كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب The Book of the Merits of the Companions 4. باب مِنْ فَضَائِلِ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: باب: سیدنا علی رضی اللہ عنہ کی بزرگی کا بیان۔ Chapter: The Virtues Of 'Ali Bin Abi Talib (RA) سعید بن مسیب نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے، انھوں نے ا پنے والد سے روایت کی، کہا: رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سےفرمایا: "تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہے جو ہارون علیہ السلام کاموسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا مگر یہ کہ میرے بعد کوئی نبی نہیں۔" سعید (بن مسیب) نے کہا: میں نے چاہا کہ یہ بات میں خود حضرت سعد رضی اللہ عنہ کے منہ سے سنوں تو میں حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے جا کر ملا اور جو حدیث مجھے عامر نے سنائی تھی، ان کے سامنے بیان کی، انھوں نے کہا: میں نے (آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خود) یہ بات سنی تھی، میں نے کہا: آپ نے خود سنی تھی؟کہا: تو انھوں نے اپنی انگلیاں اپنے دونوں کانوں پر رکھیں اورکہا: ہاں، ورنہ (اگر یہ بات نہ سنی ہو) تو ان دونوں کو سنائی نہ دے۔
محمد بن جعفر (غندر) نے کہا: ہمیں شعبہ نے حکم سے حدیث بیان کی، انھوں نے مصعب بن سعد بن ابی وقاص سے روایت کی، انھوں نے حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ تبوک کے موقعہ پر سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو (مدینہ میں) خلیفہ بنایا، تو انہوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! آپ مجھے عورتوں اور بچوں میں چھوڑے جاتے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ کیا تم اس بات سے خوش نہیں ہوتے کہ تمہارا درجہ میرے پاس ایسا ہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے پاس ہارون علیہ السلام کا تھا، لیکن میرے بعد کوئی پیغمبر نہیں ہے۔
معاذ نے کہا: ہمیں شعبہ نے اسی سند سے حدیث بیان کی۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، ومحمد بن عباد ، وتقاربا في اللفظ، قالا: حدثنا حاتم وهو ابن إسماعيل ، عن بكير بن مسمار ، عن عامر بن سعد بن ابي وقاص ، عن ابيه ، قال: " امر معاوية بن ابي سفيان سعدا، فقال: ما منعك ان تسب ابا التراب؟ فقال: اما ما ذكرت ثلاثا، قالهن له رسول الله صلى الله عليه وسلم، فلن اسبه لان تكون لي واحدة منهن احب إلي من حمر النعم، سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول له: خلفه في بعض مغازيه، فقال له علي: يا رسول الله، خلفتني مع النساء والصبيان، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم: اما ترضى ان تكون مني بمنزلة هارون من موسى، إلا انه لا نبوة بعدي، وسمعته يقول يوم خيبر: لاعطين الراية رجلا يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله "، قال: فتطاولنا لها، فقال: ادعوا لي عليا، فاتي به ارمد فبصق في عينه، ودفع الراية إليه ففتح الله عليه، ولما نزلت هذه الآية: فقل تعالوا ندع ابناءنا وابناءكم سورة آل عمران آية 61، دعا رسول الله صلى الله عليه وسلم عليا، وفاطمة، وحسنا، وحسينا، فقال: اللهم هؤلاء اهلي.حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبَّادٍ ، وَتَقَارَبَا فِي اللَّفْظِ، قَالَا: حَدَّثَنَا حَاتِمٌ وَهُوَ ابْنُ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ بُكَيْرِ بْنِ مِسْمَارٍ ، عَنْ عَامِرِ بْنِ سَعْدِ بْنِ أَبِي وَقَّاصٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: " أَمَرَ مُعَاوِيَةُ بْنُ أَبِي سُفْيَانَ سَعْدًا، فَقَالَ: مَا مَنَعَكَ أَنْ تَسُبَّ أَبَا التُّرَابِ؟ فَقَالَ: أَمَّا مَا ذَكَرْتُ ثَلَاثًا، قَالَهُنَّ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَنْ أَسُبَّهُ لَأَنْ تَكُونَ لِي وَاحِدَةٌ مِنْهُنَّ أَحَبُّ إِلَيَّ مِنْ حُمْرِ النَّعَمِ، سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لَهُ: خَلَّفَهُ فِي بَعْضِ مَغَازِيهِ، فَقَالَ لَهُ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، خَلَّفْتَنِي مَعَ النِّسَاءِ وَالصِّبْيَانِ، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: أَمَا تَرْضَى أَنْ تَكُونَ مِنِّي بِمَنْزِلَةِ هَارُونَ مِنْ مُوسَى، إِلَّا أَنَّهُ لَا نُبُوَّةَ بَعْدِي، وَسَمِعْتُهُ يَقُولُ يَوْمَ خَيْبَرَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ "، قَالَ: فَتَطَاوَلْنَا لَهَا، فَقَالَ: ادْعُوا لِي عَلِيًّا، فَأُتِيَ بِهِ أَرْمَدَ فَبَصَقَ فِي عَيْنِهِ، وَدَفَعَ الرَّايَةَ إِلَيْهِ فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ، وَلَمَّا نَزَلَتْ هَذِهِ الْآيَةُ: فَقُلْ تَعَالَوْا نَدْعُ أَبْنَاءَنَا وَأَبْنَاءَكُمْ سورة آل عمران آية 61، دَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيًّا، وَفَاطِمَةَ، وَحَسَنًا، وَحُسَيْنًا، فَقَالَ: اللَّهُمَّ هَؤُلَاءِ أَهْلِي. بکیر بن مسمار نے عامر بن سعد بن ابی وقاص سے، انھوں نے اپنے والد سے روایت کی کہ حضرت معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہ نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ کو حکم دیا، کہا: آپ کو اس سے کیا چیز روکتی ہے کہ آپ ابوتراب (حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ) کو براکہیں۔انھوں نے جواب دیا: جب تک مجھے وہ تین باتیں یاد ہیں جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان (حضر ت علی رضی اللہ عنہ) سے کہی تھیں، میں ہرگز انھیں برا نہیں کہوں گا۔ان میں سے کوئی ایک بات بھی میرے لئے ہوتو وہ مجھے سرخ اونٹوں سے زیادہ پسند ہوگی، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سناتھا، آپ ان سے (اس وقت) کہہ رہے تھے جب آپ ایک جنگ میں ان کو پیچھے چھوڑ کر جارہے تھے اور علی رضی اللہ عنہ نے ان سے کہا تھا: اللہ کےرسول صلی اللہ علیہ وسلم !آپ مجھے عورتوں اوربچوں میں پیچھے چھوڑ کرجارہے ہیں؟تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان سے فرمایا: "تمھیں یہ پسند نہیں کہ تمھارا میرے ساتھ وہی مقام ہو جوحضرت ہارون علیہ السلام کاموسیٰ علیہ السلام کےساتھ تھا، مگر یہ کہ میرے بعد نبوت نہیں ہے۔"اسی طرح خیبر کے دن میں نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم کو یہ کہتے ہوئے سناتھا: "اب میں جھنڈ ا اس شخص کو دوں گا جو اللہ اوراس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم ! سے محبت کرتا ہے اور اللہ اور اس کا ر سول صلی اللہ علیہ وسلم اس سے محبت کرتے ہیں۔"کہا: پھر ہم نے اس بات (مصداق جاننے) کے لئے اپنی گردنیں اٹھا اٹھا کر (ہرطرف) دیکھا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "علی کو میرے پاس بلاؤ۔"انھیں شدید آشوب چشم کی حالت میں لایا گیا۔آپ نےان کی آنکھوں میں اپنا لعاب دہن لگایا اورجھنڈا انھیں عطافرمادیا۔اللہ نے ان کے ہاتھ پر خیبر فتح کردیا۔اورجب یہ آیت اتری: " (تو آپ کہہ دیں: آؤ) ہم اپنے بیٹوں اور تمھارے بیٹوں کو بلالیں۔"تورسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضر ت علی رضی اللہ عنہ، حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہ، حضرت حسن رضی اللہ عنہ، اورحضرت حسین رضی اللہ عنہ کو بلایا اور فرمایا: "اے اللہ! یہ میرے گھر والے ہیں۔"
ابراہیم بن سعد نے حضرت سعد رضی اللہ عنہ سے اور انھوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے روای کی کہ آپ نے حضرت علی رضی اللہ عنہ سے فرمایا: "کیا تم اس پر راضی نہیں ہو کہ تم میرے لئے ایسےہو جیسے موسیٰ علیہ السلام کے لئے ہارون علیہ السلام تھے؟"
