْنِهِ، وَيَقُولُ: جَاءَ الْحَقُّ وَزَهَقَ الْبَاطِلُ، فَلَمَّا فَرَغَ مِنْ طَوَافِهِ أَتَى الصَّفَا فَعَلَا عَلَيْهِ حَتَّى نَظَرَ إِلَى الْبَيْتِ وَرَفَعَ يَدَيْهِ، فَجَعَلَ يَحْمَدُ اللَّهَ وَيَدْعُو بِمَا شَاءَ أَنْ يَدْعُوَ "،
‏‏‏‏ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کئی جماعتیں سفر کر کے سیدنا معاویہ رضی اللہ عنہ کے پاس گئیں رمضان المبارک کے مہینہ میں۔ عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ نے کہا: (جو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں اس حدیث کو) ہم میں سے ایک دوسرے کے لیے کھانا تیار کرتا تو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اکثر ہم کو بلاتے اپنے مقام پر، ایک دن میں نے کہا: میں بھی کھانا تیار کروں اور سب کو اپنے مقام پر بلاؤں تو میں نے کھانے کا حکم دیا اور شام کو ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے ملا اور کہا: آج کی رات میرے یہاں دعوت ہے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو نے مجھ سے پہلے کہہ دیا۔ (یعنی آج میں دعوت کرنے والا تھا) میں نے کہا: ہاں پھر میں نے ان سب کو بلایا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اے انصار کے گروہ! میں تمہارے باب میں ایک حدیث بیان کرتا ہوں، پھر انہوں نے ذکر کیا مکہ کے فتح کا۔ بعد اس کے کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آئے یہاں تک کہ مکہ میں داخل ہوئے تو ایک جانب پر زبیر کو بھیجا اور دوسری جانب پر خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو (یعنی ایک کو میمنہ پر اور ایک کو میسرہ پر) اور ابوعبیدہ بن الجراح رضی اللہ عنہ کو ان لوگوں کا سردار کیا جن کے پاس زرہیں نہ تھیں۔ وہ گھاٹی کے اندر سے گئے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک ٹکڑے میں تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ کو دیکھا تو فرمایا: ابوہریرہ۔ میں نے کہا: حاضر ہوں یا رسول اللہ! آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: نہ آئے میرے پاس مگر انصاری اور فرمایا انصار کو پکارو میرے لیے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو انصار پر بہت اعتماد تھا اور ان کو مکہ والوں سے کوئی غرض بھی نہ تھی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کا پاس رکھنا مناسب جانا۔ پھر وہ سب آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گرد ہو گئے اور قریش نے بھی اپنے گروہ اور تابعدار اکٹھا کیے اور کہا ہم ان کو آگے کرتے ہیں اگر کچھ ملا تو ہم بھی ان کے ساتھ ہیں اور جو آفت آئی تو دیدیں گے ہم سے جو مانگا جائے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم دیکھتے ہو قریش کی جماعتوں اور تابعداروں کو۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ پر بتلایا (یعنی مارو مکہ کے کافروں کو اور ان میں سے ایک کو نہ چھوڑو) اور فرمایا: تم ملو مجھ سے صفا پر۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: پھر ہم چلے جو کوئی ہم میں سے کسی کو مارنا چاہتا (کافروں میں سے) وہ مار ڈالتا اور کوئی ہمارا مقابلہ نہ کرتا، یہاں تک کہ ابوسفیان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ قریش کا گروہ تباہ ہو گیا۔ اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو شخص ابوسفیان کے گھر چلا جائے اس کو امن ہے (یہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ابوسفیان کی درخواست پر اس کو عزت دینے کو فرمایا) انصار ایک دوسرے سے کہنے لگے ان کو (یعنی رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو) اپنے وطن کی الفت آ گئی اور اپنے کنبہ والوں پر مامتا ہوئے۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: اور وحی آنے لگی اور جب وحی آنے لگتی تو ہم کو معلوم ہو جاتا جب تک وحی اترتی رہتی کوئی اپنی آنکھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی طرف نہ اٹھاتا یہاں تک کہ وحی ختم ہو جاتی، غرض جب وحی ختم ہو چکی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کے لوگو! انہوں نے کہا حاضر ہیں یا رسول اللہ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: (یہ معجزہ ہے) تم نے یہ کہا: اس شخص کو اپنے گاؤں کی الفت آ گئی؟۔ انہوں نے کہا: بے شک یہ تو ہم نے کہا: آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہرگز نہیں میں اللہ کا بندہ ہوں اور اس کا رسول ہوں (اور جو تم نے کہا وہ وحی سے مجھ کو معلوم ہو گیا پر مجھے اللہ کا بندہ ہی سمجھنا، نصاریٰ نے جیسے سیدنا عیسیٰ علیہ السلام کو بڑھا دیا ویسے بڑھا نہ دینا) میں نے ہجرت کی اللہ کی طرف اور تمہاری طرف اب میری زندگی بھی تمہارے ساتھ ہے اور مرنا بھی تمہارے ساتھ۔ یہ سن کر انصار دوڑتے روتے ہوئے اور کہنے لگے قسم اللہ تعالیٰ کی ہم نے کہا جو کہا محض حرص کر کے اللہ تعالیٰ اور اس کے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی (یعنی ہمارا مطلب یہ تھا کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم ہمارا ساتھ نہ چھوڑیں اور ہمارے شہر میں ہی رہیں) رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: بے شک اللہ اور رسول تصدیق کرتے ہیں تمہاری اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔ پھر لوگ ابوسفیان کے گھر کو چلے گئے (جان بچانے کے لیے) اور لوگوں نے اپنے دروازے بند کر لیے اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تشریف لائے حجر اسود کے پاس اور اس کو چوما پھر طواف کیا خانہ کعبہ کا (اگرچہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم احرام سے نہ تھے کیونکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے سر پر خود تھا) پھر ایک بت کے پاس آئے جو کعبہ کے بازو پر رکھا تھا اس کو لوگ پوجا کرتے تھے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے ہاتھ میں کمان تھی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کا کونا تھامے ہوئے تھے، جب بت کے پاس آئے تو اس کی آنکھ میں کونچنے لگے اور فرمانے لگے: حق آیا اور باطل مٹ گیا۔ جب طواف سے فارغ ہوئے تو صفا پہاڑ پر آئے اور اس پر چڑھے یہاں تک کہ کعبہ کو دیکھا اور دونوں ہاتھ اٹھائے پھر اللہ کی تعریف کرنے لگے اور دعا کرنے لگے جو دعا آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے چاہی۔
حدیث نمبر: 4623
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
وحدثنيه عبد الله بن هاشم ، حدثنا بهز ، حدثنا سليمان بن المغيرة بهذا الإسناد وزاد في الحديث، ثم قال: بيديه إحداهما على الاخرى احصدوهم حصدا، وقال في الحديث: قالوا: قلنا ذاك يا رسول الله، قال: فما اسمي إذا كلا إني عبد الله ورسوله.وحَدَّثَنِيهِ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ هَاشِمٍ ، حَدَّثَنَا بَهْزٌ ، حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ الْمُغِيرَةِ بِهَذَا الْإِسْنَادِ وَزَادَ فِي الْحَدِيثِ، ثُمّ قَالَ: بِيَدَيْهِ إِحْدَاهُمَا عَلَى الْأُخْرَى احْصُدُوهُمْ حَصْدًا، وَقَالَ فِي الْحَدِيثِ: قَالُوا: قُلْنَا ذَاكَ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَالَ: فَمَا اسْمِي إِذًا كَلَّا إِنِّي عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولُهُ.
