عن ابي ذر قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من كشف سترا فادخل بصره في البيت قبل ان يؤذن له فراى عورة اهله فقد اتى حدا لا يحل له ان ياتيه ولو انه حين ادخل بصره فاستقبله رجل ففقا عينه ما عيرت عليه وإن مر الرجل على باب لا ستر له غير مغلق فنظر فلا خطيئة عليه إنما الخطيئة على اهل البيت» . رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب عَنْ أَبِي ذَرٍّ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ كَشَفَ سِتْرًا فَأَدْخَلَ بَصَرَهُ فِي الْبَيْتِ قَبْلَ أَنْ يُؤْذَنَ لَهُ فَرَأَى عَوْرَةَ أَهْلِهِ فَقَدْ أَتَى حَدًّا لَا يَحِلُّ لَهُ أَنْ يَأْتِيَهُ وَلَوْ أَنَّهُ حِينَ أَدْخَلَ بَصَرَهُ فَاسْتَقْبَلَهُ رَجُلٌ فَفَقَأَ عَيْنَهُ مَا عَيَّرْتُ عَلَيْهِ وَإِنْ مَرَّ الرَّجُلُ عَلَى بَابٍ لَا سِتْرَ لَهُ غَيْرِ مُغْلَقٍ فَنَظَرَ فَلَا خَطِيئَةَ عَلَيْهِ إِنَّمَا الْخَطِيئَةُ عَلَى أَهْلِ الْبَيْتِ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيب
ابوذر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جس نے پردہ اٹھایا اور بلا اجازت گھر میں نظر ڈالی اور گھر والوں کی پردہ کی چیز کو دیکھ لیا تو اس نے ایک حد کا ارتکاب کیا جس کا ارتکاب کرنا اس کے لیے حلال نہیں تھا، اور اگر اس وقت، جب اس نے نظر ڈالی، ایک آدمی اس کے سامنے آ ��یا اور اس نے اس کی آنکھ پھوڑ دی، میں اس کی سرزنش نہیں کروں گا، اور اگر آدمی کسی ایسے دروازے سے گزرے جس کا کوئی پردہ نہ ہو اور نہ وہ بند ہو اور وہ دیکھ لے تو اس کی کوئی غلطی نہیں، غلطی تو گھر والوں کی ہے۔ “ اس حدیث کو ترمذی نے روایت کیا ہے، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (2707) ٭ ابن لھيعة مدلس و عنعن.»
وعن جابر قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم ان يتعاطى السيف مسلولا. رواه الترمذي وابو د اود وَعَنْ جَابِرٍ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ أَنْ يُتَعَاطَى السَّيْفُ مَسْلُولًا. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو د اوُد
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے بے نیام تلوار کسی کو دینے سے منع فرمایا ہے۔ سندہ ضعیف، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه الترمذي (2613 و قال: حسن غريب) و أبو داود (2588) ٭ أبو الزبير مدلس و عنعن و للحديث شواھد ضعيفة.»
وعن الحسن عن سمرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى ان يقد السير بين اصبعين. رواه ابو داود وَعَن الحسنِ عَنْ سَمُرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى أَنْ يُقَدَّ السَّيْرُ بَيْنَ أُصبعَينِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
حسن، سمرہ رضی اللہ عنہ سے روایت کرتے ہیں، کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے دو انگلیوں کے درمیان تسمہ چیرنے سے منع فرمایا ہے۔ حسن، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه أبو داود (2589)»
وعن سعيد بن زيد ان رسول الله صلى الله عليه وسلم قال: «من قتل دون دينه فهو شهيد ومن قتل دون دمه فهو شهيد ومن قتل دون ماله فهو شهيد ومن قتل دون اهله فهو شهيد» . رواه الترمذي وابو داود والنسائي وَعَن سعيدِ بنِ زيدٍ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «مَنْ قُتِلَ دُونَ دِينِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ دَمِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ مَالِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ وَمَنْ قُتِلَ دُونَ أَهْلِهِ فَهُوَ شَهِيدٌ» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَأَبُو دَاوُدَ وَالنَّسَائِيُّ
