الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابي داود کل احادیث 5274 :حدیث نمبر
سنن ابي داود
كِتَاب الْوَصَايَا
کتاب: وصیت کے احکام و مسائل
Wills (Kitab Al-Wasaya)
13. باب مَا جَاءَ فِي الرَّجُلِ يُوقِفُ الْوَقْفَ
باب: جائیداد وقف کرنے کا بیان۔
Chapter: What Has Been Related About A Man Who Institutes An Endowment.
حدیث نمبر: 2878
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا مسدد، حدثنا يزيد بن زريع. ح وحدثنا مسدد، حدثنا بشر بن المفضل. ح وحدثنا مسدد، حدثنا يحيى، عن ابن عون، عن نافع،عن ابن عمر قال: اصاب عمر ارضا بخيبر فاتى النبي صلى الله عليه وسلم فقال: اصبت ارضا لم اصب مالا قط انفس عندي منه فكيف تامرني به قال:" إن شئت حبست اصلها وتصدقت بها، فتصدق بها عمر انه لا يباع اصلها ولا يوهب ولا يورث للفقراء والقربى والرقاب وفي سبيل الله وابن السبيل، وزاد عن بشر، والضيف ثم اتفقوا لا جناح على من وليها ان ياكل منها بالمعروف ويطعم صديقا غير متمول فيه"، زاد عن بشر قال: وقال محمد: غير متاثل مالا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَزِيدُ بْنُ زُرَيْعٍ. ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا بِشْرُ بْنُ الْمُفَضَّلِ. ح وَحَدَّثَنَا مُسَدَّدٌ، حَدَّثَنَا يَحْيَى، عَنْ ابْنِ عَوْنٍ، عَنْ نَافِعٍ،عَنْ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: أَصَابَ عُمَرُ أَرْضًا بِخَيْبَرَ فَأَتَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَقَالَ: أَصَبْتُ أَرْضًا لَمْ أُصِبْ مَالًا قَطُّ أَنْفَسَ عِنْدِي مِنْهُ فَكَيْفَ تَأْمُرُنِي بِهِ قَالَ:" إِنْ شِئْتَ حَبَّسْتَ أَصْلَهَا وَتَصَدَّقْتَ بِهَا، فَتَصَدَّقَ بِهَا عُمَرُ أَنَّهُ لَا يُبَاعُ أَصْلُهَا وَلَا يُوهَبُ وَلَا يُوَرَّثُ لِلْفُقَرَاءِ وَالْقُرْبَى وَالرِّقَابِ وَفِي سَبِيلِ اللَّهِ وَابْنِ السَّبِيلِ، وَزَادَ عَنْ بِشْرٍ، وَالضَّيْفِ ثُمَّ اتَّفَقُوا لَا جُنَاحَ عَلَى مَنْ وَلِيَهَا أَنْ يَأْكُلَ مِنْهَا بِالْمَعْرُوفِ وَيُطْعِمَ صَدِيقًا غَيْرَ مُتَمَوِّلٍ فِيهِ"، زَادَ عَنْ بِشْرٍ قَالَ: وَقَالَ مُحَمَّدٌ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا.
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ عمر رضی اللہ عنہ کو خیبر میں ایک زمین ملی، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئے اور انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! مجھے ایک ایسی زمین ملی ہے، مجھے کبھی کوئی مال نہیں ملا تو اس کے متعلق مجھے آپ کیا حکم فرماتے ہیں؟ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر تم چاہو تو زمین کی اصل (ملکیت) کو روک لو اور اس کے منافع کو صدقہ کر دو ۱؎، عمر رضی اللہ عنہ نے ایسا ہی کیا کہ نہ زمین بیچی جائے گی، نہ ہبہ کی جائے گی، اور نہ میراث میں تقسیم ہو گی (بلکہ) اس سے فقراء، قرابت دار، غلام، مجاہدین اور مسافر فائدہ اٹھائیں گے۔ بشر کی روایت میں مہمان کا اضافہ ہے، باقی میں سارے راوی متفق ہیں: جو اس کا والی ہو گا دستور کے مطابق اس کے منافع سے اس کے خود کھانے اور دوستوں کو کھلانے میں کوئی حرج نہیں جب کہ وہ مال جمع کر کے رکھنے والا نہ ہو۔ بشر کی روایت میں اتنا زیادہ ہے کہ محمد (ابن سیرین) کہتے ہیں: مال جوڑنے والا نہ ہو۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الشروط 19 (2737)، والوصایا 22 (2764)، 28 (2772)، 32 (2777)، صحیح مسلم/الوصایا 4 (1632)، سنن الترمذی/الأحکام 36 (1375)، سنن النسائی/الإحباس 1 (3629)، سنن ابن ماجہ/الصدقات 4 (2396)، (تحفة الأشراف: 7742)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/55، 125) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یہ پہلا اسلامی وقف ہے جس کی ابتداء عمر رضی اللہ عنہ کی ذات سے ہوئی۔

