الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كِتَاب الْحُرُوفِ وَالْقِرَاءَاتِ کتاب: قرآن کریم کی بابت لہجوں اور قراتوں کا بیان 1. باب باب:۔۔۔
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے: «واتخذوا من مقام إبراهيم مصلى» ”اور مقام ابراہیم کو مصلیٰ بنا لو۔۔۔“ (سورۃ البقرہ: ۱۲۴) (امر کے صیغہ کے ساتھ بکسر خاء) پڑھا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/ الحج 33 (856)، سنن النسائی/ الحج 163 (2964)، سنن ابن ماجہ/الإقامة 56 (1008)، انظر حدیث رقم: (1905)، (تحفة الأشراف: 2595) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا فرماتی ہیں کہ ایک شخص نے رات میں قیام کیا اور (نماز میں) بلند آواز سے قرآت کی، جب صبح ہوئی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ فلاں پر رحم کرے کتنی آیتیں جنہیں میں بھول چلا تھا ۱؎ اس نے آج رات مجھے یاد دلا دیں“۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (1331)، (تحفة الأشراف: 16877) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی یہ میرے ذہن سے نکل چکی تھیں، مگر اللہ تعالیٰ کو ان آیتوں کا بالکل بھلا دینا منظور نہ تھا، اس لیے اس نے اس آدمی کو قرات کے ذریعہ مجھے پھر یاد دلا دیں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
مقسم مولیٰ ابن عباس رضی اللہ عنہما کا بیان ہے کہ ابن عباس رضی اللہ عنہما نے کہا ہے کہ آیت: «وما كان لنبي أن يغل» ”نبی کو یہ زیب نہیں دیتا کہ وہ خیانت کرے۔۔۔“ (سورۃ آل عمران: ۱۶۱) ایک سرخ چادر کے متعلق نازل ہوئی جو بدر کے دن گم ہو گئی تھی تو کچھ لوگوں نے کہا: شاید رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اسے لے لیا ہو تب اللہ تعالیٰ نے: «وما كان لنبي أن يغل» نازل کی۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «يغل» یا کے فتحہ کے ساتھ ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر سورة آل عمران 17 (3009)، (تحفة الأشراف: 6487) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اے اللہ! میں تیری پناہ مانگتا ہوں بخیلی اور بڑھاپے سے ۱؎“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 888)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/113، 117)، انظر حدیث رقم: (1540) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی ایسی ضعیفی سے جس میں ہوش و حواس باقی نہ رہیں نہ عبادت کی طاقت رہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
لقیط بن صبرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں بنی منتفق کی طرف سے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا، یا بنی منتفق کے وفد میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا تھا پھر انہوں نے حدیث بیان کی کہ آپ نے یعنی نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «لا تحسبن» (سین کے زیر کے ساتھ) پڑھا اور «لا تحسبن» (سین کو زبر کے ساتھ) نہیں پڑھا۔
تخریج الحدیث: «انظر حدیث رقم: (142)، (تحفة الأشراف: 11172) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں مسلمان ایک شخص سے ملے جو اپنی بکریوں کے چھوٹے سے ریوڑ میں تھا اس نے السلام علیکم کہا پھر بھی مسلمانوں نے اسے قتل کر دیا اور وہ ریوڑ لے لیا تو یہ آیت کریمہ: «ولا تقولوا لمن ألقى إليكم السلام لست مؤمنا تبتغون عرض الحياة الدنيا» ”جو شخص تمہیں سلام کہے اسے یہ نہ کہو کہ تو مسلمان نہیں ہے تم لوگ دنیاوی زندگی کا ساز و سامان یعنی ان بکریوں کو چاہتے ہو“ (سورۃ النساء: ۹۴) نازل ہوئی۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة النساء 17 (4591)، صحیح مسلم/التفسیر (3025)، (تحفة الأشراف: 5940)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/تفسیر القرآن النساء 5 (3030) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
زید بن ثابت انصاری رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» کے بعد «غير أولي الضرر» پڑھتے تھے۔ اور سعید بن منصور نے اپنی روایت میں «كان يقرأ» نہیں کہا ہے ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3709) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: پہلے صرف «لا يستوي القاعدون من المؤمنين» نازل ہوئی تھی پھر جب لوگوں کو پریشانی ہوئی تو اللہ نے «غير أولي الضرر» نازل فرما کر آسانی کر دی۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے: «والعين بالعين» (رفع کے ساتھ) پڑھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات 1 (2929)، (تحفة الأشراف: 1572)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/215) (ضعیف)» (ابوعلی بن یزید مجہول راوی ہیں)
