الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔

 

سنن ابن ماجه کل احادیث 4341 :حدیث نمبر
سنن ابن ماجه
كتاب الجهاد
کتاب: جہاد کے فضائل و احکام
The Chapters on Jihad
10. بَابُ: فَضْلِ غَزْوِ الْبَحْرِ
باب: سمندری جہاد کی فضیلت۔
حدیث نمبر: 2776
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا محمد بن رمح ، انبانا الليث ، عن يحيى بن سعيد ، عن ابن حبان هو محمد بن يحيى بن حبان ، عن انس بن مالك ، عن خالته ام حرام بنت ملحان ، انها قالت: نام رسول الله صلى الله عليه وسلم يوما قريبا مني ثم استيقظ يبتسم، فقلت: يا رسول الله، ما اضحكك؟ قال:" ناس من امتي عرضوا علي يركبون ظهر هذا البحر كالملوك على الاسرة"، قالت: فادع الله ان يجعلني منهم، قال: فدعا لها، ثم نام الثانية ففعل مثلها، ثم قالت مثل قولها، فاجابها مثل جوابه الاول، قالت: فادع الله ان يجعلني منهم، قال:" انت من الاولين"، قال: فخرجت مع زوجها عبادة بن الصامت غازية اول ما ركب المسلمون البحر مع معاوية بن ابي سفيان، فلما انصرفوا من غزاتهم قافلين فنزلوا الشام، فقربت إليها دابة لتركب، فصرعتها فماتت.
(مرفوع) حَدَّثَنَا مُحَمَّدُ بْنُ رُمْحٍ ، أَنْبَأَنَا اللَّيْثُ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ سَعِيدٍ ، عَنِ ابْنِ حَبَّانَ هُوَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى بْنِ حَبَّانَ ، عَنْ أَنَسِ بْنِ مَالِكٍ ، عَنْ خَالَتِهِ أُمِّ حَرَامٍ بِنْتِ مِلْحَانَ ، أَنَّهَا قَالَتْ: نَامَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَوْمًا قَرِيبًا مِنِّي ثُمَّ اسْتَيْقَظَ يَبْتَسِمُ، فَقُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ، مَا أَضْحَكَكَ؟ قَالَ:" نَاسٌ مِنْ أُمَّتِي عُرِضُوا عَلَيَّ يَرْكَبُونَ ظَهْرَ هَذَا الْبَحْرِ كَالْمُلُوكِ عَلَى الْأَسِرَّةِ"، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ: فَدَعَا لَهَا، ثُمَّ نَامَ الثَّانِيَةَ فَفَعَلَ مِثْلَهَا، ثُمَّ قَالَتْ مِثْلَ قَوْلِهَا، فَأَجَابَهَا مِثْلَ جَوَابِهِ الْأَوَّلِ، قَالَتْ: فَادْعُ اللَّهَ أَنْ يَجْعَلَنِي مِنْهُمْ، قَالَ:" أَنْتِ مِنَ الْأَوَّلِينَ"، قَالَ: فَخَرَجَتْ مَعَ زَوْجِهَا عُبَادَةَ بْنِ الصَّامِتِ غَازِيَةً أَوَّلَ مَا رَكِبَ الْمُسْلِمُونَ الْبَحْرَ مَعَ مُعَاوِيَةَ بْنِ أَبِي سُفْيَانَ، فَلَمَّا انْصَرَفُوا مِنْ غَزَاتِهِمْ قَافِلِينَ فَنَزَلُوا الشَّامَ، فَقُرِّبَتْ إِلَيْهَا دَابَّةٌ لِتَرْكَبَ، فَصَرَعَتْهَا فَمَاتَتْ.
انس بن مالک رضی اللہ عنہ اپنی خالہ ام حرام بنت ملحان رضی اللہ عنہا سے روایت کرتے ہیں وہ کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم ایک روز میرے قریب سوئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم مسکراتے ہوئے بیدار ہوئے، میں نے پوچھا: اللہ کے رسول! آپ کس بات پر مسکرا رہے ہیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: میری امت کے کچھ لوگ میرے سامنے لائے گئے جو اس سمندر کے اوپر اس طرح سوار ہو رہے ہیں جیسے بادشاہ تختوں پر بیٹھتے ہیں، ام حرام رضی اللہ عنہا نے کہا: اللہ سے آپ دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی ان ہی لوگوں میں سے کر دے، انس رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے ان کے لیے دعا فرما دی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم دوبارہ سو گئے، پھر ویسے ہی ہوا، آپ اٹھے تو ہنستے ہوئے، اور ام حرام رضی اللہ عنہا نے وہی پوچھا جو پہلی بار پوچھا تھا، اور آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے انہیں وہی جواب دیا جو پہلی بار دیا تھا، اس بار بھی انہوں نے عرض کیا: آپ اللہ سے دعا کر دیجئیے کہ وہ مجھے بھی انہی لوگوں میں سے کر دے، آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: تم پہلے لوگوں میں سے ہو۔ انس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں کہ وہ اپنے شوہر عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ کے ہمراہ جہاد کے لیے نکلیں، یہ پہلا موقع تھا کہ معاویہ بن ابی سفیان رضی اللہ عنہما کے ساتھ مسلمان بحری جہاد پر گئے تھے چنانچہ جب لوگ جہاد سے لوٹ رہے تھے تو شام میں رکے، ام حرام رضی اللہ عنہا کی سواری کے لیے ایک جانور لایا گیا، جس نے انہیں گرا دیا، اور وہ فوت ہو گئیں ۱؎۔