‏‏‏‏ ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔ اس میں اتنا زیادہ ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک ہاتھ دوسرے ہاتھ پر رکھ کر بتایا، کاٹ دو ان کو بالکل۔
حدیث نمبر: 4624
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
حدثني عبد الله بن عبد الرحمن الدارمي ، حدثنا يحيي بن حسان ، حدثنا حماد بن سلمة ، اخبرنا ثابت ، عن عبد الله بن رباح ، قال: " وفدنا إلى معاوية بن ابي سفيان، وفينا ابو هريرة فكان كل رجل منا يصنع طعاما يوما لاصحابه، فكانت نوبتي، فقلت يا ابا هريرة: اليوم نوبتي، فجاءوا إلى المنزل ولم يدرك طعامنا، فقلت يا ابا هريرة : لو حدثتنا عن رسول الله صلى الله عليه وسلم حتى يدرك طعامنا، فقال: كنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم يوم الفتح، فجعل خالد بن الوليد على المجنبة اليمنى، وجعل الزبير على المجنبة اليسرى، وجعل ابا عبيدة على البياذقة وبطن الوادي، فقال يا ابا هريرة: ادع لي الانصار، فدعوتهم فجاءوا يهرولون، فقال يا معشر الانصار: هل ترون اوباش قريش؟، قالوا: نعم، قال: انظروا إذا لقيتموهم غدا ان تحصدوهم حصدا، واخفى بيده ووضع يمينه على شماله، وقال: موعدكم الصفا، قال: فما اشرف يومئذ لهم احد إلا اناموه، قال وصعد رسول الله صلى الله عليه وسلم الصفا، وجاءت الانصار، فاطافوا بالصفا فجاء ابو سفيان، فقال: يا رسول الله، ابيدت خضراء قريش لا قريش بعد اليوم، قال ابو سفيان:، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: من دخل دار ابي سفيان فهو آمن، ومن القى السلاح فهو آمن، ومن اغلق بابه فهو آمن، فقالت الانصار: اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته، ونزل الوحي على رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: قلتم اما الرجل فقد اخذته رافة بعشيرته ورغبة في قريته، الا فما اسمي إذا ثلاث مرات انا محمد عبد الله ورسوله هاجرت إلى الله، وإليكم فالمحيا محياكم والممات مماتكم، قالوا: والله ما قلنا إلا ضنا بالله ورسوله، قال: فإن الله ورسوله يصدقانكم ويعذرانكم ".حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الدَّارِمِيُّ ، حَدَّثَنَا يَحْيَي بْنُ حَسَّانَ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، أَخْبَرَنَا ثَابِتٌ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ رَبَاحٍ ، قَالَ: " وَفَدْنَا إِلَى مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، وَفِينَا أَبُو هُرَيْرَةَ فَكَانَ كُلُّ رَجُلٍ مِنَّا يَصْنَعُ طَعَامًا يَوْمًا لِأَصْحَابِهِ، فَكَانَتْ نَوْبَتِي، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: الْيَوْمُ نَوْبَتِي، فَجَاءُوا إِلَى الْمَنْزِلِ وَلَمْ يُدْرِكْ طَعَامُنَا، فَقُلْتُ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ : لَوْ حَدَّثْتَنَا عَنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حَتَّى يُدْرِكَ طَعَامُنَا، فَقَالَ: كُنَّا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمَ الْفَتْحِ، فَجَعَلَ خَالِدَ بْنَ الْوَلِيدِ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُمْنَى، وَجَعَلَ الزُّبَيْرَ عَلَى الْمُجَنِّبَةِ الْيُسْرَى، وَجَعَلَ أَبَا عُبَيْدَةَ عَلَى الْبَيَاذِقَةِ وَبَطْنِ الْوَادِي، فَقَالَ يَا أَبَا هُرَيْرَةَ: ادْعُ لِي الْأَنْصَارَ، فَدَعَوْتُهُمْ فَجَاءُوا يُهَرْوِلُونَ، فَقَالَ يَا مَعْشَرَ الْأَنْصَارِ: هَلْ تَرَوْنَ أَوْبَاشَ قُرَيْشٍ؟، قَالُوا: نَعَمْ، قَالَ: انْظُرُوا إِذَا لَقِيتُمُوهُمْ غَدًا أَنْ تَحْصُدُوهُمْ حَصْدًا، وَأَخْفَى بِيَدِهِ وَوَضَعَ يَمِينَهُ عَلَى شِمَالِهِ، وَقَالَ: مَوْعِدُكُمْ الصَّفَا، قَالَ: فَمَا أَشْرَفَ يَوْمَئِذٍ لَهُمْ أَحَدٌ إِلَّا أَنَامُوهُ، قَالَ وَصَعِدَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الصَّفَا، وَجَاءَتْ الْأَنْصَارُ، فَأَطَافُوا بِالصَّفَا فَجَاءَ أَبُو سُفْيَانَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُبِيدَتْ خَضْرَاءُ قُرَيْشٍ لَا قُرَيْشَ بَعْدَ الْيَوْمِ، قَالَ أَبُو سُفْيَانَ:، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَنْ دَخَلَ دَارَ أَبِي سُفْيَانَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَلْقَى السِّلَاحَ فَهُوَ آمِنٌ، وَمَنْ أَغْلَقَ بَابَهُ فَهُوَ آمِنٌ، فَقَالَتْ الْأَنْصَارُ: أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، وَنَزَلَ الْوَحْيُ عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: قُلْتُمْ أَمَّا الرَّجُلُ فَقَدْ أَخَذَتْهُ رَأْفَةٌ بِعَشِيرَتِهِ وَرَغْبَةٌ فِي قَرْيَتِهِ، أَلَا فَمَا اسْمِي إِذًا ثَلَاثَ مَرَّاتٍ أَنَا مُحَمَّدٌ عَبْدُ اللَّهِ وَرَسُولِهِ هَاجَرْتُ إِلَى اللَّهِ، وَإِلَيْكُمْ فَالْمَحْيَا مَحْيَاكُمْ وَالْمَمَاتُ مَمَاتُكُمْ، قَالُوا: وَاللَّهِ مَا قُلْنَا إِلَّا ضِنًّا بِاللَّهِ وَرَسُولِهِ، قَالَ: فَإِنَّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يُصَدِّقَانِكُمْ وَيَعْذِرَانِكُمْ ".