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن القاري ، عن سهيل ، عن ابيه ، عن ابي هريرة ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال يوم خيبر: " لاعطين هذه الراية رجلا يحب الله ورسوله، يفتح الله على يديه، قال عمر بن الخطاب: ما احببت الإمارة إلا يومئذ، قال: فتساورت لها رجاء ان ادعى لها، قال: فدعا رسول الله صلى الله عليه وسلم علي بن ابي طالب، فاعطاه إياها، وقال: امش ولا تلتفت حتى يفتح الله عليك، قال: فسار علي شيئا، ثم وقف ولم يلتفت، فصرخ يا رسول الله: على ماذا اقاتل الناس؟ قال: قاتلهم حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله، وان محمدا رسول الله، فإذا فعلوا ذلك فقد منعوا منك دماءهم، واموالهم، إلا بحقها، وحسابهم على الله ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ الْقَارِيَّ ، عَنْ سُهَيْلٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ، قَالَ عُمَرُ بْنُ الْخَطَّابِ: مَا أَحْبَبْتُ الْإِمَارَةَ إِلَّا يَوْمَئِذٍ، قَالَ: فَتَسَاوَرْتُ لَهَا رَجَاءَ أَنْ أُدْعَى لَهَا، قَالَ: فَدَعَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلِيَّ بْنَ أَبِي طَالِبٍ، فَأَعْطَاهُ إِيَّاهَا، وَقَالَ: امْشِ وَلَا تَلْتَفِتْ حَتَّى يَفْتَحَ اللَّهُ عَلَيْكَ، قَالَ: فَسَارَ عَلِيٌّ شَيْئًا، ثُمَّ وَقَفَ وَلَمْ يَلْتَفِتْ، فَصَرَخَ يَا رَسُولَ اللَّهِ: عَلَى مَاذَا أُقَاتِلُ النَّاسَ؟ قَالَ: قَاتِلْهُمْ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنَّ مُحَمَّدًا رَسُولُ اللَّهِ، فَإِذَا فَعَلُوا ذَلِكَ فَقَدْ مَنَعُوا مِنْكَ دِمَاءَهُمْ، وَأَمْوَالَهُمْ، إِلَّا بِحَقِّهَا، وَحِسَابُهُمْ عَلَى اللَّهِ ". سہیل کے والد (ابو صالح) نے ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کی کہ ر سول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے غزوہ خیبر کےدن فرمایا: "کل میں اس شخص کو جھنڈا دوں گا جو اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتا ہے، اللہ اس کے ہاتھ پر فتح عطافرمائے گا۔"حضرت عمر رضی اللہ عنہ بن خطاب نے کہا: اس ایک دن کے علاوہ میں نے کبھی امارت کی تمنا نہیں کی، کہا: میں نے اس امید کہ مجھے اس کے لئے بلایا جائے گا اپنی گردن اونچی کی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے حضرت علی بن ابی طالب رضی اللہ عنہ کو بلایا، ان کو وہ جھنڈا دیا اور فرمایا: "جاؤ، پیچھےمڑ کر نہ دیکھو، یہاں تک کہ اللہ تمھیں فتح عطا کردے۔"کہا: حضرت علی رضی اللہ عنہ کچھ دور گئے، پھر ٹھر گئے، پیچھے مڑ کر نہ دیکھا اور بلند آواز سے پکار کر کہا: اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم !کس بات پر لوگوں سے جنگ کروں؟آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "ان سے لڑو یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دیں کہ اللہ کے سوا کوئی عبادت کے لائق نہیں اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم اللہ کے رسول ہیں، اگرانھوں نے ایسا کرلیا توانھوں نے اپنی جانیں اور اپنے مال تم سے محفوظ کرلیے، سوائے یہ کہ اسی (شہادت) کاحق ہو اوران کاحساب اللہ پر ہوگا۔"
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن حازم ، عن ابي حازم ، عن سهل . ح وحدثنا قتيبة بن سعيد ، واللفظ هذا، حدثنا يعقوب يعني ابن عبد الرحمن ، عن ابي حازم ، اخبرني سهل بن سعد ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال يوم خيبر: " لاعطين هذه الراية رجلا يفتح الله على يديه يحب الله ورسوله، ويحبه الله ورسوله، قال: فبات الناس يدوكون ليلتهم ايهم يعطاها، قال: فلما اصبح الناس غدوا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، كلهم يرجون ان يعطاها، فقال: اين علي بن ابي طالب؟ فقالوا: هو يا رسول الله يشتكي عينيه، قال: فارسلوا إليه، فاتي به فبصق رسول الله صلى الله عليه وسلم في عينيه، ودعا له، فبرا حتى كان لم يكن به وجع، فاعطاه الراية، فقال علي: يا رسول الله، اقاتلهم حتى يكونوا مثلنا، فقال: انفذ على رسلك حتى تنزل بساحتهم، ثم ادعهم إلى الإسلام، واخبرهم بما يجب عليهم من حق الله فيه، فوالله لان يهدي الله بك رجلا واحدا خير لك من ان يكون لك حمر النعم ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلٍ . ح وحَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، وَاللَّفْظُ هَذَا، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ يَعْنِي ابْنَ عَبْدِ الرَّحْمَنِ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، أَخْبَرَنِي سَهْلُ بْنُ سَعْدٍ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ يَوْمَ خَيْبَرَ: " لَأُعْطِيَنَّ هَذِهِ الرَّايَةَ رَجُلًا يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَى يَدَيْهِ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ، وَيُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، قَالَ: فَبَاتَ النَّاسُ يَدُوكُونَ لَيْلَتَهُمْ أَيُّهُمْ يُعْطَاهَا، قَالَ: فَلَمَّا أَصْبَحَ النَّاسُ غَدَوْا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، كُلُّهُمْ يَرْجُونَ أَنْ يُعْطَاهَا، فَقَالَ: أَيْنَ عَلِيُّ بْنُ أَبِي طَالِبٍ؟ فَقَالُوا: هُوَ يَا رَسُولَ اللَّهِ يَشْتَكِي عَيْنَيْهِ، قَالَ: فَأَرْسِلُوا إِلَيْهِ، فَأُتِيَ بِهِ فَبَصَقَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي عَيْنَيْهِ، وَدَعَا لَهُ، فَبَرَأَ حَتَّى كَأَنْ لَمْ يَكُنْ بِهِ وَجَعٌ، فَأَعْطَاهُ الرَّايَةَ، فَقَالَ عَلِيٌّ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، أُقَاتِلُهُمْ حَتَّى يَكُونُوا مِثْلَنَا، فَقَالَ: انْفُذْ عَلَى رِسْلِكَ حَتَّى تَنْزِلَ بِسَاحَتِهِمْ، ثُمَّ ادْعُهُمْ إِلَى الْإِسْلَامِ، وَأَخْبِرْهُمْ بِمَا يَجِبُ عَلَيْهِمْ مِنْ حَقِّ اللَّهِ فِيهِ، فَوَاللَّهِ لَأَنْ يَهْدِيَ اللَّهُ بِكَ رَجُلًا وَاحِدًا خَيْرٌ لَكَ مِنْ أَنْ يَكُونَ لَكَ حُمْرُ النَّعَمِ ". ابوحازم نے کہا: مجھے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ نے کہ خیبر کے دن رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: " کہ میں یہ جھنڈا اس شخص کو دوں گا جس کے ہاتھ پر اللہ تعالیٰ فتح دے گا اور وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہو گا اور اللہ اور اللہ کے رسول اس کو چاہتے ہوں گے۔ پھر رات بھر لوگ ذکر کرتے رہے کہ دیکھیں یہ شان آپ صلی اللہ علیہ وسلم کس کو دیتے ہیں۔ جب صبح ہوئی تو سب کے سب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس یہی امید لئے آئے کہ یہ جھنڈا مجھے ملے گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ علی بن ابی طالب کہاں ہیں؟ لوگوں نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! ان کی آنکھیں دکھتی ہیں۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں بلا بھیجا اور ان کی آنکھوں میں تھوک لگایا اور ان کے لئے دعا کی تو وہ بالکل اچھے ہو گئے گویا ان کو کوئی تکلیف نہ تھی۔ پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں جھنڈا دیا۔ چنانچہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ نے عرض کیا کہ یا رسول اللہ! میں ان سے لڑوں گا یہاں تک کہ وہ ہماری طرح (مسلمان) ہو جائیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ آہستہ چلتا جا، یہاں تک کہ ان کے میدان میں اترے، پھر ان کو اسلام کی طرف بلا اور ان کو بتا جو اللہ کا حق ان پر واجب ہے۔ اللہ کی قسم اگر اللہ تعالیٰ تیری وجہ سے ایک شخص کو ہدایت کرے تو وہ تیرے لئے سرخ اونٹوں سے زیادہ بہتر ہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا حاتم يعني ابن إسماعيل ، عن يزيد بن ابي عبيد ، عن سلمة ابن الاكوع ، قال: كان علي قد تخلف عن النبي صلى الله عليه وسلم في خيبر، وكان رمدا، فقال: " انا اتخلف عن رسول الله صلى الله عليه وسلم، فخرج علي، فلحق بالنبي صلى الله عليه وسلم، فلما كان مساء الليلة التي فتحها الله في صباحها، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لاعطين الراية او لياخذن بالراية غدا رجل يحبه الله ورسوله، او قال يحب الله ورسوله يفتح الله عليه، فإذا نحن بعلي وما نرجوه، فقالوا: هذا علي فاعطاه رسول الله صلى الله عليه وسلم الراية، ففتح الله عليه ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا حَاتِمٌ يَعْنِي ابْنَ إِسْمَاعِيلَ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي عُبَيْدٍ ، عَنْ سَلَمَةَ ابْنِ الْأَكْوَعِ ، قَالَ: كَانَ عَلِيٌّ قَدْ تَخَلَّفَ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي خَيْبَرَ، وَكَانَ رَمِدًا، فَقَالَ: " أَنَا أَتَخَلَّفُ عَنِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَخَرَجَ عَلِيٌّ، فَلَحِقَ بِالنَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَلَمَّا كَانَ مَسَاءُ اللَّيْلَةِ الَّتِي فَتَحَهَا اللَّهُ فِي صَبَاحِهَا، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لَأُعْطِيَنَّ الرَّايَةَ أَوْ لَيَأْخُذَنَّ بِالرَّايَةِ غَدًا رَجُلٌ يُحِبُّهُ اللَّهُ وَرَسُولُهُ، أَوَ قَالَ يُحِبُّ اللَّهَ وَرَسُولَهُ يَفْتَحُ اللَّهُ عَلَيْهِ، فَإِذَا نَحْنُ بِعَلِيٍّ وَمَا نَرْجُوهُ، فَقَالُوا: هَذَا عَلِيٌّ فَأَعْطَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الرَّايَةَ، فَفَتَحَ اللَّهُ عَلَيْهِ ". حضرت سلمہ بن اکوع رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، کہا: غزوہ خیبر میں حضرت علی رضی اللہ عنہ نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے پیچھے رہ گئے، انھیں آشوب چشم تھا۔پھر انھوں نے کہا: میں تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پیچھے رہ گیا!چنانچہ حضرت علی رضی اللہ عنہ (وہاں سے) نکلے اور نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے آملے، جب اس رات کی شام آئی جس کی صبح کو اللہ تعالیٰ نے خیبر فتح کرایا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: "کل میں جھنڈا اس کودوں گایا (فرمایا:) کل جھنڈا وہ شخص لے گا جس سے اللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم کو محبت ہے یا فرمایا: جواللہ اور اس کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم سے محبت کرتاہے، اللہ تعالیٰ اس کے ہاتھ پر فتح دے گا۔"پھر اچانک ہم نے حضرت علی رضی اللہ عنہ کو دیکھا اور ہمیں اس کے بارے میں کوئی توقع نہیں تھی تو صحابہ رضوان للہ عنھم اجمعین نے کہا: یہ حضرت علی رضی اللہ عنہ ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو جھنڈا عطا کردیا اور اللہ نے ان کے ہاتھ پرفتح عطا کردی۔
حدثني زهير بن حرب ، وشجاع بن مخلد جميعا، عن ابن علية ، قال زهير: حدثنا إسماعيل بن إبراهيم، حدثني ابو حيان ، حدثني يزيد بن حيان ، قال: " انطلقت انا وحصين بن سبرة، وعمر بن مسلم إلى زيد بن ارقم ، فلما جلسنا إليه، قال له حصين: لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا، رايت رسول الله صلى الله عليه وسلم، وسمعت حديثه، وغزوت معه وصليت خلفه، لقد لقيت يا زيد خيرا كثيرا، حدثنا يا زيد ما سمعت من رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال: يا ابن اخي: والله لقد كبرت سني، وقدم عهدي ونسيت بعض الذي كنت اعي من رسول الله صلى الله عليه وسلم فما حدثتكم، فاقبلوا وما لا فلا تكلفونيه، ثم، قال: قام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما فينا خطيبا بماء يدعى خما بين مكة، والمدينة، فحمد الله واثنى عليه، ووعظ، وذكر، ثم قال: اما بعد، الا ايها الناس، فإنما انا بشر يوشك ان ياتي رسول ربي فاجيب، وانا تارك فيكم ثقلين، اولهما كتاب الله فيه الهدى والنور، فخذوا بكتاب الله واستمسكوا به، فحث على كتاب الله ورغب فيه، ثم قال: واهل بيتي اذكركم الله في اهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي، اذكركم الله في اهل بيتي، فقال له حصين: ومن اهل بيته يا زيد اليس نساؤه من اهل بيته؟ قال: نساؤه من اهل بيته، ولكن اهل بيته من حرم الصدقة بعده، قال: ومن هم؟ قال: هم آل علي، وآل عقيل، وآل جعفر، وآل عباس، قال: كل هؤلاء حرم الصدقة؟ قال: نعم ".حَدَّثَنِي زُهَيْرُ بْنُ حَرْبٍ ، وَشُجَاعُ بْنُ مَخْلَدٍ جميعا، عَنْ ابْنِ عُلَيَّةَ ، قَالَ زُهَيْرٌ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيلُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنِي أَبُو حَيَّانَ ، حَدَّثَنِي يَزِيدُ بْنُ حَيَّانَ ، قَالَ: " انْطَلَقْتُ أَنَا وَحُصَيْنُ بْنُ سَبْرَةَ، وَعُمَرُ بْنُ مُسْلِمٍ إِلَى زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، فَلَمَّا جَلَسْنَا إِلَيْهِ، قَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، رَأَيْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَسَمِعْتَ حَدِيثَهُ، وَغَزَوْتَ مَعَهُ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، لَقَدْ لَقِيتَ يَا زَيْدُ خَيْرًا كَثِيرًا، حَدِّثْنَا يَا زَيْدُ مَا سَمِعْتَ مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ: يَا ابْنَ أَخِي: وَاللَّهِ لَقَدْ كَبِرَتْ سِنِّي، وَقَدُمَ عَهْدِي وَنَسِيتُ بَعْضَ الَّذِي كُنْتُ أَعِي مِنْ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَمَا حَدَّثْتُكُمْ، فَاقْبَلُوا وَمَا لَا فَلَا تُكَلِّفُونِيهِ، ثُمَّ، قَالَ: قَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا فِينَا خَطِيبًا بِمَاءٍ يُدْعَى خُمًّا بَيْنَ مَكَّةَ، وَالْمَدِينَةِ، فَحَمِدَ اللَّهَ وَأَثْنَى عَلَيْهِ، وَوَعَظَ، وَذَكَّرَ، ثُمَّ قَالَ: أَمَّا بَعْدُ، أَلَا أَيُّهَا النَّاسُ، فَإِنَّمَا أَنَا بَشَرٌ يُوشِكُ أَنْ يَأْتِيَ رَسُولُ رَبِّي فَأُجِيبَ، وَأَنَا تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ، أَوَّلُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ فِيهِ الْهُدَى وَالنُّورُ، فَخُذُوا بِكِتَابِ اللَّهِ وَاسْتَمْسِكُوا بِهِ، فَحَثَّ عَلَى كِتَابِ اللَّهِ وَرَغَّبَ فِيهِ، ثُمَّ قَالَ: وَأَهْلُ بَيْتِي أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، أُذَكِّرُكُمُ اللَّهَ فِي أَهْلِ بَيْتِي، فَقَالَ لَهُ حُصَيْنٌ: وَمَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ يَا زَيْدُ أَلَيْسَ نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ؟ قَالَ: نِسَاؤُهُ مِنْ أَهْلِ بَيْتِهِ، وَلَكِنْ أَهْلُ بَيْتِهِ مَنْ حُرِمَ الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ، قَالَ: وَمَنْ هُمْ؟ قَالَ: هُمْ آلُ عَلِيٍّ، وَآلُ عَقِيلٍ، وَآلُ جَعْفَرٍ، وَآلُ عَبَّاسٍ، قَالَ: كُلُّ هَؤُلَاءِ حُرِمَ الصَّدَقَةَ؟ قَالَ: نَعَمْ ". زہیر بن حرب اور شجاع بن مخلد نے اسماعیل بن ابراہیم (ابن علیہ) سے روایت کی، انھوں نے کہا: مجھے ابوحیان نے حدیث بیان کی، کہا: یزید بن حیان نے مجھ سے بیان کیا کہ میں، حصین بن سبرہ اور عمر بن مسلم (تینوں) حضرت زید بن ارقم کے پاس گئے۔جب ہم ان کے قریب بیٹھ گئے تو حصین نے ان سے کہا: زید!آ پ کو خیر کثیرحاصل ہوئی، آپ نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی زیارت کی، ان کی بات سنی، ان کے ساتھ مل کر جہاد کیا اور ان کی اقتداء میں نمازیں پڑھیں۔زید!آپ کوخیر کثیرحاصل ہوئی۔زید!ہمیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے سنی ہوئی (کوئی) حدیث سنایئے۔ (حضرت زید رضی اللہ عنہ نے) کہا: بھتیجے!میری عمر زیادہ ہوگی، زمانہ بیت گیا، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی جو احادیث یاد تھیں ان میں سے کچھ بھول چکا ہوں، اب جو میں بیان کروں اسے قبول کرو۔اور جو (بیان) نہ کرسکوں تو اس کا مجھےمکلف نہ ٹھہراؤ۔پھر کہا: کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن مکہ اور مدینہ کے درمیان واقع مقام ”خم“کے پانی کے مقام پر خطبہ سنانے کو کھڑے ہوئے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی حمد کی اور اس کی تعریف کو بیان کیا اور وعظ و نصیحت کی۔ پھر فرمایا کہ اس کے بعد اے لوگو! میں آدمی ہوں، قریب ہے کہ میرے رب کا بھیجا ہوا (موت کا فرشتہ) پیغام اجل لائے اور میں قبول کر لوں۔ میں تم میں دو بڑی چیزیں چھوڑے جاتا ہوں۔ پہلے تو اللہ کی کتاب ہے اور اس میں ہدایت ہے اور نور ہے۔ تو اللہ کی کتاب کو تھامے رہو اور اس کو مضبوط پکڑے رہو۔ غرض کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اللہ کی کتاب کی طرف رغبت دلائی۔ پھر فرمایا کہ دوسری چیز میرے اہل بیت ہیں۔ میں تمہیں اپنے اہل بیت کے بارے میں اللہ تعالیٰ یاد دلاتا ہوں، تین بار فرمایا۔ اور حصین نے کہا کہ اے زید! آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے اہل بیت کون سے ہیں، کیا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی ازواج مطہرات اہل بیت نہیں ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ازواج مطہرات بھی اہل بیت میں داخل ہیں لیکن اہل بیت وہ ہیں جن پر زکوٰۃ حرام ہے۔ حصین نے کہا کہ وہ کون لوگ ہیں؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ وہ علی، عقیل، جعفر اور عباس کی اولاد ہیں۔ حصین نے کہا کہ ان سب پر صدقہ حرام ہے؟ سیدنا زید رضی اللہ عنہ نے کہا کہ ہاں۔
