الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب السنة
کتاب: سنت کی اہمیت و فضیلت
The Book of the Sunnah
9. بَابٌ في الإِيمَانِ
باب: ایمان کا بیان۔
حدیث نمبر: 57
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد الطنافسي ، حدثنا وكيع ، حدثنا سفيان ، عن سهيل بن ابي صالح ، عن عبد الله بن دينار ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإيمان بضع وستون، او سبعون بابا، ادناها إماطة الاذى عن الطريق، وارفعها قول: لا إله إلا الله، والحياء شعبة من الإيمان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ الطَّنَافِسِيُّ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ سُهَيْلِ بْنِ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْإِيمَانُ بِضْعٌ وَسِتُّونَ، أَوْ سَبْعُونَ بَابًا، أَدْنَاهَا إِمَاطَةُ الْأَذَى عَنِ الطَّرِيقِ، وَأَرْفَعُهَا قَوْلُ: لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَالْحَيَاءُ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان کے ساٹھ یا ستر سے زائد شعبے (شاخیں) ہیں، ان میں سے ادنی (سب سے چھوٹا) شعبہ ۱؎ تکلیف دہ چیز کو راستے سے ہٹانا ہے، اور سب سے اعلیٰ اور بہتر شعبہ «لا إله إلا الله» اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں کہنا ہے، اور شرم و حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 3 بلفظ: ''وستون'' (9)، صحیح مسلم/الإیمان 12 بلفظ: ''وسبعون'' وھو الأرجح (35)، سنن ابی داود/السنة 15 (4676)، سنن الترمذی/الإیمان 6 (2614)، سنن النسائی/الإیمان 16 (5007، 5008، 5009)، (تحفة الأشراف: 12816)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/414، 242، 445) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎ «شعبةٌ» میں تنوین تعظیم کے لئے ہے۔ ۲؎: حیاء ایمان کی ایک اہم شاخ ہے کیونکہ یہ نفس انسانی کی اصلاح و تربیت میں نہایت مؤثر کردار ادا کرتی ہے، نیز وہ انسان کو برائیوں سے روکتی اور نیکیوں پر آمادہ کرتی ہے، اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہوا کہ ایمان کے عمل کے اعتبار سے بہت سے مراتب و اجزاء ہیں، اور اس میں کمی اور بیشی بھی ہوتی ہے، اور یہی اہل سنت و الجماعت کا عقیدہ ہے۔

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Faith has sixty-some or seventy parts, the least of which is to remove a harmful thing from the road and the greatest of which is to say La ilaha illalah (none has the right to be worshipped but Allah). And modesty is a branch of faith.'" Another chain from Abu Hurairah, from the Prophet (ﷺ) with similar wording.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 57M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، قال: حدثنا ابو خالد الاحمر ، عن ابن عجلان . ح وحدثنا عمرو بن رافع ، حدثنا جرير ، عن سهيل جميعا، عن عبد الله بن دينار ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، عن النبي صلى الله عليه وسلم، نحوه.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، قَالَ: حَدَّثَنَا أَبُو خَالِدٍ الْأَحْمَرُ ، عَنْ ابْنِ عَجْلَانَ . ح وحَدَّثَنَا عَمْرُو بْنُ رَافِعٍ ، حَدَّثَنَا جَرِيرٌ ، عَنْ سُهَيْلٍ جَمِيعًا، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ دِينَارٍ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، نَحْوَهُ.
اس سند سے بھی ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے اسی جیسی حدیث مرفوعاً مروی ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏انظر ما قبلہ (صحیح)» ‏‏‏‏

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 58
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سهل بن ابي سهل ، ومحمد بن عبد الله بن يزيد ، قالا: حدثنا سفيان ، عن الزهري ، عن سالم ، عن ابيه ، قال: سمع النبي صلى الله عليه وسلم رجلا يعظ اخاه في الحياء، فقال:" إن الحياء شعبة من الإيمان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ يَزِيدَ ، قَالَا: حَدَّثَنَا سُفْيَانُ ، عَنْ الزُّهْرِيِّ ، عَنْ سَالِمٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: سَمِعَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ رَجُلًا يَعِظُ أَخَاهُ فِي الْحَيَاءِ، فَقَالَ:" إِنَّ الْحَيَاءَ شُعْبَةٌ مِنَ الْإِيمَانِ".
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک آدمی کو اپنے بھائی کو شرم و حیاء کے سلسلے میں ملامت کرتے ہوئے سنا تو فرمایا: حیاء ایمان کی ایک شاخ ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 12 (36)، سنن الترمذی/الإیمان 7 (2615)، (تحفة الأشراف: 6828)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/لإیمان 16 (23)، الأدب 77 (6118)، سنن ابی داود/الأدب 7 (4795)، سنن النسائی/الإیمان 27 (5036)، موطا امام مالک/حسن الخلق 2 (10)، مسند احمد (2/56، 147) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Faith has sixty-some or seventy parts, the least of which is to remove a harmful thing from the road and the greatest of which is to say La ilaha illalah (none has the right to be worshipped but Allah). And modesty is a branch of faith.'" Another chain from Abu Hurairah, from the Prophet (ﷺ) with similar wording.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 59
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا سويد بن سعيد ، حدثنا علي بن مسهر ، عن الاعمش . ح وحدثنا علي بن ميمون الرقي ، حدثنا سعيد بن مسلمة ، عن الاعمش ، عن إبراهيم ، عن علقمة ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يدخل الجنة من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من كبر، ولا يدخل النار من كان في قلبه مثقال حبة من خردل من إيمان".
(مرفوع) حَدَّثَنَا سُوَيْدُ بْنُ سَعِيدٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُسْهِرٍ ، عَنْ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مَيْمُونٍ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا سَعِيدُ بْنُ مَسْلَمَةَ ، عَنْ الْأَعْمَشِ ، عَنْ إِبْرَاهِيمَ ، عَنْ عَلْقَمَةَ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يَدْخُلُ الْجَنَّةَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ كِبْرٍ، وَلَا يَدْخُلُ النَّارَ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ مِنْ إِيمَانٍ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر تکبر (گھمنڈ) ہو گا وہ جنت میں نہیں داخل ہو گا، اور جس شخص کے دل میں رائی کے دانہ کے برابر ایمان ہو گا وہ جہنم میں نہیں داخل ہو گا ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 39 (91)، اللباس 29 (4091)، سنن الترمذی/البر والصلة 61 (1998)، (تحفة الأشراف: 9421)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/287، 412، 416، 2/164، 3/13، 17) (صحیح)» ‏‏‏‏ (یہ حدیث مکرر ہے، ملاحظہ ہو: 4173)

