وعنه قال: قلت: يا رسول الله ارمي الصيد فاجد فيه من الغد سهمي قال: «إذا علمت ان سهمك قتله ولم تر فيه اثر سبع فكل» . رواه ابو داود وَعَنْهُ قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ أَرْمِي الصَّيْدَ فَأَجِدُ فِيهِ مِنَ الْغَدِ سَهْمِي قَالَ: «إِذَا عَلِمْتَ أَنَّ سَهْمَكَ قَتَلَهُ وَلَمْ تَرَ فِيهِ أَثَرَ سَبُعٍ فَكُلْ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ
عدی بن حاتم رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا، اللہ کے رسول! میں شکار پر تیر پھینکتا ہوں اور اگلے روز میں اس میں اپنا تیر دیکھتا ہوں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جب تمہیں یقین ہو گیا کہ تمہارے ہی تیر نے اسے مارا ہے اور تم نے اس میں کسی درندے کا نشان نہ دیکھا تو پھر کھاؤ۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (لم أجده بھذا اللفظ و رواه بلفظ آخر: 2849) [و الترمذي (1468)]»
وعن جابر قال: نهينا عن صيد كلب المجوس. رواه الترمذي وَعَن جابرٍ قَالَ: نُهِينَا عَنْ صَيْدِ كَلْبِ الْمَجُوسِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
جابر رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہمیں مجوسیوں کے کتے کے شکار سے روک دیا گیا۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1466) [و ابن ماجه (3209)] ٭ حجاج بن أرطاة: ضعيف مدلس و فيه علة أخري و الحديث ضعفه البوصيري.»
وعن ابي ثعلبة الخشني قال: قلت: يا رسول الله إنا اهل سفر تمر اليهود والنصارى والمجوس فلا نجد غير آنيتهم قال: «فإن لم تجدوا غيرها فاغسلوها بالماء ثم كلوا فيها واشربوا» . رواه الترمذي وَعَن أبي ثَعْلَبَة الْخُشَنِي قَالَ: قُلْتُ: يَا رَسُولَ اللَّهِ إِنَّا أَهْلُ سفر تمر الْيَهُود وَالنَّصَارَى وَالْمَجُوسِ فَلَا نَجِدُ غَيْرَ آنِيَتِهِمْ قَالَ: «فَإِنْ لَمْ تَجِدُوا غَيْرَهَا فَاغْسِلُوهَا بِالْمَاءِ ثُمَّ كلوا فِيهَا وَاشْرَبُوا» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابو ثعلبہ خشنی رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، میں نے عرض کیا: اللہ کے رسول! ہم مسافر لوگ ہیں، ہم یہود و نصاریٰ اور مجوسیوں کے پاس سے گزرتے ہیں، ہمیں ان کے برتن ہی دستیاب ہوتے ہیں، آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر تم ان کے علاوہ نہ پاؤ تو انہیں پانی کے ساتھ دھو لو پھر ان میں کھاؤ پیو۔ “ صحیح، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه الترمذي (1464 وقال: حسن صحيح)»
وعن قبيصة بن هلب عن ابيه قال: سالت النبي صلى الله عليه وسلم عن طعام النصارى وفي رواية: ساله رجل فقال: إن من الطعام طعاما اتحرج منه فقال: «لا يتخلجن في صدرك شيء ضارعت فيه النصرانية» . رواه الترمذي وابو داود وَعَنْ قَبِيصَةَ بْنِ هُلْبٍ عَنْ أَبِيهِ قَالَ: سَأَلْتُ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ طَعَامِ النَّصَارَى وَفِي رِوَايَةٍ: سَأَلَهُ رَجُلٌ فَقَالَ: إِنَّ مِنَ الطَّعَامِ طَعَامًا أَتَحَرَّجُ مِنْهُ فَقَالَ: «لَا يَتَخَلَّجَنَّ فِي صَدْرِكَ شَيْءٌ ضَارَعْتَ فِيهِ النَّصْرَانِيَّة» . رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ وَأَبُو دَاوُد
