الحمدللہ ! قرآن پاک روٹ ورڈ سرچ اور مترادف الفاظ کی سہولت پیش کر دی گئی ہے۔
كتاب المواقيت کتاب: اوقات نماز کے احکام و مسائل 21. بَابُ: آخِرِ وَقْتِ الْعِشَاءِ باب: عشاء کے اخیر وقت کا بیان۔
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ایک رات عشاء میں تاخیر کی، تو عمر رضی اللہ عنہ نے آپ کو آواز دی کہ عورتیں اور بچے سو گئے، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے، اور فرمایا: ”تمہارے سوا اس نماز کا کوئی انتظار نہیں کر رہا ہے“ ۱؎، اور (اس وقت) صرف مدینہ ہی میں نماز پڑھی جا رہی تھی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”اسے شفق غائب ہونے سے لے کر تہائی رات تک پڑھو“۔ اور اس حدیث کے الفاظ ابن حمیر کے ہیں۔
تخریج الحدیث: «حدیث شعیب بن أبي حمزة عن الزہري عن عروة أخرجہ: صحیح البخاری/الأذان 161 (862)، 162 (864)، مسند احمد 6/ 272، (تحفة الأشراف: 16469)، وحدیث إبراہیم بن أبي عبلة عن الزہري عن عروة قد تفرد بہ النسائی، (تحفة الأشراف: 16405) (صحیح)»
وضاحت: ۱؎: مطلب یہ ہے کہ یہ شرف فضیلت صرف تم ہی کو حاصل ہے، اس لیے اس انتظار کو تم اپنے لیے باعث زحمت نہ سمجھو، بلکہ یہ تمہارے لیے شرف اور رحمت کا باعث ہے۔ قال الشيخ الألباني: صحيح
ام المؤمنین عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک رات نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے عشاء میں تاخیر کی یہاں تک کہ رات کا بہت سا حصہ گزر گیا، اور مسجد کے لوگ سو گئے، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نکلے اور نماز پڑھائی، اور فرمایا: ”یہی (اس نماز کا پسندیدہ) وقت ہے، اگر میں اپنی امت پر شاق نہ سمجھتا“ (تو اسے اس کا حکم دیتا)۔
تخریج الحدیث: «صحیح مسلم/المساجد 39 (638)، (تحفة الأشراف: 17984)، حصحیح مسلم/6 (150)، سنن الدارمی/الصلاة 19 (1250) (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
عبداللہ بن عمر رضی اللہ عنہم کہتے ہیں کہ ایک رات ہم نماز عشاء کے لیے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا انتظار کرتے رہے، جب تہائی یا اس سے کچھ زیادہ رات گزر گئی تو آپ نکل کر ہمارے پاس آئے، اور جس وقت نکل کر آئے آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: ”تم لوگ ایک ایسی نماز کا انتظار کر رہے ہو کہ تمہارے سوا کسی اور دین کا ماننے والا اس کا انتظار نہیں کر رہا ہے، اگر میں اپنی امت پر دشوار نہ سمجھتا تو انہیں اسی وقت نماز پڑھاتا“، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مؤذن کو حکم دیا، تو اس نے اقامت کہی، پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے نماز پڑھائی۔
تخریج الحدیث: «وقد أخرجہ: صحیح مسلم/المساجد 39 (639)، سنن ابی داود/الصلاة 7 (420)، (تحفة الأشراف: 7649)، مسند احمد 2/ 126 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
ابو سعید خدری رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے ہم لوگوں کو مغرب پڑھائی، پھر آپ نہیں نکلے یہاں تک کہ آدھی رات گزر گئی، پھر نکلے اور آپ نے لوگوں کو نماز پڑھائی، پھر فرمایا: ”لوگ نماز پڑھ کر سو گئے ہیں، اور تم لوگ جب تک نماز کا انتظار کرتے رہے نماز ہی میں تھے، اگر کمزور کی کمزوری، اور بیمار کی بیماری نہ ہوتی تو میں حکم دیتا کہ اس نماز کو آدھی رات تک مؤخر کیا جائے“۔
تخریج الحدیث: «سنن ابی داود/الصلاة 7 (422)، سنن ابن ماجہ/الصلاة 8 (693)، (تحفة الأشراف: 4314)، مسند احمد 3/5 (صحیح)»
قال الشيخ الألباني: صحيح
حمید کہتے ہیں: انس رضی اللہ عنہ سے پوچھا گیا کہ کیا نبی اکرم صلی اللہ علیہ وسلم نے انگوٹھی پہنی ہے؟ تو انہوں نے کہا: ہاں، ایک رات آپ نے آدھی رات کے قریب تک عشاء مؤخر کی، جب نماز پڑھ چکے تو آپ ہماری طرف متوجہ ہوئے اور آپ نے فرمایا: ”جب تک تم لوگ نماز کا انتظار کرتے رہے برابر نماز میں رہے“۔ انس کہتے ہیں: گویا میں آپ کی انگوٹھی کی چمک دیکھ رہا ہوں۔
تخریج الحدیث: «حدیث إسماعیل عن حمید أخرجہ: صحیح البخاری/المواقیت 25 (572)، الأذان 36 (661)، 156 (847)، اللباس 48 (5869)، وقد أخرجہ: (تحفة الأشراف: 578)، مسند احمد 3/182، 189، 200، 267، وحدیث خالد عن حمید أخرجہ: سنن ابن ماجہ/الصلاة 8 (692)، (تحفة الأشراف: 635) (صحیح) علی بن حجر کی روایت میں ’’إلی قریب من شطرا للیل‘‘ کے بجائے ’’إلی شطر اللیل“ہے۔»
قال الشيخ الألباني: صحيح
|