الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب إقامة الصلاة والسنة
کتاب: اقامت صلاۃ اور اس کے سنن و آداب اور احکام و مسائل
Establishing the Prayer and the Sunnah Regarding Them
199. . بَابُ: مَا جَاءَ فِي بَدْءِ شَأْنِ الْمِنْبَرِ
باب: منبر رسول پہلے کیسے بنا؟
حدیث نمبر: 1414
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا إسماعيل بن عبد الله الرقي ، حدثنا عبيد الله بن عمرو الرقي ، عن عبد الله بن محمد بن عقيل ، عن الطفيل بن ابي بن كعب ، عن ابيه ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يصلي إلى جذع إذ كان المسجد عريشا، وكان يخطب إلى ذلك الجذع"، فقال رجل من اصحابه: هل لك ان نجعل لك شيئا تقوم عليه يوم الجمعة حتى يراك الناس وتسمعهم خطبتك؟، قال: نعم، فصنع له ثلاث درجات، فهي التي اعلى المنبر، فلما وضع المنبر وضعوه في موضعه الذي هو فيه،" فلما اراد رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يقوم إلى المنبر، مر إلى الجذع الذي كان يخطب إليه، فلما جاوز الجذع خار حتى تصدع وانشق، فنزل رسول الله صلى الله عليه وسلم لما سمع صوت الجذع، فمسحه بيده حتى سكن، ثم رجع إلى المنبر، فكان إذا صلى صلى إليه"، فلما هدم المسجد وغير، اخذ ذلك الجذع ابي بن كعب، وكان عنده في بيته حتى بلي، فاكلته الارضة وعاد رفاتا.
(مرفوع) حَدَّثَنَا إِسْمَاعِيل بْنُ عَبْدِ اللَّهِ الرَّقِّيُّ ، حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ عَمْرٍو الرَّقِّيُّ ، عَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ مُحَمَّدِ بْنِ عَقِيلٍ ، عَنْ الطُّفَيْلِ بْنِ أُبَيِّ بْنِ كَعْبٍ ، عَنْ أَبِيهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يُصَلِّي إِلَى جِذْعٍ إِذْ كَانَ الْمَسْجِدُ عَرِيشًا، وَكَانَ يَخْطُبُ إِلَى ذَلِكَ الْجِذْعِ"، فَقَالَ رَجُلٌ مِنْ أَصْحَابِهِ: هَلْ لَكَ أَنْ نَجْعَلَ لَكَ شَيْئًا تَقُومُ عَلَيْهِ يَوْمَ الْجُمُعَةِ حَتَّى يَرَاكَ النَّاسُ وَتُسْمِعَهُمْ خُطْبَتَكَ؟، قَالَ: نَعَمْ، فَصَنَعَ لَهُ ثَلَاثَ دَرَجَاتٍ، فَهِيَ الَّتِي أَعْلَى الْمِنْبَرِ، فَلَمَّا وُضِعَ الْمِنْبَرُ وَضَعُوهُ فِي مَوْضِعِهِ الَّذِي هُوَ فِيهِ،" فَلَمَّا أَرَادَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يَقُومَ إِلَى الْمِنْبَرِ، مَرَّ إِلَى الْجِذْعِ الَّذِي كَانَ يَخْطُبُ إِلَيْهِ، فَلَمَّا جَاوَزَ الْجِذْعَ خَارَ حَتَّى تَصَدَّعَ وَانْشَقَّ، فَنَزَلَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا سَمِعَ صَوْتَ الْجِذْعِ، فَمَسَحَهُ بِيَدِهِ حَتَّى سَكَنَ، ثُمَّ رَجَعَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَكَانَ إِذَا صَلَّى صَلَّى إِلَيْهِ"، فَلَمَّا هُدِمَ الْمَسْجِدُ وَغُيِّرَ، أَخَذَ ذَلِكَ الْجِذْعَ أُبَيُّ بْنُ كَعْبٍ، وَكَانَ عِنْدَهُ فِي بَيْتِهِ حَتَّى بَلِيَ، فَأَكَلَتْهُ الْأَرَضَةُ وَعَادَ رُفَاتًا.
ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ جب مسجد چھپر کی تھی تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے کی طرف نماز پڑھتے تھے، اور اسی تنے پر ٹیک لگا کر خطبہ دیتے تھے، تو صحابہ کرام رضی اللہ عنہم میں سے ایک شخص نے کہا: کیا آپ اجازت دیتے ہیں کہ ہم آپ کے لیے کوئی ایسی چیز بنائیں جس پر آپ جمعہ کے دن کھڑے ہو کر خطبہ دیں تاکہ لوگ آپ کو دیکھ سکیں، اور آپ انہیں اپنا خطبہ سنا سکیں؟ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ہاں پھر اس شخص نے تین سیڑھیاں بنائیں، یہی منبر کی اونچائی ہے، جب منبر تیار ہو گیا، تو لوگوں نے اسے اس مقام پہ رکھا جہاں اب ہے، جب نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے منبر پر کھڑے ہونے کا ارادہ کیا، تو اس تنے کے پاس سے گزرے جس کے سہارے آپ خطبہ دیا کرتے تھے، جب آپ تنے سے آگے بڑھ گئے تو وہ رونے لگا، یہاں تک کہ پھوٹ پھوٹ کر رویا، اس وقت آپ منبر سے اترے اور اس پر اپنا ہاتھ پھیرا، تب وہ خاموش ہوا، ۱؎ پھر آپ منبر پہ لوٹے، جب آپ نماز پڑھتے تھے تو اسی تنے کی جانب پڑھتے تھے، پھر جب (عمر رضی اللہ عنہ کے زمانہ میں تعمیر نو کے لیے) مسجد ڈھائی گئی، اور اس کی لکڑیاں بدل دی گئیں، تو اس تنے کو ابی بن کعب رضی اللہ عنہ نے لے لیا، اور وہ ان کے گھر ہی میں رہا یہاں تک کہ پرانا ہو گیا، پھر اسے دیمک کھا گئی، اور وہ گل کر ریزہ ریزہ ہو گیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 34، ومصباح الزجاجة: 499)، وقد أخرجہ: مسند احمد (5/137)، سنن الدارمی/المقدمة 6 (36) (حسن)» ‏‏‏‏ (کھجور کے تنے کی گریہ وزاری سے متعلق کئی احادیث ہیں، جب کہ بعض اس بارے میں ہیں، نیز تفصیل کے لئے دیکھئے فتح الباری 6؍603)

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں نبی اکرم ﷺ کا ایک مشہور معجزہ مذکور ہے، یعنی لکڑی کا آپ ﷺ کی جدائی کے غم میں رونا، نیز اس سے معلوم ہوتا ہے کہ ہر چیز میں نفس اور جان ہے، یہ اللہ تعالیٰ کی قدرت سے کچھ بعید نہیں کہ وہ جس کو چاہے قوت گویائی عطا کر دے، اور اس حدیث سے یہ بھی معلوم ہو کہ منبر نبوی کی تین سیڑھیاں تھیں۔

It was narrated from Tufail bin Ubayy bin Ka’b that his father said: “The Messenger of Allah (ﷺ) used to pray facing the trunk of a date- palm tree when the mosque was still a hut, and he used to deliver the sermon leaning on that trunk. A man from among his Companions said: ‘Would you like us to make you something upon which you can stand on Fridays so that the people will be able to see you and hear your sermon?’ He said: ‘Yes.’ So he made three steps for him, as a pulpit. When they put the pulpit in place, they put it in the place where it stands now. When the Messenger of Allah (ﷺ) wanted to stand on the pulpit, he passed by the tree trunk from which he used to deliver the sermon, and when he went beyond the trunk, it moaned and split and cracked. The Messenger of Allah (ﷺ) came down when he heard the voice of the trunk, and rubbed it with his hand until it fell silent. Then he went back to the pulpit and when he prayed, he prayed facing it. When the mosque was knocked down (for renovation) and (the pillars, etc.) were changed, Ubayy bin Ka’b took that trunk and kept it in his house until it became very old and the termites consumed it and it became grains of dust.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: حسن
حدیث نمبر: 1415
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بكر بن خلاد الباهلي ، حدثنا بهز بن اسد ، حدثنا حماد بن سلمة ، عن عمار بن ابي عمار ، عن ابن عباس ، وعن ثابت ، عن انس ، ان النبي صلى الله عليه وسلم:" كان يخطب إلى جذع، فلما اتخذ المنبر ذهب إلى المنبر، فحن الجذع، فاتاه فاحتضنه، فسكن، فقال: لو لم احتضنه لحن إلى يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بَكْرِ بْنُ خَلَّادٍ الْبَاهِلِيُّ ، حَدَّثَنَا بَهْزُ بْنُ أَسَدٍ ، حَدَّثَنَا حَمَّادُ بْنُ سَلَمَةَ ، عَنْ عَمَّارِ بْنِ أَبِي عَمَّارٍ ، عَنْ ابْنِ عَبَّاسٍ ، وَعَنْ ثَابِتٍ ، عَنْ أَنَسٍ ، أَنّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" كَانَ يَخْطُبُ إِلَى جِذْعٍ، فَلَمَّا اتَّخَذَ الْمِنْبَرَ ذَهَبَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَحَنَّ الْجِذْعُ، فَأَتَاهُ فَاحْتَضَنَهُ، فَسَكَنَ، فَقَالَ: لَوْ لَمْ أَحْتَضِنْهُ لَحَنَّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
انس رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم کھجور کے ایک تنے کے سہارے خطبہ دیتے تھے، جب منبر تیار ہو گیا تو آپ منبر کی طرف چلے، وہ تنا رونے لگا تو آپ نے اسے اپنے گود میں لے لیا، تو وہ خاموش ہو گیا، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اگر میں اسے گود میں نہ لیتا تو وہ قیامت تک روتا رہتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفر د بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 389، 6297، ومصباح الزجاجة: 500)، وقد أخرجہ: سنن الترمذی/المناقب 6 (3631)، مسند احمد (1/ 249، 267، 266، 363)، سنن الدارمی/المقدمة 6 (40) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated from Anas that the Prophet (ﷺ) used to deliver the sermon leaning on a tree trunk. When he started to use the pulpit, he went to the pulpit, and the trunk made a sorrowful sound. So he came to it and embraced it, and it calmed down. He said: “If I had not embraced it, it would have continued to grieve until the Day of Resurrection.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1416
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(موقوف) حدثنا احمد بن ثابت الجحدري ، حدثنا سفيان بن عيينة ، عن ابي حازم ، قال: اختلف الناس في منبر رسول الله صلى الله عليه وسلم، من اي شيء هو؟ فاتوا سهل بن سعد فسالوه: فقال: ما بقي احد من الناس اعلم به مني،" هو من اثل الغابة، عمله فلان مولى فلانة نجار، فجاء به، فقام عليه حينما وضع فاستقبل القبلة، وقام الناس خلفه، فقرا، ثم ركع، ثم رفع راسه، فرجع القهقرى حتى سجد بالارض، ثم عاد إلى المنبر، فقرا، ثم ركع فقام، ثم رجع القهقرى حتى سجد بالارض".
(موقوف) حَدَّثَنَا أَحْمَدُ بْنُ ثَابِتٍ الْجَحْدَرِيُّ ، حَدَّثَنَا سُفْيَانُ بْنُ عُيَيْنَةَ ، عَنْ أَبِي حَازِمٍ ، قَالَ: اخْتَلَفَ النَّاسُ فِي مِنْبَرِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، مِنْ أَيِّ شَيْءٍ هُوَ؟ فَأَتَوْا سَهْلَ بْنَ سَعْدٍ فَسَأَلُوهُ: فَقَالَ: مَا بَقِيَ أَحَدٌ مِنَ النَّاسِ أَعْلَمُ بِهِ مِنِّي،" هُوَ مِنْ أَثْلِ الغَابَةِ، عَمِلَهُ فُلَانٌ مَوْلَى فُلَانَةَ نَجَّارٌ، فَجَاءَ بِهِ، فَقَامَ عَلَيْهِ حِينَمَا وُضِعَ فَاسْتَقْبَلَ الْقِبْلَةَ، وَقَامَ النَّاسُ خَلْفَهُ، فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ، ثُمَّ رَفَعَ رَأْسَهُ، فَرَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ، ثُمَّ عَادَ إِلَى الْمِنْبَرِ، فَقَرَأَ، ثُمَّ رَكَعَ فَقَامَ، ثُمَّ رَجَعَ الْقَهْقَرَى حَتَّى سَجَدَ بِالْأَرْضِ".
ابوحازم کہتے ہیں کہ لوگوں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے منبر کے بارے میں اختلاف کیا کہ وہ کس چیز کا بنا ہوا تھا، تو لوگ سہل بن سعد رضی اللہ عنہ کے پاس آئے، اور ان سے پوچھا؟ انہوں نے کہا: اب لوگوں میں کوئی ایسا باقی نہیں رہا جو اس منبر کا حال مجھ سے زیادہ جانتا ہو، وہ غابہ ۱؎ کے جھاؤ کا تھا، جس کو فلاں بڑھئی نے بنایا تھا، جو فلاں عورت کا غلام تھا، بہرحال وہ غلام منبر لے کر آیا، جب وہ رکھا گیا تو آپ اس پر کھڑے ہوئے، اور قبلہ کی طرف رخ کیا، اور لوگ آپ کے پیچھے کھڑے ہوئے، آپ نے قراءت کی پھر رکوع کیا، اور رکوع سے اپنا سر اٹھایا، اور الٹے پاؤں پیچھے ہٹے، اور زمین پہ سجدہ کیا، پھر منبر کی طرف لوٹ گئے، اور قراءت کی، پھر رکوع کیا پھر رکوع سے اٹھ کر سیدھے کھڑے ہوئے، پھر الٹے پاؤں پیچھے لوٹے، (اور منبر سے اتر کر) زمین پر سجدہ کیا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏صحیح البخاری/الصلاة 18 (377)، الجمعة 26 (917)، صحیح مسلم/المساجد 10 (544)، (تحفة الأشراف: 4690)، وقد أخرجہ: سنن ابی داود/الصلاة 221 (1080)، سنن النسائی/المساجد 45 (740)، مسند احمد (5/330)، سنن الدارمی/الصلاة 45 (1293) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: غابہ: ایک مقام کا نام ہے، جو مدینہ سے نو میل کے فاصلہ پر واقع ہے۔