وضاحت:
۱؎: مرتکب کبیرہ کے سلسلے میں آخرت سے متعلق وعید کی احادیث میں یہ آیا ہے کہ وہ ملعون ہے، یا اس کو جنت میں نہ داخل ہونے کی وعید ہے، یا جہنم میں داخل ہونے کی وعید ہے، اس سلسلے میں علماء کی آراء کا خلاصہ مندرجہ ذیل ہے: 1 «لا يدخل الجنة» وہ جنت میں نہ داخل ہو گا، یعنی نعمت و سرور اور انبساط کے اعتبار سے اونچے درجہ کی جنت میں نہ داخل ہو گا، یہ مطلب نہیں ہے کہ جنت کے کسی درجہ اور طبقہ میں داخل نہ ہو گا۔ 2 یہ بھی کہا گیا ہے کہ مرتکب کبیرہ اس وقت تک جنت میں داخل نہ ہو گا جس وقت تک مرتکب کبیرہ کا ارتکاب نہ کرنے والے جنت میں داخل ہو رہے ہوں گے، اس لئے کہ وہ اپنے گناہوں کی باز پرس اور محاسبہ کے مرحلہ میں ہو گا، یا اپنے گناہوں کی پاداش میں جہنم میں ہو گا، اور سزا بھگتنے کے بعد جنت میں داخل ہو گا۔ بعض لوگوں نے اس معنی کو ان لفظوں میں بیان کیا: «إن النفي هو الدخول المطلق الذي لا يكون معه عذاب، لا الدخول المقيد الذي يحصل لمن دخل النار ثم دخل الجنة»، یعنی: احادیث میں جنت میں اس مطلق دخول کی نفی ہے جس کے ساتھ عذاب نہ ہو گا، نہ کہ اس قید کے ساتھ جنت میں داخل ہونے کی نفی ہے جو جہنم میں داخل ہونے والے کو ہو گی کہ وہ جرم کی سزا بھگت کر جنت میں داخل ہو گا۔ 3 ایک قول یہ بھی ہے کہ احادیث میں شرط اور استثناء موجود ہے یعنی اگر اللہ نے اس (مرتکب کبیرہ) کو عذاب دیا تو وہ جنت میں نہ داخل ہو گا، یا جنت میں نہ داخل ہو گا الا یہ کہ اللہ تعالیٰ اس کو معاف کر دے۔ بعض معاصی کے مرتکب کے بارے میں جہنم کی وعید والی احادیث کے بارے میں امام نووی فرماتے ہیں کہ کفر سے کمتر مرتکب کبائر کے لئے جہنم کی وعید سے متعلق ساری احادیث کے بارے میں یہ کہا جائے گا کہ یہ اس کی سزا ہے، کبھی وہ سزا کا مستحق ہو گا، اور کبھی اس سے سزا معاف کر دی جائے گی، پھر اگر اس کو (اس کے جرم کی پاداش میں) سزا ہوئی، تو وہ داخل جہنم ہو گا، لیکن اس میں ہمیشہ ہمیشہ نہیں رہے گا، بلکہ اللہ کے فضل و کرم سے وہ ضروری طور پر وہاں سے نکلے گا، توحید پر مرنے والا کوئی آدمی ہمیشہ اور ابدی طور پر جہنم میں نہیں رہے گا، یہ اہل سنت کے درمیان متفق علیہ اصول ہے۔ آخرت سے متعلق وارد احادیث وعد و وعید کے سلسلہ میں زیادہ راجح اور صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر پر محمول کیا جائے، اور یہ اعتقاد رکھا جائے کہ یہ اعمال وعدہ اور وعید کے اثبات و تحقق کے لئے سبب و علت ہیں لیکن کسی متعین شخص پر ان وعدوں یا و عیدوں کا اطلاق نہیں ہو گا الا یہ کہ اس میں وہ ساری شروط و قیود پائی جا رہی ہوں، اور اس سلسلہ کی رکاوٹیں موجود نہ ہوں، شیخ الاسلام امام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کو متعدد مقامات پر مبرہن کیا ہے۔ اس لئے کہ اہل ایمان کے شرک سے اجتناب اور دوری کی صورت میں اعمال صالحہ پر دخول جنت کی بات بہت ساری احادیث میں وارد ہوئی ہیں، اور جن مطلق روایتوں میں کلمہ شہادت «لا الہ الا اللہ» یا شہادتین پر جنت میں داخل ہونے یا جہنم کے حرام ہونے کی بات ہے تو دوسری احادیث میں اس کی شروط و قیود آئی ہیں جن کی وجہ سے مطلق احادیث کو مقید احادیث پر رکھنا واجب اور ضروری ہے، مطلق احادیث «لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ» میں کلمہ توحید کو دخول جنت کا تقاضا کہا گیا ہے جس کے لئے شروط و قیود کا ہونا اور موانع (رکاوٹوں) کا نہ ہونا ضروری ہے، یہی وجہ ہے کہ امام حسن بصری سے جب یہ کہا گیا کہ بعض لوگ کہتے ہیں کہ جس نے «لا الہ الا اللہ» کہا، جنت میں داخل ہو گا تو آپ نے فرمایا: جس نے کلمہ توحید کہا، اور اس کے حقوق و فرائض ادا کئے وہ جنت میں داخل ہو گا۔ وہب بن منبہ سے سائل نے سوال کیا کہ کلمہ توحید «لا الہ الا اللہ» کیا جنت کی کنجی نہیں ہے؟ تو آپ نے فرمایا: کیوں نہیں، لیکن کنجی بغیر دندانے کے نہیں ہوتی، اگر تم دندانے والی کنجی لے کر آؤ گے تو جنت کا دروازہ تمہارے لئے کھل جائے گا ورنہ نہیں کھلے گا۔ اہل علم نے کلمہ گو ( «لا الہ الا اللہ» کے قائل) میں سات شرطوں کے ضروری طور پر ہونے کا ذکر کیا ہے تاکہ وہ اس کلمہ سے فائدہ اٹھا سکے، وہ یہ ہیں: (علم، یقین، اخلاص، صدق، محبت، انقیاد، قبول)۔ امام ابن القیم حدیث:  «إن الله حرم على النار من قال: لا إله إلا الله يبتغي وجه الله»  اللہ کی رضا و خوشنودی کو چاہنے والے «لا الہ الا اللہ» کے قائل (کلمہ گو) پر اللہ تعالیٰ نے جہنم حرام کردی ہے کا معنی بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں: شارع نے صرف زبانی اقرار سے اس کے حصول (یعنی جنت میں داخل ہونا اور جہنم میں نہ جانے) کی بات نہیں کہی ہے، اس لئے کہ یہ اعداء دین اسلام منافقین کلمہ توحید کو اپنی زبانوں سے دہراتے تھے، اور اس کے ساتھ وہ جہنم کے سب سے خراب درجہ کے مستحق ہیں، اس لئے زبانی اقرار اور دلی اقرار دونوں ضروری اور واجبی ہیں۔ اور دلی اقرار میں کلمہ کی معرفت اور اس کی تصدیق موجود ہے اور کلمہ میں سارے معبودان باطل کا انکار اور اللہ واحد کی الوہیت، اس کی عبادت کے اثبات کی معرفت موجود ہے، اور ماسوا اللہ سے الوہیت کی نفی کی حقیقت کی معرفت بھی موجود ہے کہ الوہیت و عبادت اللہ کے ساتھ خاص ہے اور دوسرے کے لئے اس کا ثبوت محال ہے۔ اس معنی و مفہوم کے علم و معرفت اور یقین و حال کے ساتھ دل میں ثابت و متحقق ہونے کے نتیجہ میں کلمہ گو پر جہنم حرام ہے، اور شارع نے اپنے ہر قول میں جو ثواب و اجر متعین فرمایا ہے وہی پوری اور مکمل بات ہے۔ امام سلیمان بن عبداللہ فرماتے ہیں کہ کلمہ توحید کو زبان سے کہنا بغیر اس کے معنی کو سمجھے، اور بغیر اس کے تقاضے پر عمل کے اجماعی طور پر نفع بخش نہیں ہے (تیسیر العزیز الحمید)۔ ابوبکر رضی اللہ عنہ نے جب زکاۃ نہ دینے والوں کے خلاف جنگ کا ارادہ فرمایا، تو عمر رضی اللہ عنہ نے مشہور حدیث: «أمرت أن أقاتل الناس حتى يقولوا: لا إله إلا الله، فمن قالها فقد عصم مني ماله ونفسه إلا بحقه، وحسابه على الله»  (متفق علیہ) سے استدلال کرتے ہوئے آپ پر اعتراض کیا، تو ابوبکر رضی اللہ عنہ نے ان کو یہ سمجھایا کہ کلمہ توحید کے حق نہ ادا کرنے پر ان سے قتال (جنگ) ممنوع نہیں ہے، کیونکہ رسول اکرم ﷺ کا ارشاد گرامی ہے کہ جس نے کلمہ کہا تو اس کا مال اور اس کی جان میرے یہاں معصوم و محفوظ ہے الا یہ کہ قتل کو واجب کرنے والا حق یعنی عدل و انصاف کا تقاضا موجود ہو، تو فرمایا کہ زکاۃ مال کا حق ہے، یعنی اس کی ادائیگی نہ کرنے والوں کے خلاف جنگ کی جائے گی، عمر رضی اللہ عنہ اور دوسرے صحابۂ کرام رضوان علیہم اجمعین نے ابوبکر رضی اللہ عنہ کے اس فہم حدیث اور استدلال کو قبول کیا اور آپ کے ساتھ مل کر ان لوگوں کے خلاف جنگ کی۔ ابن عمر رضی اللہ عنہما کی دوسری متفق علیہ حدیث میں مسلمانوں کے خون اور مال کی حرمت و عصمت کی مزید ہے کہ رسول اکرم ﷺ نے فرمایا: مجھے لوگوں سے اس وقت تک جنگ کرنے کا حکم ربانی ہے، جب تک کہ لوگ کلمہ توحید و رسالت ( «لا الہ الا اللہ محمد رسول اللہ») کی گواہی نہ دیں، اور جب تک نماز اور اس کی اقامت اور زکاۃ کی ادائیگی نہ کر لیں، اور جب فرائض ادا کر لیں گے، تو ان کے خون و مال کی عصمت و حرمت میرے یہاں متحقق ہو جائے گی، الا یہ کہ اسلام کا حق موجود ہو، یعنی قتل کو واجب کرنے کا سبب اور عدل و انصاف کا تقاضا موجود ہو، اور (عدل کا تقاضا پورا ہونے اور حدود کے نفاذ کے بعد) ان کا حساب اللہ تعالیٰ کے سپرد ہے۔ جب یہ معلوم ہو گیا کہ دنیاوی سزائیں صرف کلمہ توحید و رسالت کے اقرار سے معاف نہیں ہو سکتی، بلکہ اسلام کے کسی حق کے نہ بجا لانے کی صورت میں بندہ سزا کا مستحق ہو گا، تو اسی طرح سے آخرت میں ان اعمال کے کرنے یا نہ کرنے پر عقوبت و سزا کے استحقاق کا معاملہ ہے۔ خلاصہ یہ کہ کلمہ توحید کے قائل پر جہنم کی حرمت، اور شفاعت کے ذریعہ جہنم سے باہر نکلنے کی بات کا مطلب یہ ہے کہ جس نے کلمہ اسلام کی شروط و قیود کو اس کے حقوق و واجبات ادا کرکے پورا کیا، اور اس کی راہ جنت کی رکاوٹیں بھی جاتی رہیں تو اس کے حق میں یہ وعدہ ثابت و متحقق ہو گا۔ آخرت کے احکام سے متعلق وارد احادیث وعید کے سلسلے میں بھی صحیح بات یہ ہے کہ ان کو ان کے ظاہر و اطلاق پر رکھا جائے گا، اور ان کو کسی متعین شخص پر فٹ نہیں کیا جائے گا۔ اس مسئلہ کو اس مثال سے مزید سمجھا جائے کہ رسول اکرم ﷺ نے شراب سے متعلق دس افراد پر لعنت فرمائی: شراب کشید کرنے والے پر، شراب کشید کروانے والے پر، اس کو پینے والے پر، اس کو ڈھونے والے پر وغیرہ وغیرہ۔ جب کہ صحیح بخاری میں ہے کہ عمر رضی اللہ عنہ نے فرمایا: عبداللہ نامی ایک آدمی جو حمار کے لقب سے مشہور تھا، اور وہ رسول اکرم ﷺ کو ہنسایا کرتا تھا، اس آدمی کو رسول اکرم ﷺ نے شراب کی حد میں کوڑے لگوائے، ایک مرتبہ یہ صحابی رسول آپ ﷺ کے پاس لائے گئے تو دوبارہ انہیں کوڑے لگائے گئے، ایک آدمی نے کہا: اللہ کی اس پر لعنت ہو، اسے کتنی بار شراب پینے کے جرم میں لایا گیا، تو نبی اکرم ﷺ نے اس سے فرمایا کہ تم اس پر لعنت نہ بھیجو، اللہ کی قسم! مجھے اس کے بارے میں یہی معلوم ہے کہ وہ اللہ اور اس کے رسول سے محبت کرتا ہے۔ اس حدیث میں آپ ﷺ نے اس متعین آدمی پر جس نے بار بار شراب پی تھی، لعن طعن سے منع فرمایا، جبکہ پہلی حدیث میں شرابی پر لعنت بھیجی گئی ہے، اس لئے کہ مطلق لعنت سے مخصوص اور متعین آدمی پر لعنت لازم نہیں، جس کے ساتھ (لعنت نہ لاگو ہونے کے) ایسے موانع ہوں، جو اس کو اس وعید سے دور رکھتے ہوں۔ وعید کی احادیث کو مطلق بیان کرنے، اور اس کو کسی شخص پر محمول نہ کرنے کا عمل ان تمام احادیث میں ضروری ہے جن میں اس کام سے متعلق آخرت میں جہنم کی دھمکی ہے، مثلاً ارشاد نبوی ہے:  «إذا التقى المسلمان بسيفهما، فالقاتل والمقتول في النار»  جب دو مسلمان تلوار لے کر آمنے سامنے آ کھڑے ہوں تو قاتل اور مقتول دونوں جہنم کی آگ میں ہیں۔ ناحق مسلمانوں سے جنگ کی حرمت کے سلسلے میں اس حدیث پر عمل واجب ہے، اور یہ اعتقاد رکھنا ضروری ہے کہ اس کام کے کرنے والے کو اس وعید کی دھمکی ہے، لیکن بایں ہمہ ہم جنگ جمل اور صفین کے شرکاء کے جہنم میں داخل ہونے کا حکم نہ لگائیں گے، اس لئے کہ ان جنگوں میں شریک لوگوں کے پاس عذر و تاویل موجود ہے، اور ان کے پاس ایسی نیکیاں ہیں جن کا تقاضا یہ ہے کہ اس حدیث کا انطباق ان پر نہ ہو۔ یہی وجہ ہے کہ شیخ الاسلام ابن تیمیہ نے اس مسئلہ کا خلاصہ ان لفظوں میں بیان فرمایا: وعید سے متعلق احادیث کے تقاضوں پر عمل اس اعتقاد کے ساتھ واجب ہے کہ اس کام کا ارتکاب کرنے والے کو اس کام کے جرم کی وعید (دھمکی) ہے، لیکن اس وعید کے اس آدمی پر لاگو ہونے کے لئے شروط و قیود کا ہونا، اور رکاوٹوں کا نہ ہونا ضروری ہے۔ ایک دوسری جگہ فرماتے ہیں: اور یہ جیسا کہ وعید کی نصوص ہیں اللہ تعالیٰ کا ارشاد ہے:  «إن الذين يأكلون أموال اليتامى ظلما إنما يأكلون في بطونهم نارا وسيصلون سعيرا» (سورۃ النساء: ۱۰) اور وعید کی یہ نصوص بحق ہیں، لیکن متعین آدمی پر اس وعید کے متحقق ہونے کی گواہی نہ دی جائے گی، پس کسی متعین قبلہ والے کے لئے جہنم کی وعید کی گواہی نہ دی جائے گی اس لئے کہ یہ جائز ہے کہ یہ وعید کسی شرط کے فوت ہو جانے یا کسی رکاوٹ کے موجود ہونے کی وجہ سے اس کو نہ لاحق ہو۔ اہل علم نے گناہوں کی سزا کے ساقط ہو جانے کے گیارہ اسباب کا ذکر کیا ہے، جن سے وعید کا نفاذ ممنوع اور معطل ہو جاتا ہے: ۱- توحید ۲- توبہ (یہ متفقہ طور پر وعید کے نفاذ کی مانع ہے) ۳- استغفار ۴- نیکیاں (جو برائیوں کو مٹانے والی ہوتی ہے) ۵- اہل ایمان کا مومن کے لئے دعا جیسے نماز جنازہ۔ ۶- میت کو ثواب پہنچانے کے لئے کئے جانے والے اچھے کام جیسے صدقہ و خیرات وغیرہ۔ ۷- نبی اکرم ﷺ اور دوسرے لوگوں کی قیامت کے دن گنہگاروں کے بارے میں شفاعت۔ ۸- دنیاوی آلام و مصائب جن کے ذریعہ اللہ تعالیٰ خطاؤں کو معاف کرتا ہے۔ ۹- قبر میں حاصل ہونے والی سختیاں اور فتنے، یہ بھی گناہوں کے لئے کفارہ ہوتے ہیں۔ ۱۰- روز قیامت کی ہولناکیاں، سختیاں اور تکالیف۔ ۱۱- اللہ تعالیٰ کی رحمت و عفو، اور بغیر شفاعت کے اس کی بخشش و مغفرت۔