Narrated Ibn Umar: Umar got some land in Khaibar, and when to the Prophet ﷺ and said: I have acquired land in Khaibar which I consider to be more valuable than any I have acquired ; so what do you command me to do with it ? He replied: If you wish, you may make the property as inalienable possession, and give its produce as sadaqah (charity). So Umar gave it as a sadaqah declaring that the property must not be sold, given away, or inherited: (and gave its produce as sadaqah to be devoted) to poor, relatives, the emancipation of slaves, Allah's path, travellers. The narrator Bishr added: "and guests". Then the agreed version goes: No sin being committed by the one who administers it if he eats something from it in a reasonable manner, or gives something to a friend, who does not make his own property. The narrator Bishr added: " (provided) he is not storing-up goods (for himself)".
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2872


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2879
پی ڈی ایف بنائیں اعراب English
(مرفوع) حدثنا سليمان بن داود المهري، حدثنا ابن وهب، اخبرني الليث، عن يحيى بن سعيد، عن صدقة عمر بن الخطاب رضي الله عنه، قال: نسخها لي عبد الحميد بن عبد الله بن عبد الله بن عمر بن الخطاب: بسم الله الرحمن الرحيم، هذا ما كتب عبد الله عمر في ثمغ فقص من خبره نحو حديث نافع قال: غير متاثل مالا فما عفا عنه من ثمره فهو للسائل والمحروم، قال: وساق القصة قال: وإن شاء ولي ثمغ اشترى من ثمره رقيقا لعمله وكتب معيقيب وشهد عبد الله بن الارقم بسم الله الرحمن الرحيم، هذا ما اوصى به عبد الله عمر امير المؤمنين إن حدث به حدث، ان ثمغا، وصرمة بن الاكوع، والعبد الذي فيه، والمائة سهم التي بخيبر، ورقيقه الذي فيه، والمائة التي اطعمه محمد صلى الله عليه وسلم بالوادي تليه حفصة ما عاشت، ثم يليه ذو الراي من اهلها ان لا يباع ولا يشترى ينفقه حيث راى من السائل والمحروم وذوي القربى ولا حرج على من وليه إن اكل او آكل او اشترى رقيقا منه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُلَيْمَانُ بِنُ دَاوُدَ الْمَهْرِيُّ، حَدَّثَنَا ابْنُ وَهْبٍ، أَخْبَرَنِي اللَّيْثُ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ، عَنْ صَدَقَةِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ، قَالَ: نَسَخَهَا لِي عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عُمَرَ بْنِ الْخَطَّابِ: بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا كَتَبَ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ فِي ثَمْغٍ فَقَصَّ مِنْ خَبَرِهِ نَحْوَ حَدِيثِ نَافِعٍ قَالَ: غَيْرَ مُتَأَثِّلٍ مَالًا فَمَا عَفَا عَنْهُ مِنْ ثَمَرِهِ فَهُوَ لِلسَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ، قَالَ: وَسَاقَ الْقِصَّةَ قَالَ: وَإِنْ شَاءَ وَلِيُّ ثَمْغٍ اشْتَرَى مِنْ ثَمَرِهِ رَقِيقًا لِعَمَلِهِ وَكَتَبَ مُعَيْقِيبٌ وَشَهِدَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ الأَرْقَمِ بِسْمِ اللَّهِ الرَّحْمَنِ الرَّحِيمِ، هَذَا مَا أَوْصَى بِهِ عَبْدُ اللَّهِ عُمَرُ أَمِيرُ الْمُؤْمِنِينَ إِنْ حَدَثَ بِهِ حَدَثٌ، أَنَّ ثَمْغًا، وَصِرْمَةَ بْنَ الأَكْوَعِ، وَالْعَبْدَ الَّذِي فِيهِ، وَالْمِائَةَ سَهْمٍ الَّتِي بِخَيْبَرَ، وَرَقِيقَهُ الَّذِي فِيهِ، وَالْمِائَةَ الَّتِي أَطْعَمَهُ مُحَمَّدٌ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْوَادِي تَلِيهِ حَفْصَةُ مَا عَاشَتْ، ثُمَّ يَلِيهِ ذُو الرَّأْيِ مِنْ أَهْلِهَا أَنْ لَا يُبَاعَ وَلَا يُشْتَرَى يُنْفِقُهُ حَيْثُ رَأَى مِنَ السَّائِلِ وَالْمَحْرُومِ وَذَوِي الْقُرْبَى وَلَا حَرَجَ عَلَى مَنْ وَلِيَهُ إِنْ أَكَلَ أَوْ آكَلَ أَوِ اشْتَرَى رَقِيقًا مِنْهُ.
یحییٰ بن سعید سے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقہ کے متعلق روایت ہے، وہ کہتے ہیں کہ عبدالحمید بن عبداللہ بن عبداللہ بن عمر بن خطاب نے مجھے عمر بن خطاب رضی اللہ عنہ کے صدقے کی کتاب نقل کر کے دی، اس میں یوں لکھا ہوا تھا: «بسم الله الرحمن الرحيم»، یہ وہ کتاب ہے جسے اللہ کے بندے عمر نے ثمغ (اس مال یا باغ کا نام ہے جس کو عمر رضی اللہ عنہ نے مدینہ یا خیبر میں وقف کیا تھا) کے متعلق لکھا ہے، پھر وہی تفصیل بیان کی جو نافع کی حدیث میں ہے اس میں ہے: مال جوڑنے والے نہ ہوں، جو پھل اس سے گریں وہ مانگنے اور نہ مانگنے والے فقیروں اور محتاجوں کے لیے ہیں، راوی کہتے ہیں: اور انہوں نے پورا قصہ بیان کیا، اور کہا کہ: ثمغ کا متولی پھلوں کے بدلے (باغ کے) کام کاج کے لیے غلام خریدنا چاہے تو اس کے پھل سے خرید سکتا ہے، معیقیب نے اسے لکھا اور عبداللہ بن ارقم نے اس بات کی یوں گواہی دی۔ «بسم الله الرحمن الرحيم»، یہ وہ وصیت نامہ ہے جس کی اللہ کے بندے امیر المؤمنین عمر رضی اللہ عنہ نے وصیت کی اگر مجھے کوئی حادثہ پیش آ جائے (یعنی مر جاؤں) تو ثمغ اور صرمہ بن اکوع اور غلام جو اس میں ہے اور خیبر کے میرے سو حصے اور جو غلام وہاں ہیں اور میرے سو وہ حصے جو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے خیبر سے قریب کی وادی میں دیئے تھے ان سب کی متولیہ تاحیات حفصہ رہیں گی، حفصہ کے بعد ان کے اہل میں سے جو صاحب رائے ہو گا وہ متولی ہو گا لیکن کوئی چیز نہ بیچی جائے گی، نہ خریدی جائے گی، سائل و محروم اور اقرباء پر ان کی ضروریات کو دیکھ کر خرچ کیا جائے گا، ان کا متولی اگر اس میں سے کھائے یا کھلائے یا ان کی حفاظت و خدمت کے لیے ان کی آمدنی سے غلام خرید لے تو کوئی حرج و مضائقہ نہیں۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 10589) (صحیح)» ‏‏‏‏ (بطور وجادہ کے یہ روایت صحیح ہے، وجادہ کا مطلب یہ ہے کہ خاندان کی کتاب میں ایسا لکھا ہوا پایا، وجادہ کے راوی اگر ثقہ ہوں اور صاحب تحریر کی تحریر پہچانتے ہوں تو ایسی روایت بھی صحیح ہوتی ہے)