وضاحت: ۱؎: جیسا کہ کسائی کی قرات ہے اور اکثر کے نزدیک نصب کے ساتھ ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «وكتبنا عليهم فيها أن النفس بالنفس والعين بالعين» ”اور ہم نے یہودیوں کے ذمہ تورات میں یہ بات مقرر کر دی تھی کہ جان کے بدلے جان اور آنکھ کے بدلے آنکھ ہے ”(سورۃ المائدہ: ۴۵) (عین کے رفع کے ساتھ) پڑھا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 1572) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عطیہ بن سعد عوفی کہتے ہیں کہ میں نے عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کے سامنے: «الله الذي خلقكم من ضعف» ”اللہ وہی ہے جس نے تمہیں کمزوری کی حالت میں پیدا کیا“ (سورۃ الروم: ۵۴) (ضاد کے زبر کے ساتھ) پڑھا تو انہوں نے کہا «مِنْ ضُعْفٍ» (ضاد کے پیش کے ساتھ) ہے میں نے بھی اسی طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے سامنے پڑھا تھا جیسے تم نے پڑھا ہے تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے میری گرفت فرمائی جیسے میں نے تمہاری گرفت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة الروم 4 (2936)، (تحفة الأشراف: 7334)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/58) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے «مِنْ ضُعْفٍ» روایت کی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4211) (حسن)»
قال الشيخ الألباني: حسن
عبدالرحمٰن بن ابزی کہتے ہیں کہ ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے «بفضل الله وبرحمته فبذلك فلتفرحوا» ”لوگوں کو اللہ تعالیٰ کے اس انعام اور رحمت پر خوش ہونا چاہیئے“ (سورۃ یونس: ۵۸) پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: (تاء کے ساتھ) ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبوداود، (تحفة الأشراف: 57)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/123) (حسن صحیح)»
قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
ابی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «بفضل الله وبرحمته فبذلك فليفرحواء هو خير مما تجمعون» پڑھا ۱؎۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 57) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: یعنی دونوں جگہ تاء کے ساتھ پڑھا۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اسماء بنت یزید رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «إنه عمل غير صالح» (بصیغہ ماضی) یعنی: ”اس نے ناسائشہ کام کیا“ (سورۃ ہود: ۴۶) پڑھتے سنا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة ھود 2 (2931)، (تحفة الأشراف: 15768)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/294، 322، 454، 459، 460) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
شہر بن حوشب کہتے ہیں میں نے ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے پوچھا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم آیت کریمہ «إنه عمل غير صالح» کیسے پڑھتے تھے؟ تو انہوں نے کہا: آپ اسے «إنه عمل غير صالح» (فعل ماضی کے ساتھ) پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: نیز اسے ہارون نحوی اور موسیٰ بن خلف نے ثابت سے ایسے ہی روایت کیا ہے جیسے عبدالعزیز نے کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة ھود 2 (2932)، (تحفة الأشراف: 15768) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم جب دعا فرماتے تو پہلے اپنی ذات سے شروعات کرتے یوں کہتے: ”اللہ کی رحمت ہو ہم پر اور موسیٰ پر اگر وہ صبر کرتے تو اپنے ساتھی (خضر) کی طرف سے عجیب عجیب چیزیں دیکھتے، لیکن انہوں نے تو کہہ دیا «إن سألتك عن شىء بعدها فلا تصاحبني قد بلغت من لدني» ”اگر اب اس کے بعد میں آپ سے کسی چیز کے بارے میں سوال کروں تو بیشک آپ مجھے اپنے ساتھ نہ رکھنا یقیناً آپ میری طرف سے حد عذر کو پہنچ چکے“ (سورۃ الکہف: ۷۶)۔ حمزہ نے «لدنی» کے نون کو کھینچ کر بتایا کہ آپ یوں پڑھا کرتے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة الکھف 3 (2933)، الدعوات 9 (3385)، (تحفة الأشراف: 41)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/العلم 44 (122)، أحادیث الأنبیاء 27 (3400)، تفسیر القرآن 2 (4725)، صحیح مسلم/الفضائل 46 (2380) (صحیح) دون قولہ: ''ولکنہ قال...''»
