الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب فَضَائِلِ الصَّحَابَةِ صحابہ کرام رضی اللہ عنھم کے فضائل و مناقب 53. باب بَيَانِ مَعْنٰي قَوْلِهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «عَلٰي رَأْسِ مِائَةِ سَنَةٍ لَّا يَبْقٰي نَفْسٌ مَّنْفُوسَةٌ مِّمَّنْ هُوَ مَوْجُودٌ الْآنَ» باب: ”جو لوگ اس وقت زندہ ہیں، سو سال بعد ان میں سے کوئی زندہ نہیں ہو گا“ کا مطلب۔
سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء کی نماز پڑھی ہمارے ساتھ اپنی آخر عمر میں۔ جب سلام پھیرا تو کھڑے ہوئے اور فرمایا: ”تم نے اپنی اس رات کو دیکھا اب سے سو برس کے آخر پر زمین والوں میں سے کوئی نہ رہے گا۔“ سیدنا عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما نے کہا: کہ لوگوں نے اس حدیث میں غلطی کی جو بیان کرتے ہیں سو برس کا بلکہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ فرمایا کہ ”آج جو لوگ موجود ہیں ان میں سے کوئی نہ رہے گا۔“ یعنی یہ قرن تمام ہو جائے گا۔
زہری سے بھی معمر کی اسناد کے مطابق اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ میں نے سنا رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم سے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم وفات سے ایک مہینہ پہلے فرماتے تھے: ”تم مجھ سے قیامت کو پوچھتے ہو قیامت کا علم تو اللہ کو ہے اور میں قسم کھاتا ہوں اللہ تعالیٰ کی کہ کوئی جان نہیں (یعنی آدمیوں میں سے) جس پر سو برس تمام ہوں (آج کی تاریخ سے اور وہ زندہ رہے)۔“
ترجمہ وہی ہے جو اوپر گزرا۔
سیدنا جابر بن عبد اللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اپنی وفات سے ایک مہینہ پہلے یا کچھ ایسا ہی فرمایا: ”جو جان آج کے دن ہے اس پر سو برس نہ گزریں گے کہ وہ مر جائیں گے۔“ عبدالرحمن نے اس کی تفسیر یہ کی کہ عمریں کم ہو جائیں گی (ورنہ اگلے لوگ سو برس سے زیادہ بھی جیتے تھے)۔
سلیمان التیمی سے دونوں سندوں کے تحت اسی طرح کی حدیث مروی ہے۔
سیدنا ابوسعید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تبوک سے لوٹے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے پوچھا: قیامت کے متعلق۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”سو برس گزرنے پر اس وقت کا کوئی شخص زندہ نہ رہے گا۔“
سیدنا جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کوئی شخص سو برس تک نہ جئے گا۔“ سالم نے کہا: ہم نے اس کا ذکر کیا جابر رضی اللہ عنہ کے سامنے، مراد وہ شخص ہے جو اس دن پیدا ہو چکا تھا۔ (جب آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ حدیث بیان کی)۔
|