It was narrated that Abdullah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'No one will enter Paradise who has even a mustard-seed's weight of arrogance in his heart, and no one will enter Hell who has even a mustard-seed's weight of faith in his heart.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 60
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(قدسي) حدثنا محمد بن يحيى ، حدثنا عبد الرزاق ، انبانا معمر ، عن زيد بن اسلم ، عن عطاء بن يسار ، عن ابي سعيد الخدري ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: إذا خلص الله المؤمنين من النار وامنوا، فما مجادلة احدكم لصاحبه في الحق، يكون له في الدنيا اشد مجادلة من المؤمنين لربهم في إخوانهم الذين ادخلوا النار، قال: يقولون: ربنا إخواننا كانوا يصلون معنا، ويصومون معنا، ويحجون معنا فادخلتهم النار، فيقول:" اذهبوا فاخرجوا من عرفتم منهم فياتونهم، فيعرفونهم بصورهم، لا تاكل النار صورهم، فمنهم من اخذته النار إلى انصاف ساقيه، ومنهم من اخذته إلى كعبيه، فيخرجونهم، فيقولون: ربنا اخرجنا من قد امرتنا، ثم يقول: اخرجوا من كان في قلبه وزن دينار من الإيمان، ثم من كان في قلبه وزن نصف دينار، ثم من كان في قلبه مثقال حبة من خردل"، قال ابو سعيد: فمن لم يصدق هذا فليقرا إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه اجرا عظيما سورة النساء آية 40.
(قدسي) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الرَّزَّاقِ ، أَنْبَأَنَا مَعْمَرٌ ، عَنْ زَيْدِ بْنِ أَسْلَمَ ، عَنْ عَطَاءِ بْنِ يَسَارٍ ، عَنْ أَبِي سَعِيدٍ الْخُدْرِيِّ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: إِذَا خَلَّصَ اللَّهُ الْمُؤْمِنِينَ مِنِ النَّارِ وَأَمِنُوا، فَمَا مُجَادَلَةُ أَحَدِكُمْ لِصَاحِبِهِ فِي الْحَقِّ، يَكُونُ لَهُ فِي الدُّنْيَا أَشَدَّ مُجَادَلَةً مِنَ الْمُؤْمِنِينَ لِرَبِّهِمْ فِي إِخْوَانِهِمُ الَّذِينَ أُدْخِلُوا النَّارَ، قَالَ: يَقُولُونَ: رَبَّنَا إِخْوَانُنَا كَانُوا يُصَلُّونَ مَعَنَا، وَيَصُومُونَ مَعَنَا، وَيَحُجُّونَ مَعَنَا فَأَدْخَلْتَهُمُ النَّارَ، فَيَقُولُ:" اذْهَبُوا فَأَخْرِجُوا مَنْ عَرَفْتُمْ مِنْهُمْ فَيَأْتُونَهُمْ، فَيَعْرِفُونَهُمْ بِصُوَرِهِمْ، لَا تَأْكُلُ النَّارُ صُوَرَهُمْ، فَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ النَّارُ إِلَى أَنْصَافِ سَاقَيْهِ، وَمِنْهُمْ مَنْ أَخَذَتْهُ إِلَى كَعْبَيْهِ، فَيُخْرِجُونَهُمْ، فَيَقُولُونَ: رَبَّنَا أَخْرَجْنَا مَنْ قَدْ أَمَرْتَنَا، ثُمَّ يَقُولُ: أَخْرِجُوا مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ دِينَارٍ مِنَ الْإِيمَانِ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ وَزْنُ نِصْفِ دِينَارٍ، ثُمَّ مَنْ كَانَ فِي قَلْبِهِ مِثْقَالُ حَبَّةٍ مِنْ خَرْدَلٍ"، قَالَ أَبُو سَعِيدٍ: فَمَنْ لَمْ يُصَدِّقْ هَذَا فَلْيَقْرَأْ إِنَّ اللَّهَ لا يَظْلِمُ مِثْقَالَ ذَرَّةٍ وَإِنْ تَكُ حَسَنَةً يُضَاعِفْهَا وَيُؤْتِ مِنْ لَدُنْهُ أَجْرًا عَظِيمًا سورة النساء آية 40.
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جب اللہ تعالیٰ مومنوں کو جہنم سے نجات دیدے گا، اور وہ امن میں ہو جائیں گے تو وہ اپنے ان بھائیوں کی نجات کے لیے جو جہنم میں داخل کر دئیے گئے ہوں گے، اپنے رب سے ایسی بحث و تکرار کریں گے ۱؎ کہ کسی نے دنیا میں اپنے حق کے لیے اپنے ساتھی سے بھی ویسا نہیں کیا ہو گا۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: وہ عرض کریں گے: اے ہمارے رب! یہ ہمارے بھائی ہیں جو ہمارے ساتھ نماز پڑھتے تھے، روزہ رکھتے تھے، اور حج کرتے تھے، تو نے ان کو جہنم میں داخل کر دیا! اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جاؤ ان میں سے جنہیں تم پہچانتے ہو نکال لو، وہ مومن ان جہنمیوں کے پاس آئیں گے، اور انہیں ان کے چہروں سے پہچان لیں گے، آگ ان کی صورتوں کو نہیں کھائے ہو گی، کسی کو آگ نے اس کی آدھی پنڈلیوں تک اور کسی کو ٹخنوں تک پکڑ لیا ہو گا، پھر وہ مومن ان کو جہنم سے نکالیں گے اور عرض کریں گے: اے ہمارے رب! جن کو تو نے نکالنے کا حکم دیا تھا ہم نے ان کو نکال لیا، پھر اللہ تعالیٰ فرمائے گا: جس شخص کے دل میں ایک دینار کے برابر ایمان ہو اس کو بھی جہنم سے نکال لو، پھر جس کے دل میں آدھا دینار کے برابر ایمان ہو، پھر جس کے دل میں رائی کے دانے کے برابر ایمان ہو۔ ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں: جس کو اس پر یقین نہ آئے وہ اس آیت کو پڑھ لے: «إن الله لا يظلم مثقال ذرة وإن تك حسنة يضاعفها ويؤت من لدنه أجرا عظيما»  یعنی: بیشک اللہ تعالیٰ ذرہ برابر ظلم نہیں کرتا، اور اگر نیکی ہو تو اسے دوگنا کر دیتا ہے، اور اپنے پاس سے بہت بڑا ثواب دیتا ہے (سورة النساء: 40) ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن النسائی/الإیمان 18 (5013)، (تحفة الأشراف: 4178)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/ الإیمان 15 (22)، الرقاق 51 (6560)، صحیح مسلم/الإیمان 81 (183) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی اصرار کے ساتھ سفارش کریں گے۔ ۲؎: اس حدیث سے بھی ایمان کی زیادتی اور کمی کا ہونا ظاہر ہوتا ہے، اور جہنم سے نجات ایمان کی زیادتی اور کمی پر منحصر ہے، نیز صالحین کی شفاعت و سفارش پر۔