قال الشيخ الألباني: صحيح ق دون قوله ولكنه
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے «قد بلغت من لدني» (نون کی تشدید کے ساتھ پڑھا) اور انہوں نے اسے مشدّد پڑھ کے بتایا۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 42) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
مصدع ابویحییٰ کہتے ہیں کہ میں نے ابن عباس رضی اللہ عنہما سے سنا وہ کہہ رہے تھے مجھے ابی ابن کعب رضی اللہ عنہ نے «في عين حمئة» ”دلدل کے چشمہ میں“ (سورۃ الکہف: ۸۶) تخفیف کے ساتھ پڑھایا جس طرح رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں مخفف پڑھایا تھا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة الکھف 3 (2934)، (تحفة الأشراف: 43) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”علیین والوں میں سے ایک شخص جنتیوں کو جھانکے گا تو جنت اس کے چہرے کی وجہ سے چمک اٹھے گی گویا وہ موتی سا جھلملاتا ہوا ستارہ ہے“۔ راوی کہتے ہیں: اسی طرح «دري» دال کے پیش اور یا کی تشدید کے ساتھ حدیث وارد ہے دال کے زیر اور ہمزہ کے ساتھ نہیں اور آپ نے فرمایا ابوبکرو عمر رضی اللہ عنہما بھی انہیں میں سے ہیں بلکہ وہ دونوں ان سے بھی بہتر ہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4190)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 14 (3658)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 11 (96)، مسند احمد (3/50، 61) (ضعیف)» (دوسرے الفاظ سے یہ صحیح ہے)
قال الشيخ الألباني: ضعيف وصح بلفظ آخر
فروہ بن مسیک غطیفی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آیا پھر انہوں نے پوری حدیث ذکر کی اس میں ہے تو ہم میں ایک شخص نے کہا: اللہ کے رسول! ”سبا“ کے متعلق مجھے بتائیے کہ وہ کیا ہے؟ کسی کا نام ہے یا کوئی عورت ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”وہ نہ کوئی سر زمین ہے نہ عورت ہے بلکہ ایک شخص کا نام ہے جس کے دس عرب لڑکے ہوئے جس میں سے چھ نے یمن میں رہائش اختیار کر لی اور چار نے شام میں ۱؎“۔ عثمان نے غطیفی کے بجائے غطفانی کہا ہے اور «حدثني الحسن بن الحكم النخعي» کے بجائے «حدثنا الحسن بن الحكم النخعي» کہا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/تفسیر القرآن سورة سبأ 1 (3222)، (تحفة الأشراف: 11023) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: اس طرح رفتہ رفتہ ان کی اولاد بڑھی اور وہ ایک قوم بن گئی پھر وہ قوم جس ملک میں رہتی تھی اسے بھی لوگ سبا کہنے لگے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اس سند سے ابوہریرہ رضی اللہ عنہ نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم سے وحی کی حدیث ۱؎ روایت کی اس کے بعد فرمایا: اللہ تعالیٰ کے قول «حتى إذا فزع عن قلوبهم» ”یہاں تک کہ جب ان کے دلوں سے گھبراہٹ دور کر دی جاتی ہے“ (سورۃ سبا: ۲۳) ۲؎ سے یہی مراد ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر سورة الحجر 1 (4701)، التوحید 32 (7481)، سنن الترمذی/التفسیر 35 (3223)، سنن ابن ماجہ/المقدمة 13 (194)، (تحفة الأشراف: 14249) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: صحیح بخاری کی کتاب التوحید کا سیاق یہ ہے: «إذا قضی اللہ الأمر في السماء ضربت الملائکة بإجنحتہا خضعانا لقولہ کأنہ سلسلة علی صفوان- قال علي بن المدیني: وقال غیرہ: صفوان ینفذہم ذلک - فإذا فزع عن قلوبہم قالوا: ماذا قال ربکم؟ قالوا: الحق وہو العلي الکبیر» ۔ ۲؎: «فُزِّع» قراء کے نزدیک راء معجمہ اور عین مہملہ کے ساتھ ہے لیکن ابوہریرہ رضی اللہ عنہ اسے راء مہملہ اور عین معجمہ کے ساتھ پڑھتے تھے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت «بلى قد جاءتك آياتي فكذبت بها واستكبرت وكنت من الكافرين» ”ہاں بیشک تیرے پاس میری آیتیں پہنچ چکی تھیں جنہیں تو نے جھٹلایا اور غرور و تکبر کیا اور تو تھا ہی کافروں میں سے“ (سورۃ الزمر: ۵۹) ۱؎ (واحد مونث حاضر کے صیغہ کے ساتھ) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مرسل ہے، ربیع نے ام سلمہ رضی اللہ عنہا کو نہیں پایا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 1850) (ضعیف الإسناد)»
