الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب 47. باب مِنْ فَضَائِلِ غِفَارَ وَأَسْلَمَ وُجُهَيْنَةَ وَأَشْجَعَ وَمُزَيْنَةَ وَتَمِيمٍ وَدَوْسٍ وَطَيِّئٍ: باب: قبیلہ غفار، اسلم، جہینہ، اشجع، مزینہ، تمیم، دوس اور طی کی فضیلت۔
سیدنا ابوایوب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”انصار، مزینہ، جہینہ، غفار، اشجع، جو عبدللہ کی اولاد ہے میرے دوست ہیں سوائے اور لوگوں کے اور اللہ اور اللہ کے رسول ان کے دوست ہیں۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قریش، انصار، مزینہ، جہینہ، اسلم، غفار اور اشجع دوست ہیں اور ان کا حمایتی کوئی نہیں سوائے اللہ اور اس کے رسول کے۔“
سیدنا سعد بن ابراہیم رضی اللہ عنہ سے اس سند کے ساتھ مذکورہ حدیث کی طرح روایت نقل کی گئی ہے۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلم اور غفار، مزینہ اور جہینہ بہتر ہیں بنی تمیم سے اور بنی عامر سے، اسد اور غطفان سے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس ذات کی قسم جس کے ہاتھ میں محمد کی جان ہے غفار، اسلم، مزینہ اور جہینہ بہتر ہیں اللہ کے نزدیک قیامت کے دن اسد، طئی اور غطفان سے۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ اقرع بن حابس رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور کہنے لگے: آپ سے بیعت کی حاجیوں کے لٹیروں نے، اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ کے لوگوں نے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اگر اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ، بنی تمیم، بنی عامر اور اسد و غطفان سے بہتر ہوں تو یہ لوگ (یعنی بنی تمیم وغیرہ) نقصان میں رہے اور نامراد ہوئے۔“ وہ بولا: ہاں۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”قسم ہے اس کی جس کے ہاتھ میں میری جان ہے وہ (یعنی اسلم اور غفار وغیرہ) بہتر ہیں ان سے۔“ (یعنی بنی تمیم وغیرہ سے)۔
محمد بن عبداللہ بن ابی یعقوب ضبی سے انہی اسناد کے تحت اسی طرح مروی ہے اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اور «جُهَيْنَةُ» “ اور لفظ «أَحْسِبُ» نہیں کہا:۔
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسلم، غفار، مزینہ اور جہینہ بہتر ہیں بنی تمیم اور بنی عامر سے اور بنی اسد اور غطفان سے جو حلیف ہیں ایک دوسرے کے۔“
ابی بشر سے انہی اسناد کے تحت مروی ہے۔
سیدنا ابوبکرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تم سمجھتے ہو اگر جہینہ، اسلم اور غفار بہتر ہوں بنی تمیم سے اور بنی عبداللہ بن غطفان سے اور عامر بن صعصعہ سے۔“ اور بلند آواز سے فرمایا: لوگوں نے عرض کیا: یا رسول اللہ! اس صورت میں بنی تمیم وغیرہ گھاٹے میں رہے اور نقصان پایا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ بہتر ہیں ان سے۔“
سیدنا عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں سیدنا عمر رضی اللہ عنہ کے پاس آیا۔ انہوں نے کہا: سب سے پہلے صدقہ جس نے چمکا دیا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اور آپ کے اصحاب کے منہ کو یعنی خوش کر دیا ان کو، طئی کا صدقہ تھا، (طی ایک قبیلہ ہے) میں اس کو لے کر آیا تھا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، طفیل اور ان کے ساتھی آئے اور کہنے لگے: یا رسول اللہ! دوس نے کفر اختیار کیا اور انکار کیا مسلمان ہونے سے تو بددعا کیجئیے دوس کے لیے۔ کہا گیا تباہ ہوئے دوس کے لوگ۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یا اللہ! ہدایت کر دوس کو اور ان کو میرے پاس لے کر آ۔“
ابوزرعہ سے روایت ہے کہ سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے کہا: میں ہمیشہ محبت رکھتا ہوں بنی تمیم سے تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے سنیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، میں نے سنا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم فرماتے تھے: ”وہ سب سے زیادہ سخت ہیں میری امت میں دجال پر۔“ اور ان کے صدقے آئے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”یہ ہماری قوم کے صدقے ہیں۔“ اور ایک عورت ان کی قیدی تھی سیدہ عائشہ رضی اللہ عنہا کے پاس۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اس کو آزاد کر دے یہ اسمعیل علیہ السلام کی اولاد میں سے ہے۔“
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، میں ہمیشہ محبت رکھتا ہوں بنی تمیم سے تین باتوں کی وجہ سے جو میں نے سنیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے جو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے بارے میں فرمائیں پھر مذکورہ حدیث کی طرح بیان کیا۔
سیدنا ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے، تین باتیں جو میں نے سنیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے بنی تمیم کے بارے میں اس کے بعد میں ہمیشہ ان سے محبت کرتا ہوں اور اسی مذکورہ حدیث کے معنی کی حدیث بیان کی۔ اور اس میں یہ ہے کہ بنی تمیم کے لوگ معرکوں میں سب لوگوں سے زیادہ لڑنے والے ہیں اور دجال کا ذکر نہیں ہے۔
|