It was narrated that Abu Sa'eed Khudri said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'When Allah has saved the believers from Hell and they are safe, none of you will dispute with his companion more vehemently for some right of his in this world than the believers will dispute with their Lord on behalf of their brothers in faith who have entered Hell. They will say: " Our Lord! They are our brothers, they used to pray with us, fast with us and perform Hajj with us, and you have admitted them to Hell." He will say: "Go and bring forth those whom you recognize among them." So they will come to them , and they will recognize them by their faces. The Fire will not consume their faces, although there will be some whom the Fire will seize halfway up their shins, and others whom it will seize up to their ankles. They will bring them forth, and will say. "Our Lord, we have brought forth those whom You commanded us to bring forth." Then He will say: "Bring forth those who have a Dinar's weight of faith in their hearts, then those who have half a Dinar's weight in their hearts, then those who have a mustard-seed's weight." Abu Sa'eed said. :"He who does not believe this, let him recite, 'Surely, Allah wrongs not even of the weight of an atom (or a small ant), but is there is any good (done), He doubles it, and gives from Him a great reward.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 61
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، حدثنا حماد بن نجيح وكان ثقة، عن ابي عمران الجوني ، عن جندب بن عبد الله قال:" كنا مع النبي صلى الله عليه وسلم، ونحن فتيان حزاورة، فتعلمنا الإيمان قبل ان نتعلم القرآن، ثم تعلمنا القرآن فازددنا به إيمانا".
(موقوف) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ نَجِيحٍ وَكَانَ ثِقَةً، عَنْ أَبِي عِمْرَانَ الْجَوْنِيِّ ، عَنْ جُنْدُبِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ قَالَ:" كُنَّا مَعَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَنَحْنُ فِتْيَانٌ حَزَاوِرَةٌ، فَتَعَلَّمْنَا الْإِيمَانَ قَبْلَ أَنْ نَتَعَلَّمَ الْقُرْآنَ، ثُمَّ تَعَلَّمْنَا الْقُرْآنَ فَازْدَدْنَا بِهِ إِيمَانًا".
جندب بن عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ تھے، اور ہم طاقتور نوجوان تھے، ہم نے قرآن سیکھنے سے پہلے ایمان کو سیکھا، پھر ہم نے قرآن سیکھا، تو اس سے ہمارا ایمان اور زیادہ (بڑھ) ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3264، ومصباح الزجاجة: 23) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Jundub bin 'Abdullah said: "We were with the Prophet (ﷺ), and we were strong youths, so we learned faith before we learned Qur'an. Then we learned Qur'an and our faith increased thereby.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 62
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا محمد بن فضيل ، حدثنا علي بن نزار ، عن ابيه ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صنفان من هذه الامة ليس لهما في الإسلام نصيب، المرجئة، والقدرية".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ فُضَيْلٍ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ نِزَارٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صِنْفَانِ مِنْ هَذِهِ الْأُمَّةِ لَيْسَ لَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ، الْمُرْجِئَةُ، وَالْقَدَرِيَّةُ".
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس امت کے دو گروہ ایسے ہوں گے کہ اسلام میں ان کا کوئی حصہ نہیں: ایک مرجیہ ۱؎ اور دوسرا قدریہ (منکرین قدر) ۲؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏سنن الترمذی/القدر 13 (2149)، (تحفة الأشراف: 6222) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 73) (اس کی تحسین امام ترمذی نے کی ہے '' حسن غریب'' لیکن اس میں تین راوی ضعیف ہیں، محمد بن فضیل میں تشیع ہے، علی بن نزار ضعیف ہیں، اور نزار عکرمہ سے ایسی احادیث روایت کرتے ہیں جو عکرمہ کی نہیں ہوتیں، لیکن واضح رہے کہ یہ دونوں فرقے (مرجئہ وقدریہ) عقائد میں گمراہی کی وجہ سے اہل سنت کے نزدیک گمراہ فرقوں میں شمار کئے جاتے ہیں)

وضاحت:
۱؎: مرجئہ ارجاء سے ہے، جس کے معنی تاخیر کے ہیں، یہ ایک گمراہ فرقہ ہے جس کا عقیدہ ہے کہ ایمان کے ساتھ کوئی معصیت (گناہ) نقصان دہ نہیں جیسے کفر کے ساتھ کوئی نیکی نفع بخش نہیں، ان کے نزدیک ایمان محض دل سے تصدیق اور زبان سے اقرار کا نام ہے، جب کہ اہل سنت کے نزدیک ایمان کے تین ارکان ہیں، دل سے تصدیق کرنا، زبان سے اقرار کرنا، اور اعضاء و جوارح سے عمل کرنا۔ ۲؎: قدریہ جبریہ کے خلاف ہیں، جو اپنے کو مجبور محض کہتے ہیں اور یہ بڑی گمراہی کی بات ہے، اور قدریہ کی نسبت قدر کی طرف ہے، یعنی اللہ کی تقدیر پر جو اس نے قبل مخلوقات مقدر کی، غرض وہ مدعی ہیں کہ بندہ اپنے افعال کا خود خالق ہے، کفر ہو یا معصیت و گناہ اور انہوں نے انکار کیا کہ یہ امور تقدیر الٰہی ہیں، یہ گمراہ فرقہ ہے اور غلطی پر ہے۔ قضا و قدر پر ایمان لانے کا مطلب یہ ہے کہ ہم یہ اعتقاد رکھیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ کو ہمارے اعمال و افعال اور ہمارے انجام کار کے بارے میں شروع ہی سے علم ہے، اسی نے ہماری قسمتوں کے فیصلے کر رکھے ہیں، اس لئے ہر بری اور بھلی تقدیر کی بات پر ہمارا ایمان ہے، ساتھ ہی ہمارا یہ اعتقاد ہے کہ اللہ تعالیٰ نے انسانوں کو بااختیار مخلوق پیدا کیا ہے، جسے عقل و شعور کی نعمت سے نوازا ہے اور اس کی ہدایت کے لئے شروع ہی سے انبیاء و رسل بھیجے ہیں اور آخر میں نبی آخر الزماں محمد ﷺ کو مبعوث فرمایا تاکہ انسان وحی کی روشنی میں زندگی گزار کر اللہ رب العزت کے یہاں سرخرو ہو۔

