الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
كِتَاب الزَّكَاةِ
کتاب: زکوۃ کے احکام و مسائل
Zakat (Kitab Al-Zakat)
5. باب فِي زَكَاةِ السَّائِمَةِ
باب: چرنے والے جانوروں کی زکاۃ کا بیان۔
Chapter: Zakat On Pasturing Animals.
حدیث نمبر: 1567
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، قال: اخذت من ثمامة بن عبد الله بن انس كتابا زعم ان ابا بكر كتبه لانس وعليه خاتم رسول الله صلى الله عليه وسلم حين بعثه مصدقا وكتبه له،" فإذا فيه هذه فريضة الصدقة التي فرضها رسول الله صلى الله عليه وسلم على المسلمين التي امر الله عز وجل بها نبيه صلى الله عليه وسلم، فمن سئلها من المسلمين على وجهها فليعطها، ومن سئل فوقها فلا يعطه فيما دون خمس وعشرين من الإبل الغنم في كل خمس ذود شاة، فإذا بلغت خمسا وعشرين ففيها بنت مخاض إلى ان تبلغ خمسا وثلاثين، فإن لم يكن فيها بنت مخاض فابن لبون ذكر، فإذا بلغت ستا وثلاثين ففيها بنت لبون إلى خمس واربعين، فإذا بلغت ستا واربعين ففيها حقة طروقة الفحل إلى ستين، فإذا بلغت إحدى وستين ففيها جذعة إلى خمس وسبعين، فإذا بلغت ستا وسبعين ففيها ابنتا لبون إلى تسعين، فإذا بلغت إحدى وتسعين ففيها حقتان طروقتا الفحل إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة ففي كل اربعين بنت لبون وفي كل خمسين حقة، فإذا تباين اسنان الإبل في فرائض الصدقات فمن بلغت عنده صدقة الجذعة وليست عنده جذعة وعنده حقة فإنها تقبل منه، وان يجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليست عنده حقة وعنده جذعة فإنها تقبل منه ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة الحقة وليس عنده حقة وعنده ابنة لبون فإنها تقبل. قال ابو داود: من هاهنا لم اضبطه عن موسى كما احب، ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه، قال ابو داود: إلى هاهنا، ثم اتقنته، ويعطيه المصدق عشرين درهما او شاتين، ومن بلغت عنده صدقة ابنة لبون وليس عنده إلا بنت مخاض فإنها تقبل منه وشاتين او عشرين درهما، ومن بلغت عنده صدقة ابنة مخاض وليس عنده إلا ابن لبون ذكر فإنه يقبل منه وليس معه شيء، ومن لم يكن عنده إلا اربع فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي سائمة الغنم إذا كانت اربعين ففيها شاة إلى عشرين ومائة، فإذا زادت على عشرين ومائة ففيها شاتان إلى ان تبلغ مائتين، فإذا زادت على مائتين ففيها ثلاث شياه إلى ان تبلغ ثلاث مائة، فإذا زادت على ثلاث مائة ففي كل مائة شاة شاة ولا يؤخذ في الصدقة هرمة ولا ذات عوار من الغنم ولا تيس الغنم إلا ان يشاء المصدق، ولا يجمع بين مفترق ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية، فإن لم تبلغ سائمة الرجل اربعين فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها، وفي الرقة ربع العشر فإن لم يكن المال إلا تسعين ومائة فليس فيها شيء إلا ان يشاء ربها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، قَالَ: أَخَذْتُ مِنْ ثُمَامَةَ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ أَنَسٍ كِتَابًا زَعَمَ أَنَّ أَبَا بَكْرٍ كَتَبَهُ لِأَنَسٍ وَعَلَيْهِ خَاتِمُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ حِينَ بَعَثَهُ مُصَدِّقًا وَكَتَبَهُ لَهُ،" فَإِذَا فِيهِ هَذِهِ فَرِيضَةُ الصَّدَقَةِ الَّتِي فَرَضَهَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَلَى الْمُسْلِمِينَ الَّتِي أَمَرَ اللَّهُ عَزَّ وَجَلَّ بِهَا نَبِيَّهُ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَنْ سُئِلَهَا مِنَ الْمُسْلِمِينَ عَلَى وَجْهِهَا فَلْيُعْطِهَا، وَمَنْ سُئِلَ فَوْقَهَا فَلَا يُعْطِهِ فِيمَا دُونَ خَمْسٍ وَعِشْرِينَ مِنَ الْإِبِلِ الْغَنَمُ فِي كُلِّ خَمْسِ ذَوْدٍ شَاةٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ خَمْسًا وَعِشْرِينَ فَفِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ خَمْسًا وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ فِيهَا بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَثَلَاثِينَ فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَأَرْبَعِينَ فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْفَحْلِ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَسِتِّينَ فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ سِتًّا وَسَبْعِينَ فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا بَلَغَتْ إِحْدَى وَتِسْعِينَ فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْفَحْلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ وَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، فَإِذَا تَبَايَنَ أَسْنَانُ الْإِبِلِ فِي فَرَائِضِ الصَّدَقَاتِ فَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْجَذَعَةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ جَذَعَةٌ وَعِنْدَهُ حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، وَأَنْ يَجْعَلَ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَتْ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ جَذَعَةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ الْحِقَّةِ وَلَيْسَ عِنْدَهُ حِقَّةٌ وَعِنْدَهُ ابْنَةُ لَبُونٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: مِنْ هَاهُنَا لَمْ أَضْبِطْهُ عَنْ مُوسَى كَمَا أُحِبُّ، وَيَجْعَلُ مَعَهَا شَاتَيْنِ إِنِ اسْتَيْسَرَتَا لَهُ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ بِنْتِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا حِقَّةٌ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ، قَالَ أَبُو دَاوُد: إِلَى هَاهُنَا، ثُمَّ أَتْقَنْتُهُ، وَيُعْطِيهِ الْمُصَدِّقُ عِشْرِينَ دِرْهَمًا أَوْ شَاتَيْنِ، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ لَبُونٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا بِنْتُ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا تُقْبَلُ مِنْهُ وَشَاتَيْنِ أَوْ عِشْرِينَ دِرْهَمًا، وَمَنْ بَلَغَتْ عِنْدَهُ صَدَقَةُ ابْنَةِ مَخَاضٍ وَلَيْسَ عِنْدَهُ إِلَّا ابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ فَإِنَّهُ يُقْبَلُ مِنْهُ وَلَيْسَ مَعَهُ شَيْءٌ، وَمَنْ لَمْ يَكُنْ عِنْدَهُ إِلَّا أَرْبَعٌ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ إِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ فَفِيهَا شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ فَفِيهَا شَاتَانِ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ مِائَتَيْنِ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى مِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى أَنْ تَبْلُغَ ثَلَاثَ مِائَةٍ، فَإِذَا زَادَتْ عَلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ، وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ، فَإِنْ لَمْ تَبْلُغْ سَائِمَةُ الرَّجُلِ أَرْبَعِينَ فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا، وَفِي الرِّقَةِ رُبْعُ الْعُشْرِ فَإِنْ لَمْ يَكُنِ الْمَالُ إِلَّا تِسْعِينَ وَمِائَةً فَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ رَبُّهَا".
حماد کہتے ہیں میں نے ثمامہ بن عبداللہ بن انس سے ایک کتاب لی، وہ کہتے تھے: یہ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے انس رضی اللہ عنہ کے لیے لکھی تھی، اس پر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی مہر لگی ہوئی تھی، جب آپ نے انہیں صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا تھا تو یہ کتاب انہیں لکھ کر دی تھی، اس میں یہ عبارت لکھی تھی: یہ فرض زکاۃ کا بیان ہے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مسلمانوں پر مقرر فرمائی ہے اور جس کا حکم اللہ تعالیٰ نے اپنے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو دیا ہے، لہٰذا جس مسلمان سے اس کے مطابق زکاۃ طلب کی جائے، وہ اسے ادا کرے اور جس سے اس سے زائد طلب کی جائے، وہ نہ دے: پچیس (۲۵) سے کم اونٹوں میں ہر پانچ اونٹ پر ایک بکری ہے، جب پچیس اونٹ پورے ہو جائیں تو پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ۱؎ ہے، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون دیدے، اور جب چھتیس (۳۶) اونٹ ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک میں ایک بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) اونٹ پورے ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک میں ایک حقہ واجب ہے، اور جب اکسٹھ (۶۱) اونٹ ہو جائیں تو پچہتر (۷۵) تک میں ایک جذعہ واجب ہو گی، جب چھہتر (۷۶) اونٹ ہو جائیں تو نو ے (۹۰) تک میں دو بنت لبون دینا ہوں گی، جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقہ اور جب ایک سو بیس (۱۲۰) سے زائد ہوں تو ہر چالیس (۴۰) میں ایک بنت لبون اور ہر پچاس (۵۰) میں ایک حقہ دینا ہو گا۔ اگر وہ اونٹ جو زکاۃ میں ادا کرنے کے لیے مطلوب ہے، نہ ہو، مثلاً کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ اسے جذعہ دینا ہو لیکن اس کے پاس جذعہ نہ ہو بلکہ حقہ ہو تو حقہ ہی لے لی جائے گی، اور ساتھ ساتھ دو بکریاں، یا بیس درہم بھی دیدے۔ یا اسی طرح کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ نہ ہو بلکہ جذعہ ہو تو اس سے جذعہ ہی قبول کر لی جائے گی، البتہ اب اسے عامل (زکاۃ وصول کرنے والا) بیس درہم یا دو بکریاں لوٹائے گا، اسی طرح سے کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں کہ ان میں حقہ دینا ہو لیکن اس کے پاس حقہ کے بجائے بنت لبون ہوں تو بنت لبون ہی اس سے قبول کر لی جائے گی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں موسیٰ سے حسب منشاء اس عبارت سے «ويجعل معها شاتين إن استيسرتا له، أو عشرين درهمًا» سے لے کر «ومن بلغت عنده صدقة بنت لبون وليس عنده إلا حقة فإنها تقبل منه» تک اچھی ضبط نہ کر سکا، پھر آگے مجھے اچھی طرح یاد ہے: یعنی اگر اسے میسر ہو تو اس سے دو بکریاں یا بیس درہم واپس لے لیں گے، اگر کسی کے پاس اتنے اونٹ ہوں، جن میں بنت لبون واجب ہوتا ہو اور بنت لبون کے بجائے اس کے پاس حقہ ہو تو حقہ ہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور زکاۃ وصول کرنے والا اسے بیس درہم یا دو بکریاں واپس کرے گا، جس کے پاس اتنے اونٹ ہوں جن میں بنت لبون واجب ہوتی ہو اور اس کے پاس بنت مخاض کے علاوہ کچھ نہ ہو تو اس سے بنت مخاض لے لی جائے گی اور اس کے ساتھ ساتھ دو بکریاں یا بیس درہم اور لیے جائیں گے، جس کے اوپر بنت مخاض واجب ہوتا ہو اور بنت مخاض کے بجائے اس کے پاس ابن لبون مذکر ہو تو وہی اس سے قبول کر لیا جائے گا اور اس کے ساتھ کوئی چیز واپس نہیں کرنی پڑے گی، اگر کسی کے پاس صرف چار ہی اونٹ ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ ان کا مالک اپنی خوشی سے کچھ دیدے۔ اگر چالیس (۴۰) بکریاں چرنے والی ہوں تو ان میں ایک سو بیس (۱۲۰) تک ایک بکری دینی ہو گی، جب ایک سو اکیس (۱۲۱) ہو جائیں تو دو سو تک دو بکریاں دینی ہوں گی، جب دو سو سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین بکریاں دینی ہوں گی، جب تین سو سے زیادہ ہوں تو پھر ہر سینکڑے پر ایک بکری دینی ہو گی، زکاۃ میں بوڑھی عیب دار بکری اور نر بکرا نہیں لیا جائے گا سوائے اس کے کہ مصلحتاً زکاۃ وصول کرنے والے کو نر بکرا لینا منظور ہو۔ اسی طرح زکاۃ کے خوف سے متفرق مال جمع نہیں کیا جائے گا اور نہ جمع مال متفرق کیا جائے گا اور جو نصاب دو آدمیوں میں مشترک ہو تو وہ ایک دوسرے پر برابر کا حصہ لگا کر لیں گے ۲؎۔ اگر چرنے والی بکریاں چالیس سے کم ہوں تو ان میں کچھ بھی نہیں ہے سوائے اس کے کہ مالک چا ہے تو اپنی مرضی سے کچھ دیدے، اور چاندی میں چالیسواں حصہ دیا جائے گا البتہ اگر وہ صرف ایک سو نوے درہم ہو تو اس میں کچھ بھی واجب نہیں سوائے اس کے کہ مالک کچھ دینا چاہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 33 (1448)، 39 (1455)، الشرکة 2 (2487)، فرض الخمس 5 (3016)، الحیل 3 (6955)، سنن النسائی/الزکاة 5 (2449)، 10 (2457)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 10 (1800)، (تحفة الأشراف: 6582)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/11، 13) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: بنت مخاض، بنت لبون، حقہ، جذعہ وغیرہ کی تشریح آگے باب نمبر (۷) تفسیر اسنان الابل میں دیکھئے۔
۲؎: مثلاً دو شریک ہیں ایک کی ایک ہزار بکریاں ہیں اور دوسرے کی صرف چالیس بکریاں، اس طرح کل ایک ہزار چالیس بکریاں ہوئیں، محصل آیا اور اس نے دس بکریاں زکاۃ میں لے لیں، فرض کیجئے ہر بکری کی قیمت چھبیس چھبیس روپے ہے اس طرح ان کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے ہوئی جس میں دس روپے اس شخص کے ذمہ ہوں گے جس کی چالیس بکریاں ہیں اور د وسو پچاس روپے اس پر ہوں گے جس کی ایک ہزار بکریاں ہیں، کیونکہ ایک ہزار چالیس کے چھبیس چالیسے بنتے ہیں جس میں سے ایک چالیسہ کی زکاۃ چالیس بکریوں والے پر ہو گی اور (۲۵) چالیسوں کی زکاۃ ایک ہزار بکریوں والے پر، اب اگر محصل نے چالیس بکریوں والے شخص کی بکریوں سے دس بکریاں زکاۃ میں لی ہیں جن کی مجموعی قیمت دو سو ساٹھ روپے بنتی ہے تو ہزار بکریوں والا اسے ڈھائی سو روپے واپس کرے گا، اور اگر محصل نے ایک ہزار بکریوں والے شخص کی بکریوں میں سے لی ہیں تو چالیس بکریوں والا اسے دس روپیہ واپس کرے گا۔

Narrated Hammad: I took a letter from Thumamah bin Abdullah bin Anas. He presumed that Abu Bakr had written it for Anas when he sent him (to Al Bahrain) as a collector of zakat. This (letter) was stamped with the stamp of the Messenger of Allah ﷺ and was written by Abu Bakr for him (Anas). This letter goes “This is the obligatory sadaqah (zakat) which the Messenger of Allah ﷺ imposed on Muslims which Allah commanded his Prophet ﷺ to impose. Those Muslims who are asked for the proper amount must give it, but those who are asked for more than that must not give it. For less than twenty five Camels a goat is to be given for every five Camels. When they reach twenty five to thirty five, a she Camel in her second year is to be given. If there is no she Camel in her second year, a male Camel in its third year is to be given. When they reach thirty six to forty five, a she Camel in her third year is to be given. When they reach forty six to sixty, a she Camel in her fourth year which is ready to be covered by a stallion is to be given. When they reach sixty one to seventy five, a she Camel in her fifth year is to be given. When they reach seventy six to ninety, two she Camel in their third year are to be given. When they reach ninety one to a hundred and twenty, two she Camels in their fourth year are ready to be covered by a stallion are to be given. When they exceed a hundred and twenty, a she Camel in her third year is to be given for every forty and a she Camel in her fourth year for every fifty (Camels). In case the ages of the Camel vary in the payment of obligatory sadaqah (zakat) If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fifth year is payable does not possess one but possess one in her fourth year, that will be accepted from him along with two goats if he can conveniently give them, or else twenty dirhams. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fourth year is payable does not possess but possesses one in her fifth year, that will be accepted from him, and the collector must give him twenty dirhams or two goats. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her fourth year is payable possesses only one in her third year, that will be accepted from him. ” Abu Dawud said From here I could not retain accurately from Musa as I liked “And he must give along with it two goats if he can conveniently give them, or else twenty dirhams. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her third year is payable possesses only one in her fourth year, that will be accepted from him. ” Abu Dawud said (I was doubtful) up to here, and retained correctly onward “and the collector must give him twenty dirhams or two goats. If anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her third year is payable does not possess one but possesses one in her second year, that will be accepted from him, but he must give two goats or twenty dirhams. Anyone whose Camels reach the number on which a she Camel in her second year is payable does not possess one but possesses a male Camel in its third year, that will be accepted from him, and nothing extra will be demanded along with it. If anyone possesses only four Camels, no zakat will be payable on them unless their owner wishes. If the numbers of the pasturing goats reach forty to one hundred and twenty, one goat is to be given. Over one hundred and twenty up to two hundred, two goats are to be given. If they exceed two hundred reaching three hundred, three goats are to be given. If they exceed three hundred, a goat is to be for every hundred. An old sheep, one with a defect in the eye, or a male goat is not to be accepted as sadaqah (zakat) unless the collector wishes. Those which are in separate flocks are not to be brought together and those which are in one flock are not to be separated from fear of sadaqah (zakat). Regarding what belongs to two partners, they can make claims for restitution from one another with equity, If a man’s pasturing animals are less than forty, no sadaqah (zakat) is due on them unless their owner wishes. On sliver dirhams a fortieth is payable, but if there are only a hundred and ninety, nothing is payable unless their owner wishes. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1562


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1568
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا عباد بن العوام، عن سفيان بن الحسين، عن الزهري، عن سالم، عن ابيه، قال: كتب رسول الله صلى الله عليه وسلم كتاب الصدقة، فلم يخرجه إلى عماله حتى قبض فقرنه بسيفه، فعمل به ابو بكر حتى قبض، ثم عمل به عمر حتى قبض فكان فيه" في خمس من الإبل شاة، وفي عشر شاتان، وفي خمس عشرة ثلاث شياه، وفي عشرين اربع شياه، وفي خمس وعشرين ابنة مخاض إلى خمس وثلاثين، فإن زادت واحدة ففيها ابنة لبون إلى خمس واربعين، فإذا زادت واحدة ففيها حقة إلى ستين، فإذا زادت واحدة ففيها جذعة إلى خمس وسبعين، فإذا زادت واحدة ففيها ابنتا لبون إلى تسعين، فإذا زادت واحدة ففيها حقتان إلى عشرين ومائة، فإن كانت الإبل اكثر من ذلك ففي كل خمسين حقة، وفي كل اربعين ابنة لبون، وفي الغنم في كل اربعين شاة شاة إلى عشرين ومائة، فإن زادت واحدة فشاتان إلى مائتين، فإن زادت واحدة على المائتين ففيها ثلاث شياه إلى ثلاث مائة، فإن كانت الغنم اكثر من ذلك ففي كل مائة شاة شاة وليس فيها شيء حتى تبلغ المائة، ولا يفرق بين مجتمع ولا يجمع بين متفرق مخافة الصدقة، وما كان من خليطين فإنهما يتراجعان بينهما بالسوية ولا يؤخذ في الصدقة هرمة ولا ذات عيب، قال: وقال الزهري: إذا جاء المصدق قسمت الشاء اثلاثا ثلثا شرارا، وثلثا خيارا، وثلثا وسطا، فاخذ المصدق من الوسط" ولم يذكر الزهري البقر.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا عَبَّادُ بْنُ الْعَوَّامِ، عَنْ سُفْيَانَ بْنِ الْحُسَيْنِ، عَنْ الزُّهْرِيِّ، عَنْ سَالِمٍ، عَنْ أَبِيهِ، قَالَ: كَتَبَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ كِتَابَ الصَّدَقَةِ، فَلَمْ يُخْرِجْهُ إِلَى عُمَّالِهِ حَتَّى قُبِضَ فَقَرَنَهُ بِسَيْفِهِ، فَعَمِلَ بِهِ أَبُو بَكْرٍ حَتَّى قُبِضَ، ثُمَّ عَمِلَ بِهِ عُمَرُ حَتَّى قُبِضَ فَكَانَ فِيهِ" فِي خَمْسٍ مِنَ الْإِبِلِ شَاةٌ، وَفِي عَشْرٍ شَاتَانِ، وَفِي خَمْسَ عَشْرَةَ ثَلَاثُ شِيَاهٍ، وَفِي عِشْرِينَ أَرْبَعُ شِيَاهٍ، وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ ابْنَةُ مَخَاضٍ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَةُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّةٌ إِلَى سِتِّينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا جَذَعَةٌ إِلَى خَمْسٍ وَسَبْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَتَا لَبُونٍ إِلَى تِسْعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الْإِبِلُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَفِي كُلِّ أَرْبَعِينَ ابْنَةُ لَبُونٍ، وَفِي الْغَنَمِ فِي كُلِّ أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً فَشَاتَانِ إِلَى مِائَتَيْنِ، فَإِنْ زَادَتْ وَاحِدَةً عَلَى الْمِائَتَيْنِ فَفِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ إِلَى ثَلَاثِ مِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الْغَنَمُ أَكْثَرَ مِنْ ذَلِكَ فَفِي كُلِّ مِائَةِ شَاةٍ شَاةٌ وَلَيْسَ فِيهَا شَيْءٌ حَتَّى تَبْلُغَ الْمِائَةَ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ مَخَافَةَ الصَّدَقَةِ، وَمَا كَانَ مِنْ خَلِيطَيْنِ فَإِنَّهُمَا يَتَرَاجَعَانِ بَيْنَهُمَا بِالسَّوِيَّةِ وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَيْبٍ، قَالَ: وقَالَ الزُّهْرِيُّ: إِذَا جَاءَ الْمُصَدِّقُ قُسِّمَتِ الشَّاءُ أَثْلَاثًا ثُلُثًا شِرَارًا، وَثُلُثًا خِيَارًا، وَثُلُثًا وَسَطًا، فَأَخَذَ الْمُصَدِّقُ مِنَ الْوَسَطِ" وَلَمْ يَذْكُرْ الزُّهْرِيُّ الْبَقَرَ.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کی کتاب لکھی، لیکن اسے اپنے عمال کے پاس بھیج نہ پائے تھے کہ آپ کی وفات ہو گئی، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے اپنی تلوار سے لگائے رکھا پھر اس پر ابوبکر رضی اللہ عنہ نے عمل کیا یہاں تک کہ وہ وفات پا گئے، پھر عمر رضی اللہ عنہ نے اپنی وفات تک اس پر عمل کیا، اس کتاب میں یہ تھا: پا نچ (۵) اونٹ میں ایک (۱) بکری ہے، دس (۱۰) اونٹ میں دو (۲) بکریاں، پندرہ (۱۵) اونٹ میں تین (۳) بکریاں، اور بیس (۲۰) میں چار (۴) بکریاں ہیں، پھر پچیس (۲۵) سے پینتیس (۳۵) تک میں ایک بنت مخاض ہے، پینتیس (۳۵) سے زیادہ ہو جائے تو پینتالیس (۴۵) تک ایک بنت لبون ہے، جب پینتالیس (۴۵) سے زیادہ ہو جائے تو ساٹھ (۶۰) تک ایک حقہ ہے، جب ساٹھ (۶۰) سے زیادہ ہو جائے تو پچہتر (۷۵) تک ایک جذعہ ہے، جب پچہتر (۷۵) سے زیادہ ہو جائے تو نوے (۹۰) تک دو بنت لبون ہیں، جب نوے (۹۰) سے زیادہ ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو حقے ہیں، اور جب اس سے بھی زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک حقہ اور ہر چالیس (۴۰) پر ایک بنت لبون واجب ہے۔ بکریوں میں چالیس (۴۰) سے لے کر ایک سو بیس (۱۲۰) بکریوں تک ایک (۱) بکری واجب ہو گی، اگر اس سے زیادہ ہو جائیں تو دو سو (۲۰۰) تک دو (۲) بکریاں ہیں، اس سے زیادہ ہو جائیں تو تین سو (۳۰۰) تک تین (۳) بکریاں ہیں، اگر اس سے بھی زیادہ ہو جائیں تو ہر سو (۱۰۰) بکری پر ایک (۱) بکری ہو گی، اور جو سو (۱۰۰) سے کم ہو اس میں کچھ بھی نہیں، زکاۃ کے ڈر سے نہ جدا مال کو اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال کو جدا کیا جائے اور جو مال دو آدمیوں کی شرکت میں ہو وہ ایک دوسرے سے لے کر اپنا اپنا حصہ برابر کر لیں، زکاۃ میں بوڑھا اور عیب دار جانور نہ لیا جائے گا۔ زہری کہتے ہیں: جب مصدق (زکاۃ وصول کرنے والا) آئے تو بکریوں کے تین غول کریں گے، ایک غول میں گھٹیا درجہ کی بکریاں ہوں گی دوسرے میں عمدہ اور تیسرے میں درمیانی درجہ کی تو مصدق درمیانی درجہ کی بکریاں زکاۃ میں لے گا، زہری نے گایوں کا ذکر نہیں کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 4 (621)، (تحفة الأشراف: 6813)، وقد أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الزکاة 9 (1798)، موطا امام مالک/الزکاة 11 (23) (وجادةً)، سنن الدارمی/الزکاة 6 (1666)، مسند احمد (2/14، 15) (صحیح)» ‏‏‏‏ (متابعات وشواہد کی بنا پر یہ حدیث بھی صحیح ہے، ورنہ سفیان بن حسین زہری سے روایت میں ثقہ نہیں ہیں)

Narrated Abdullah ibn Umar: The Messenger of Allah ﷺ wrote a letter about sadaqah (zakat) but he died before he could send it to his governors. He had kept it with his sword. So Abu Bakr acted upon it till he died, and then Umar acted upon it till he died. It contained: "For five camels one goat is to be given; for ten camels two goats are to be given; for fifteen camels three goats are to be given; for twenty camels four goats are to be given; for twenty-five to thirty-five camels a she-camel in her second year is to be given. If the number exceeds by one up to seventy camels, a she-camel in her fourth year is to be given; if they exceed by one up to seventy-five camels, a she-camel in her fifth year is to be given; if they exceed by one up to ninety camels, two she-camels in their third year are to be given; if they exceed by one up to one hundred and twenty, two she-camels in their fourth year are to be given. If the camels are more than this, a she-camel in her fourth year is to be given for every fifty camels, and a she-camel in her third year is to be given for every forty camels. For forty to one hundred and twenty goats one goat is to be given; if they exceed by one up to two hundred, two goats are to be given. If they exceed by one up to three hundred, three goats are to be given; if the goats are more than this, one goat for every hundred goats is to be given. Nothing is payable until they reach one hundred. Those which are in one flock are not to be separated, and those which are in separate flocks are not be brought together from fear of sadaqah (zakat). Regarding that which belongs to two partners, they can make claims for restitution from each other with equity. An old goat and a defective one are not to be accepted as sadaqah (zakat). " Az-Zuhri said: When the collector comes, the goats will be apportioned into three flocks: one containing bad, the second good, and the third moderate. The collector will take zakat from the moderate. Az-Zuhri did not mention the cows (to be apportioned in three flocks).
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1563


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1569
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، حدثنا محمد بن يزيد الواسطي، اخبرنا سفيان بن حسين بإسناده ومعناه، قال:" فإن لم تكن ابنة مخاض فابن لبون" ولم يذكر كلام الزهري.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَزِيدَ الْوَاسِطِيُّ، أَخْبَرَنَا سُفْيَانُ بْنُ حُسَيْنٍ بِإِسْنَادِهِ وَمَعْنَاهُ، قَالَ:" فَإِنْ لَمْ تَكُنْ ابْنَةُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ" وَلَمْ يَذْكُرْ كَلَامَ الزُّهْرِيِّ.
محمد بن یزید واسطی کہتے ہیں ہمیں سفیان بن حسین نے اسی سند سے اسی مفہوم کی حدیث کی خبر دی ہے اس میں ہے: اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون واجب ہو گا، اور انہوں نے زہری کے کلام کا ذکر نہیں کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:6813) (صحیح)» ‏‏‏‏

Therefore said tradition has also been transmitted by Sufyan bin Husain through a different chain of narrators and to the same effect. This version adds “If there is no she Camel in her second year, a she Camel in her third year is to be given. ” This does not mention the words of Al Zuhri.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1564


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1570
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن العلاء، اخبرنا ابن المبارك، عن يونس بن يزيد، عن ابن شهاب، قال: هذه نسخة كتاب رسول الله صلى الله عليه وسلم الذي كتبه في الصدقة، وهي عند آل عمر بن الخطاب، قال ابن شهاب: اقرانيها سالم بن عبد الله بن عمر فوعيتها على وجهها، وهي التي انتسخ عمر بن عبد العزيز من عبد الله بن عبد الله بن عمر، وسالم بن عبد الله بن عمر، فذكر الحديث، قال:" فإذا كانت إحدى وعشرين ومائة ففيها ثلاث بنات لبون حتى تبلغ تسعا وعشرين ومائة، فإذا كانت ثلاثين ومائة ففيها بنتا لبون وحقة حتى تبلغ تسعا وثلاثين ومائة، فإذا كانت اربعين ومائة ففيها حقتان وبنت لبون حتى تبلغ تسعا واربعين ومائة، فإذا كانت خمسين ومائة ففيها ثلاث حقاق حتى تبلغ تسعا وخمسين ومائة، فإذا كانت ستين ومائة ففيها اربع بنات لبون حتى تبلغ تسعا وستين ومائة، فإذا كانت سبعين ومائة ففيها ثلاث بنات لبون وحقة حتى تبلغ تسعا وسبعين ومائة، فإذا كانت ثمانين ومائة ففيها حقتان وابنتا لبون حتى تبلغ تسعا وثمانين ومائة، فإذا كانت تسعين ومائة ففيها ثلاث حقاق وبنت لبون حتى تبلغ تسعا وتسعين ومائة، فإذا كانت مائتين ففيها اربع حقاق او خمس بنات لبون اي السنين وجدت اخذت وفي سائمة الغنم"، فذكر نحو حديث سفيان بن حسين، وفيه:" ولا يؤخذ في الصدقة هرمة، ولا ذات عوار من الغنم، ولا تيس الغنم إلا ان يشاء المصدق".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، أَخْبَرَنَا ابْنُ الْمُبَارَكِ، عَنْ يُونُسَ بْنِ يَزِيدَ، عَنْ ابْنِ شِهَابٍ، قَالَ: هَذِهِ نُسْخَةُ كِتَابِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ الَّذِي كَتَبَهُ فِي الصَّدَقَةِ، وَهِيَ عِنْدَ آلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ، قَالَ ابْنُ شِهَابٍ: أَقْرَأَنِيهَا سَالِمُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ فَوَعَيْتُهَا عَلَى وَجْهِهَا، وَهِيَ الَّتِي انْتَسَخَ عُمَرُ بْنُ عَبْدِ الْعَزِيزِ مِنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، وَسَالِمِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ، فَذَكَرَ الْحَدِيثَ، قَالَ:" فَإِذَا كَانَتْ إِحْدَى وَعِشْرِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَعِشْرِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَلَاثِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا بِنْتَا لَبُونٍ وَحِقَّةٌ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَلَاثِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ أَرْبَعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَبِنْتُ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَأَرْبَعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ خَمْسِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَخَمْسِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سِتِّينَ وَمِائَةً فَفِيهَا أَرْبَعُ بَنَاتِ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسِتِّينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ سَبْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ بَنَاتِ لَبُونٍ وَحِقَّةٌ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَسَبْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ ثَمَانِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا حِقَّتَانِ وَابْنَتَا لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَثَمَانِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ تِسْعِينَ وَمِائَةً فَفِيهَا ثَلَاثُ حِقَاقٍ وَبِنْتُ لَبُونٍ حَتَّى تَبْلُغَ تِسْعًا وَتِسْعِينَ وَمِائَةً، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا أَرْبَعُ حِقَاقٍ أَوْ خَمْسُ بَنَاتِ لَبُونٍ أَيُّ السِّنَّيْنِ وُجِدَتْ أُخِذَتْ وَفِي سَائِمَةِ الْغَنَمِ"، فَذَكَرَ نَحْوَ حَدِيثِ سُفْيَانَ بْنِ حُسَيْنٍ، وَفِيهِ:" وَلَا يُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ، وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ مِنَ الْغَنَمِ، وَلَا تَيْسُ الْغَنَمِ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ".
ابن شہاب زہری کہتے ہیں یہ نقل ہے اس کتاب کی جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے زکاۃ کے تعلق سے لکھی تھی اور وہ عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کی اولاد کے پاس تھی۔ ابن شہاب زہری کہتے ہیں: اسے مجھے سالم بن عبداللہ بن عمر نے پڑھایا تو میں نے اسے اسی طرح یاد کر لیا جیسے وہ تھی، اور یہی وہ نسخہ ہے جسے عمر بن عبدالعزیز نے عبداللہ بن عبداللہ بن عمر اور سالم بن عبداللہ بن عمر سے نقل کروایا تھا، پھر آگے انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اور کہا: جب ایک سو اکیس (۱۲۱) اونٹ ہو جائیں تو ان میں ایک سو انتیس (۱۲۹) تک تین (۳) بنت لبون واجب ہیں، جب ایک سو تیس (۱۳۰) ہو جائیں تو ایک سو انتالیس (۱۳۹) تک میں دو (۲) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو چالیس (۱۴۰) ہو جائیں تو ایک سو انچاس (۱۴۹) تک دو (۲) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب ایک سو پچاس (۱۵۰) ہو جائیں تو ایک سو انسٹھ (۱۵۹) تک تین (۳) حقہ ہیں، جب ایک سو ساٹھ (۱۶۰) ہو جائیں تو ایک سو انہتر (۱۶۹) تک چار (۴) بنت لبون ہیں، جب ایک سو ستر (۱۷۰) ہو جائیں تو ایک سو اناسی (۱۷۹) تک تین (۳) بنت لبون اور ایک (۱) حقہ ہیں، جب ایک سو اسی (۱۸۰) ہو جائیں تو ایک سو نو اسی (۱۸۹) تک دو (۲) حقہ اور دو (۲) بنت لبون ہیں، جب ایک سو نوے (۱۹۰) ہو جائیں تو ایک سو ننانوے (۱۹۹) تک تین (۳) حقہ اور ایک (۱) بنت لبون ہیں، جب دو سو (۲۰۰) ہو جائیں تو چار (۴) حقے یا پانچ (۵) بنت لبون، ان میں سے جو بھی پائے جائیں، لے لیے جائیں گے۔ اور ان بکریوں کے بارے میں جو چرائی جاتی ہوں، اسی طرح بیان کیا جیسے سفیان بن حصین کی روایت میں گزرا ہے، مگر اس میں یہ بھی ہے کہ زکاۃ میں بوڑھی یا عیب دار بکری نہیں لی جائے گی، اور نہ ہی غیر خصی (نر) لیا جائے گا سوائے اس کے کہ زکاۃ وصول کرنے والا خود چاہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (1568)، (تحفة الأشراف:6813، 18670) (صحیح)» ‏‏‏‏

Ibn Shihab (Al Zuhri) said This is the copy of the letter of the Messenger of Allah ﷺ, which he had written about sadaqah (zakat). This was in the custody of the descendants of Umar bin Al Khattab. Ibn Shihab said Salim bin Abdallah bin Umar read it to me and I memorized it properly. Umar bin Abdul Aziz got it copied from Abdallah, Abdallah bin Umar and Salim bin Abdallah bin Umar. He (Ibn Shihab) then narrated the tradition like the former (i. e., up to one hundred and twenty camels). He further said if they (the camels) reach one hundred and twenty one to one hundred and twenty nine, three she camels in their third year are to be given. When they reach one hundred and thirty to one hundred and thirty nine, two she camels in their third year and one she Camel in her fourth year are to be given. When they reach one hundred and forty to one hundred and forty nine, two she camels in their fourth year and one she Camel in her third year are to be given. When they reach one hundred and fifty to one hundred and fifty nine, three she camels in their fourth year are to be given. When they reach one hundred and sixty to one hundred and sixty nine four she camels in their fourth year are to be given. When they reach one hundred and seventy to one hundred and seventy nine, three she camels in their third year and one she Camel in her fourth year are to be given. When they reach one hundred and eighty to one hundred and eighty nine, two she camels in their fourth year and two she Camel in their third year are to be given. When they reach one hundred and ninety to one hundred and ninety nine, three she camels in their fourth year and one she Camel in her third year are to be given. When they reach two hundred, four she camels in their fourth year or five she Camels in their third year, camels of whichever age are available, are to be accepted. For the pasturing goats, he narrated the tradition similar to that transmitted by Sufyan bin Husain. This version adds “An old goat, one with defect in the eye or a male goat is not to be accepted in sadaqah (zakat) unless the collector wishes. ”
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1565


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1571
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(موقوف) حدثنا عبد الله بن مسلمة، قال: قال مالك: وقول عمر بن الخطاب رضي الله عنه: لا يجمع بين متفرق، ولا يفرق بين مجتمع، هو ان يكون لكل رجل اربعون شاة، فإذا اظلهم المصدق جمعوها لئلا يكون فيها إلا شاة، ولا يفرق بين مجتمع ان الخليطين إذا كان لكل واحد منهما مائة شاة وشاة فيكون عليهما فيها ثلاث شياه، فإذا اظلهما المصدق فرقا غنمهما فلم يكن على كل واحد منهما إلا شاة، فهذا الذي سمعت في ذلك.
(موقوف) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مَسْلَمَةَ، قَالَ: قَالَ مَالِكٌ: وَقَوْلُ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ: لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُتَفَرِّقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، هُوَ أَنْ يَكُونَ لِكُلِّ رَجُلٍ أَرْبَعُونَ شَاةً، فَإِذَا أَظَلَّهُمُ الْمُصَدِّقُ جَمَعُوهَا لِئَلَّا يَكُونَ فِيهَا إِلَّا شَاةٌ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ أَنَّ الْخَلِيطَيْنِ إِذَا كَانَ لِكُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا مِائَةُ شَاةٍ وَشَاةٌ فَيَكُونُ عَلَيْهِمَا فِيهَا ثَلَاثُ شِيَاهٍ، فَإِذَا أَظَلَّهُمَا الْمُصَدِّقُ فَرَّقَا غَنَمَهُمَا فَلَمْ يَكُنْ عَلَى كُلِّ وَاحِدٍ مِنْهُمَا إِلَّا شَاةٌ، فَهَذَا الَّذِي سَمِعْتُ فِي ذَلِكَ.
عبداللہ بن مسلمہ کہتے ہیں کہ مالک نے کہا: عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے قول جدا جدا مال کو اکٹھا نہیں کیا جائے گا اور نہ اکٹھے مال کو جدا کیا جائے گا کا مطلب یہ ہے: مثلاً ہر ایک کی چالیس چالیس بکریاں ہوں، جب مصدق ان کے پاس زکاۃ وصول کرنے آئے تو وہ سب اپنی بکریوں کو ایک جگہ کر دیں تاکہ ایک ہی شخص کی تمام بکریاں سمجھ کر ایک بکری زکاۃ میں لے، اکٹھا مال جدا نہ کئے جانے کا مطلب یہ ہے: دو ساجھے دار ہوں اور ہر ایک کی ایک سو ایک بکریاں ہوں (دونوں کی ملا کر دو سو دو) تو دونوں کو ملا کر تین بکریاں زکاۃ کی ہوتی ہیں، لیکن جب زکاۃ وصول کرنے والا آتا ہے تو دونوں اپنی اپنی بکریاں الگ کر لیتے ہیں، اس طرح ہر ایک پر ایک ہی بکری لازم ہوتی ہے، یہ ہے وہ چیز جو میں نے اس سلسلے میں سنی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:19254)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 11 (23) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Malik: The statement of Umar bin Al Khattab “Those which are in separate flocks are not to be brought together and those which are in one flock are not to be separated” means Two persons had forty goats each ; when the collector came they brought them together in one flock so that only one goat could be given. The phrase “those which are in one flock are not to be separated” means If two partners possessed one hundred and one goats each, three goats were to be given by each of them. When the collector came they separated their goats. Thus only one goat was to be given by each of them. This is what I heard on this subject.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1566