سعید بن مسروق نے یزید بن حیان سے، انھوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے، انھوں نے نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی، نیز (سعید بن مسروق نے) ان (ابوحیان) کی حدیث کے مانند زہیر کی حدیث کے ہم معنی روایت کی۔
ابو بکر بن ابی شیبہ نے کہا: ہمیں محمد بن فضیل نے حدیث بیان کی، اسحاق بن ابراہیم نے کہا: ہمیں جریر نے خبر دی، ان دونوں (محمد بن فضیل اورجریر) نے ابوحیان سے اسی سند کےساتھ اسماعیل کی حدیث کے مانند بیان کیا اور (اسحاق بن ابراہیم نے) جریر کی روایت میں مزید یہ بیان کیا: "اللہ کی کتاب جس میں ہدایت اورنور ہے، جس نے اس کو مضبوطی سےتھام لیا اور اسے لےلیا وہ ہدایت پر ہوگا اور جو اس سے ہٹ گیا وہ گمراہ ہوجائے گا۔"
حدثنا محمد بن بكار بن الريان ، حدثنا حسان يعني ابن إبراهيم ، عن سعيد وهو ابن مسروق ، عن يزيد بن حيان ، عن زيد بن ارقم ، قال: دخلنا عليه، فقلنا له: لقد رايت خيرا لقد صاحبت رسول الله صلى الله عليه وسلم وصليت خلفه، وساق الحديث بنحو حديث ابي حيان، غير انه قال: الا وإني تارك فيكم ثقلين احدهما كتاب الله عز وجل، هو حبل الله من اتبعه كان على الهدى، ومن تركه كان على ضلالة وفيه، فقلنا: من اهل بيته نساؤه؟ قال: لا وايم الله إن المراة تكون مع الرجل العصر من الدهر، ثم يطلقها، فترجع إلى ابيها وقومها اهل بيته اصله، وعصبته الذين حرموا الصدقة بعده.حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَكَّارِ بْنِ الرَّيَّانِ ، حَدَّثَنَا حَسَّانُ يَعْنِي ابْنَ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ سَعِيدٍ وَهُوَ ابْنُ مَسْرُوقٍ ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ حَيَّانَ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَرْقَمَ ، قَالَ: دَخَلْنَا عَلَيْهِ، فَقُلْنَا لَهُ: لَقَدْ رَأَيْتَ خَيْرًا لَقَدْ صَاحَبْتَ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَصَلَّيْتَ خَلْفَهُ، وَسَاقَ الْحَدِيثَ بِنَحْوِ حَدِيثِ أَبِي حَيَّانَ، غَيْرَ أَنَّهُ قَالَ: أَلَا وَإِنِّي تَارِكٌ فِيكُمْ ثَقَلَيْنِ أَحَدُهُمَا كِتَابُ اللَّهِ عَزَّ وَجَلَّ، هُوَ حَبْلُ اللَّهِ مَنِ اتَّبَعَهُ كَانَ عَلَى الْهُدَى، وَمَنْ تَرَكَهُ كَانَ عَلَى ضَلَالَةٍ وَفِيهِ، فَقُلْنَا: مَنْ أَهْلُ بَيْتِهِ نِسَاؤُهُ؟ قَالَ: لَا وَايْمُ اللَّهِ إِنَّ الْمَرْأَةَ تَكُونُ مَعَ الرَّجُلِ الْعَصْرَ مِنَ الدَّهْرِ، ثُمَّ يُطَلِّقُهَا، فَتَرْجِعُ إِلَى أَبِيهَا وَقَوْمِهَا أَهْلُ بَيْتِهِ أَصْلُهُ، وَعَصَبَتُهُ الَّذِينَ حُرِمُوا الصَّدَقَةَ بَعْدَهُ. سعید بن مسروق نے یزید بن حیان سے، انھوں نے زید بن ارقم رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: ہم ان (زید بن ارقم رضی اللہ عنہ) کے پاس آئے اور اُن سے عرض کی: آپ نے بہت خیر دیکھی ہے۔آپ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ رہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پیچھے نمازیں پڑھیں ہیں، اور پھر ابو حیان کی حدیث کی طرح حدیث بیان کی، مگرانھوں نے (اس طرح) کہا: (رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا:) "دیکھو، میں تمھارے درمیان دو عظیم چیزیں چھوڑے جارہا ہوں۔ایک اللہ کی کتاب ہے وہ اللہ کی رسی ہے جس نے (اسے تھام کر) اس کا اتباع کیا وہ سیدھی راہ پر رہے گا اور جو اسے چھوڑ دے گا وہ گمراہی پر ہوگا۔"اور اس میں یہ بھی ہے کہ ہم نے ان سے پوچھا: آپ کے اہل بیت کون ہیں؟ (صرف) آپ کی ازواج؟انھوں نے کہا: نہیں، اللہ کی قسم!عورت اپنے مرد کے ساتھ زمانے کا بڑا حصہ رہتی ہے، پھر وہ اسے طلاق دے دیتا ہے تو وہ اپنے باپ اور اپنی قوم کی طرف واپس چلی جاتی ہے۔آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے بعد آپ کے اہل بیت وہ (بھی) ہیں جو آپ کے خاندان سے ہیں، آپ کے وہ ددھیال رشتہ دار جن پر صدقہ حرام ہے۔