سعید بن زید رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جو شخص اپنے دین کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے تو وہ شہید ہے، جو شخص اپنی جان کی حفاظت کرتے ہوئے مارا جائے وہ بھی شہید ہے، جو شخص اپنے مال کی حفاظت کرتا مارا جائے وہ بھی شہید ہے اور جو شخص اپنے اہل و عیال کی حفاظت کرتے مارا جائے وہ بھی شہید ہے۔ “ اسنادہ صحیح، رواہ الترمذی و ابوداؤد و النسائی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده صحيح، رواه الترمذي (1421 وقال: حسن صحيح) و أبو داود (4772) و النسائي (115/7. 116 ح 4095. 4096)»
وعن ابن عمر رضي الله عنهما عن النبي صلى الله عليه وسلم قال: لجهنم سبعة ابواب: باب منها لمن سل السيف على امتي او قال: على امة محمد. رواه الترمذي وقال: هذا حديث غريب وحديث ابي هريرة: «الرجل جبار» ذكر في «باب الغضب» هذا الباب خال من الفصل الثالث وَعَنِ ابْنِ عُمَرَ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُمَا عَنِ النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: لِجَهَنَّمَ سَبْعَةُ أَبْوَابٍ: بَابٌ مِنْهَا لِمَنْ سَلَّ السَّيْفَ عَلَى أُمَّتِي أَوْ قَالَ: عَلَى أُمَّةِ مُحَمَّدٍ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيُّ وَقَالَ: هَذَا حَدِيثٌ غَرِيبٌ وَحَدِيثُ أَبِي هُرَيْرَةَ: «الرِّجْلُ جُبَارٌ» ذُكِرَ فِي «بَابِ الْغَضَب» هَذَا الْبَاب خَال من الْفَصْل الثَّالِث
ابن عمر رضی اللہ عنہ، نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے روایت کرتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جہنم کے سات دروازے ہیں ان میں سے ایک دروازہ اس شخص کے لیے ہے جس نے میری امت کے خلاف تلوار اٹھائی، یا فرمایا: ”(جس نے) محمد صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی امت کے خلاف (تلوار اٹھائی)۔ “ ترمذی، اور انہوں نے کہا: یہ حدیث غریب ہے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔ اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے مروی حدیث: ”چوپائے کے پاؤں سے لگنے والا زخم رائیگاں ہے۔ “ باب الغضب میں ذکر کی گئی ہے۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (3123) ٭ وقال أبو حاتم الرازي: جنيد عن ابن عمر: مرسل. حديث ’’الرجل جبار‘‘ تقدم (2952)»
عن رافع بن خديج وسهل بن ابي حثمة انهما حدثا ان عبد الله بن سهل ومحيصة بن مسعود اتيا خيبر فتفرقا في النخل فقتل عبد الله بن سهل فجاء عبد الرحمن بن سهل وحويصة ومحيصة ابنا مسعود إلى النبي صلى الله عليه وسلم فتكلموا في امر صاحبهم فبدا عبد الرحمن وكان اصغر القوم فقال له النبي صلى الله عليه وسلم: كبر الكبر قال يحيى بن سعد: يعني ليلي الكلام الاكبر فتكلموا فقال النبي صلى الله عليه وسلم: «استحقوا قتيلكم او قال صاحبكم بايمان خمسين منكم» . قالوا: يا رسول الله امر لم نره قال: فتبرئكم يهود في ايمان خمسين منهم؟ قالوا: يا رسول الله قوم كفار ففداهم رسول الله صلى الله عليه وسلم من قبله. وفي رواية: «تحلفون خمسين يمينا وتستحقون قاتلكم او صاحبكم» فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده بمائة ناقة وهذا الباب خال من الفصل الثاني عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ وَسَهْلِ بْنِ أَبِي حَثْمة أَنَّهُمَا حَدَّثَا أَنَّ عَبْدَ اللَّهِ بْنَ سَهْلٍ وَمُحَيِّصَةَ بْنَ مَسْعُودٍ أَتَيَا خَيْبَرَ فَتَفَرَّقَا فِي النَّخْلِ فَقُتِلَ عَبْدُ اللَّهِ بْنُ سَهْلٍ فَجَاءَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ بْنُ سَهْلٍ وَحُوَيِّصَةُ وَمُحَيِّصَةُ ابْنَا مَسْعُودٍ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَتَكَلَّمُوا فِي أَمْرِ صَاحِبِهِمْ فَبَدَأَ عَبْدُ الرَّحْمَنِ وَكَانَ أَصْغَر الْقَوْم فَقَالَ لَهُ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: كبر الْكبر قَالَ يحيى بن سعد: يَعْنِي لِيَلِيَ الْكَلَامَ الْأَكْبَرُ فَتَكَلَّمُوا فَقَالَ النَّبِيُّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «اسْتَحِقُّوا قَتِيلَكُمْ أَوْ قَالَ صَاحِبَكُمْ بِأَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْكُمْ» . قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَمْرٌ لَمْ نَرَهُ قَالَ: فَتُبَرِّئُكُمْ يَهُودُ فِي أَيْمَانِ خَمْسِينَ مِنْهُمْ؟ قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ قَوْمٌ كُفَّارٌ فَفَدَاهُمْ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ قِبَلِهِ. وَفِي رِوَايَةٍ: «تَحْلِفُونَ خَمْسِينَ يَمِينًا وَتَسْتَحِقُّونَ قَاتِلَكُمْ أَوْ صَاحِبَكُمْ» فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مَنْ عِنْده بِمِائَة نَاقَة وَهَذَا الْبَاب خَال من الْفَصْل الثَّانِي
رافع بن خدیج اور سہل بن ابی حشمہ سے روایت ہے ان دونوں نے بیان کیا کہ عبداللہ بن سہل اور محیصہ بن مسعود خیبر آئے اور وہ دونوں کھجوروں کے جھنڈ میں الگ ہو گئے، چنانچہ عبداللہ بن سہل قتل کر دیے گئے۔ اس کے بعد عبدالرحمٰن بن سہل اور مسعود کے دونوں بیٹے حویصہ اور محیصہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور وہ اپنے ساتھی کے معاملے کے متعلق بات کرنے لگے تو عبد الرحمن نے، جو کہ لوگوں میں سب سے چھوٹے تھے، بات کرنا شروع کی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اسے فرمایا: ”بڑے کو اس کے بڑے ہونے کا حق دو۔ “ یحیی بن سعید نے فرمایا: آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی مراد تھی کہ جو سب سے بڑا ہے وہ کلام کرے۔ انہوں نے بات کی تو نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے مقتول ساتھی کی دیت کے متعلق پچاس قسمیں اٹھا کر حق دار بن سکتے ہو۔ “ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ ایسا معاملہ ہے کہ ہم نے اسے دیکھا نہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”یہود کے پچاس آدمی قسم اٹھا کر تم سے بری ہو جائیں گے۔ “ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہ تو کافر لوگ ہیں۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے انہیں دیت ادا فرمائی، اور ایک روایت میں ہے: ”تم پچاس قسمیں اٹھاؤ اور اپنے قاتل یا اپنے ساتھی کے مستحق بن جاؤ۔ “ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے سو اونٹنیاں بطور دیت ادا فرمائیں۔ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6142. 6143 و الرواية الثانية: 7192) و مسلم (1669/3)»
عن رافع بن خديج قال: اصبح رجل من الانصار مقتولا بخيبر فانطلق اولياؤه إلى النبي صلى الله عليه وسلم فذكروا ذلك له فقال: «الكم شاهدان يشهدان على قاتل صاحبكم؟» قالوا: يا رسول الله لم يكن ثم احد من المسلمين وإنما هو يهود وقد يجترئون على اعظم من هذا قال: «فاختاروا منهم خمسين فاستحلفوهم» . فابوا فوداه رسول الله صلى الله عليه وسلم من عنده. رواه ابو داود عَنْ رَافِعِ بْنِ خَدِيجٍ قَالَ: أَصْبَحَ رَجُلٌ مِنَ الْأَنْصَارِ مَقْتُولًا بِخَيْبَرَ فَانْطَلَقَ أَوْلِيَاؤُهُ إِلَى النَّبِيِّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ فَذَكَرُوا ذَلِكَ لَهُ فَقَالَ: «أَلَكُمْ شَاهِدَانِ يَشْهَدَانِ عَلَى قَاتِلِ صَاحِبِكُمْ؟» قَالُوا: يَا رَسُولَ اللَّهِ لَمْ يَكُنْ ثَمَّ أحدٌ من المسلمينَ وإِنما هُوَ يهود وَقد يجترئون عَلَى أَعْظَمَ مِنْ هَذَا قَالَ: «فَاخْتَارُوا مِنْهُمْ خَمْسِينَ فَاسْتَحْلِفُوهُمْ» . فَأَبَوْا فَوَدَاهُ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ مِنْ عِنْدِهِ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
رافع بن خدیج بیان کرتے ہیں، انصار کا ایک آدمی خیبر میں قتل ہو گیا تو اس کے ورثاء نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی خدمت میں حاضر ہوئے اور انہوں نے اس کے متعلق آپ سے ذکر کیا تو آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”کیا تمہارے پاس دو گواہ ہیں جو تمہارے ساتھی کے قاتل پر گواہی دیں؟“ انہوں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! وہاں تو کوئی مسلمان نہیں تھا اور وہ تو یہود ہیں اور وہ اس سے بڑی چیز کے ارتکاب کی جرأت کر جاتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”ان میں سے پچاس آدمی چن لو اور ان سے حلف لے لو۔ “ انہوں نے انکار کیا تو رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے اپنی طرف سے اس کا فدیہ ادا فرمایا۔ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (4524)»