قال الشيخ الألباني: صحيح مقطوع
حدیث نمبر: 1572
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عبد الله بن محمد النفيلي، حدثنا زهير، حدثنا ابو إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، وعن الحارث الاعور، عن علي رضي الله عنه، قال زهير: احسبه عن النبي صلى الله عليه وسلم، انه قال:" هاتوا ربع العشور من كل اربعين درهما درهم، وليس عليكم شيء حتى تتم مائتي درهم، فإذا كانت مائتي درهم ففيها خمسة دراهم، فما زاد فعلى حساب ذلك، وفي الغنم في اربعين شاة شاة، فإن لم يكن إلا تسع وثلاثون فليس عليك فيها شيء" وساق صدقة الغنم مثل الزهري، قال:" وفي البقر في كل ثلاثين تبيع وفي الاربعين مسنة، وليس على العوامل شيء، وفي الإبل" فذكر صدقتها كما ذكر الزهري، قال:" وفي خمس وعشرين خمسة من الغنم، فإذا زادت واحدة ففيها ابنة مخاض، فإن لم تكن بنت مخاض فابن لبون ذكر إلى خمس وثلاثين، فإذا زادت واحدة ففيها بنت لبون إلى خمس واربعين، فإذا زادت واحدة ففيها حقة طروقة الجمل إلى ستين" ثم ساق مثل حديث الزهري، قال:" فإذا زادت واحدة، يعني واحدة وتسعين، ففيها حقتان طروقتا الجمل إلى عشرين ومائة، فإن كانت الإبل اكثر من ذلك ففي كل خمسين حقة، ولا يفرق بين مجتمع ولا يجمع بين مفترق خشية الصدقة، ولا تؤخذ في الصدقة هرمة ولا ذات عوار ولا تيس إلا ان يشاء المصدق، وفي النبات ما سقته الانهار او سقت السماء العشر، وما سقى الغرب ففيه نصف العشر"، وفي حديث عاصم، والحارث: الصدقة في كل عام، قال زهير: احسبه قال: مرة، وفي حديث عاصم:" إذا لم يكن في الإبل ابنة مخاض ولا ابن لبون فعشرة دراهم او شاتان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا زُهَيْرٌ، حَدَّثَنَا أَبُو إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، وَعَنْ الْحَارِثِ الأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ زُهَيْرٌ: أَحْسَبُهُ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، أَنَّه قَالَ:" هَاتُوا رُبْعَ الْعُشُورِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمٌ، وَلَيْسَ عَلَيْكُمْ شَيْءٌ حَتَّى تَتِمَّ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ، فَإِذَا كَانَتْ مِائَتَيْ دِرْهَمٍ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ، فَمَا زَادَ فَعَلَى حِسَابِ ذَلِكَ، وَفِي الْغَنَمِ فِي أَرْبَعِينَ شَاةً شَاةٌ، فَإِنْ لَمْ يَكُنْ إِلَّا تِسْعٌ وَثَلَاثُونَ فَلَيْسَ عَلَيْكَ فِيهَا شَيْءٌ" وَسَاقَ صَدَقَةَ الْغَنَمِ مِثْلَ الزُّهْرِيِّ، قَالَ:" وَفِي الْبَقَرِ فِي كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعٌ وَفِي الْأَرْبَعِينَ مُسِنَّةٌ، وَلَيْسَ عَلَى الْعَوَامِلِ شَيْءٌ، وَفِي الْإِبِلِ" فَذَكَرَ صَدَقَتَهَا كَمَا ذَكَرَ الزُّهْرِيُّ، قَالَ:" وَفِي خَمْسٍ وَعِشْرِينَ خَمْسَةٌ مِنَ الْغَنَمِ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا ابْنَةُ مَخَاضٍ، فَإِنْ لَمْ تَكُنْ بِنْتُ مَخَاضٍ فَابْنُ لَبُونٍ ذَكَرٌ إِلَى خَمْسٍ وَثَلَاثِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا بِنْتُ لَبُونٍ إِلَى خَمْسٍ وَأَرْبَعِينَ، فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً فَفِيهَا حِقَّةٌ طَرُوقَةُ الْجَمَلِ إِلَى سِتِّينَ" ثُمَّ سَاقَ مِثْلَ حَدِيثِ الزُّهْرِيِّ، قَالَ:" فَإِذَا زَادَتْ وَاحِدَةً، يَعْنِي وَاحِدَةً وَتِسْعِينَ، فَفِيهَا حِقَّتَانِ طَرُوقَتَا الْجَمَلِ إِلَى عِشْرِينَ وَمِائَةٍ، فَإِنْ كَانَتِ الْإِبِلُ أَكْثَرُ مِنْ ذَلِكَ فَفِي كُلِّ خَمْسِينَ حِقَّةٌ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ وَلَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ، وَلَا تُؤْخَذُ فِي الصَّدَقَةِ هَرِمَةٌ وَلَا ذَاتُ عَوَارٍ وَلَا تَيْسٌ إِلَّا أَنْ يَشَاءَ الْمُصَدِّقُ، وَفِي النَّبَاتِ مَا سَقَتْهُ الْأَنْهَارُ أَوْ سَقَتِ السَّمَاءُ الْعُشْرُ، وَمَا سَقَى الْغَرْبُ فَفِيهِ نِصْفُ الْعُشْرِ"، وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ، وَالْحَارِثِ: الصَّدَقَةُ فِي كُلِّ عَامٍ، قَالَ زُهَيْرٌ: أَحْسَبُهُ قَالَ: مَرَّةً، وَفِي حَدِيثِ عَاصِمٍ:" إِذَا لَمْ يَكُنْ فِي الْإِبِلِ ابْنَةُ مَخَاضٍ وَلَا ابْنُ لَبُونٍ فَعَشَرَةُ دَرَاهِمَ أَوْ شَاتَانِ".
علی رضی اللہ عنہ سے روایت ہے (زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کی ہے)، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا ہے: چالیسواں حصہ نکالو، ہر چالیس (۴۰) درہم میں ایک (۱) درہم، اور جب تک دو سو (۲۰۰) درہم پورے نہ ہوں تم پر کچھ لازم نہیں آتا، جب دو سو (۲۰۰) درہم پورے ہوں تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ کے نکالو، پھر جتنے زیادہ ہوں اسی حساب سے ان کی زکاۃ نکالو، بکریوں میں جب چالیس (۴۰) ہوں تو ایک (۱) بکری ہے، اگر انتالیس (۳۹) ہوں تو ان میں کچھ لازم نہیں، پھر بکریوں کی زکاۃ اسی طرح تفصیل سے بیان کی جو زہری کی روایت میں ہے۔ گائے بیلوں میں یہ ہے کہ ہر تیس (۳۰) گائے یا بیل پر ایک سالہ گائے دینی ہو گی اور ہر چا لیس (۴۰) میں دو سالہ گائے دینی ہو گی، باربرداری والے گائے بیلوں میں کچھ لازم نہیں ہے، اونٹوں کے بارے میں زکاۃ کی وہی تفصیل اسی طرح بیان کی جو زہری کی روایت میں گزری ہے، البتہ اتنے فرق کے ساتھ کہ پچیس (۲۵) اونٹوں میں پانچ (۵) بکریاں ہوں گی، ایک بھی زیادہ ہونے یعنی چھبیس (۲۶) ہو جانے پر پینتیس (۳۵) تک ایک (۱) بنت مخاض ہو گی، اگر بنت مخاض نہ ہو تو ابن لبون نر ہو گا، اور جب چھتیس (۳۶) ہو جائیں تو پینتالیس (۴۵) تک ایک (۱) بنت لبون ہے، جب چھیالیس (۴۶) ہو جائیں تو ساٹھ (۶۰) تک ایک (۱) حقہ ہے جو نر اونٹ کے لائق ہو جاتی ہے، اس کے بعد اسی طرح بیان کیا ہے جیسے زہری نے بیان کیا یہاں تک کہ جب اکیانوے (۹۱) ہو جائیں تو ایک سو بیس (۱۲۰) تک دو (۲) حقہ ہوں گی جو جفتی کے لائق ہوں، جب اس سے زیادہ ہو جائیں تو ہر پچاس (۵۰) پر ایک (۱) حقہ دینا ہو گا، زکاۃ کے خوف سے نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے اور نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے، اسی طرح نہ کوئی بوڑھا جانور قابل قبول ہو گا اور نہ عیب دار اور نہ ہی نر، سوائے اس کے کہ مصدق کی چاہت ہو۔ (زمین سے ہونے والی)، پیداوار کے سلسلے میں کہا کہ نہر یا بارش کے پانی کی سینچائی سے جو پیداوار ہوئی ہو، اس میں دسواں حصہ لازم ہے اور جو پیداوار رہٹ سے پانی کھینچ کر کی گئی ہو، اس میں بیسواں حصہ لیا جائے گا۔ عاصم اور حارث کی ایک روایت میں ہے کہ زکاۃ ہر سال لی جائے گی۔ زہیر کہتے ہیں: میرا خیال ہے کہ ہر سال ایک بار کہا۔ عاصم کی روایت میں ہے: جب بنت مخاض اور ابن لبون بھی نہ ہو تو دس درہم یا دو بکریاں دینی ہوں گی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن ابن ماجہ/الزکاة 4 (1790)، سنن الدارمی/الزکاة 7 (1669)، (تحفة الأشراف:10039)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/الزکاة 3 (620)، سنن النسائی/الزکاة 18 (2479)، مسند احمد (1/121، 132، 146) (صحیح) (شواہد کی بنا پر صحیح ہے، ملاحظہ ہو:صحیح ابی داود5/291)» ‏‏‏‏

Al-Harith al-Awar reported from Ali. Zuhayr said: I think, the Prophet ﷺ said: "Pay a fortieth. A dirham is payable on every forty, but you are not liable for payment until you have accumulated two hundred dirhams. When you have two hundred dirhams, five dirhams are payable, and that proportion is applicable to larger amounts. "Regarding sheep, for every forty sheep up to one hundred and twenty, one sheep is due. But if you possess only thirty-nine, nothing is payable on them. " He further narrated the tradition about the sadaqah (zakat) on sheep like that of az-Zuhri. "Regarding cattle, a yearling bull calf is payable for every thirty, and a cow in her third year for forty, and nothing is payable on working animals. Regarding (the zakat on) camels, he mentioned the rates that az-Zuhri mentioned in his tradition. He said: "For twenty-five camels, five sheep are to be paid. If they exceed by one, a she-camel in her second year is to be given. If there is no she-camel in her second year, a male camel in its third year is to be given, up to thirty-five. If they exceed by one a she-camel in her third year is to be given, up to forty-five. If they exceed by one, a she-camel in her fourth year which is ready to be covered by a bull-camel is to be given. " He then transmitted the rest of the tradition like that of az-Zuhri. He continued: If they exceed by one, i. e. they are ninety-one to hundred and twenty, two she-camels in their fourth year, which are ready to be covered by a bull-camel, are to be given. If there are more camels than that, a she-camel in her fourth year is to be given for every fifty. Those which are in one flock are not to be separated, and those which are separate are not to be brought together. An old sheep, one with a defect in the eye, or a billy goat is not to be accepted as a sadaqah unless the collector is willing. As regards agricultural produce, a tenth is payable on that which is watered by rivers or rain, and a twentieth on that which is watered by draught camels. " The version of Asim and al-Harith says: "Sadaqah (zakat) is payable every year. " Zuhayr said: I think he said "Once a year". The version of Asim has the words: "If a she-camel in her second year is not available among the camels, nor is there a bull-camel in its third year, ten dirhams or two goats are to be given. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1567