It was narrated that Ibn 'Abbas said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'There are two types of people among this Ummah who have no share of Islam: The Murji'ah and the Qadariyyah.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 63
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا علي بن محمد ، حدثنا وكيع ، عن كهمس بن الحسن ، عن عبد الله بن بريدة ، عن يحيى بن يعمر ، عن ابن عمر ، عن عمر ، قال: كنا جلوسا عند النبي صلى الله عليه وسلم، فجاء رجل شديد بياض الثياب، شديد سواد شعر الراس، لا يرى عليه اثر السفر، ولا يعرفه منا احد، قال: فجلس إلى النبي صلى الله عليه وسلم فاسند ركبته إلى ركبته، ووضع يديه على فخذيه، ثم قال: يا محمد ما الإسلام؟ قال:" شهادة ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، وصوم رمضان، وحج البيت"، فقال: صدقت، فعجبنا منه يساله، ويصدقه , ثم قال: يا محمد ما الإيمان؟ قال:" ان تؤمن بالله، وملائكته، ورسله، وكتبه، واليوم الآخر، والقدر خيره، وشره"، قال: صدقت، فعجبنا منه يساله، ويصدقه , ثم قال: يا محمد ما الإحسان؟ قال:" ان تعبد الله كانك تراه، فإنك إن لا تراه، فإنه يراك، قال: فمتى الساعة؟ قال:" ما المسئول عنها باعلم من السائل، قال: فما امارتها؟ قال:" ان تلد الامة ربتها"، قال وكيع: يعني: تلد العجم العرب، وان ترى الحفاة العراة العالة رعاء الشاء يتطاولون في البناء، قال: ثم قال: فلقيني النبي صلى الله عليه وسلم بعد ثلاث فقال:" اتدري من الرجل" قلت: الله ورسوله اعلم، قال:" ذاك جبريل اتاكم يعلمكم معالم دينكم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، عَنْ كَهْمَسِ بْنِ الْحَسَنِ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ بُرَيْدَةَ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ يَعْمَرَ ، عَنِ ابْنِ عُمَرَ ، عَنْ عُمَرَ ، قَالَ: كُنَّا جُلُوسًا عِنْدَ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَجَاءَ رَجُلٌ شَدِيدُ بَيَاضِ الثِّيَابِ، شَدِيدُ سَوَادِ شَعَرِ الرَّأْسِ، لَا يُرَى عَلَيْهِ أَثَرُ السَّفَرِ، وَلَا يَعْرِفُهُ مِنَّا أَحَدٌ، قَالَ: فَجَلَسَ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَأَسْنَدَ رُكْبَتَهُ إِلَى رُكْبَتِهِ، وَوَضَعَ يَدَيْهِ عَلَى فَخِذَيْهِ، ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ:" شَهَادَةُ أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَإِقَامُ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءُ الزَّكَاةِ، وَصَوْمُ رَمَضَانَ، وَحَجُّ الْبَيْتِ"، فَقَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ , ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَرُسُلِهِ، وَكُتُبِهِ، وَالْيَوْمِ الْآخِرِ، وَالْقَدَرِ خَيْرِهِ، وَشَرِّهِ"، قَالَ: صَدَقْتَ، فَعَجِبْنَا مِنْهُ يَسْأَلُهُ، وَيُصَدِّقُهُ , ثُمَّ قَالَ: يَا مُحَمَّدُ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ:" أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: فَمَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ:" مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، قَالَ: فَمَا أَمَارَتُهَا؟ قَالَ:" أَنْ تَلِدَ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا"، قَالَ وَكِيعٌ: يَعْنِي: تَلِدُ الْعَجَمُ الْعَرَبَ، وَأَنْ تَرَى الْحُفَاةَ الْعُرَاةَ الْعَالَةَ رِعَاءَ الشَّاءِ يَتَطَاوَلُونَ فِي الْبِنَاءِ، قَالَ: ثُمَّ قَالَ: فَلَقِيَنِي النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بَعْدَ ثَلَاثٍ فَقَالَ:" أَتَدْرِي مَنِ الرَّجُلُ" قُلْتُ: اللَّهُ وَرَسُولُهُ أَعْلَمُ، قَالَ:" ذَاكَ جِبْرِيلُ أَتَاكُمْ يُعَلِّمُكُمْ مَعَالِمَ دِينِكُمْ".
عمر بن الخطاب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ہم نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھے ہوئے تھے کہ اچانک ایک شخص آیا، جس کے کپڑے انتہائی سفید اور سر کے بال نہایت کالے تھے، اس پہ سفر کے آثار ظاہر نہیں تھے، اور ہم میں سے کوئی اسے پہچانتا بھی نہ تھا، وہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس بیٹھ گیا، اور اپنا گھٹنا آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے گھٹنے سے ملا لیا، اور اپنے دونوں ہاتھ آپ صلی اللہ علیہ وسلم کی دونوں ران پر رکھا، پھر بولا: اے محمد! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اس بات کی گواہی دینا کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، نماز قائم کرنا، زکاۃ ادا کرنا، رمضان کے روزے رکھنا، اور خانہ کعبہ کا حج کرنا، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ اور اس کے فرشتوں، اس کے رسولوں، اس کی کتابوں، یوم آخرت، اور بھلی بری تقدیر پر ایمان رکھو، اس نے کہا: آپ نے سچ فرمایا، تو ہمیں تعجب ہوا کہ خود ہی سوال کر رہا ہے، اور خود ہی جواب کی تصدیق بھی۔ پھر اس نے کہا: اے محمد! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اس کو نہیں دیکھتے ہو تو یقین رکھو کہ وہ تم کو ضرور دیکھ رہا ہے۔ پھر اس نے پوچھا: قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھ رہے ہو، وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا ۱؎۔ پھر اس نے پوچھا: اس کی نشانیاں کیا ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: لونڈی اپنے مالکن کو جنے گی (وکیع راوی حدیث نے کہا: یعنی عجمی عورتیں عرب کو جنیں گی) ۲؎ اور تم ننگے پاؤں، ننگے بدن، فقیر و محتاج بکریوں کے چرواہوں کو دیکھو گے کہ وہ بڑی بڑی کوٹھیوں اور محلات کے بنانے میں فخر و مسابقت سے کام لیں گے۔ راوی کہتے ہیں: پھر عمر رضی اللہ عنہ نے کہا کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم مجھ سے تین دن کے بعد ملے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کیا تم جانتے ہو وہ شخص کون تھا؟، میں نے کہا: اللہ اور اس کے رسول بہتر جانتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: یہ جبرائیل تھے جو تمہیں تمہارے دین کی اہم اور بنیادی باتیں سکھانے آئے تھے ۳؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 1 (8)، سنن ابی داود/السنة 17 (4695، 4696، 4697)، سنن الترمذی/الإیمان 4 (2610)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4993)، (تحفة الأشراف: 10572)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الإیمان 37 (50)، تفسیر سورة لقمان 2 (4777)، مسند احمد (1 / 27، 28، 51، 52) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث سے یہ معلوم ہوا کہ: ۱ مفتی سے اگر ایسی بات پوچھی جائے جو اسے معلوم نہیں تو  «لا أدري» کہہ دے یعنی میں نہیں جانتا، اور یہ اس کی کسر شان کا سبب نہیں کیونکہ نبی کریم ﷺ نے قیامت کے سلسلہ کے سوال کے جواب میں یہی فرمایا۔ 2 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ جو شخص عالم کی مجلس میں حاضر ہو اور لوگوں کو کسی مسئلے کے بارے میں پوچھنے کی حاجت ہو تو وہ عالم سے پوچھ لے تاکہ اس کا جواب سب لوگ سن لیں۔ 3 اور یہ بھی معلوم ہوا کہ مفتی کو چاہئے کہ سائل کو نرمی سے سمجھا دے، اور محبت سے بتلا دے تاکہ علمی اور دینی فوائد کا دروازہ بند نہ ہو جائے، اور سائل کے لئے ضروری ہے کہ وہ عالم دین اور مفتی کے ساتھ کمال ادب کا مظاہرہ کرے، اور اس کی مجلس میں وقار اور ادب سے بیٹھے۔ ۲؎: لونڈی اپنی مالکن کو جنے گی: یعنی ملک فتح ہوں گے، اور لونڈیاں مال غنیمت میں کثرت سے حاصل ہوں گی، اور کثرت سے لوگ ان لونڈیوں کے مالک ہوں گے، اور ان لونڈیوں کی ان کے آقا سے اولاد ہوگی اور وہ آزاد ہوں گے، اور وہ اپنی ماؤں کو لونڈیاں جانیں گے، اور بعض روایتوں میں  «ربتها» کی جگہ  «ربها» وارد ہوا ہے۔ ۳؎: اس حدیث کو حدیث جبرئیل کہتے ہیں اور یہ ظاہری اور باطنی ساری عبادات اور اخلاص و عمل کی ساری صورتوں کو شامل ہے، اور ہر طرح کے واجبات اور سنن اور معروف و منکر کو محیط ہے۔