عن عكرمة قال: اتي علي بزنادقة فاحرقهم فبلغ ذلك ابن عباس فقال: لو كنت انا لم احرقهم لنهي رسول الله صلى الله عليه وسلم: «لا تعذبوا بعذاب الله» ولقتلتهم لقول رسول الله صلى الله عليه وسلم: «من بدل دينه فاقتلوه» . رواه البخاري عَنْ عِكْرِمَةَ قَالَ: أُتِيَ عَلِيٌّ بِزَنَادِقَةٍ فَأَحْرَقَهُمْ فَبَلَغَ ذَلِكَ ابْنَ عَبَّاسٍ فَقَالَ: لَوْ كُنْتُ أَنَا لَمْ أُحْرِقْهُمْ لِنَهْيِ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «لَا تُعَذِّبُوا بِعَذَابِ اللَّهِ» وَلَقَتَلْتُهُمْ لِقَوْلِ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ: «مَنْ بَدَّلَ دِينَهُ فَاقْتُلُوهُ» . رَوَاهُ الْبُخَارِيُّ
عکرمہ بیان کرتے ہیں، علی رضی اللہ عنہ کے پاس کچھ زندیق لائے گئے تو انہوں نے انہیں زندہ جلا دیا، ابن عباس رضی اللہ عنہ کو اس بات کا پتہ چلا تو انہوں نے فرمایا: اگر میں ہوتا تو میں انہیں کبھی زندہ نہ جلاتا کیونکہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے اس کی ممانعت موجود ہے (کہ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا): ”اللہ کے عذاب کے ساتھ عذاب نہ دو۔ “ کی وجہ سے میں انہیں نہ جلاتا اور رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کے فرمان: ”جو شخص اپنا دین (اسلام) بدل لے تو اسے قتل کر دو۔ “ کے مطابق میں انہیں قتل کر دیتا۔ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6922)»
وعن عبد الله بن عباس قال: قال رسول الله صلى الله عليه وسلم: «إن النار لا يعذب بها إلا الله» . رواه البخاري وَعَنْ عَبْدِ اللَّهِ بْنِ عَبَّاسٍ قَالَ: قَالَ رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسلم: «إِن النَّارَ لَا يُعَذِّبُ بِهَا إِلَّا اللَّهُ» . رَوَاهُ البُخَارِيّ
عبداللہ بن عباس رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”آگ کا عذاب صرف اللہ ہی دے گا۔ “ رواہ البخاری۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «رواه البخاري (6954)»
وعن علي رضي الله عنه قال: سمعت رسول الله صلى الله عليه وسلم يقول: «سيخرج قوم في آخر الزمان حداث الاسنان سفهاء الاحلام يقولون من خير قول البرية لا يجاوز إيمانهم حناجرهم يمرقون من الدين كما يمرق السهم من الرمية فاينما لقيتموهم فاقتلوهم فإن في قتلهم اجرا لمن قتلهم يوم القيامة» وَعَنْ عَلِيٍّ رَضِيَ اللَّهُ عَنْهُ قَالَ: سَمِعْتُ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ يَقُولُ: «سَيَخْرُجُ قَوْمٌ فِي آخِرِ الزَّمَانِ حُدَّاثُ الْأَسْنَانِ سُفَهَاءُ الْأَحْلَامِ يَقُولُونَ مِنْ خَيْرِ قَوْلِ الْبَرِيَّةِ لَا يُجَاوِزُ إِيمَانُهُمْ حَنَاجِرَهُمْ يَمْرُقُونَ مِنَ الدِّينِ كَمَا يَمْرُقُ السَّهْمُ مِنَ الرَّمِيَّةِ فَأَيْنَمَا لَقِيتُمُوهُمْ فَاقْتُلُوهُمْ فَإِنَّ فِي قَتْلِهِمْ أَجْرًا لمن قَتلهمْ يَوْم الْقِيَامَة»
علی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کو فرماتے ہوئے سنا: ”عنقریب آخری زمانے میں ایک قوم کا ظہور ہو گا جو نو عمر ضعیف العقل ہوں گے، وہ بظاہر نہایت معقول کام کریں گے، لیکن ان کا ایمان ان کے حلق سے تجاوز نہیں کرے گا، وہ دین سے اس طرح نکل جائیں گے جیسے تیر شکار سے نکل جاتا ہے، تم انہیں جہاں پاؤ وہیں قتل کر دو کیونکہ انہیں قتل کرنے میں روز قیامت ان کے قاتل کے لیے اجر ہے۔ “ متفق علیہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «متفق عليه، رواه البخاري (6930) و مسلم (1066/154)»