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1573
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود المهري، اخبرنا ابن وهب، اخبرني جرير بن حازم، وسمى آخر، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، والحارث الاعور، عن علي رضي الله عنه، عن النبي صلى الله عليه وسلم ببعض اول هذا الحديث، قال:" فإذا كانت لك مائتا درهم وحال عليها الحول ففيها خمسة دراهم وليس عليك شيء، يعني في الذهب، حتى يكون لك عشرون دينارا، فإذا كان لك عشرون دينارا وحال عليها الحول ففيها نصف دينار فما زاد فبحساب ذلك، قال: فلا ادري، اعلي يقول: فبحساب ذلك؟ او رفعه إلى النبي صلى الله عليه وسلم، وليس في مال زكاة حتى يحول عليه الحول"، إلا ان جريرا، قال: ابن وهب يزيد في الحديث، عن النبي صلى الله عليه وسلم:" ليس في مال زكاة حتى يحول عليه الحول".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بْنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، أَخْبَرَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي جَرِيرُ بْنُ حَازِمٍ، وَسَمَّى آخَرَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، وَالْحَارِثِ الْأَعْوَرِ، عَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِبَعْضِ أَوَّلِ هَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ:" فَإِذَا كَانَتْ لَكَ مِائَتَا دِرْهَمٍ وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ وَلَيْسَ عَلَيْكَ شَيْءٌ، يَعْنِي فِي الذَّهَبِ، حَتَّى يَكُونَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا، فَإِذَا كَانَ لَكَ عِشْرُونَ دِينَارًا وَحَالَ عَلَيْهَا الْحَوْلُ فَفِيهَا نِصْفُ دِينَارٍ فَمَا زَادَ فَبِحِسَابِ ذَلِكَ، قَالَ: فَلَا أَدْرِي، أَعَلِيٌّ يَقُولُ: فَبِحِسَابِ ذَلِكَ؟ أَوْ رَفَعَهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَلَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ"، إِلَّا أَنَّ جَرِيرًا، قَالَ: ابْنُ وَهْبٍ يَزِيدُ فِي الْحَدِيثِ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَيْسَ فِي مَالٍ زَكَاةٌ حَتَّى يَحُولَ عَلَيْهِ الْحَوْلُ".
علی رضی اللہ عنہ اس حدیث کے ابتدائی کچھ حصہ کے ساتھ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے روایت کرتے ہیں آپ نے فرمایا: جب تمہارے پاس دو سو (۲۰۰) درہم ہوں اور ان پر ایک سال گزر جائے تو ان میں پانچ (۵) درہم زکاۃ ہو گی، اور سونا جب تک بیس (۲۰) دینار نہ ہو اس میں تم پر زکاۃ نہیں، جب بیس (۲۰) دینار ہو جائے اور اس پر ایک سال گزر جائے تو اس میں آدھا دینار زکاۃ ہے، پھر جتنا زیادہ ہو اس میں اسی حساب سے زکاۃ ہو گی (یعنی چالیسواں حصہ)۔ راوی نے کہا: مجھے یاد نہیں کہ «فبحساب ذلك» علی رضی اللہ عنہ کا قول ہے یا اسے انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم تک مرفوع کیا ہے؟ اور کسی بھی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک کہ اس پر سال نہ گزر جائے، مگر جریر نے کہا ہے کہ ابن وہب اس حدیث میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اتنا اضافہ کرتے ہیں: کسی مال میں زکاۃ نہیں ہے جب تک اس پر سال نہ گزر جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:10039) (صحیح) (شواہد کی بناپر صحیح ہے، ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود5/294)» ‏‏‏‏

Narrated Ali ibn Abu Talib: The Prophet ﷺ said: "When you possess two hundred dirhams and one year passes on them, five dirhams are payable. Nothing is incumbent on you, that is, on gold, till it reaches twenty dinars. When you possess twenty dinars and one year passes on them, half a dinar is payable. Whatever exceeds, that will be reckoned properly. " (The narrator said: I do not remember whether the words "that will be reckoned properly" were uttered by All himself or he attributed them to the Prophet ﷺ. No zakat is payable on property till a year passes on it. But Jarir said: Ibn Wahb (sub-narrator) added to this tradition from the Prophet ﷺ: "No zakat is payable on property until a year passes away on it. "
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1568


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1574
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا عمرو بن عون، اخبرنا ابو عوانة، عن ابي إسحاق، عن عاصم بن ضمرة، عن علي عليه السلام، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" قد عفوت عن الخيل والرقيق فهاتوا صدقة الرقة من كل اربعين درهما درهما، وليس في تسعين ومائة شيء، فإذا بلغت مائتين ففيها خمسة دراهم". قال ابو داود: روى هذا الحديث الاعمش، عن ابي إسحاق، كما قال ابو عوانة، ورواه شيبان ابو معاوية، وإبراهيم بن طهمان، عن ابي إسحاق، عن الحارث، عن علي، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله. قال ابو داود: وروى حديث النفيلي شعبة، وسفيان وغيرهما، عن ابي إسحاق، عن عاصم، عن علي، لم يرفعوه اوقفوه على علي" 10.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ عَوْنٍ، أَخْبَرَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمِ بْنِ ضَمْرَةَ، عَنْ عَلِيٍّ عَلَيْهِ السَّلَام، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" قَدْ عَفَوْتُ عَنِ الْخَيْلِ وَالرَّقِيقِ فَهَاتُوا صَدَقَةَ الرِّقَةِ مِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ دِرْهَمًا دِرْهَمًا، وَلَيْسَ فِي تِسْعِينَ وَمِائَةٍ شَيْءٌ، فَإِذَا بَلَغَتْ مِائَتَيْنِ فَفِيهَا خَمْسَةُ دَرَاهِمَ". قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَى هَذَا الْحَدِيثَ الْأَعْمَشُ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، كَمَا قَالَ أَبُو عَوَانَةَ، وَرَوَاهُ شَيْبَانُ أَبُو مُعَاوِيَةَ، وَإِبْرَاهِيمُ بْنُ طَهْمَانَ، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ الْحَارِثِ، عَنْ عَلِيٍّ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَى حَدِيثَ النُّفَيْلِيِّ شُعْبَةُ، وَسُفْيَانُ وَغَيْرُهُمَا، عَنْ أَبِي إِسْحَاقَ، عَنْ عَاصِمٍ، عَنْ عَلِيٍّ، لَمْ يَرْفَعُوهُ أَوْقَفُوهُ عَلَى عَلِيٍّ" 10.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میں نے گھوڑا، غلام اور لونڈی کی زکاۃ معاف کر دی ہے لہٰذا تم چاندی کی زکاۃ دو، ہر چالیس (۴۰) درہم پہ ایک (۱) درہم، ایک سو نوے (۱۹۰) درہم میں کوئی زکاۃ نہیں، جب دو سو (۲۰۰) درہم پورے ہو جائیں تو ان میں پانچ (۵) درہم ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ حدیث اعمش نے ابواسحاق سے اسی طرح روایت کی ہے جیسے ابوعوانہ نے کی ہے اور اسے شیبان ابومعاویہ اور ابراہیم بن طہمان نے ابواسحاق سے، ابواسحاق، حارث سے حارث نے علی رضی اللہ عنہ سے اور علی رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے اسی کے مثل روایت کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نفیلی کی حدیث شعبہ و سفیان اور ان کے علاوہ لوگوں نے ابواسحاق سے ابواسحاق نے عاصم سے عاصم نے علی رضی اللہ عنہ سے روایت کی ہے، لیکن ان لوگوں نے اسے مرفوعاً کے بجائے علی رضی اللہ عنہ پر موقوفاً روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/ الزکاة 3 (620)، سنن النسائی/الزکاة 18 (2479)، (تحفة الأشراف:10136)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/92، 113) (صحیح) (شواہد کی بناپر صحیح ہے،ملاحظہ ہو: صحیح ابی داود 5/295)» ‏‏‏‏

Narrated Ali ibn Abu Talib: The Prophet ﷺ said: I have given exemption regarding horses and slaves; with regard to coins, however, you must pay a dirham for every forty (dirhams), but nothing is payable on one hundred and ninety. When the total reaches two hundred, five dirhams are payable. Abu Dawud said: Al-Amash transmitted this tradition from Abu Ishaq like the one transmitted by Abu 'Awanah. This tradition has also been narrated by Shaiban, Abu Muawiyah and Ibrahim bin Tahman from Abu Ishaq from al-Harith on the authority of Ali from the Prophet ﷺ to the same effect. The tradition reported by al-Nufail has also been narrated by Shubah, Sufyan, and others from Abu Ishaq from Asim from Ali, But they did not attribute it to the Prophet ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1569


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1575
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا موسى بن إسماعيل، حدثنا حماد، اخبرنا بهز بن حكيم. ح وحدثنا محمد بن العلاء، واخبرنا ابو اسامة، عن بهز بن حكيم،عن ابيه، عن جده، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" في كل سائمة إبل في اربعين بنت لبون، ولا يفرق إبل عن حسابها من اعطاها مؤتجرا، قال ابن العلاء: مؤتجرا بها فله اجرها، ومن منعها فإنا آخذوها، وشطر ماله عزمة من عزمات ربنا عز وجل ليس لآل محمد منها شيء".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُوسَى بْنُ إِسْمَاعِيلَ، حَدَّثَنَا حَمَّادٌ، أَخْبَرَنَا بَهْزُ بْنُ حَكِيمٍ. ح وحَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الْعَلَاءِ، وَأَخْبَرَنَا أَبُو أُسَامَةَ، عَنْ بَهْزِ بْنِ حَكِيمٍ،عَنْ أَبِيهِ، عَنْ جَدِّهِ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" فِي كُلِّ سَائِمَةِ إِبِلٍ فِي أَرْبَعِينَ بِنْتُ لَبُونٍ، وَلَا يُفَرَّقُ إِبِلٌ عَنْ حِسَابِهَا مَنْ أَعْطَاهَا مُؤْتَجِرًا، قَالَ ابْنُ الْعَلَاءِ: مُؤْتَجِرًا بِهَا فَلَهُ أَجْرُهَا، وَمَنْ مَنَعَهَا فَإِنَّا آخِذُوهَا، وَشَطْرَ مَالِهِ عَزْمَةً مِنْ عَزَمَاتِ رَبِّنَا عَزَّ وَجَلَّ لَيْسَ لِآلِ مُحَمَّدٍ مِنْهَا شَيْءٌ".
معاویہ بن حیدہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: چرنے والے اونٹوں میں چالیس (۴۰) میں ایک (۱) بنت لبون ہے، (زکاۃ بچانے کے خیال سے) اونٹ اپنی جگہ سے اِدھر اُدھر نہ کئے جائیں، جو شخص ثواب کی نیت سے زکاۃ دے گا اسے اس کا اجر ملے گا، اور جو اسے روکے گا ہم اس سے اسے وصول کر لیں گے، اور (زکاۃ روکنے کی سزا میں) اس کا آدھا مال لے لیں گے، یہ ہمارے رب عزوجل کے تاکیدی حکموں میں سے ایک تاکیدی حکم ہے، آل محمد کا اس میں کوئی حصہ نہیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 4 (2446)، 7 (2451)، (تحفة الأشراف:11384)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/2، 4)، سنن الدارمی/الزکاة 36 (1719) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: جرمانے کا یہ حکم ابتدائے اسلام میں تھا، بعد میں منسوخ ہو گیا، اکثر علماء کے قول کے مطابق یہی راجح مسلک ہے۔

Bahz b Hakim reported from his grandfather: The Messenger of Allah ﷺ said: For forty pasturing camels, one she-camel in her third year is to be given. The camels are not to be separated from reckoning. He who pays zakat with the intention of getting reward will be rewarded. If anyone evades zakat, we shall take half the property from him as a due from the dues of our Lord, the Exalted. There is no share in it (zakat) of the descendants of Muhammad ﷺ.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1570


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 1576
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا النفيلي، حدثنا ابو معاوية، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن معاذ، ان النبي صلى الله عليه وسلم لما وجهه إلى اليمن" امره ان ياخذ من البقر من كل ثلاثين تبيعا او تبيعة، ومن كل اربعين مسنة، ومن كل حالم يعني محتلما دينارا او عدله من المعافر ثياب تكون باليمن".
(مرفوع) حَدَّثَنَا النُّفَيْلِيُّ، حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مُعَاذٍ، أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا وَجَّهَهُ إِلَى الْيَمَنِ" أَمَرَهُ أَنْ يَأْخُذَ مِنَ الْبَقَرِ مِنْ كُلِّ ثَلَاثِينَ تَبِيعًا أَوْ تَبِيعَةً، وَمِنْ كُلِّ أَرْبَعِينَ مُسِنَّةً، وَمِنْ كُلِّ حَالِمٍ يَعْنِي مُحْتَلِمًا دِينَارًا أَوْ عَدْلَهُ مِنَ الْمَعَافِرِ ثِيَابٌ تَكُونُ بِالْيَمَنِ".
معاذ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے جب انہیں یمن کی طرف روانہ کیا تو یہ حکم دیا کہ وہ گائے بیلوں میں ہر تیس (۳۰) پر ایک سالہ بیل یا گائے لیں، اور چالیس (۴۰) پر دو سالہ گائے، اور ہر بالغ مرد سے (جو کافر ہو) ایک دینار یا ایک دینار کے بدلے اسی قیمت کے کپڑے جو یمن کے معافر نامی مقام میں تیار کئے جاتے ہیں (بطور جزیہ) لیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 8 (2455)، (تحفة الأشراف:11312)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 12(24)، مسند احمد (5/230، 233، 247)، سنن الدارمی/الزکاة 5 (1663) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Muadh ibn Jabal: When the Prophet ﷺ sent him to the Yemen, he ordered him to take a male or a female calf a year old for every thirty cattle and a cow in its third year for every forty, and one dinar for every adult (unbeliever as a poll-tax) or cloths of equivalent value manufactured in the Yemen.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1571