وضاحت: وضاحت ۱؎: جمہور کی قرات واحد مذکر حاضر کے صیغہ کے ساتھ ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «فروح وريحان» ”تو عیش و آرام ہے“ (سورۃ الواقعہ: ۸۹) ۱؎ (راء کے پیش کے ساتھ) پڑھتے ہوئے سنا۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة الواقعة 6 (2938)، (تحفة الأشراف: 16204)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/64، 213) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: جمہور کی قرات راء کے زبر کے ساتھ ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
یعلیٰ بن امیہ۔ منیہ۔ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو منبر پر «ونادوا يا مالك» ”اور پکار پکار کہیں گے اے مالک!“ (سورۃ الزخرف: ۷۷) پڑھتے سنا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی بغیر ترخیم کے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 7 (3230)، وتفسیر القرآن 1 (3266)، صحیح مسلم/الجمعة 13 (871)، سنن الترمذی/الجمعة 13 (508)، (تحفة الأشراف: 11838)، وقد أخرجہ: مسند احمد (4/223) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھے «إني أنا الرزاق ذو القوة المتين» ۱؎ پڑھایا ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة الذاریات 8 (2940)، (تحفة الأشراف: 9389)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/394، 397، 418) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مشہور قرات «إن الله هو الرزاق ذو القوة المتين» ہے یعنی اللہ تعالیٰ تو خود ہی سب کا روزی رساں، توانائی والا اور زور آور ہے (سورۃ الذاریات: ۵۸) قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم «فهل من مدكر» ”تو کیا ہے کوئی نصیحت حاصل کرنے والا“ (سورۃ الذاریات: ۵۸) (یعنی دال کو مشدد) پڑھتے تھے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: «مُدَّكِّرٍ» میم کے ضمہ دال کے فتحہ اور کاف کے کسرہ کے ساتھ ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/أحادیث الأنبیاء 3 (3341)، وتفسیر القرآن 2 (4874)، صحیح مسلم/المسافرین 50 (823)، سنن الترمذی/القراء ات سورة القمر 5 (2937)، (تحفة الأشراف: 9179)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/395، 406، 413، 431، 437، 461) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
جابر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں میں نے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کو «يحسب أن ماله أخلده» ۱؎ پڑھتے دیکھا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 3026) (ضعیف الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: ”مشہور قرaت بغیر ہمزہ استفہام کے ہے یعنی کیا وہ گمان کرتا ہے کہ اس کا مال ہمیشہ رہے گا“ (سورۃ الہمزۃ: ۳) قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
ابوقلابہ ایک ایسے شخص سے جس کو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے روایت کرتے ہیں (کہ یہ آیت کریمہ اس طرح ہے) «فيومئذ لا يعذب عذابه أحد * ولا يوثق وثاقه أحد» ۱؎۔ ابوداؤد کہتے ہیں: کچھ لوگوں نے خالد اور ابوقلابہ کے درمیان ایک مزید واسطہ داخل کیا ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبودواد، (تحفة الأشراف: 15608)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/71) (ضعیف الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: یعنی صیغہ مجہول کے ساتھ جب کہ مشہور قرات دونوں میں صیغہ معروف کے ساتھ ہے۔ قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