تخریج الحدیث: «صحیح البخاری/الجہاد 3 (2788)، 8 (2799)، 63 (2877)، 75 (2894)، 93 (2924)، الاستئذان 41 (6282)، التعبیر 12 (7001)، صحیح مسلم/الإمارة 49 (1912)، سنن ابی داود/الجہاد 10 (2490، 2492)، سنن الترمذی/فضائل الجہاد 15 (1645)، سنن النسائی/الجہاد 40 (3174)، (تحفة الأشراف: 18307)، وقد أخرجہ: موطا امام مالک/الجہاد 18 (39)، مسند احمد (3/264، 6/361، 423، 435)، سنن الدارمی/الجہاد 29 (2465) (صحیح)» ‏‏‏‏

وضاحت:
۱؎: اس حدیث میں نبی کریم ﷺ کے کئی معجزے مذکور ہیں: ایک تو اس بات کی پیش گوئی کہ اسلام کی ترقی ہو گی، دوسرے مسلمان سمندر میں جا کر جہاد کریں گے، تیسرے ام حرام رضی اللہ عنہا بھی ان مسلمانوں کے ساتھ ہوں گی اور اس وقت تک زندہ رہیں گی، چوتھے پھر ام حرام رضی اللہ عنہا کا انتقال ہو جائے گا اور دوسرے لشکر میں شریک نہیں ہو سکیں گی، یہ سب باتیں جو آپ ﷺ نے فرمائی تھیں پوری ہوئیں، اور یہ آپ ﷺ کی نبوت کی کھلی دلیلیں ہیں جو شخص نبی نہ ہو وہ ایسی صحیح پیشین گوئیاں نہیں کر سکتا، سب قوموں سے پہلے عرب کے مسلمانوں نے ہی سمندر میں بڑے بڑے سفر شروع کئے اور علم جہاز رانی میں وہ ساری قوموں کے استاد بن گئے، مگر افسوس ہے کہ گردش زمانہ سے اب یہ حال ہو گیا کہ عرب تمام علوم میں دوسر ی قوموں سے پیچھے رہ گئے ہیں، اور جو لوگ جاہل اور کم علم تھے یعنی یورپ کے لوگ وہ تمام جہاں کے لوگوں سے دنیاوی علوم و فنون میں سبقت لے گئے ہیں: «وتلك الأيام نداولها بين الناس» (سورة آل عمران: 140) اب بھی اگر مسلمانوں کی ترقی منظور ہے تو عربوں میں علوم اور فنون پھیلانے کی کوشش کرنی چاہئے، اور ان کو تمام جنگی علوم و فنون کی تعلیم دینا چاہئے، جب عرب پھر علوم میں ماہر ہو جائیں گے تو دنیا کی تمام اقوام کو ہلاکر رکھ دیں گے، یہ شرف اللہ تعالی نے صرف عربوں ہی کو دیا ہے۔ واضح رہے کہ ام حرام بنت ملحان انصاریہ رضی اللہ عنہا انس بن مالک کی خالہ ہیں، ان کی شادی عبادہ بن صامت رضی اللہ عنہ سے ہوئی تھی جن کے ساتھ وہ اس جہاد میں شریک ہوئیں اور سمندر کا سفر کیا بعد میں ایک جانور کی سواری سے گر کر انتقال ہوا اور قبرص میں دفن ہوئیں، یہ جنگ عثمان رضی اللہ عنہ کے عہد میں معاویہ رضی اللہ عنہ کی قیادت میں سن ۲۷ ہجری میں واقع ہوئی،ابوذر اور ابوالدرداء وغیرہ صحابہ کرام رضی اللہ عنہم اس جنگ میں شریک تھے، معاویہ رضی اللہ عنہ کی اہلیہ فاختہ بنت قرظہ رضی اللہ عنہا بھی اس جنگ میں شریک تھیں۔

