وعن عائشة قالت: خرجنا مع رسول الله صلى الله عليه وسلم عام حجة الوداع فمنا من اهل بعمرة ومنا من اهل بحج وعمرة ومنا من اهل بالحج واهل رسول الله صلى الله عليه وسلم بالحج فاما من اهل بعمرة فحل واما من اهل بالحج او جمع الحج والعمرة فلم يحلوا حتى كان يوم النحر وَعَنْ عَائِشَةَ قَالَتْ: خَرَجْنَا مَعَ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَامَ حَجَّةِ الْوَدَاعِ فَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِحَجٍّ وَعُمْرَةٍ وَمِنَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ وَأَهَلَّ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ بِالْحَجِّ فَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِعُمْرَةٍ فَحَلَّ وَأَمَّا مَنْ أَهَلَّ بِالْحَجِّ أَوْ جَمَعَ الْحَجَّ وَالْعُمْرَةَ فَلَمْ يَحِلُّوا حَتَّى كَانَ يَوْمُ النَّحْرِ
عائشہ رضی اللہ عنہ بیان کرتی ہیں، ہم حجۃ الوداع کے سال رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے ساتھ روانہ ہوئے۔ ہم میں سے کسی نے عمرہ کا تلبیہ پکارا، کسی نے حج اور عمرہ کا اور کسی نے حج کا تلبیہ پکارا، جبکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کا تلبیہ پکارا۔ جس نے عمرے کا تلبیہ پکارا تھا اس نے احرام کھول دیا، اور جنہوں نے حج یا حج اور عمرہ دونوں کا احرام باندھا تھا تو انہوں نے دس ذوالحجہ تک احرام نہ کھولا۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1562) و مسلم (1211/118)»
وعن ابن عمر رضي الله عنهما قال: تمتع رسول الله صلى الله عليه وسلم في حجة الوداع بالعمرة إلى الحج بدا فاهل بالعمرة ثم اهل بالحج وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا قَالَ: تَمَتَّعَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فِي حَجَّةِ الْوَدَاعِ بِالْعُمْرَةِ إِلَى الْحَجِّ بدأَ فأهلَّ بالعمْرةِ ثمَّ أهلَّ بالحجّ
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حجۃ الوداع کے موقع پر حج کے ساتھ عمرہ ملایا تھا، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے پہلے عمرے کے لیے تلبیہ کہا اور پھر حج کے لیے۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1961) و مسلم (174 / 1227)»
عن زيد بن ثابت انه راى النبي صلى الله عليه وسلم تجرد لإهلاله واغتسل. رواه الترمذي والدارمي عَنْ زَيْدِ بْنِ ثَابِتٍ أَنَّهُ رَأَى النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ تَجَرَّدَ لِإِهْلَالِهِ وَاغْتَسَلَ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ والدارمي
زید بن ثابت رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو دیکھا کہ آپ نے احرام باندھنے کے لیے اپنا لباس اتارا اور غسل کیا (پھر احرام باندھا)۔ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (830 و قال: حسن غريب) و الدارمي (31/2 ح 1801)»
وعن ابن عمر ان النبي صلى الله عليه وسلم لبد راسه بالغسل. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَبَّدَ رَأْسَهُ بِالْغِسْلِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عمر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے غسل کی چیزوں (خطمی اور گوند وغیرہ) سے اپنے سر کے بالوں کو جمایا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (1748) ٭ فيه محمد بن إسحاق مدلس و عنعن.»
وعن خلاد بن السائب عن ابيه قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم «اتاني جبريل فامرني ان آمر اصحابي ان يرفعوا اصواتهم بالإهلال او التلبية» . رواه مالك والترمذي وابو داود والنسائي وابن ماجه والدارمي وَعَنْ خَلَّادِ بْنِ السَّائِبِ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ «أَتَانِي جِبْرِيلُ فَأَمَرَنِي أَنْ آمُرَ أَصْحَابِي أَنْ يرفَعوا أصواتَهم بالإِهْلالِ أَو التَّلبيَةِ» . رَوَاهُ مَالِكٌ وَالتِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ وَابْنُ مَاجَهْ وَالدَّارِمِيُّ
خلاد بن صائب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جبریل ؑ میرے پاس تشریف لائے تو انہوں نے مجھے فرمایا کہ میں اپنے صحابہ کو بلند آواز سے تلبیہ پکارنے کا حکم دوں۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ مالک و الترمذی و ابوداؤد و ابن ماجہ و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه مالک (334/1 ح 751) و الترمذي (829 و قال: حسن صحيح) و أبو داود (1814) و النسائي (162/5 ح 2754) و ابن ماجه (2922) والدارمي (34/2 ح 1816)»
وعن سهل بن سعد قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: ما من مسلم يلبي إلا لبى من عن يمينه وشماله: من حجر او شجر او مدر حتى تنقطع الارض من ههنا وههنا. رواه الترمذي وابن ماجه وَعَنْ سَهْلِ بْنِ سَعْدٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: مَا مِنْ مُسْلِمٍ يُلَبِّي إِلَّا لَبَّى مَنْ عَنْ يَمِينِهِ وَشِمَالِهِ: مِنْ حَجَرٍ أَوْ شَجَرٍ أَوْ مَدَرٍ حَتَّى تنقطِعَ الأرضُ منْ ههُنا وههُنا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَابْن مَاجَه