قبیصہ بن ھلب اپنے والد سے روایت کرتے ہیں، انہوں نے کہا: میں نے نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے عیسائیوں کے کھانے کے متعلق دریافت کیا، اور ایک روایت میں ہے: ایک آدمی نے آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم سے دریافت کیا کہ بعض کھانوں سے میں اجتناب کرتا ہوں۔ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”تم اپنے دل میں کوئی خلجان محسوس نہ کرو کہ اس میں تم نے عیسائیوں کی مشابہت اختیار کی ہے۔ “(کیونکہ وہ بھی اپنے علاوہ کسی کا کھانا نہیں کھاتے۔) اسنادہ حسن، رواہ الترمذی و ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده حسن، رواه الترمذي (1565 وقال: حسن) و أبو داود (3784)»
وعن ابي الدرداء قال: نهى رسول الله صلى الله عليه وسلم عن اكل المجثمة وهي التي تصبر بالنبل. رواه الترمذي وَعَنْ أَبِي الدَّرْدَاءِ قَالَ: نَهَى رَسُولُ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ عَنْ أَكْلِ الْمُجَثَّمَةِ وهيَ الَّتِي تُصْبَرُ بالنَّبلِ. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
ابودرداء رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے مجثمہ کے کھانے سے منع فرمایا ہے، اور یہ وہ ہے جسے باندھ کر تیر مار�� جائیں۔ حسن، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «حسن، رواه الترمذي (1473 وقال: غريب)»
وعن العرباض بن سارية ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى يوم خيبر عن كل ذي ناب من السباع وعن كل ذي مخلب من الطير وعن لحوم الحمر الاهلية وعن المجثمة وعن الخليسة وان توطا الحبالى حتى يضعن ما في بطونهن قال محمد بن يحيى: سئل ابو عاصم عن المجثمة فقال: ان ينصب الطير او الشيء فيرمى وسئل عن الخليسة فقال: الذئب او السبع يدركه الرجل فياخذ منه فيموت في يده قبل ان يذكيها. رواه الترمذي وَعَنِ الْعِرْبَاضِ بْنِ سَارِيَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى يَوْمَ خَيْبَرَ عَنْ كُلِّ ذِي نَابٍ مِنَ السِّبَاعِ وَعَنْ كُلِّ ذِي مِخْلَبٍ مِنَ الطَّيْرِ وَعَنْ لُحُومِ الْحُمُرِ الْأَهْلِيَّةِ وَعَنِ الْمُجَثَّمَةِ وَعَنِ الْخَلِيسَةِ وَأَنْ تُوطَأَ الْحَبَالَى حَتَّى يَضَعْنَ مَا فِي بُطُونِهِنَّ قَالَ مُحَمَّدُ بْنُ يَحْيَى: سُئِلَ أَبُو عَاصِمٍ عَنِ الْمُجَثَّمَةِ فَقَالَ: أَنْ يُنْصَبَ الطَّيْرُ أَوِ الشَّيْءُ فَيُرْمَى وَسُئِلَ عَنِ الْخَلِيسَةِ فَقَالَ: الذِّئْبُ أَوِ السَّبُعُ يُدْرِكُهُ الرَّجُلُ فَيَأْخُذُ مِنْهُ فَيَمُوتُ فِي يَدِهِ قَبْلَ أَنْ يذكيها. رَوَاهُ التِّرْمِذِيّ
عرباض بن ساریہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے خیبر کے روز درندوں میں سے ہر کچلی (سے شکار کرنے) والے اور پرندوں میں سے ہر پنجے (سے شکار کرنے) والے، پالتو گدھے کے گوشت سے، باندھ کر تیر اندازی کیے جانے والے اور ”خلیسہ“ کے کھانے سے اور جنگ میں گرفتار ہونے والی حاملہ عورت سے وضع حمل سے پہلے جماع کرنے سے منع فرمایا۔ محمد بن یحیی بیان کرتے ہیں، ابو عاصم سے ”مجثمہ“ کے بارے میں دریافت کیا گیا تو انہوں نے فرمایا: کسی پرندے یا کسی چیز کو باندھ کے اس پر تیر اندازی کی جائے، اور ان سے ”خلیسہ“ کے بارے میں پوچھا گیا تو فرمایا، کوئی شخص بھیڑیئے یا درندے سے اس کا شکار چھڑائے اور وہ اس کے ذبح کرنے سے قبل اس کے ہاتھ میں مر جائے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ الترمذی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه الترمذي (1474) ٭ أم حبيبة: لم أجد من وثقھا و للحديث شواھد کثيرة دون: ’’الخليسة‘‘.»