It was narrated that 'Umar said: "We were sitting with the Prophet (ﷺ) when a man came to him whose clothes were intensely white and whose hair was intensely black; no signs of travel could be seen upon him, and none of us recognized him. He sat down facing the Prophet (ﷺ), with his knees touching his, and he put his hands on his thighs, and said: 'O Muhammad, what is Islam?' He said: 'To testify that none has the right to be worshipped but Allah, and that I am the Messenger of Allah, to establish regular prayer, to pay Zakat, to fast in Ramadan, and to perform Hajj to the House (the Ka'bah).' He said: 'You have spoken the truth.' We were amazed by him: He asked a question, then told him that he had spoken the truth. Then he said: 'O Muhammad, what is Iman faith? He said: 'To believe in Allah, His angels, His Messengers, His books, the Last day, and the Divine Decree (Qadar), both the good of it and the bad of it.' He said' You have spoken the truth.' We were amazed by him. He asked a question, then told him that he had spoken the truth. Then he said: 'O Muhammad, what is Ihsan (right action, goodness, sincerity)? He said: 'To worship Allah as if you see Him, for even though you do not see Him, He sees you.' He asked: "When will the Hour be?' He said: 'The one who is being asked about it does not know more than the one who is asking.' He asked: 'Then what are its signs?' he said: 'When the slave woman gives birth to her mistress' (Waki' said: This means when non-Arabs will give birth to Arabs") 'and when you see barefoot, naked, destitute shepherds competing in constructing tall buildings.' The Prophet (ﷺ) met me three days later and asked me: 'Do you know who that man was? I said" 'Allah and his Messenger know best.' He said: 'That was Jibril, who came to you to teach you your religion.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 64
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا إسماعيل ابن علية ، عن ابي حيان ، عن ابي زرعة ، عن ابي هريرة ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم، يوما بارزا للناس، فاتاه رجل، فقال: يا رسول الله ما الإيمان؟ قال: ان تؤمن بالله، وملائكته، وكتبه، ورسله، ولقائه، وتؤمن بالبعث الآخر، قال: يا رسول الله ما الإسلام؟ قال: ان تعبد الله، ولا تشرك به شيئا، وتقيم الصلاة المكتوبة، وتؤتى الزكاة المفروضة، وتصوم رمضان"، قال: يا رسول الله ما الإحسان؟ قال: ان تعبد الله كانك تراه، فإنك إن لا تراه، فإنه يراك، قال: يا رسول الله متى الساعة؟ قال: ما المسئول عنها باعلم من السائل، ولكن ساحدثك عن اشراطها، إذا ولدت الامة ربتها، فذلك من اشراطها، وإذا تطاول رعاء الغنم في البنيان فذلك من اشراطها في خمس لا يعلمهن إلا الله، فتلا رسول الله صلى الله عليه وسلم إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الارحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس باي ارض تموت إن الله عليم خبير سورة لقمان آية 34.
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل ابْنُ عُلَيَّةَ ، عَنْ أَبِي حَيَّانَ ، عَنْ أَبِي زُرْعَةَ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، يَوْمًا بَارِزًا لِلنَّاسِ، فَأَتَاهُ رَجُلٌ، فَقَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِيمَانُ؟ قَالَ: أَنْ تُؤْمِنَ بِاللَّهِ، وَمَلَائِكَتِهِ، وَكُتُبِهِ، وَرُسُلِهِ، وَلِقَائِهِ، وَتُؤْمِنَ بِالْبَعْثِ الْآخِرِ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِسْلَامُ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ، وَلَا تُشْرِكَ بِهِ شَيْئًا، وَتُقِيمَ الصَّلَاةَ الْمَكْتُوبَةَ، وَتُؤْتِى الزَّكَاةَ الْمَفْرُوضَةَ، وَتَصُومَ رَمَضَانَ"، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَا الْإِحْسَانُ؟ قَالَ: أَنْ تَعْبُدَ اللَّهَ كَأَنَّكَ تَرَاهُ، فَإِنَّكَ إِنْ لَا تَرَاهُ، فَإِنَّهُ يَرَاكَ، قَالَ: يَا رَسُولَ اللَّهِ مَتَى السَّاعَةُ؟ قَالَ: مَا الْمَسْئُولُ عَنْهَا بِأَعْلَمَ مِنَ السَّائِلِ، وَلَكِنْ سَأُحَدِّثُكَ عَنْ أَشْرَاطِهَا، إِذَا وَلَدَتِ الْأَمَةُ رَبَّتَهَا، فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا، وَإِذَا تَطَاوَلَ رِعَاءُ الْغَنَمِ فِي الْبُنْيَانِ فَذَلِكَ مِنْ أَشْرَاطِهَا فِي خَمْسٍ لَا يَعْلَمُهُنَّ إِلَّا اللَّهُ، فَتَلَا رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ إِنَّ اللَّهَ عِنْدَهُ عِلْمُ السَّاعَةِ وَيُنَزِّلُ الْغَيْثَ وَيَعْلَمُ مَا فِي الأَرْحَامِ وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ مَاذَا تَكْسِبُ غَدًا وَمَا تَدْرِي نَفْسٌ بِأَيِّ أَرْضٍ تَمُوتُ إِنَّ اللَّهَ عَلِيمٌ خَبِيرٌ سورة لقمان آية 34.
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک دن لوگوں میں باہر بیٹھے تھے کہ ایک آدمی آپ کے پاس آیا، اور اس نے کہا: اللہ کے رسول! ایمان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان یہ ہے کہ تم اللہ، اس کے فرشتوں، اس کی کتابوں، اس کے رسولوں، اس سے ملاقات اور یوم آخرت پر ایمان رکھو ۱؎۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! اسلام کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اسلام یہ ہے کہ تم اللہ کی عبادت کرو، اس کے ساتھ کسی کو بھی شریک نہ کرو، فرض نماز قائم کرو، فرض زکاۃ ادا کرو، اور رمضان کے روزے رکھو۔ اس نے کہا: اللہ کے رسول! احسان کیا ہے؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: احسان یہ ہے کہ اللہ کی عبادت اس طرح کرو گویا کہ تم اس کو دیکھ رہے ہو، اگر تم اسے نہیں دیکھ رہے ہو تو یہ سمجھو کہ وہ تمہیں ضرور دیکھ رہا ہے۔ اس نے پوچھا: اللہ کے رسول! قیامت کب آئے گی؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس سے پوچھ رہے ہو وہ پوچھنے والے سے زیادہ نہیں جانتا، لیکن میں تم کو اس کی نشانیاں بتاؤں گا: جب لونڈی اپنی مالکن کو جنے تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، اور جب بکریوں کے چرواہے اونچی اونچی عمارتوں پر فخر و مسابقت کریں تو یہ اس کی نشانیوں میں سے ہے، قیامت کی آمد ان پانچ چیزوں میں سے ایک ہے جن کو اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی نہیں جانتا، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ آیت کریمہ تلاوت فرمائی: «إن الله عنده علم الساعة وينزل الغيث ويعلم ما في الأرحام وما تدري نفس ماذا تكسب غدا وما تدري نفس بأي أرض تموت إن الله عليم خبير» بیشک اللہ ہی کے پاس قیامت کا علم ہے، وہی بارش نازل فرماتا ہے، اور ماں کے پیٹ میں جو ہے اسے وہی جانتا ہے، کوئی نہیں جانتا کہ کل وہ کیا کرے گا، نہ کسی کو یہ معلوم ہے کہ وہ کس سر زمین میں مرے گا، اللہ ہی علیم (پورے علم والا) اور خبیر (خبر رکھنے والا ہے) (سورة لقمان: 34)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 37 (50)، تفسیر لقمان 2 (4777)، صحیح مسلم/الإیمان 1 (9)، (تحفة الأشراف: 14929)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/السنة 17 (4695)، سنن النسائی/الإیمان 5 (4996)، مسند احمد (2/ 426) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 4044) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: علماء اہل سنت اور عام محدثین کا اس پر اتفاق ہے کہ ایمان تین چیزوں سے مرکب ہے: 1 دل سے یقین کرنا، 2 زبان سے اقرار کرنا، 3 کتاب و سنت سے ثابت شدہ فرائض اور اعمال کو اعضاء و جوارح سے بجا لانا، اور جس قدر صالح اعمال زیادہ ہوں گے ایمان بھی زیادہ ہو گا، اور جس قدر اعمال میں کمی ہو گی ایمان میں کمی ہو گی، کتاب و سنت میں اس پر بے شمار دلائل ہیں۔

It was narrated that Abu Hurairah said: "One day the Prophet (ﷺ) appeared among the people. A man came to him and said: 'O messenger of Allah, what is Iman (faith)?' He said: 'To believe in Allah, His angels, His books, His Messengers and the meeting with, and to believe in the Final Resurrection.' He said: 'O Messenger of Allah, what is Islam?' He said: 'To worship Allah (alone) and not to associate anything with Him; to establish the prescribed prayers, to pay the obligatory Zakat, and to fast Ramadan.' He said: 'O Messenger of Allah, what is Ihsan? He said: 'To worship Allah as if you see Him, for even though you do not see Him, He sees you.' He said: "O Messenger of Allah, when will the Hour be?' He said: 'The one who is being asked about it does not know more than the one who is asking. But I will tell you about its signs. When the slave woman gives birth to her mistress that is one of its signs. When the shepherds compete in constructing tall buildings that is one of its signs. And there are five things which no one knows except Allah.' Then the Messenger of Allah (ﷺ) recited the Verse: "Verily, Allah, with Him (Alone) is the knowledge of the Hour, He sends down the rain, and knows that which is in the wombs. No person knows what he will earn tomorrow, and no person knows in what land he will die. Verily, Allah is All-Knower, All-Aware (of things)."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 65
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا سهل بن ابي سهل ، ومحمد بن إسماعيل ، قالا: حدثنا عبد السلام بن صالح ابو الصلت الهروي ، حدثنا علي بن موسى الرضا ، عن ابيه ، عن جعفر بن محمد ، عن ابيه ، عن علي بن الحسين ، عن ابيه ، عن علي بن ابي طالب ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" الإيمان معرفة بالقلب، وقول باللسان، وعمل بالاركان". قال ابو الصلت: لو قرئ هذا الإسناد على مجنون لبرا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا سَهْلُ بْنُ أَبِي سَهْلٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل ، قَالَا: حَدَّثَنَا عَبْدُ السَّلَامِ بْنُ صَالِحٍ أَبُو الصَّلْتِ الْهَرَوِيُّ ، حَدَّثَنَا عَلِيُّ بْنُ مُوسَى الرِّضَا ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ جَعْفَرِ بْنِ مُحَمَّدٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ الْحُسَيْنِ ، عَنْ أَبِيهِ ، عَنْ عَلِيِّ بْنِ أَبِي طَالِبٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" الْإِيمَانُ مَعْرِفَةٌ بِالْقَلْبِ، وَقَوْلٌ بِاللِّسَانِ، وَعَمَلٌ بِالْأَرْكَانِ". قَالَ أَبُو الصَّلْتِ: لَوْ قُرِئَ هَذَا الْإِسْنَادُ عَلَى مَجْنُونٍ لَبَرَأَ.
علی رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایمان دل کی معرفت، زبان سے اقرار اور اعضائے بدن سے عمل کا نام ہے۔ ابوالصلت کہتا ہے: یہ سند ایسی ہے کہ اگر دیوانے پر پڑھ دی جائے تو وہ اچھا ہو جائے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10076، ومصباح الزجاجة: 24) (موضوع)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں ''عبدالسلام بن صالح ابو الصّلت الہروی'' رافضی کذاب اور متہم بالوضع راوی ہے، اس بناء پر یہ حدیث موضوع ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 2270، والموضو عات لابن الجوزی: 1/128، وتلخیص الموضوعات: 26 بتحقیق سنن ابی داود/ عبد الرحمن الفریوائی)

It was narrated that 'Ali bin Abu Talib said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Faith is knowledge in the heart, words on the tongue and action with the physical faculties. (limbs of the body).'" (Maudu')
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: موضوع
حدیث نمبر: 66
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، ومحمد بن المثنى ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت قتادة يحدث، عن انس بن مالك ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" لا يؤمن احدكم حتى يحب لاخيه، او قال: لجاره ما يحب لنفسه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ يُحَدِّثُ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى يُحِبَّ لِأَخِيهِ، أَوْ قَالَ: لِجَارِهِ مَا يُحِبُّ لِنَفْسِهِ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ وہ اپنے بھائی (یا اپنے پڑوسی) کے لیے وہی چیز پسند نہ کرے جو وہ اپنے لیے پسند کرتا ہے ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 7 (13)، صحیح مسلم/الإیمان 17 (45)، سنن الترمذی/صفة القیامة 59 (2515)، سنن النسائی/الإیمان 19 (5019)، (تحفة الأشراف: 1239)، وقد أخرجہ: مسند احمد (1/89، 3/171، 172، 176، 206)، سنن الدارمی/الرقاق 29 (2782) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: یعنی کامل مومن نہیں ہو سکتا، اس حدیث سے مسلمانوں کی باہمی خیر خواہی کی اہمیت و فضیلت ظاہر ہوئی، اس سنہری اصول پر اگر مسلمان عمل کرنے لگ جائیں تو معاشرے سے لوٹ کھسوٹ، رشوت، بددیانتی، جھوٹ فریب وغیرہ بیماریاں خودبخود ختم ہو جائیں گی۔

It was narrated from Anas bin Malik that: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'None of you truly believes until he loves for his brother" or he said "for his neighbor, what he loves for himself."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 67
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن بشار ، ومحمد بن المثنى ، قالا: حدثنا محمد بن جعفر ، حدثنا شعبة ، قال: سمعت قتادة ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" لا يؤمن احدكم حتى اكون احب إليه من ولده، ووالده، والناس اجمعين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ بَشَّارٍ ، وَمُحَمَّدُ بْنُ الْمُثَنَّى ، قَالَا: حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ جَعْفَرٍ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، قَالَ: سَمِعْتُ قَتَادَةَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" لَا يُؤْمِنُ أَحَدُكُمْ حَتَّى أَكُونَ أَحَبَّ إِلَيْهِ مِنْ وَلَدِهِ، وَوَالِدِهِ، وَالنَّاسِ أَجْمَعِينَ".
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم میں سے کوئی شخص مومن نہیں ہو سکتا جب تک کہ میں اس کے نزدیک اس کی اولاد، اس کے والد، اور تمام لوگوں سے زیادہ محبوب نہ ہو جاؤں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 7 (13)، 8 (15)، صحیح مسلم/الإیمان 16 (44)، سنن النسائی/الایمان 19 (5016)، سنن الترمذی/صفة القیامة 59 (2515)، (تحفة الأشراف: 1239)، وقد أخرجہ: مسند احمد (3/177، 207) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: معلوم ہوا کہ جب تک ساری دنیا کے رسم و رواج اور عادات و رسوم، اور اپنی آل اولاد اور ماں باپ سے زیادہ سنت کی محبت نہ ہو اس وقت تک ایمان کامل نہیں، پھر جتنی اس محبت میں کمی ہو گی اتنی ہی ایمان میں کمی ہو گی۔

It was narrated that Anas bin Malik said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'None of you truly believes until I am more beloved to him than his child, his father and all the people.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 68
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن ابي شيبة ، حدثنا وكيع ، وابو معاوية ، عن الاعمش ، عن ابي صالح ، عن ابي هريرة ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: والذي نفسي بيده،" لا تدخلوا الجنة حتى تؤمنوا، ولا تؤمنوا حتى تحابوا، او لا ادلكم على شيء إذا فعلتموه تحاببتم، افشوا السلام بينكم".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ أَبِي شَيْبَةَ ، حَدَّثَنَا وَكِيعٌ ، وَأَبُو مُعَاوِيَةَ ، عَنِ الْأَعْمَشِ ، عَنْ أَبِي صَالِحٍ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: وَالَّذِي نَفْسِي بِيَدِهِ،" لَا تَدْخُلُوا الْجَنَّةَ حَتَّى تُؤْمِنُوا، وَلَا تُؤْمِنُوا حَتَّى تَحَابُّوا، أَوَ لَا أَدُلُّكُمْ عَلَى شَيْءٍ إِذَا فَعَلْتُمُوهُ تَحَابَبْتُمْ، أَفْشُوا السَّلَامَ بَيْنَكُمْ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: قسم اس ذات کی! جس کے ہاتھ میں میری جان ہے، تم جنت میں اس وقت تک نہیں داخل ہو سکتے جب تک کہ تم ایمان نہ لے آؤ، اور تم اس وقت تک مومن نہیں ہو سکتے جب تک کہ آپس میں محبت نہ کرنے لگو، کیا میں تمہیں ایسی چیز نہ بتاؤں کہ جب تم اسے اپنا لو تو ایک دوسرے سے محبت کرنے لگو گے! آپس میں سلام کو عام کرو ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح مسلم/الإیمان 22 (54)، سنن الترمذی/الاستئذان 1 (2688)، (تحفة الأشراف: 12469، 12513)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الأدب 142 (5193)، مسند احمد (1/165، 2/391)، (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3692) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس کا یہ مطلب نہیں کہ محض سلام کرنے ہی سے تم مومن قرار دیے جاؤ گے، اور جنت کے مستحق ہو جاؤ گے، بلکہ مطلب یہ کہ ایمان اسی وقت مفید ہو گا جب اس کے ساتھ عمل بھی ہو گا، اور سلام اسلام کا ایک شعار اور ایمان کا عملی مظاہرہ ہے، ایمان اور عمل کا اجتماع ہی مومن کو جنت میں لے جائے گا، اس حدیث میں سلام عام کرنے کی تاکید ہے کیونکہ یہ مسلمانوں میں باہمی الفت و محبت پیدا کرنے کا بڑا موثر ذریعہ ہے۔

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'By the One in whose Hand is my soul! You will not enter Paradise until you believe, and you will not (truly) believe until you love one another. Shall I not tell you of something which, if you do it, you will love one another? Spread the greetings of Salam amongst yourselves.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 69
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن عبد الله بن نمير ، حدثنا عفان ، حدثنا شعبة ، عن الاعمش . ح وحدثنا هشام بن عمار ، حدثنا عيسى بن يونس ، حدثنا الاعمش ، عن ابي وائل ، عن عبد الله ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" سباب المسلم فسوق، وقتاله كفر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ نُمَيْرٍ ، حَدَّثَنَا عَفَّانُ ، حَدَّثَنَا شُعْبَةُ ، عَنِ الْأَعْمَشِ . ح وحَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا عِيسَى بْنُ يُونُسَ ، حَدَّثَنَا الْأَعْمَشُ ، عَنْ أَبِي وَائِلٍ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: قَال رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" سِبَابُ الْمُسْلِمِ فُسُوقٌ، وَقِتَالُهُ كُفْرٌ".
عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مسلمان کو گالی دینا فسق (نافرمانی) ہے، اور اس سے لڑائی کرنا کفر ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الإیمان 38 (48)، الأدب 44 (7044)، الفتن 8 (7076)، صحیح مسلم/الإیمان 28 (64)، سنن النسائی/المحاربة (تحریم الدم) 27 (4114، 4115، 4116)، (تحفة الأشراف: 9243، 9251، 9299)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/البر والصلة 52 (1983)، الإیمان 15 (2635)، مسند احمد (1/385، 411، 417، 433) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 393) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Verbally abusing a Muslim is immorality and fighting him is Kufr (disbelief).'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 70
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا نصر بن علي الجهضمي ، حدثنا ابو احمد ، حدثنا ابو جعفر الرازي ، عن الربيع بن انس ، عن انس بن مالك ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" من فارق الدنيا على الإخلاص لله وحده، وعبادته لا شريك له، وإقام الصلاة، وإيتاء الزكاة، مات والله عنه راض"قال انس: وهو دين الله الذي جاءت به الرسل وبلغوه عن ربهم قبل هرج الاحاديث، واختلاف الاهواء، وتصديق ذلك في كتاب الله، في آخر ما نزل يقول الله: فإن تابوا سورة التوبة آية 5 قال: خلعوا الاوثان وعبادتها واقاموا الصلاة وآتوا الزكاة سورة التوبة آية 5، وقال في آية اخرى: فإن تابوا، واقاموا الصلاة، وآتوا الزكاة، فإخوانكم في الدين.
(مرفوع) حَدَّثَنَا نَصْرُ بْنُ عَلِيٍّ الْجَهْضَمِيُّ ، حَدَّثَنَا أَبُو أَحْمَدَ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ الرَّازِيُّ ، عَنِ الرَّبِيعِ بْنِ أَنَسٍ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" مَنْ فَارَقَ الدُّنْيَا عَلَى الْإِخْلَاصِ لِلَّهِ وَحْدَهُ، وَعِبَادَتِهِ لَا شَرِيكَ لَهُ، وَإِقَامِ الصَّلَاةِ، وَإِيتَاءِ الزَّكَاةِ، مَاتَ وَاللَّهُ عَنْهُ رَاضٍ"قَالَ أَنَسٌ: وَهُوَ دِينُ اللَّهِ الَّذِي جَاءَتْ بِهِ الرُّسُلُ وَبَلَّغُوهُ عَنْ رَبِّهِمْ قَبْلَ هَرْجِ الْأَحَادِيثِ، وَاخْتِلَافِ الْأَهْوَاءِ، وَتَصْدِيقُ ذَلِكَ فِي كِتَابِ اللَّهِ، فِي آخِرِ مَا نَزَلَ يَقُولُ اللَّهُ: فَإِنْ تَابُوا سورة التوبة آية 5 قَالَ: خَلَعُوا الْأَوْثَانِ وَعِبَادَتِهَا وَأَقَامُوا الصَّلاةَ وَآتَوُا الزَّكَاةَ سورة التوبة آية 5، وَقَالَ فِي آيَةٍ أُخْرَى: فَإِنْ تَابُوا، وَأَقَامُوا الصَّلَاةَ، وَآتَوْا الزَّكَاةَ، فَإِخْوَانُكُمْ فِي الدِّينِ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: جس نے دنیا کو اس حال میں چھوڑا کہ خالص اللہ واحد کی عبادت کرتا رہا، اور اس کے ساتھ کسی کو شریک نہیں کیا، نماز قائم کی، اور زکاۃ ادا کی، تو اس کی موت اس حال میں ہو گی کہ اللہ اس سے راضی ہو گا۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یہی اللہ کا دین ہے جس کو رسول لے کر آئے، اور اپنے رب کی طرف سے اس کی تبلیغ کی، اس سے پہلے کہ دین میں لوگوں کی باتوں اور طرح طرح کی خواہشوں کی ملاوٹ اور آمیزش ہو۔ اور اس کی تصدیق اللہ کی کتاب میں سب سے آخر میں نازل ہونے والی سورۃ (براءۃ) میں موجود ہے، اللہ تعالیٰ فرماتا ہے: «فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة» الآية، یعنی: اگر وہ توبہ کریں اور نماز قائم کریں، اور زکاۃ ادا کریں (سورۃ التوبہ: ۵)۔ انس رضی اللہ عنہ نے کہا: یعنی بتوں کو چھوڑ دیں اور ان کی عبادت سے دستبردار ہو جائیں، اور نماز قائم کریں، زکاۃ دیں (تو ان کا راستہ چھوڑ دو)۔ اور دوسری آیت میں یہ ہے: «فإن تابوا وأقاموا الصلاة وآتوا الزكاة فإخوانكم في الدين» یعنی: اگر وہ توبہ کریں، نماز قائم کریں، زکاۃ دیں تو وہ تمہارے دینی بھائی ہیں (سورۃ التوبہ: ۱۱) ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 832، ومصباح الزجاجة: 25) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں ابو جعفر الرازی اور ربیع بن انس ضعیف ہیں)