سہل بن سعد بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب کوئی مسلمان تلبیہ پکارتا ہے تو اس کے دائیں اور بائیں زمین کے آخری کناروں تک تمام پتھر، تمام درخت اور مٹی کے تمام ڈھیلے تلبیہ پکارتے ہیں۔ “ اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (828) و ابن ماجه (2921)»
وعن ابن عمر قال: كان رسول الله صلى الله عليه وسلم يركع بذي الحليفة ركعتين ثم إذا استوت به الناقة قائمة عند مسجد ذي الحليفة اهل بهؤلاء الكلمات ويقول: «لبيك اللهم لبيك لبيك وسعديك والخير في يديك لبيك والرغباء إليك والعمل» . متفق عليه ولفظه لمسلم وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ قَالَ: كَانَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَرْكَعُ بِذِي الْحُلَيْفَةِ رَكْعَتَيْنِ ثُمَّ إِذَا اسْتَوَتْ بِهِ النَّاقَةُ قَائِمَةً عِنْدَ مَسْجِدِ ذِي الْحُلَيْفَةِ أَهَلَّ بِهَؤُلَاءِ الْكَلِمَاتِ وَيَقُولُ: «لَبَّيْكَ اللَّهُمَّ لَبَّيْكَ لَبَّيْكَ وَسَعْدَيْكَ وَالْخَيْرُ فِي يَدَيْكَ لَبَّيْكَ وَالرَّغْبَاءُ إِلَيْكَ وَالْعَمَل» . مُتَّفق عَلَيْهِ وَلَفظه لمُسلم
ابن عمر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ذوالحلیفہ کے مقام پر دو رکعتیں پڑھتے، پھر ذوالحلیفہ کی مسجد کے پاس اونٹنی آپ کو لے کر سیدھی کھڑی ہو جاتی تو آپ ان کلمات کے ساتھ تلبیہ پکارتے: ”میں حاضر ہوں، اے اللہ! میں حاضر ہوں، تمام سعادتیں اور بھلائیاں تیرے ہاتھوں میں ہیں، میں حاضر ہوں، رغبت اور طلب خیر تیری ہی طرف ہے اور عمل تیرے ہی لیے ہیں۔ “ بخاری، مسلم۔ اور الفاظ حدیث مسلم کے ہیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (1553) و مسلم (1184/21)»
وعن عمارة بن خزيمة بن ثابت عن ابيه عن النبي صلى الله عليه وسلم انه كان إذا فرغ من تلبيته سال الله رضوانه والجنة واستعفاه برحمته من النار. رواه الشافعي وَعَنْ عِمَارَةَ بْنِ خُزَيْمَةَ بْنِ ثَابِتٍ عَنْ أَبِيهِ عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنَّهُ كَانَ إِذَا فَرَغَ مِنْ تَلْبِيَتِهِ سَأَلَ اللَّهَ رِضْوَانَهُ وَالْجَنَّةَ وَاسْتَعْفَاهُ بِرَحْمَتِهِ مِنَ النَّارِ. رَوَاهُ الشَّافِعِي
عُمارہ بن خزیمہ بن ثابت اپنے والد سے اور وہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں کہ جب آپ تلبیہ سے فارغ ہوتے تو اللہ سے اس کی رضا مندی اور جنت کا سوال کرتے اور اس کی رحمت کے ذریعے جہنم سے بچاؤ کی درخواست کرتے تھے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الشافعی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الشافعي في الأم (157/2) [والبيھقي (46/5)] ٭ فيه صالح بن محمد بن زائدة: ضعيف.»
عن جابر ان رسول الله صلى الله عليه وسلم لما اراد الحج اذن في الناس فاجتمعوا فلما اتى البيداء احرم. رواه البخاري عَنْ جَابِرٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ لَمَّا أَرَادَ الْحَجَّ أَذَّنَ فِي النَّاسِ فَاجْتَمَعُوا فَلَمَّا أَتَى الْبَيْدَاءَ أَحْرَمَ. رَوَاهُ البُخَارِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں جب رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے حج کرنے کا ارادہ فرمایا تو لوگوں میں اعلان کیا، وہ اکٹھے ہو گئے، جب آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم ”بَیْدَاء“ کے مقام پر تشریف لائے تو احرام باندھا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه البخاري (لم أجده) [والترمذي (817) و أصله في صحيح مسلم (1218)] ٭ قال الشيخ عبيد الله المبارکفوري في مرعاة المفاتيح: ’’ھذا ليس في صحيح البخاري، لا بلفظه و لا بمعناه‘‘.»
وعن ابن عباس قال: كان المشركون يقولون: لبيك لا شريك لك فيقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: «ويلكم قد قد» إلا شريكا هو لك تملكه وما ملك. يقولون هذا وهم يطوفون بالبيت. رواه مسلم وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: كَانَ الْمُشْرِكُونَ يَقُولُونَ: لَبَّيْكَ لَا شَرِيكَ لَكَ فَيَقُولُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «وَيْلَكُمْ قَدْ قَدْ» إِلَّا شَرِيكًا هُوَ لَكَ تَمْلِكُهُ وَمَا مَلَكَ. يَقُولُونَ هَذَا وَهُمْ يَطُوفُونَ بِالْبَيْتِ. رَوَاهُ مُسْلِمٌ
ابن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، مشرک کہا کرتے تھے: ہم حاضر ہیں، تیرا کوئی شریک نہیں، تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم فرماتے: ”تم پر افسوس ہے، بس بس اتنا ہی کہو۔ “(پھر وہ مشرک کہتے) مگر تیرا وہ شریک ہے جس کا تو مالک ہے اور (اس چیز کا بھی تو مالک ہے) جس کا وہ مالک ہے۔ اور وہ بیت اللہ کا طواف کرتے وقت یہ کہا کرتے تھے۔ رواہ مسلم۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه مسلم (1185/22)»