حدثنا قتيبة بن سعيد ، حدثنا عبد العزيز يعني ابن ابي حازم ، عن ابي حازم ، عن سهل بن سعد ، قال: " استعمل على المدينة رجل من آل مروان، قال: فدعا سهل بن سعد فامره ان يشتم عليا، قال: فابى سهل، فقال له: اما إذ ابيت، فقل: لعن الله ابا التراب، فقال سهل: ما كان لعلي اسم احب إليه من ابي التراب، وإن كان ليفرح إذا دعي بها، فقال له: اخبرنا عن قصته لم سمي ابا تراب، قال: جاء رسول الله صلى الله عليه وسلم بيت فاطمة فلم يجد عليا في البيت، فقال: اين ابن عمك؟ فقالت: كان بيني وبينه شيء فغاضبني، فخرج فلم يقل عندي، فقال رسول الله صلى الله عليه وسلم: لإنسان انظر اين هو؟ فجاء، فقال: يا رسول الله؟ هو في المسجد راقد، فجاءه رسول الله صلى الله عليه وسلم وهو مضطجع، قد سقط رداؤه عن شقه، فاصابه تراب، فجعل رسول الله صلى الله عليه وسلم يمسحه عنه، ويقول: قم ابا التراب، قم ابا التراب ".حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْعَزِيزِ يَعْنِي ابْنَ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، عَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ ، قَالَ: " اسْتُعْمِلَ عَلَى الْمَدِينَةِ رَجُلٌ مِنْ آلِ مَرْوَانَ، قَالَ: فَدَعَا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَأَمَرَهُ أَنْ يَشْتِمَ عَلِيًّا، قَالَ: فَأَبَى سَهْلٌ، فَقَالَ لَهُ: أَمَّا إِذْ أَبَيْتَ، فَقُلْ: لَعَنَ اللَّهُ أَبَا التُّرَابِ، فَقَالَ سَهْلٌ: مَا كَانَ لِعَلِيٍّ اسْمٌ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ أَبِي التُّرَابِ، وَإِنْ كَانَ لَيَفْرَحُ إِذَا دُعِيَ بِهَا، فَقَالَ لَهُ: أَخْبِرْنَا عَنْ قِصَّتِهِ لِمَ سُمِّيَ أَبَا تُرَابٍ، قَالَ: جَاءَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَيْتَ فَاطِمَةَ فَلَمْ يَجِدْ عَلِيًّا فِي الْبَيْتِ، فَقَالَ: أَيْنَ ابْنُ عَمِّكِ؟ فَقَالَتْ: كَانَ بَيْنِي وَبَيْنَهُ شَيْءٌ فَغَاضَبَنِي، فَخَرَجَ فَلَمْ يَقِلْ عِنْدِي، فَقَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: لِإِنْسَانٍ انْظُرْ أَيْنَ هُوَ؟ فَجَاءَ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ؟ هُوَ فِي الْمَسْجِدِ رَاقِدٌ، فَجَاءَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَهُوَ مُضْطَجِعٌ، قَدْ سَقَطَ رِدَاؤُهُ عَنْ شِقِّهِ، فَأَصَابَهُ تُرَابٌ، فَجَعَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَمْسَحُهُ عَنْهُ، وَيَقُولُ: قُمْ أَبَا التُّرَابِ، قُمْ أَبَا التُّرَابِ ". ابو حازم نے حضرت سہل بن سعد رضی اللہ عنہ سے روایت کی، کہا: کہ مدینہ میں مروان کی اولاد میں سے ایک شخص حاکم ہوا تو اس نے سیدنا سہل رضی اللہ عنہ کو بلایا اور سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو برا کہنے کا حکم دیا۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے انکار کیا تو وہ شخص بولا کہ اگر تم انکار کرتے ہو تو کہو کہ ابوتراب پر اللہ کی لعنت ہو۔ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو ابوتراب سے زیادہ کوئی نام پسند نہ تھا اور وہ اس نام کے ساتھ پکارنے والے شخص سے خوش ہوتے تھے۔ وہ شخص بولا کہ اس کا قصہ بیان کرو کہ ان کا نام ابوتراب کیوں ہوا؟ سیدنا سہل رضی اللہ عنہ نے کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سیدہ فاطمۃالزہراء رضی اللہ عنہا کے گھر تشریف لائے تو سیدنا علی رضی اللہ عنہ کو گھر میں نہ پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے پوچھا کہ تیرے چچا کا بیٹا کہاں ہے؟ وہ بولیں کہ مجھ میں اور ان میں کچھ باتیں ہوئیں اور وہ غصہ ہو کر چلے گئے اور یہاں نہیں سوئے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی سے فرمایا کہ دیکھو وہ کہاں ہیں؟ وہ آیا اور بولا کہ یا رسول اللہ! علی مسجد میں سو رہے ہیں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم سیدنا علی رضی اللہ عنہ کے پاس تشریف لے گئے، وہ لیٹے ہوئے تھے اور چادر ان کے پہلو سے الگ ہو گئی تھی اور (ان کے بدن سے) مٹی لگ گئی تھی، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے وہ مٹی پونچھنا شروع کی اور فرمانے لگے کہ اے ابوتراب! اٹھ۔ اے ابوتراب! اٹھ۔
|