‏‏‏‏ عبداللہ بن رباح رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، ہم سفر کر کے معاویہ بن ابی سفیان کے پاس گئے اور ہم لوگوں میں سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ بھی تھے تو ہم میں سے ہر شخص ایک ایک دن کھانا تیار کرتا اپنے ساتھیوں کے لیے۔ ایک دن میری باری آئی میں نے کہا: اے ابوہریرہ! آج میری باری ہے وہ سب میرے ٹھکانے پر آئے اور ابھی کھانا تیار نہیں ہوا تھا۔ میں نے کہا: اے ابوہریرہ! کاش تم ہم سے حدیث بیان کرو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جب تک کھانا تیار ہو۔ انہوں نے کہا: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے جس دن مکہ فتح ہوا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے سیدنا خالد بن ولید رضی اللہ عنہ کو میمنہ کا سردار کیا اور سیدنا زبیر رضی اللہ عنہ کو میسرہ اور سیدنا ابوعبیدہ رضی اللہ عنہ کو پیادوں کا اور ان کو وادی کے اندر سے جانے کو کہا: پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے ابوہریر! انصار کو بلاؤ۔ میں نے ان کو پکارا، وہ دوڑتے ہوئے آئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اے انصار کے لوگو! تم دیکھتے ہو قریش کی جماعتوں کو۔ انہوں نے کہا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کل جب ان سے ملنا تو ان کو صاف کر دینا۔ اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہاتھ سے صاف کر کے بتلایا اور داہنا ہاتھ بائیں ہاتھ پر رکھا۔ اور فرمایا: اب تم ہم سے صفا پہاڑ پر ملنا۔ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: تو اس روز جو کوئی دکھائی دیا انہوں نے اس کو سلا دیا۔ (یعنی مار ڈالا) اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم صفا پہاڑ پر چڑھے اور انصار آئے، انہوں نے گھیر لیا صفا کو، اتنے میں ابوسفیان آیا اور کہنے لگا یا رسول اللہ! قریش کا جتھا ہٹ گیا، اب آج سے قریش نہ رہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جو کوئی ابوسفیان کے گھر میں چلا جائے اس کو امن ہے اور جو ہتھیار ڈال دے اس کو بھی امن ہے اور جو اپنا دروازہ بند کرے اس کو بھی امن ہے۔ انصار نے کہا: ان کو اپنے عزیزوں کی محبت آ گئی اور اپنے شہر کی رغبت پیدا ہوئی اور وحی اتری رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم نے کہا مجھ کو کنبے والوں کی محبت آ گئی اور اپنے شہر کی الفت پیدا ہوئی۔ تم جانتے ہو میرا کیا نام ہے۔ تین بار فرمایا: محمد ہوں۔ اللہ کا بندہ اور اس کا رسول، میں نے وطن چھوڑا اللہ کی طرف اور تمہاری طرف تو اب زندگی اور موت دونوں تمہاری زندگی اور موت کے ساتھ ہیں۔ انہوں نے کہا: قسم اللہ کی ہم نے یہ نہیں کہا مگر حرص سے اللہ اور اس کے رسول کی۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تو اللہ اور اس کا رسول دونوں سچا جانتے ہیں تم کو اور تمہارا عذر قبول کرتے ہیں۔

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.