قال الشيخ الألباني: صحيح
حدیث نمبر: 2777
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا هشام بن عمار ، حدثنا بقية ، عن معاوية بن يحيى ، عن ليث بن ابي سليم ، عن يحيى بن عباد ، عن ام الدرداء ، عن ابي الدرداء ، ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال:" غزوة في البحر مثل عشر غزوات في البر، والذي يسدر في البحر كالمتشحط في دمه في سبيل الله سبحانه".
(مرفوع) حَدَّثَنَا هِشَامُ بْنُ عَمَّارٍ ، حَدَّثَنَا بَقِيَّةُ ، عَنْ مُعَاوِيَةَ بْنِ يَحْيَى ، عَنْ لَيْثِ بْنِ أَبِي سُلَيْمٍ ، عَنْ يَحْيَى بْنِ عَبَّادٍ ، عَنْ أُمِّ الدَّرْدَاءِ ، عَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ ، أَنّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ:" غَزْوَةٌ فِي الْبَحْرِ مِثْلُ عَشْرِ غَزَوَاتٍ فِي الْبَرِّ، وَالَّذِي يَسْدَرُ فِي الْبَحْرِ كَالْمُتَشَحِّطِ فِي دَمِهِ فِي سَبِيلِ اللَّهِ سُبْحَانَهُ".
ابو الدرداء رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ایک بحری (سمندری) جہاد دس بری جہادوں کے برابر ہے، اور سمندر میں جس کا سر چکرائے وہ اس شخص کی طرح ہے جو اللہ کے راستے میں اپنے خون میں لوٹ رہا ہو۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 11001، ومصباح الزجاجة: 984) (ضعیف)» ‏‏‏‏ (سند میں معاویہ بن یحییٰ اور ان کے شیخ لیث بن ابی سلیم دونوں ضعیف را وی ہے، نیز ملاحظہ ہو: سلسلة الاحادیث الضعیفة، للالبانی: 1230)

قال الشيخ الألباني: ضعيف
حدیث نمبر: 2778
پی ڈی ایف بنائیں اعراب
(مرفوع) حدثنا عبيد الله بن يوسف الجبيري ، حدثنا قيس بن محمد الكندي ، حدثنا عفير بن معدان الشامي ، عن سليم بن عامر ، قال: سمعت ابا امامة ، يقول: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول:" شهيد البحر مثل شهيدي البر، والمائد في البحر كالمتشحط في دمه في البر، وما بين الموجتين كقاطع الدنيا في طاعة الله، وإن الله عز وجل وكل ملك الموت بقبض الارواح إلا شهيد البحر فإنه يتولى قبض ارواحهم، ويغفر لشهيد البر الذنوب كلها إلا الدين، ولشهيد البحر الذنوب والدين".
(مرفوع) حَدَّثَنَا عُبَيْدُ اللَّهِ بْنُ يُوسُفَ الْجُبَيْرِيُّ ، حَدَّثَنَا قَيْسُ بْنُ مُحَمَّدٍ الْكِنْدِيُّ ، حَدَّثَنَا عُفَيْرُ بْنُ مَعْدَانَ الشَّامِيُّ ، عَنْ سُلَيْمِ بْنِ عَامِرٍ ، قَالَ: سَمِعْتُ أَبَا أُمَامَةَ ، يَقُولُ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ:" شَهِيدُ الْبَحْرِ مِثْلُ شَهِيدَيِ الْبَرِّ، وَالْمَائِدُ فِي الْبَحْرِ كَالْمُتَشَحِّطِ فِي دَمِهِ فِي الْبَرِّ، وَمَا بَيْنَ الْمَوْجَتَيْنِ كَقَاطِعِ الدُّنْيَا فِي طَاعَةِ اللَّهِ، وَإِنَّ اللَّهَ عَزَّ وَجَلَّ وَكَلَ مَلَكَ الْمَوْتِ بِقَبْضِ الْأَرْوَاحِ إِلَّا شَهِيدَ الْبَحْرِ فَإِنَّهُ يَتَوَلَّى قَبْضَ أَرْوَاحِهِمْ، وَيَغْفِرُ لِشَهِيدِ الْبَرِّ الذُّنُوبَ كُلَّهَا إِلَّا الدَّيْنَ، وَلِشَهِيدِ الْبَحْرِ الذُّنُوبَ وَالدَّيْنَ".
ابواسامہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کو فرماتے سنا: سمندر کا شہید خشکی کے دو شہیدوں کے برابر ہے، سمندر میں جس کا سر چکرائے وہ خشکی میں اپنے خون میں لوٹنے والے کی مانند ہے، اور ایک موج سے دوسری موج تک جانے والا اللہ کی اطاعت میں پوری دنیا کا سفر کرنے والے کی طرح ہے، اللہ تعالیٰ نے روح قبض کرنے کے لیے ملک الموت (عزرائیل) کو مقرر کیا ہے، لیکن سمندر کے شہید کی جان اللہ تعالیٰ خود قبض کرتا ہے، خشکی میں شہید ہونے والے کے قرض کے علاوہ تمام گناہ معاف ہو جاتے ہیں، لیکن سمندر کے شہید کے قرض سمیت سارے گناہ معاف ہوتے ہیں۔

تخریج الحدیث: «تفرد بہ ابن ماجہ، (تحفة الأشراف: 4872، ومصباح الزجاجة: 985) (ضعیف جدا)» ‏‏‏‏ (سند میں عفیر بن معدان شامی سخت ضعیف روای ہے، نیز ملاحظہ ہو: الإرواء: 115)

قال الشيخ الألباني: ضعيف جدا

http://islamicurdubooks.com/ 2005-2023 islamicurdubooks@gmail.com No Copyright Notice.
Please feel free to download and use them as you would like.
Acknowledgement / a link to www.islamicurdubooks.com will be appreciated.