ابوقلابہ کہتے ہیں: مجھے ایک ایسے شخص نے خبر دی ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھایا ہے یا جسے ایک ایسے شخص نے پڑھایا ہے جسے نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے پڑھا یا ہے کہ «فيومئذ لا يعذب» (مجہول کے صیغہ کے ساتھ) ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: عاصم، اعمش، طلحہ بن مصرف، ابوجعفر یزید بن قعقاع، شیبہ بن نصاح، نافع بن عبدالرحمٰن، عبداللہ بن کثیر داری، ابوعمرو بن علاء، حمزہ زیات، عبدالرحمٰن اعرج، قتادہ، حسن بصری، مجاہد، حمید اعرج، عبداللہ بن عباس اور عبدالرحمٰن بن ابی بکر نے «لا يعذب ولا يوثق» صیغہ معروف کے ساتھ پڑھا ہے مگر مرفوع روایت میں «يعذب» (ذال کے فتحہ کے ساتھ) ہے۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 15608) (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک حدیث بیان فرمائی جس میں جبرائیل و میکال کا ذکر تھا تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے جبرائل و میکائل پڑھا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: خلف کا بیان ہے میں چالیس سال سے برابر لکھ رہا ہوں لیکن جبرائل و میکائل لکھنے میں مجھے جتنی دشواری ہوئی ہے کسی اور چیز میں نہیں۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4205)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/9) (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس فرشتہ کا ذکر کیا جو صور لیے کھڑا ہے تو فرمایا: ”اس کے داہنی جانب جبرائل ہیں اور بائیں جانب میکائل ہیں“۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4205) (ضعیف)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف
عبدالرزاق کہتے ہیں ہمیں معمر نے زہری کے واسطہ سے خبر دی ہے اور معمر نے کبھی کبھی زہری کے بجائے ابن مسیب کا ذکر کیا ہے، وہ کہتے ہیں نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ابوبکر و عمر اور عثمان «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» پڑھتے تھے اور «مَلِكِ يَوْمِ الدِّينِ» سب سے پہلے مروان نے پڑھا ہے۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یہ مرسل سند زہری کی حدیث سے جو انس رضی اللہ عنہ سے مروی ہے نیز زہری کی اس حدیث سے جو سالم سے مروی ہے اور وہ اپنے والد سے روایت کرتے ہیں زیادہ صحیح ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود (ضعیف الإسناد)»
قال الشيخ الألباني: ضعيف الإسناد
ام المؤمنین ام سلمہ رضی اللہ عنہا سے روایت ہے کہ انہوں نے ذکر کیا یا اس کے علاوہ راوی نے کوئی اور کلمہ کہا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی قرآت یوں ہوتی «بسم الله الرحمن الرحيم * الحمد لله رب العالمين * الرحمن الرحيم * ملك يوم الدين» آپ ہر ہر آیت الگ الگ پڑھتے تھے (ایک آیت کو دوسری آیت میں ملاتے نہیں تھے)۔ ابوداؤد کہتے ہیں: میں نے احمد کو کہتے سنا ہے کہ پرانی قرآت «مَالِكِ يَوْمِ الدِّينِ» ہے۔