Narrated Yahya bin Saeed: Abd al-Hamid bin Abd 'Allah bin Abdullah bin Umar bin al-Khattab copied to me a document about the religious endowment (waqf) made by Umar bin al-Khattab: In the name of Allah, the Compassionate, the Merciful. This is what Allah's servant Umar has written about Thamgh. He narrated the tradition like the one transmitted by Nafi. He added: "provided he is not storing up goods (for himself)". The surplus fruit will be devoted to the beggar and the deprived. He then went on with the tradition, saying: If the man in charge of Thamgh wishes to buy a slave for his work for its fruits (by selling them), he may do so. Mu'iqib penned it and Abdullah bin al-Arqam witnessed it: In the name of Allah, the Compassionate, the Merciful. This is what Allah's servant Umar, Commander of Faithful, directed, in case of some incident happens to him (i. e. he dies), that Thamg, Sirmah bin al-Akwa, the servant who is there, the hundred shares in (the land of) Khaibr, the servant who is there and the hundred sahres which Muhammad ﷺ had donated to me in the valley (nearly) will remain in the custody of Hafsah during her life, then the men of opinion from her family will be in charge of these (endowments), that these will neither be sold not purchased, spending (its produce) where they think (necessary on the beggar, deprived and relatives). There is no harm to the one in charge (of this endowment) if he eats himself, or feeds, or buys slaves with it.
USC-MSA web (English) Reference: Book 17 , Number 2873


قال الشيخ الألباني: صحيح وجادة

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.