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1577
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا عثمان بن ابي شيبة، والنفيلي، وابن المثنى، قالوا: حدثنا ابو معاوية، حدثنا الاعمش، عن إبراهيم، عن مسروق، عن معاذ، عن النبي صلى الله عليه وسلم مثله.
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُثْمَانُ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ، وَالنُّفَيْلِيُّ، وَابْنُ الْمُثَنَّى، قَالُوا: حَدَّثَنَا أَبُو مُعَاوِيَةَ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذٍ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِثْلَهُ.
اس سند سے بھی معاذ رضی اللہ عنہ سے اسی کے مثل مرفوعاً مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/ الزکاة 5 (623)، سنن النسائی/الزکاة 8 (2452)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 12 (1803)، (تحفة الأشراف: 11363)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الزکاة 12 (24)، مسند احمد (5/230، 233، 247)، دی/الزکاة (1663) (صحیح)» ‏‏‏‏

This tradition has also been transmitted by Muadh through a different chain of narrators to the same effect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1572


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1578
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا هارون بن زيد بن ابي الزرقاء، حدثنا ابي، عن سفيان، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن مسروق، عن معاذ بن جبل، قال: بعثه النبي صلى الله عليه وسلم إلى اليمن، فذكر مثله، لم يذكر ثيابا تكون باليمن، ولا ذكر يعني محتلما. قال ابو داود: ورواه جرير،ويعلى، ومعمر، وشعبة، وابو عوانة، ويحيى بن سعيد، عن الاعمش، عن ابي وائل، عن مسروق، قال: قال يعلى، ومعمر: عن معاذ، مثله.
(مرفوع) حَدَّثَنَا هَارُونُ بْنُ زَيْدِ بْنِ أَبِي الزَّرْقَاءِ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ سُفْيَانَ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ، قَالَ: بَعَثَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَى الْيَمَنِ، فَذَكَرَ مِثْلَهُ، لَمْ يَذْكُرْ ثِيَابًا تَكُونُ بِالْيَمَنِ، وَلَا ذَكَرَ يَعْنِي مُحْتَلِمًا. قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ جَرِيرٌ،وَيَعْلَى، وَمَعْمَرٌ، وَشُعْبَةُ، وَأَبُو عَوَانَةَ، وَيَحْيَى بْنُ سَعِيدٍ، عَنْ الْأَعْمَشِ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ، عَنْ مَسْرُوقٍ، قَالَ: قَالَ يَعْلَى، وَمَعْمَرٌ: عَنْ مُعَاذٍ، مِثْلَهُ.
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں یمن بھیجا، پھر انہوں نے اسی کے مثل ذکر کیا، لیکن اس میں یہ کپڑے یمن میں بنتے تھے کا ذکر نہیں کیا ہے اور نہ راوی کی تشریح یعنی «محتلمًا» کا ذکر کیا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اور اسے جریر، یعلیٰ، معمر، شعبہ، ابو عوانہ اور یحییٰ بن سعید نے اعمش سے، انہوں نے ابووائل سے اور انہوں نے مسروق سے روایت کیا ہے، یعلیٰ اور معمر نے اسی کے مثل اسے معاذ سے روایت کیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر حدیث رقم: (1578)، (تحفة الأشراف:11363) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Muadh bin Jabal: that the Prophet ﷺ sent him to Yemen. He then narrated the tradition something similar. He did not mention in this version cloths made in the Yemen nor did he refer to adult (unbelievers). Abu Dawud said This tradition has been transmitted by Jarir, Yala, Mamar, Abu ‘Awanahand Yahya bin Saeed from Al Amash, from Abu Wail, on the authority of Masruq, and from Yala and Mamar on the authority of Muadh to the same effect.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1573


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1579
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا ابو عوانة، عن هلال بن خباب، عن ميسرة ابي صالح، عن سويد بن غفلة، قال: سرت، او قال: اخبرني من سار مع مصدق النبي صلى الله عليه وسلم، فإذا في عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان:" لا تاخذ من راضع لبن، ولا تجمع بين مفترق، ولا تفرق بين مجتمع، وكان إنما ياتي المياه حين ترد الغنم، فيقول: ادوا صدقات اموالكم"، قال: فعمد رجل منهم إلى ناقة كوماء، قال: قلت: يا ابا صالح، ما الكوماء؟ قال: عظيمة السنام، قال: فابى ان يقبلها، قال: إني احب ان تاخذ خير إبلي، قال: فابى ان يقبلها، قال: فخطم له اخرى دونها، فابى ان يقبلها، ثم خطم له اخرى دونها فقبلها، وقال: إني آخذها واخاف ان يجد علي رسول الله صلى الله عليه وسلم، يقول لي:" عمدت إلى رجل فتخيرت عليه إبله". قال ابو داود: ورواه هشيم، عن هلال بن خباب نحوه، إلا انه قال: لا يفرق.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا أَبُو عَوَانَةَ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ، عَنْ مَيْسَرَةَ أَبِي صَالِحٍ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: سِرْتُ، أَوْ قَالَ: أَخْبَرَنِي مَنْ سَارَ مَعَ مُصَدِّقِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَإِذَا فِي عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ:" لَا تَأْخُذَ مِنْ رَاضِعِ لَبَنٍ، وَلَا تَجْمَعَ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ، وَلَا تُفَرِّقَ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ، وَكَانَ إِنَّمَا يَأْتِي الْمِيَاهُ حِينَ تَرِدُ الْغَنَمُ، فَيَقُولُ: أَدُّوا صَدَقَاتِ أَمْوَالِكُمْ"، قَالَ: فَعَمَدَ رَجُلٌ مِنْهُمْ إِلَى نَاقَةٍ كَوْمَاءَ، قَالَ: قُلْتُ: يَا أَبَا صَالِحٍ، مَا الْكَوْمَاءُ؟ قَالَ: عَظِيمَةُ السَّنَامِ، قَالَ: فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، قَالَ: إِنِّي أُحِبُّ أَنْ تَأْخُذَ خَيْرَ إِبِلِي، قَالَ: فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، قَالَ: فَخَطَمَ لَهُ أُخْرَى دُونَهَا، فَأَبَى أَنْ يَقْبَلَهَا، ثُمَّ خَطَمَ لَهُ أُخْرَى دُونَهَا فَقَبِلَهَا، وَقَالَ: إِنِّي آخِذُهَا وَأَخَافُ أَنْ يَجِدَ عَلَيَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَقُولُ لِي:" عَمَدْتَ إِلَى رَجُلٍ فَتَخَيَّرْتَ عَلَيْهِ إِبِلَهُ". قَالَ أَبُو دَاوُد: وَرَوَاهُ هُشَيْمٌ، عَنْ هِلَالِ بْنِ خَبَّابٍ نَحْوَهُ، إِلَّا أَنَّهُ قَالَ: لَا يُفَرَّقُ.
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں خود گیا، یا یوں کہتے ہیں: جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے محصل کے ساتھ گیا تھا اس نے مجھ سے بیان کیا کہ آپ کی کتاب میں لکھا تھا: ہم زکاۃ میں دودھ والی بکری یا دودھ پیتا بچہ نہ لیں، نہ جدا مال اکٹھا کیا جائے اور نہ اکٹھا مال جدا کیا جائے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا مصدق اس وقت آتا جب بکریاں پانی پر جاتیں اور وہ کہتا: اپنے مالوں کی زکاۃ ادا کرو، ایک شخص نے اپنا کوبڑے کوہان والا اونٹ کو دینا چاہا تو مصدق نے اسے لینے سے انکار کر دیا، اس شخص نے کہا: نہیں، میری خوشی یہی ہے کہ تو میرا بہتر سے بہتر اونٹ لے، مصدق نے پھر لینے سے انکار کر دیا، اب اس نے تھوڑے کم درجے کا اونٹ کھینچا، مصدق نے اس کے لینے سے بھی انکار کر دیا، اس نے اور کم درجے کا اونٹ کھینچا تو مصدق نے اسے لے لیا اور کہا: میں لے لیتا ہوں لیکن مجھے ڈر لگتا ہے کہ کہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم مجھ پر غصہ نہ ہوں اور آپ مجھ سے کہیں: تو نے ایک شخص کا بہترین اونٹ لے لیا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ہشیم نے ہلال بن خباب سے اسی طرح روایت کیا ہے، مگر اس میں «لا تفرق» کی بجائے «لا يفرق» ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 12 (2459)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 11 (1801)، (تحفة الأشراف:15593)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/315)، سنن الدارمی/الزکاة 8 (1670) (حسن)» ‏‏‏‏

Suwayd ibn Ghaflah said: I went myself or someone who accompanied the collector of the Prophet ﷺ told me: It was recorded in the document written by the Messenger of Allah ﷺ not to accept a milking goat or she-camel or a (suckling) baby (as zakat on animals); and those which are in separate flocks are not to be brought together, and those which are in one flock are not to be separated. The collector used to visit the water-hole when the sheep went there and say: Pay the sadaqah (zakat) on your property. The narrator said: A man wanted to give him his high-humped camel (kawma'). The narrator (Hilal) asked: What is kawma', Abu Salih? He said: A camel a high hump. The narrator continued: He (the collector) refused to accept it. He said: I wish you could take the best of my camels. He refused to accept it. He then brought another camel lower in quality than the previous one. He refused to accept it too. He then brought another camel lower in quality than the previous one. He accepted it, saying: I shall take it, but I am afraid the Messenger of Allah ﷺ might be angry with me, saying to me: You have purposely taken from a man a camel of your choice. Abu Dawud said: This tradition has also been narrated by Hushaim from Hilal bin Khabbab to the same effect. But he said: Those which are in one flock are not to be separated.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1574


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 1580
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن الصباح البزاز، حدثنا شريك، عن عثمان بن ابي زرعة، عن ابي ليلى الكندي، عن سويد بن غفلة، قال: اتانا مصدق النبي صلى الله عليه وسلم فاخذت بيده وقرات في عهده:" لا يجمع بين مفترق، ولا يفرق بين مجتمع خشية الصدقة" ولم يذكر راضع لبن.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ الصَّبَّاحِ الْبَزَّازُ، حَدَّثَنَا شَرِيكٌ، عَنْ عُثْمَانَ بْنِ أَبِي زُرْعَةَ، عَنْ أَبِي لَيْلَى الْكِنْدِيِّ، عَنْ سُوَيْدِ بْنِ غَفَلَةَ، قَالَ: أَتَانَا مُصَدِّقُ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَخَذْتُ بِيَدِهِ وَقَرَأْتُ فِي عَهْدِهِ:" لَا يُجْمَعُ بَيْنَ مُفْتَرِقٍ، وَلَا يُفَرَّقُ بَيْنَ مُجْتَمِعٍ خَشْيَةَ الصَّدَقَةِ" وَلَمْ يَذْكُرْ رَاضِعَ لَبَنٍ.
سوید بن غفلہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہمارے پاس نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کا محصل آیا، میں نے اس کا ہاتھ پکڑا اور اس کی کتاب میں پڑھا: زکاۃ کے خوف سے جدا مال اکٹھا نہ کیا جائے اور نہ ہی اکٹھا مال جدا کیا جائے، اس روایت میں دودھ والے جانور کا ذکر نہیں ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف:15593) (حسن)» ‏‏‏‏

Suwaid bin Ghaflah reported The collector of the Prophet ﷺ came to us. I caught hold of his hand and read in the document that the goods were not to be combined nor were they to be separated for fear of zakat. There is no mention of milch animals in this tradition.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1575