تخریج الحدیث: «سنن الترمذی/القراء ات سورة الفاتحة 1 (2927)، (تحفة الأشراف: 18183)، وقد أخرجہ: مسند احمد (6/302، 323) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابوذر رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ردیف تھا آپ ایک گدھے پر سوار تھے اور غروب شمس کا وقت تھا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہیں معلوم ہے کہ یہ کہاں ڈوبتا ہے؟“ میں نے عرض کیا: اللہ اور اس کے رسول زیادہ جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «فإنها تغرب في عين حامية"» ”یہ ایک گرم چشمہ میں ڈوبتا ہے“ (سورۃ الکہف: ۸۶) ۱؎۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/بدء الخلق 4 (3199)، وتفسیر القرآن 36 (4803)، والتوحید 22 (7424)، صحیح مسلم/الإیمان 72 (159)، سنن الترمذی/الفتن 22 (2186)، تفسیر القرآن سورة یٰسن 37 (3227)، (تحفة الأشراف: 11993)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/145، 152، 158ع 165، 177) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مشہور قرات «حَمِئَةٍ» ہے یعنی کالی مٹی کے چشمہ میں ڈوبتا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
واثلہ بن الاسقع بکری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم ان کے پاس مہاجرین کے صفے میں آئے تو آپ سے ایک شخص نے پوچھا: قرآن کی سب سے بڑی آیت کون سی ہے؟ تو نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: «الله لا إله إلا هو الحى القيوم لا تأخذه سنة ولا نوم» ”اللہ ہی معبود برحق ہے اس کے علاوہ کوئی معبود نہیں وہ زندہ ہے اور سب کو تھامنے والا ہے، اسے نہ اونگھ آئے نہ نیند“ (سورۃ البقرہ: ۲۵۵) ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 11756) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے «هَيْتَ لَكَ» ۱؎ پڑھا تو ابووائل شقیق بن سلمہ نے عرض کیا: ہم تو اسے «هِئْتُ لَكَ» پڑھتے ہیں تو ابن مسعود رضی اللہ عنہ نے کہا: جیسے مجھے سکھایا گیا ہے اسی طرح پڑھنا مجھے زیادہ محبوب ہے۔
تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/تفسیر القرآن 4 (4692)، (تحفة الأشراف: 9265) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: معنی ہے آ جاؤ (سورۃ یوسف: ۳) اور «هئتُ» کے معنیٰ ہے میں تیار ہوں۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ابووائل شقیق بن سلمہ کہتے ہیں عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے کہا گیا کہ کچھ لوگ اس آیت کو «وَقَالَتْ هِيتَ لَكَ» پڑھتے ہیں تو انہوں نے کہا: جیسے مجھے سکھایا گیا ہے ویسے ہی پڑھنا مجھے زیادہ پسند ہے «وَقَالَتْ هَيْتَ لَكَ» ۔
تخریج الحدیث: «انظر ما قبلہ، (تحفة الأشراف: 9265) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اللہ عزوجل نے بنی اسرائیل سے فرمایا: «ادخلوا الباب سجدا وقولوا حطة تغفر لكم خطاياكم» ”اور دروازے میں سجدہ کرتے ہوئے داخل ہوو اور زبان سے «حطة» کہو تمہارے گناہ بخش دیئے جائیں گے (سورۃ البقرہ: ۵۸) ۱؎“ (بصیغہ واحد مونث غائب مضارع مجہول)۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4180) (حسن صحیح)»
وضاحت: ۱؎: «تُغْفَرُ» بصیغہ واحد مؤنث غائب مضارع مجہول مشہور قرات جمع متکلم مضارع معروف کے صیغے کے ساتھ ہے۔ قال الشيخ الألباني: حسن صحيح
اس سند سے بھی ہشام بن سعد سے اسی کے مثل مروی ہے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 4180) (حسن صحیح)»
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم پر وحی اتری تو آپ نے ہمیں «سورة أنزلناها وفرضناها» ”یہ وہ سورت ہے جو ہم نے نازل فرمائی ہے اور مقرر کر دی ہے“ (سورۃ النور: ۱) پڑھ کر سنایا۔ ابوداؤد کہتے ہیں: یعنی مخفف پڑھا ۱؎ یہاں تک کہ ان آیات پر آئے۔
تخریج الحدیث: «تفرد بہ أبو داود، (تحفة الأشراف: 16878) (صحیح الإسناد)»
وضاحت: ۱؎: مراد «فرضناها» کی راء ہے، جمہور کی قرات تخفیف راء کے ساتھ ہے، اور ابوعمرو اور ابن کثیر نے اسے تشدید راء کے ساتھ پڑھا ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح الإسناد
|