وعن ابن عباس وابي هريرة ان رسول الله صلى الله عليه وسلم نهى عن شريطة الشيطان. زاد ابن عيسى: هي الذبيحة يقطع منها الجلد ولا تفرى الاوداج ثم تترك حتى تموت. رواه ابو داود وَعَنِ ابْنِ عَبَّاسٍ وَأَبِي هُرَيْرَةَ أَنَّ رَسُولَ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ نَهَى عَنْ شَرِيطَةِ الشَّيْطَانِ. زَادَ ابْنُ عِيسَى: هِيَ الذَّبِيحَةُ يُقْطَعُ مِنْهَا الْجِلْدُ وَلَا تُفْرَى الْأَوْدَاجُ ثُمَّ تُتْرَكُ حَتَّى تَمُوتَ. رَوَاهُ أَبُو دَاوُد
ابن عباس اور ابوہریرہ رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے شیطان کے شریطہ سے منع فرمایا ہے، ابن عیسیٰ نے اضافہ نقل کیا ہے، یہ (شریطہ) وہ ذبیحہ ہے کہ اس کی جلد کاٹ دی جائے اور اس کی رگیں نہ کاٹی جائیں، پھر اسے چھوڑ دیا جائے حتی کہ وہ مر جائے۔ اسنادہ ضعیف، رواہ ابوداؤد۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «إسناده ضعيف، رواه أبو داود (2826) ٭ عمرو بن عبد الله بن الأسوار اليماني: ضعفه الجمھور و الجرح مقدم.»
وعن جابر ان النبي صلى الله عليه وسلم قال: «ذكاة الجنين ذكاة امه» . رواه ابو داود والدارمي وَعَنْ جَابِرٌ أَنَّ النَّبِيَّ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ قَالَ: «ذَكَاةُ الْجَنِينِ ذَكَاةُ أُمِّهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُد والدارمي
جابر رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ نبی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”جنین (پیٹ کے بچے) کی ماں کا ذبح کرنا اُس کا ذبح کرنا ہے۔ “ صحیح، رواہ ابوداؤد و الدارمی۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «صحيح، رواه أبو داود (2828) و الدارمي (84/2 ح 1985)»
وعن ابي سعيد الخدري قال: قلنا: يا رسول الله ننحر الناقة ونذبح البقرة والشاة فنجد في بطنها جنينا انلقيه ام ناكله؟ قال: «كلوه إن شئتم فإن ذكاته ذكاة امه» . رواه ابو داود وابن ماجه وَعَن أبي سعيدٍ الخدريِّ قَالَ: قُلْنَا: يَا رَسُولَ اللَّهِ نَنْحَرُ النَّاقَةَ ونذبح الْبَقَرَة وَالشَّاة فنجد فِي بَطنهَا جَنِينا أَنُلْقِيهِ أَمْ نَأْكُلُهُ؟ قَالَ: «كُلُوهُ إِنْ شِئْتُمْ فَإِنَّ ذَكَاتَهُ ذَكَاةُ أُمِّهِ» . رَوَاهُ أَبُو دَاوُدَ وَابْن مَاجَه
ابوسعید رضی اللہ عنہ خدری رضی اللہ عنہ بیان کرتے ہیں، ہم نے عرض کیا، اللہ کے رسول! ہم اونٹنی، گائے اور بکری ذبح کرتے ہیں اور ہم ان کے پیٹ میں بچہ پاتے ہیں، تو کیا ہم اسے پھینک دیں یا اسے کھا لیں؟ آپ صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم نے فرمایا: ”اگر چاہو تو کھا لو، کیونکہ اس کی ماں کو ذبح کرنا اس کا ذبح کرنا ہے۔ “ سندہ ضعیف، رواہ ابوداؤد و ابن ماجہ۔
تحقيق و تخريج الحدیث: محدث العصر حافظ زبير على زئي رحمه الله: «سنده ضعيف، رواه أبو داود (2827) و ابن ماجه (3199) ٭ مجالد ضعيف ضعفه الجمھور و حديث ابن حبان (الموارد: 1077، سنده حسن) يغني عنه.»