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 1581
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا الحسن بن علي، حدثنا وكيع، عن زكريا بن إسحاق المكي، عن عمرو بن ابي سفيان الجمحي، عن مسلم بن ثفنة اليشكري، قال الحسن: روح يقول: مسلم بن شعبة، قال: استعمل نافع بن علقمة ابي على عرافة قومه، فامره ان يصدقهم، قال: فبعثني ابي في طائفة منهم، فاتيت شيخا كبيرا يقال له: سعر بن ديسم، فقلت: إن ابي بعثني إليك، يعني لاصدقك، قال ابن اخي: واي نحو تاخذون، قلت: نختار حتى إنا نتبين ضروع الغنم، قال ابن اخي: فإني احدثك اني كنت في شعب من هذه الشعاب على عهد رسول الله صلى الله عليه وسلم في غنم لي، فجاءني رجلان على بعير، فقالا لي: إنا رسولا رسول الله صلى الله عليه وسلم إليك لتؤدي صدقة غنمك، فقلت: ما علي فيها، فقالا: شاة، فاعمد إلى شاة قد عرفت مكانها ممتلئة محضا وشحما، فاخرجتها إليهما، فقالا: هذه شاة الشافع، وقد" نهانا رسول الله صلى الله عليه وسلم ان ناخذ شافعا"، قلت: فاي شيء تاخذان؟، قالا: عناقا جذعة او ثنية، قال: فاعمد إلى عناق معتاط، والمعتاط التي لم تلد ولدا وقد حان ولادها، فاخرجتها إليهما، فقالا: ناولناها، فجعلاها معهما على بعيرهما، ثم انطلقا. قال ابو داود: رواه ابو عاصم، عن زكرياء، قال ايضا: مسلم بن شعبة، كما قال: روح.
(مرفوع) حَدَّثَنَا الْحَسَنُ بْنُ عَلِيٍّ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، عَنْ زَكَرِيَّا بْنِ إِسْحَاقَ الْمَكِّيِّ، عَنْ عَمْرِو بْنِ أَبِي سُفْيَانَ الْجُمَحِيِّ، عَنْ مُسْلِمِ بْنِ ثَفِنَةَ الْيَشْكُرِيِّ، قَالَ الْحَسَنُ: رَوْحٌ يَقُولُ: مُسْلِمُ بْنُ شُعْبَةَ، قَالَ: اسْتَعْمَلَ نَافِعُ بْنُ عَلْقَمَةَ أَبِي عَلَى عِرَافَةِ قَوْمِهِ، فَأَمَرَهُ أَنْ يُصَدِّقَهُمْ، قَالَ: فَبَعَثَنِي أَبِي فِي طَائِفَةٍ مِنْهُمْ، فَأَتَيْتُ شَيْخًا كَبِيرًا يُقَالُ لَهُ: سِعْرُ بْنُ دَيْسَمٍ، فَقُلْتُ: إِنَّ أَبِي بَعَثَنِي إِلَيْكَ، يَعْنِي لِأُصَدِّقَكَ، قَالَ ابْنَ أَخِي: وَأَيَّ نَحْوٍ تَأْخُذُونَ، قُلْتُ: نَخْتَارُ حَتَّى إِنَّا نَتَبَيَّنَ ضُرُوعَ الْغَنَمِ، قَالَ ابْنَ أَخِي: فَإِنِّي أُحَدِّثُكَ أَنِّي كُنْتُ فِي شِعْبٍ مِنْ هَذِهِ الشِّعَابِ عَلَى عَهْدِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي غَنَمٍ لِي، فَجَاءَنِي رَجُلَانِ عَلَى بَعِيرٍ، فَقَالَا لِي: إِنَّا رَسُولَا رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِلَيْكَ لِتُؤَدِّيَ صَدَقَةَ غَنَمِكَ، فَقُلْتُ: مَا عَلَيَّ فِيهَا، فَقَالَا: شَاةٌ، فَأَعْمَدُ إِلَى شَاةٍ قَدْ عَرَفْتُ مَكَانَهَا مُمْتَلِئَةٍ مَحْضًا وَشَحْمًا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالَا: هَذِهِ شَاةُ الشَّافِعِ، وَقَدْ" نَهَانَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ نَأْخُذَ شَافِعًا"، قُلْتُ: فَأَيَّ شَيْءٍ تَأْخُذَانِ؟، قَالَا: عَنَاقًا جَذَعَةً أَوْ ثَنِيَّةً، قَالَ: فَأَعْمَدُ إِلَى عَنَاقٍ مُعْتَاطٍ، وَالْمُعْتَاطُ الَّتِي لَمْ تَلِدْ وَلَدًا وَقَدْ حَانَ وِلادُهَا، فَأَخْرَجْتُهَا إِلَيْهِمَا، فَقَالَا: نَاوِلْنَاهَا، فَجَعَلَاهَا مَعَهُمَا عَلَى بَعِيرِهِمَا، ثُمَّ انْطَلَقَا. قَالَ أَبُو دَاوُد: رَوَاهُ أَبُو عَاصِمٍ، عَنْ زَكَرِيَّاءَ، قَالَ أَيْضًا: مُسْلِمُ بْنُ شُعْبَةَ، كَمَا قَالَ: رَوْحٌ.
مسلم بن ثفنہ یشکری ۱؎ کہتے ہیں نافع بن علقمہ نے میرے والد کو اپنی قوم کے کاموں پر عامل مقرر کیا اور انہیں ان سے زکاۃ وصول کرنے کا حکم دیا، میرے والد نے مجھے ان کی ایک جماعت کی طرف بھیجا، چنانچہ میں ایک بوڑھے آدمی کے پاس آیا، جس کا نام سعر بن دیسم تھا، میں نے کہا: مجھے میرے والد نے آپ کے پاس زکاۃ وصول کرنے کے لیے بھیجا ہے، وہ بولے: بھتیجے! تم کس قسم کے جانور لو گے؟ میں نے کہا: ہم تھنوں کو دیکھ کر عمدہ جانور چنیں گے، انہوں نے کہا: بھتیجے! میں تمہیں ایک حدیث سناتا ہوں: میں اپنی بکریوں کے ساتھ یہیں گھاٹی میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے زمانے میں رہا کرتا تھا، ایک بار دو آدمی ایک اونٹ پر سوار ہو کر آئے اور مجھ سے کہنے لگے: ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے بھیجے ہوئے ہیں، تاکہ تم اپنی بکریوں کی زکاۃ ادا کرو، میں نے کہا: مجھے کیا دینا ہو گا؟ انہوں نے کہا: ایک بکری، میں نے ایک بکری کی طرف قصد کیا، جس کی جگہ مجھے معلوم تھی، وہ بکری دودھ اور چربی سے بھری ہوئی تھی، میں اسے نکال کر ان کے پاس لایا، انہوں نے کہا: یہ بکری پیٹ والی (حاملہ) ہے، ہم کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایسی بکری لینے سے منع کیا ہے، پھر میں نے کہا: تم کیا لو گے؟ انہوں نے کہا: ایک برس کی بکری جو دوسرے برس میں داخل ہو گئی ہو یا دو برس کی جو تیسرے میں داخل ہو گئی ہو، میں نے ایک موٹی بکری جس نے بچہ نہیں دیا تھا مگر بچہ دینے کے لائق ہونے والی تھی کا قصد کیا، اسے نکال کر ان کے پاس لایا تو انہوں نے کہا: اسے ہم نے لے لیا، پھر وہ دونوں اسے اپنے اونٹ پر لاد کر لیے چلے گئے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: اسے ابوعاصم نے زکریا سے روایت کیا ہے، انہوں نے بھی مسلم بن شعبہ کہا ہے جیسا کہ روح نے کہا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الزکاة 15 (2464)، (تحفة الأشراف:15579)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/414، 415) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کے راوی مسلم لین الحدیث ہیں، نیز اس میں مذکور معمر شخص مبہم ہے)

وضاحت:
۱؎: روح نے مسلم بن ثفنہ کے بجائے مسلم بن شعبہ کہا ہے۔

Muslim ibn Shubah said: Nafi ibn Alqamah appointed my father as charge d'affaires of his tribe, and commanded him to collect sadaqah (zakat) from them. My father sent me to a group of them; so I came to an aged man called Sa'r ibn Disam I said: My father has sent me to you to collect zakat from you. He asked: What kind of animals will you take, my nephew? I replied: We shall select the sheep and examine their udders. He said: My nephew, I shall narrate a tradition to you. I lived on one of these steppes during the time of the Messenger of Allah ﷺ along with my sheep. Two people riding a camel came to me. They said to me: We are messengers of the Messenger of Allah ﷺ, sent to you so that you may pay the sadaqah (zakat) on your sheep. I asked: What is due from me for them? They said: One goat. I went to a goat which I knew was full of milk and fat, and I brought it to them. They said: This is a pregnant goat. The Messenger of Allah ﷺ prohibited us to accept a pregnant goat. I asked: What will you take then? They said: A goat in its second year or a goat in its third year. I then went to a goat which had not given birth to any kid, but it was going to do so. I brought it to them. They said: Give it to us. They took it on the camel and went away. Abu Dawud said: Abu Asim transmitted this tradition from Zakariyya. He said: Muslim bin Shubah is a narrator in the chain of this tradition as reported by the narrator Rawh.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1576


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 1582
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن يونس النسائي، حدثنا روح، حدثنا زكرياء بن إسحاق، بإسناده بهذا الحديث، قال مسلم بن شعبة، قال فيه: والشافع التي في بطنها الولد.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُونُسَ النَّسَائِيُّ، حَدَّثَنَا رَوْحٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّاءُ بْنُ إِسْحَاقَ، بِإِسْنَادِهِ بِهَذَا الْحَدِيثِ، قَالَ مُسْلِمُ بْنُ شُعْبَةَ، قَالَ فِيهِ: وَالشَّافِعُ الَّتِي فِي بَطْنِهَا الْوَلَدُ.
اس طریق سے بھی زکریا بن اسحاق سے یہی حدیث اسی سند سے مروی ہے اس میں مسلم بن شعبہ ہے اور اس میں ہے کہ «شافع» وہ بکری ہے جس کے پیٹ میں بچہ ہو۔ ۱۵۸۲/م- ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے عمرو بن حارث حمصی کی اولاد کے پاس حمص میں عبداللہ بن سالم کی کتاب میں پڑھا کہ زبیدی سے روایت ہے، وہ کہتے ہیں: مجھے یحییٰ بن جابر نے خبر دی ہے، انہوں نے جبیر بن نفیر سے جبیر نے عبداللہ بن معاویہ غاضری سے جو غاضرہ قیس سے ہیں، روایت کی ہے، وہ کہتے ہیں: نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تین باتیں ہیں جو کوئی ان کو کرے گا ایمان کا مزا چکھے گا: جو صرف اللہ کی عبادت کرے، «لا إله إلا الله» کا اقرار کرے، اپنے مال کی زکاۃ خوشی سے ہر سال ادا کیا کرے، اور زکاۃ میں بوڑھا، خارشتی، بیمار اور گھٹیا قسم کا جانور نہ دے بلکہ اوسط درجے کا مال دے، اس لیے کہ اللہ نے نہ تو تم سے سب سے بہتر کا مطالبہ کیا اور نہ ہی تمہیں گھٹیا مال دینے کا حکم دیا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف:9645) (صحیح)» ‏‏‏‏

This tradition has also been narrated by Zakariyya bin Ishaq through his chain of narrators. In this version Mulsim bin Shubah said: Shafi' means a goat which has a baby in its womb. Abu Dawud said: I read in a document possessed by Abdullah ibn Salim at Hims: Abdullah ibn Muawiyah al-Ghadiri reported the Prophet ﷺ as saying: He who performs three things will have the taste of the faith. (They are: ) One who worships Allah alone and one believes that there is no god but Allah; and one who pays the zakat on his property agreeably every year. One should not give an aged animal, nor one suffering from itch or ailing, and one most condemned, but one should give animals of medium quality, for Allah did not demand from you the best of your animals, nor did He command you to give the animals of worst quality.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1577