It was narrated that Abu Hazim said: “The people differed concerning the pulpit of the Messenger of Allah (ﷺ) and what it was made of. So they came to Sahl bin Sa’d and asked him. He said: ‘There is no one left who knows more about that than I. It is made of tamarisk (a type of tree) from Ghabah. It was made by so-and-so, the freed slave of so- and-so (a woman), (who was) a carpenter. He brought it and he (the Prophet (ﷺ)) stood on it when it was put in position. He faced the Qiblah and the people stood behind him. He recited Qur’an, then bowed and raised his head, then he moved backwards until he prostrated on the ground, then he went back to the pulpit and recited Qur’an, then bowed and raised his head, then he moved backwards until he prostrated on the ground.”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 1417
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا ابو بشر بكر بن خلف ، حدثنا ابن ابي عدي ، عن سليمان التيمي ، عن ابي نضرة ، عن جابر بن عبد الله ، قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم:" يقوم إلى اصل شجرة، او قال إلى جذع، ثم اتخذ منبرا، قال: فحن الجذع، قال جابر: حتى سمعه اهل المسجد حتى اتاه رسول الله صلى الله عليه وسلم، فمسحه، فسكن، فقال بعضهم: لو لم ياته لحن إلى يوم القيامة".
(مرفوع) حَدَّثَنَا أَبُو بِشْرٍ بَكْرُ بْنُ خَلَفٍ ، حَدَّثَنَا ابْنُ أَبِي عَدِيٍّ ، عَنْ سُلَيْمَانَ التَّيْمِيِّ ، عَنْ أَبِي نَضْرَةَ ، عَنْ جَابِرِ بْنِ عَبْدِ اللَّهِ ، قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ:" يَقُومُ إِلَى أَصْلِ شَجَرَةٍ، أَوْ قَالَ إِلَى جِذْعٍ، ثُمَّ اتَّخَذَ مِنْبَرًا، قَالَ: فَحَنَّ الْجِذْعُ، قَالَ جَابِرٌ: حَتَّى سَمِعَهُ أَهْلُ الْمَسْجِدِ حَتَّى أَتَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، فَمَسَحَهُ، فَسَكَنَ، فَقَالَ بَعْضُهُمْ: لَوْ لَمْ يَأْتِهِ لَحَنَّ إِلَى يَوْمِ الْقِيَامَةِ".
جابر بن عبداللہ رضی اللہ عنہما کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک درخت کی جڑ، یا یوں کہا: ایک تنے کے سہارے کھڑے ہو کر خطبہ دیتے تھے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک منبر بنوا لیا، تو وہ تنا سسکیاں لے لے کر رونے لگا، یہاں تک کہ اس کے رونے کی آواز مسجد والوں نے بھی سنی، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس آئے، اس پر اپنا ہاتھ پھیرا، تو وہ خاموش ہو گیا، بعض نے کہا کہ اگر آپ صلی اللہ علیہ وسلم اس کے پاس نہ آتے تو وہ قیامت تک روتا رہتا۔

تخریج الحدیث: «‏‏‏‏تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 3115)، وقد أخرجہ: صحیح البخاری/الجمعة 26 (918)، المناقب 25 (3584)، سنن النسائی/الجمعة 17 (1397)، مسند احمد (3/306)، سنن الدارمی/الصلاة 202 (1603) (صحیح)» ‏‏‏‏

It was narrated that Jabir bin ‘Abdullah said: “The Messenger of Allah (ﷺ) used to stand by the root of a tree, or by a tree trunk, then he started to use a pulpit. The tree trunk made a grieving sound.” Jabir said: “So that the people in the mosque could hear it. Until the Messenger of Allah (ﷺ) came to it and rubbed it, and it calmed down. Some of them said: ‘If he had not come to it, it would have grieved until the Day of Resurrection.’”
USC-MSA web (English) Reference: 0


قال الشيخ الألباني: صحيح

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.