وضاحت:
۱؎: پوری آیت اتنی ہی ہے جو اوپر گذری، اللہ تعالیٰ اس میں مشرکوں کا حال بیان کرتے ہوئے فرماتا ہے کہ اگر وہ توبہ کے بعد نماز و زکاۃ ادا کریں تو تمہارے بھائی ہیں، اور خلاصہ حدیث یہ ہے کہ اللہ تعالیٰ نے اپنے رسولوں کو توحید سکھانے کے لئے بھیجا ہے، اور دین کا دارومدار توحید و اخلاص پر ہے، اور نماز و زکاۃ ظاہری اعمال صالحہ میں سب سے اہم اور بنیادی رکن ہیں۔

It was narrated that Anas bin Malik said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'Whoever departs this world with sincerity towards Allah, worshipping Him alone with no partner, establishing regular prayer and paying Zakat, he dies while Allah is pleased with him.'" Anas said: "This is the religion of Allah which was brought by the Messengers, and which they conveyed from their Lord before there arose the confusion of people's chattering and conflicting desires. This is confirmed in the Book of Allah, in one of the Last Verses to be revealed, where Allah says: "But if they repent." Renounce their idols and worshipping them; "And establish Salat and give Zakat." And Allah says in another Verse." But if they repent, perform Salat and give Zakat, then they are your brethren in religion." (Da'if) Another chain with similar wording.
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 70M
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
اس سند سے ربیع بن انس رحمہ اللہ سے اسی معنی کی حدیث مروی ہے۔

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 71
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا ابو النضر ، حدثنا ابو جعفر ، عن يونس ، عن الحسن ، عن ابي هريرة ، قال، قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، ويقيموا الصلاة، ويؤتوا الزكاة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو النَّضْرِ ، حَدَّثَنَا أَبُو جَعْفَرٍ ، عَنْ يُونُسَ ، عَنِ الْحَسَنِ ، عَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ ، قَالَ، قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ".
ابوہریرہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے حکم دیا گیا ہے کہ میں لوگوں سے لڑوں، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور وہ نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 12259)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الزکاة 1 (1399)، 40 (1457)، المرتدین 3 (6924)، صحیح مسلم/الإیمان 8 (21)، سنن ابی داود/الزکاة 1 (1556)، سنن الترمذی/الإیمان 1 (2606)، سنن النسائی/الزکاة 3 (2442)، المحاربة 1 (3983)، مسند احمد (2/528) (یہ حدیث مکرر ہے، دیکھئے: 3927) (صحیح متواتر)» ‏‏‏‏ (اس کی سند حسن ہے، لیکن اصل حدیث متواتر ہے)

وضاحت:
۱؎: اس سے اسلام کے چار بنیادی ارکان معلوم ہوئے: ۱۔ توحید باری تعالیٰ، ۲۔ رسالت محمدیہ کا یقین و اقرار، ۳۔ اقامت نماز، ۴۔ زکاۃ کی ادائیگی، یہ یاد رہے کہ دوسری صحیح حدیث:  «بني الإسلام على خمس» میں اسلام کے پانچویں رکن روزہ کا بھی ذکر ہے۔

It was narrated that Abu Hurairah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'I have been commanded to fight the people until they testify to La ilaha ill-allah (none has the right to be worshipped but Allah) and that I am the Messenger of Allah, and establish regular prayers and pay Zakat.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح متواتر
حدیث نمبر: 72
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا احمد بن الازهر ، حدثنا محمد بن يوسف ، حدثنا عبد الحميد بن بهرام ، عن شهر بن حوشب ، عن عبد الرحمن بن غنم ، عن معاذ بن جبل ، قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" امرت ان اقاتل الناس حتى يشهدوا ان لا إله إلا الله، واني رسول الله، ويقيموا الصلاة، ويؤتوا الزكاة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ الْأَزْهَرِ ، حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ يُوسُفَ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ الْحَمِيدِ بْنُ بَهْرَامَ ، عَنْ شَهْرِ بْنِ حَوْشَبٍ ، عَنْ عَبْدِ الرَّحْمَنِ بْنِ غَنْمٍ ، عَنْ مُعَاذِ بْنِ جَبَلٍ ، قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" أُمِرْتُ أَنْ أُقَاتِلَ النَّاسَ حَتَّى يَشْهَدُوا أَنْ لَا إِلَهَ إِلَّا اللَّهُ، وَأَنِّي رَسُولُ اللَّهِ، وَيُقِيمُوا الصَّلَاةَ، وَيُؤْتُوا الزَّكَاةَ".
معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: مجھے لوگوں سے قتال (لڑنے) کا حکم دیا گیا ہے، یہاں تک کہ وہ اس بات کی گواہی دینے لگیں کہ اللہ کے سوا کوئی معبود برحق نہیں، اور میں اللہ کا رسول ہوں، اور نماز قائم کرنے، اور زکاۃ دینے لگیں۔‏‏‏‏

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11340، ومصباح الزجاجة: 26)، وقد أخرجہ: مسند احمد (2/28، 5 245) (صحیح متواتر)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں شہر بن حوشب ضعیف راوی ہیں، لیکن شواہد سے یہ حسن ہے، بلکہ اصل حدیث متواتر ہے، ملاحظہ ہو: مجمع الزوائد: 1/ 24)

It was narrated that Mu'adh bin Jabal said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'I have been commanded to fight the people until they testify to La ilaha ill-allah (none has the right to be worshipped but Allah) and that I am the Messenger of Allah, and establish regular prayers and pay Zakat.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح متواتر
حدیث نمبر: 73
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن إسماعيل الرازي ، انبانا يونس بن محمد ، حدثنا عبد الله بن محمد الليثي ، حدثنا نزار بن حيان ، عن عكرمة ، عن ابن عباس ، وعن جابر بن عبد الله ، قالا: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم:" صنفان من امتي ليس لهما في الإسلام نصيب، اهل الإرجاء، واهل القدر".
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ إِسْمَاعِيل الرَّازِيُّ ، أَنْبَأَنَا يُونُسُ بْنُ مُحَمَّدٍ ، حَدَّثَنَا عَبْدُ اللَّهِ بْنُ مُحَمَّدٍ اللَّيْثِيُّ ، حَدَّثَنَا نِزَارُ بْنُ حَيَّانَ ، عَنْ عِكْرِمَةَ ، عَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَا: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" صِنْفَانِ مِنْ أُمَّتِي لَيْسَ لَهُمَا فِي الْإِسْلَامِ نَصِيبٌ، أَهْلُ الْإِرْجَاءِ، وَأَهْلُ الْقَدَرِ".
ابن عباس اور جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت میں دو قسم کے لوگ ایسے ہوں گے کہ ان کا اسلام میں کوئی حصہ نہیں: ایک مرجئہ اور دوسرے قدریہ (منکرین قدر)۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 2498، ومصباح الزجاجة: 27) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (اس کی سند میں نزار بن حیان ضعیف راوی ہیں، اور عکرمہ سے ایسی روایت کرتے ہیں، جو ان کی نہیں ہو تی، اور عبدالرحمن محمدا للیثی مجہول ہیں)

It was narrated that Ibn 'Abbas and Jabir bin 'Abdullah said: "The Messenger of Allah (ﷺ) said: 'There are two types among my Ummah who have no share of Islam: the people of Irja' and the people of Qadar.'"
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 74
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عثمان البخاري سعيد بن سعد، قال: حدثنا الهيثم بن خارجة، قال: حدثنا إسماعيل يعني ابن عياش، عن عبد الوهاب بن مجاهد، عن مجاهد، عن ابن عباس، وعن ابي هريرة، قال:" الإيمان يزيد وينقص".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ سَعِيدُ بْنُ سَعْدٍ، قَالَ: حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ بْنُ خَارِجَةَ، قَالَ: حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل يَعْنِي ابْنَ عَيَّاشٍ، عَنْ عَبْدِ الْوَهَّابِ بْنِ مُجَاهِدٍ، عَنِ مُجَاهِدٍ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ، وَعَنْ أَبِي هُرَيْرَةَ، قَالَ:" الْإِيمَانُ يَزِيدُ وَيَنْقُصُ".
ابوہریرہ اور عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہم دونوں کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا، اور گھٹتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 6411، 14352) (ضعیف جدًا)» ‏‏‏‏ (سند میں عبد الوہاب بن مجاہد متروک الحدیث راوی ہے، لیکن سلف صالحین کے ایمان کی زیادتی اور نقصان پر بکثر ت اقوال ہیں، اور آیات کریمہ سے اس کی تصدیق ہوتی ہے، نیز اس باب میں بعض مرفوع روایت مروی ہے، جو صحیح نہیں ہے، ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1123)

It was narrated that Abu Hurairah and Ibn 'Abbas said: "Faith increases and decreases."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا
حدیث نمبر: 75
پی ڈی ایف بنائیں مکررات اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو عثمان البخاري، حدثنا الهيثم، حدثنا إسماعيل، عن جرير بن عثمان، عن الحارث اظنه، عن مجاهد، عن ابي الدرداء، قال:" الإيمان يزداد، وينقص".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو عُثْمَانَ الْبُخَارِيُّ، حَدَّثَنَا الْهَيْثَمُ، حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل، عَنْ جَرِيرِ بْنِ عُثْمَانَ، عَنِ الْحَارِثِ أَظُنُّهُ، عَنْ مُجَاهِدٍ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ، قَالَ:" الْإِيمَانُ يَزْدَادُ، وَيَنْقُصُ".
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ ایمان بڑھتا اور گھٹتا ہے۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 10960) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں حارث کو شک ہے کہ انہوں نے مجاہد سے روایت کی ہے، اس لئے اس سے انقطاع سند کا اشارہ ملتا ہے)

It was narrated that Abu Hurairah and Ibn 'Abbas said: "Faith increases and decreases."
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: ضعيف

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.