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 1583
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا محمد بن منصور، حدثنا يعقوب بن إبراهيم، حدثنا ابي، عن ابن إسحاق، قال: حدثني عبد الله بن ابي بكر، عن يحيى بن عبد الله بن عبد الرحمن بن سعد بن زرارة، عن عمارة بن عمرو بن حزم، عن ابي بن كعب، قال: بعثني النبي صلى الله عليه وسلم مصدقا، فمررت برجل، فلما جمع لي ماله لم اجد عليه فيه إلا ابنة مخاض، فقلت له: اد ابنة مخاض فإنها صدقتك، فقال: ذاك ما لا لبن فيه ولا ظهر ولكن هذه ناقة فتية عظيمة سمينة فخذها، فقلت له: ما انا بآخذ ما لم اومر به، وهذا رسول الله صلى الله عليه وسلم منك قريب، فإن احببت ان تاتيه فتعرض عليه ما عرضت علي، فافعل فإن قبله منك قبلته، وإن رده عليك رددته، قال: فإني فاعل، فخرج معي وخرج بالناقة التي عرض علي حتى قدمنا على رسول الله صلى الله عليه وسلم، فقال له: يا نبي الله، اتاني رسولك لياخذ مني صدقة مالي وايم الله ما قام في مالي رسول الله صلى الله عليه وسلم ولا رسوله قط قبله، فجمعت له مالي فزعم ان ما علي فيه ابنة مخاض وذلك ما لا لبن فيه ولا ظهر، وقد عرضت عليه ناقة فتية عظيمة لياخذها فابى علي، وههي ذه قد جئتك بها يا رسول الله خذها، فقال له رسول الله صلى الله عليه وسلم:" ذاك الذي عليك، فإن تطوعت بخير آجرك الله فيه وقبلناه منك" قال: فها هي ذه يا رسول الله، قد جئتك بها فخذها، قال:" فامر رسول الله صلى الله عليه وسلم بقبضها ودعا له في ماله بالبركة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ مَنْصُورٍ، حَدَّثَنَا يَعْقُوبُ بْنُ إِبْرَاهِيمَ، حَدَّثَنَا أَبِي، عَنْ ابْنِ إِسْحَاقَ، قَالَ: حَدَّثَنِي عَبْدُ اللَّهِ بْنُ أَبِي بَكْرٍ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ سَعْدِ بْنِ زُرَارَةَ، عَنْ عُمَارَةَ بْنِ عَمْرِو بْنِ حَزْمٍ، عَنْ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ، قَالَ: بَعَثَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مُصَدِّقًا، فَمَرَرْتُ بِرَجُلٍ، فَلَمَّا جَمَعَ لِي مَالَهُ لَمْ أَجِدْ عَلَيْهِ فِيهِ إِلَّا ابْنَةَ مَخَاضٍ، فَقُلْتُ لَهُ: أَدِّ ابْنَةَ مَخَاضٍ فَإِنَّهَا صَدَقَتُكَ، فَقَالَ: ذَاكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ وَلَكِنْ هَذِهِ نَاقَةٌ فَتِيَّةٌ عَظِيمَةٌ سَمِينَةٌ فَخُذْهَا، فَقُلْتُ لَهُ: مَا أَنَا بِآخِذٍ مَا لَمْ أُومَرْ بِهِ، وَهَذَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْكَ قَرِيبٌ، فَإِنْ أَحْبَبْتَ أَنْ تَأْتِيَهُ فَتَعْرِضَ عَلَيْهِ مَا عَرَضْتَ عَلَيَّ، فَافْعَلْ فَإِنْ قَبِلَهُ مِنْكَ قَبِلْتُهُ، وَإِنْ رَدَّهُ عَلَيْكَ رَدَدْتُهُ، قَالَ: فَإِنِّي فَاعِلٌ، فَخَرَجَ مَعِي وَخَرَجَ بِالنَّاقَةِ الَّتِي عَرَضَ عَلَيَّ حَتَّى قَدِمْنَا عَلَى رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَقَالَ لَهُ: يَا نَبِيَّ اللَّهِ، أَتَانِي رَسُولُكَ لِيَأْخُذَ مِنِّي صَدَقَةَ مَالِي وَايْمُ اللَّهِ مَا قَامَ فِي مَالِي رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ وَلَا رَسُولُهُ قَطُّ قَبْلَهُ، فَجَمَعْتُ لَهُ مَالِي فَزَعَمَ أَنَّ مَا عَلَيَّ فِيهِ ابْنَةُ مَخَاضٍ وَذَلِكَ مَا لَا لَبَنَ فِيهِ وَلَا ظَهْرَ، وَقَدْ عَرَضْتُ عَلَيْهِ نَاقَةً فَتِيَّةً عَظِيمَةً لِيَأْخُذَهَا فَأَبَى عَلَيَّ، وَهَهِيَ ذِهْ قَدْ جِئْتُكَ بِهَا يَا رَسُولَ اللَّهِ خُذْهَا، فَقَالَ لَهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" ذَاكَ الَّذِي عَلَيْكَ، فَإِنْ تَطَوَّعْتَ بِخَيْرٍ آجَرَكَ اللَّهُ فِيهِ وَقَبِلْنَاهُ مِنْكَ" قَالَ: فَهَا هِيَ ذِهْ يَا رَسُولَ اللَّهِ، قَدْ جِئْتُكَ بِهَا فَخُذْهَا، قَالَ:" فَأَمَرَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِقَبْضِهَا وَدَعَا لَهُ فِي مَالِهِ بِالْبَرَكَةِ".
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے صدقہ وصول کرنے کے لیے بھیجا، میں ایک شخص کے پاس سے گزرا، جب اس نے اپنا مال اکٹھا کیا تو میں نے اس پر صرف ایک بنت مخاض کی زکاۃ واجب پائی، میں نے اس سے کہا: ایک بنت مخاض دو، یہی تمہاری زکاۃ ہے، وہ بولا: بنت مخاض میں نہ تو دودھ ہے اور نہ وہ اس قابل ہے کہ (اس پر) سواری کی جا سکے، یہ لو ایک اونٹنی جوان، بڑی اور موٹی، میں نے اس سے کہا: میں ایسی چیز کبھی نہیں لے سکتا جس کے لینے کا مجھے حکم نہیں، البتہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم تو تم سے قریب ہیں اگر تم چاہو تو ان کے پاس جا کر وہی بات پیش کرو جو تم نے مجھ سے کہی ہے، اب اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم قبول فرما لیتے ہیں تو میں بھی اسے لے لوں گا اور اگر آپ واپس کر دیتے ہیں تو میں بھی واپس کر دوں گا، اس نے کہا: ٹھیک ہے میں چلتا ہوں اور وہ اس اونٹنی کو جو اس نے میرے سامنے پیش کی تھی، لے کر میرے ساتھ چلا، جب ہم رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس پہنچے تو اس نے آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے کہا: اللہ کے نبی! آپ کا قاصد میرے پاس مال کی زکاۃ لینے آیا، قسم اللہ کی! اس سے پہلے کبھی نہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے میرے مال کو دیکھا اور نہ آپ کے قاصد نے، میں نے اپنا مال اکٹھا کیا تو اس نے کہا: تجھ پر ایک بنت مخاض لازم ہے اور بنت مخاض نہ دودھ دیتی ہے اور نہ ہی وہ سواری کے لائق ہوتی ہے، لہٰذا میں نے اسے ایک بڑی موٹی اور جوان اونٹنی پیش کی، لیکن اسے لینے سے اس نے انکار کر دیا اور وہ اونٹنی یہ ہے جسے لے کر میں آپ کی خدمت میں آیا ہوں، اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس سے فرمایا: تم پر واجب تو بنت مخاض ہی ہے، لیکن اگر تم خوشی سے اسے دے رہے ہو تو اللہ تمہیں اس کا اجر عطا کرے گا اور ہم اسے قبول کر لیں گے، وہ شخص بولا: اے اللہ کے رسول! اسے لے لیجئے، یہ وہی اونٹنی ہے پھر رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لینے کا حکم دیا اور اس کے لیے اس کے مال میں برکت کی دعا کی۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود (تحفة الأشراف:70)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/142) (حسن)» ‏‏‏‏

Narrated Ubayy ibn Kab: The Messenger of Allah ﷺ commissioned me as a collector of zakat. I visited a man. When he had collected his property of camels, I found that a she-camel in her second year was due from him. I said to him: Pay a she-camel in her second year, for she is to be paid as sadaqah (zakat) by you. He said: That one is not worthy of milking and riding. Here is another she-camel which is young, grand and fat. So take it. I said to him: I shall not take an animal for which I have not been commanded. The Messenger of Allah ﷺ is here near to you. If you like, go to him, and present to him what you presented to me. Do that; if he accepts it from you, I shall accept it; if he rejects it, I shall reject it. He said: I shall do it. He accompanied me and took with him the she-camel which he had presented to me. We came to the Messenger of Allah ﷺ. He said to him: Prophet of Allah, your messenger came to me to collect zakat on my property. By Allah, neither the Messenger of Allah nor his messenger has ever seen my property before. I gathered my property (camels), and he estimated that a she-camel in her second year would be payable by me. But that has neither milk nor is it worth riding. So I presented to him a grand young she-camel for acceptance as zakat. But he has refused to take her. Look, she is here; I have brought her to you, Messenger of Allah. Take her. The Messenger of Allah ﷺ said: That is what is due from you. If you give voluntarily a better (animal) Allah will give a reward to you for it. We accept her from you. She is here, Messenger of Allah; I have brought her to you. So take her. The Messenger of Allah ﷺ then ordered me to take possession of it, and he prayed for a blessing on his property.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1578


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 1584
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا احمد بن حنبل، حدثنا وكيع، حدثنا زكريا بن إسحاق المكي، عن يحيى بن عبد الله بن صيفي، عن ابي معبد، عن ابن عباس، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم بعث معاذا إلى اليمن، فقال:" إنك تاتي قوما اهل كتاب، فادعهم إلى شهادة ان لا إله إلا الله واني رسول الله، فإن هم اطاعوك لذلك فاعلمهم ان الله افترض عليهم خمس صلوات في كل يوم وليلة، فإن هم اطاعوك لذلك، فاعلمهم ان الله افترض عليهم صدقة في اموالهم تؤخذ من اغنيائهم وترد على فقرائهم، فإن هم اطاعوك لذلك فإياك وكرائم اموالهم واتق دعوة المظلوم فإنها ليس بينها وبين الله حجاب".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ حَنْبَلٍ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ، حَدَّثَنَا زَكَرِيَّا بْنُ إِسْحَاقَ الْمَكِّيُّ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ صَيْفِيٍّ، عَنْ أَبِي مَعْبَدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعَثَ مُعَاذًا إِلَى الْيَمَنِ، فَقَالَ:" إِنَّكَ تَأْتِي قَوْمًا أَهْلَ كِتَابٍ، فَادْعُهُمْ إِلَى شَهَادَةِ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ خَمْسَ صَلَوَاتٍ فِي كُلِّ يَوْمٍ وَلَيْلَةٍ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ، فَأَعْلِمْهُمْ أَنَّ اللَّهَ افْتَرَضَ عَلَيْهِمْ صَدَقَةً فِي أَمْوَالِهِمْ تُؤْخَذُ مِنْ أَغْنِيَائِهِمْ وَتُرَدُّ عَلَى فُقَرَائِهِمْ، فَإِنْ هُمْ أَطَاعُوكَ لِذَلِكَ فَإِيَّاكَ وَكَرَائِمَ أَمْوَالِهِمْ وَاتَّقِ دَعْوَةَ الْمَظْلُومِ فَإِنَّهَا لَيْسَ بَيْنَهَا وَبَيْنَ اللَّهِ حِجَابٌ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے معاذ رضی اللہ عنہ کو یمن بھیجا اور فرمایا: تم اہل کتاب کی ایک جماعت کے پاس جا رہے ہو، ان کو اس بات کی طرف بلانا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں اور میں اللہ کا رسول ہوں، اگر وہ یہ مان لیں تو ان کو بتانا کہ اللہ تعالیٰ نے ان پر ہر دن اور رات میں پانچ نمازیں فرض کی ہیں، اگر وہ یہ بھی مان لیں تو انہیں بتانا کہ اللہ نے ان پر ان کے مالوں میں زکاۃ فرض کی ہے جو ان کے مالداروں سے لے کر غریبوں کو دی جائے گی، پھر اگر وہ یہ بھی مان لیں تو تم ان کے عمدہ مالوں کو نہ لینا اور مظلوم کی بد دعا سے بچتے رہنا کہ اس کی دعا اور اللہ کے درمیان کوئی رکاوٹ نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الزکاة 1 (1395)، 41 (1458)، 63 (1496)، المظالم 9 (2448)، المغازي 60 (4347)، التوحید 1 (7372)، صحیح مسلم/الإیمان 7 (19)، سنن الترمذی/الزکاة 6 (625)، والبر والصلة 68 (2014)، سنن النسائی/الزکاة 1 (2437)، 46 (2523)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 1 (1783)، (تحفة الأشراف:6511)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/233)، سنن الدارمی/الزکاة 1 (1655) (صحیح)» ‏‏‏‏

Narrated Ibn Abbas: said When the Messenger of Allah ﷺ sent Muadh to Yemen, he said to him You are going to a people who are people of the book. So call them to bear witness that there is no diety but Allah, and that I am the Messenger of Allah. If they obey you in this respect, tell them that Allah has prescribed five prayers on them every day and night. If they obey you in this regard tell them that Allah has prescribed sadaqah (zakat) on their property and returned it to their poor. If they obey you in this respect, do not take the best of their property. Beware of the curse of the oppressed, for there is no curtain between it and Allah.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1579


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1585
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا قتيبة بن سعيد، حدثنا الليث، عن يزيد بن ابي حبيب، عن سعد بن سنان، عن انس بن مالك، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم، قال:" المعتدي في الصدقة كمانعها".
(مرفوع) حَدَّثَنَا قُتَيْبَةُ بْنُ سَعِيدٍ، حَدَّثَنَا اللَّيْثُ، عَنْ يَزِيدَ بْنِ أَبِي حَبِيبٍ، عَنْ سَعْدِ بْنِ سِنَانٍ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، قَالَ:" الْمُعْتَدِي فِي الصَّدَقَةِ كَمَانِعِهَا".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: زکاۃ لینے میں زیادتی کرنے والا، زکاۃ نہ دینے والے کی طرح ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/الزکاة 19 (646)، سنن ابن ماجہ/الزکاة 14 (1808)، (تحفة الأشراف:847) (حسن)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی جیسے گناہ زکاۃ نہ ادا کرنے میں ہے، ویسے ہی گناہ جبراً زکاۃ والے سے زیادہ لینے میں بھی ہے۔

Narrated Anas ibn Malik: The Prophet ﷺ said: He who collects more sadaqah than is due is like him who refuses to pay it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 9 , Number 1580


قال الشيخ الألباني: حسن

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.